ماہِ رمضان کے اثراتکو کیسے باقی رکھیں؟

قرآن کو تدبر اور غور و فکر کے ساتھ پڑھیں

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

رمضان تبدیلی کا مہینہ تھا۔ ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ ماہِ رمضان میں جو تبدیلیاں ہماری زندگی میں ہوئی تھیں، کیا وہ رمضان کے بعد بھی باقی ہیں؟ رمضان میں ہم پانچ وقت کی فرض نمازیں باجماعت پڑھ رہے تھے، کیا ہم اب بھی اس پر قائم ہیں؟ ہم میں سے بہت سے لوگ سحری کے وقت اٹھ کر کم از کم دو رکعت تہجد پڑھنے کے عادی بن گئے تھے، کیا ہم اب بھی اس پر عامل ہیں؟ ہم سوشل میڈیا سے اپنی توجہ ہٹا کر اور اپنا وقت بچا کر روزانہ قرآن پڑھ رہے تھے، کیا ہم اب قرآن کی چند آیات ہی سہی ہر روز تلاوت کر رہے ہیں؟ رمضان ایک زرین موقع تھا ان تمام کاموں کو ترک کرنے کا جن کے ہم رمضان سے قبل عادی تھے، جو لغو، لایعنی، فضول اور نقصان دہ تھے۔ کیا رمضان کے بعد ہم واپس ان کاموں کی طرف لوٹنے لگے ہیں یا ہم نے انہیں ترک کر دیا ہے؟ کیا رمضان میں ہونے والی تبدیلی رمضان تک محدود اور عارضی تھی؟ رمضان تو اس لیے آیا تھا کہ یہ ہمارے اندر پائیدار اخلاقی و روحانی تبدیلی لائے۔ اگر ہم میں مستقل بدلاؤ نہیں آیا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیوں نہیں آیا؟
رمضان کے مہینے کا مقصد یہ تھا کہ صیام و قیام اور تلاوتِ قرآن کے ذریعے ہماری روحانی تربیت ہو، جس کے اثرات رمضان کے بعد بھی باقی رہیں۔ یہ اسی وقت باقی رہیں گے جب ایک بندہ شعوری طور پر روزوں کے مقصد کو پیشِ نظر رکھ کر رمضان کا مہینہ گزارے۔ بالخصوص وہ لوگ جنہوں نے ماہِ رمضان میں ایک مرتبہ قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہو یا سن کر سمجھا ہو، ان سے امید کی جا سکتی ہے کہ رمضان کے بعد بھی ان کے اندر تقویٰ کے اثرات باقی رہیں گے۔ جب قرآن سمجھ کر پڑھا جاتا ہے تو وہ حلق سے اتر کر دل تک پہنچتا ہے۔ جب قرآن دل تک پہنچتا ہے تو دل میں ایمان بڑھتا ہے، اس لیے کہ قرآن دلائل کی کتاب ہے۔ جب دلوں میں ایمان جاگزیں ہوتا ہے یا ایمان کی تجدید ہونے لگتی ہے تو ایسا ایمان اخلاق اور اعمال پر اثر انداز ہوتا ہے، جس سے اخلاق و اعمال میں تزکیہ ہونے لگتا ہے۔ جب افراد کے اندر اخلاقی انقلاب آتا ہے تو معاشرہ بھی بدلے گا۔ جب مسلم معاشرہ بدلے گا تو حالات بھی بدلیں گے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب لوگ بدلیں گے تو اللہ تعالیٰ حالات بدل دے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ جب تک لوگ نہیں بدلیں گے، اللہ تعالیٰ بھی حالات نہیں بدلے گا:
إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ (سورۃ الرعد: 11)
"حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔”
اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جب افراد کے قلوب میں مثبت روحانی و اخلاقی تبدیلی آتی ہے تو معاشرے میں اخلاقی انقلاب آتا ہے۔ اللہ اپنی سنت کے مطابق اس وقت حالات کو بدل دیتا ہے۔ بدحالی خوشحالی میں بدل جاتی ہے، ظالم حکم رانوں کے تسلط سے آزادی حاصل ہوتی ہے۔ جان، مال، عزت و آبرو، مساجد و مدارس، پرسنل لا اور اوقاف سب کی حفاظت ہوتی ہے۔
اسی بات کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیا گیا:
ذَلِكَ بِأَنَّ اللّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنفُسِهِمْ (سورۃ الأنفال: 53)
"یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو، اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِ عمل کو نہیں بدل دیتی۔”
اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ جب لوگوں کے دل اللہ کے کلام سے منور نہ ہوں تو ان کے دل سخت ہو جاتے ہیں۔ اخلاق میں تنزل اور گراوٹ ہونے لگتی ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ خوشحالی کو بدحالی سے بدل دیتا ہے۔ اس کی ایک شکل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ان پر مسلط کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں ان کی جان، مال، عزت و آبرو اور قوم کی ہر چیز کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ چاہے حالات بدحالی سے خوشحالی میں بدلیں یا خوشحالی سے بدحالی میں، دونوں صورتیں اللہ کے اذن سے پیش آتی ہیں اور اللہ کے لیے حالات کو بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔
انقلابِ زمانہ کی اس الہامی سنت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اکثر و بیشتر مذہبی اور سیاسی قائدین غلط رخ پر اپنی کاوشوں کو لگا دیتے ہیں۔ کوئی سمجھتا ہے کہ سیاسی طاقت کے حصول سے مسائل حل ہوں گے، کوئی قوم کی تعلیمی اور معاشی ترقی میں سارے مسائل کا حل ڈھونڈنے لگتا ہے، کوئی دعاؤں کے زور پر حالات کے بدلنے کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ ہم زبان سے نہ کہیں لیکن زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ "اے اللہ! جب تو ہمارے لیے اچھے حالات پیدا کرے گا تو ہم بھی بدلیں گے۔”
یہ سوچ قرآنی فکر کے خلاف ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ لوگ پہلے بدلیں پھر وہ حالات بدلے گا۔
ان تدبیروں کے مقابلے میں قرآن یہ حل پیش کرتا ہے کہ سب سے پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان راسخ ہو، جس کے نتیجے میں ان کے اعمال اور اخلاق بدلیں۔ سوال یہ ہے کہ دلوں میں ایمان کیسے راسخ ہو؟ اس کا ایک ہی حل پیش کیا گیا ہے، وہ یہ کہ قرآن کے مضامین قلوب میں جاگزیں ہوں:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (سورۃ الأنفال: 2)
"سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں، اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔”
اللہ کی آیات پڑھنے اور سننے سے ایمان بڑھتا ہے۔ قرآن سمجھ کر پڑھنے یا سننے سے ایمان اس لیے بڑھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تکرار کے ساتھ توحید، رسالت اور آخرت کو ثابت کرنے کے لیے دلائل پیش فرمائے ہیں۔ ایمان بڑھے گا تو اللہ پر توکل پیدا ہوگا۔ ایمان کے بڑھنے کے نتیجے میں لوگ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے:
الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (سورۃ الأنفال: 3)
"جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔”
نماز اللہ کی اطاعت کا مظہر ہے اور انفاق اللہ کی محبت کا مظہر ہے۔ اللہ کی محبت اور اس کی اطاعت تمام نیکیوں کی اساس ہیں۔ اس طرح معاشرے میں لوگ نیکی کے کام کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے، برائیوں سے خود بھی بچیں گے اور دوسروں کو بھی برائیوں سے روکیں گے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ قرآن سمجھ کر پڑھا جائے گا تو اس کی برکات سے افراد اور معاشرے میں صالح تبدیلیوں کی آبیاری ہوگی۔ یہ تصور عام کر دیا گیا ہے کہ ثواب کی نیت سے قرآن کی تلاوت کر لینا کافی ہے، اسے سمجھ کر پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ ثواب کی نیت سے ناظرہ تلاوت کریں گے تو یقیناً ثواب تو ملے گا، لیکن معاشرے میں اخلاقی و روحانی تبدیلی نہیں آئے گی۔ قرآن حلق تک تو پہنچے گا لیکن دلوں تک رسائی حاصل نہیں کرے گا۔ بلکہ یہ تک کہہ دیا جاتا ہے کہ قرآن سمجھ کر پڑھنے سے گمراہی میں پڑنے کا خطرہ ہے، نعوذ باللہ! جبکہ قرآن خود یہ کہتا ہے کہ اس کو نصیحت کے لیے آسان بنایا گیا ہے:
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ(سورۃ القمر: ۱۷، ۲۲، ۳۲، ۴۰)
"ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟”
اس آیت کو ایک ہی سورۃ میں چار بار دہرایا گیا ہے، جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا(سورۃ الفرقان: ۷۳)
"جنہیں اگر ان کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے۔”
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سچے اہلِ ایمان قرآن کی آیات کی بے سمجھے تلاوت نہیں کرتے بلکہ انہیں سمجھتے بھی ہیں۔ چونکہ عربی ہماری مادری زبان نہیں ہے اس لیے ان آیات کی روشنی میں قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنا ہم پر فرض ہو جاتا ہے۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر قرآن چاہتا ہے کہ ہم محض سمجھنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ اس پر تدبر بھی کریں:
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ(سورۃ ص: ۲۹)
"یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے محمدؐ) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔”
اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ قرآن با برکت کتاب ہے، لیکن اس کی برکتیں اس وقت ظاہر ہوں گی جب لوگ اس کی آیات کو سمجھ کر اور تدبر (غور و فکر) کرتے ہوئے پڑھیں گے۔ ایک مقام پر تو اللہ تعالیٰ ڈانٹنے کے انداز میں سوال کرتا ہے:
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا(سورۃ محمد: ۲۴)
"کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا یا دلوں پر ان کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟”
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اکثر آیات کو محکمات کے طور پر نازل فرمایا ہے اور بہت قلیل تعداد ایسی آیات کی ہے جنہیں متشابہات کہا جاتا ہے (سورۃ آل عمران: ۷)۔ جہاں تک متشابہات کا تعلق ہے، اس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کے معنوں کو سمجھنا انسانی عقل سے ماوراء ہے، جیسے سات آسمان اور سات زمینیں، ساری کائنات کا چھ دنوں میں پیدا ہونا اور اللہ کا عرش پانی پر ہونا وغیرہ۔
جہاں تک آیاتِ محکمات کا تعلق ہے، ان میں کوئی اشتباہ نہیں ہے۔ یہ آیات یا تو ایمانیات اور ان کے دلائل کو بیان کرتی ہیں، جن سے ہمارے ایمان میں اضافہ ہو، یا کچھ آیات تاریخ کے اسباق کی شکل میں آئی ہیں، جن میں پچھلی امتوں کی سرگزشت پیش کی گئی ہے تاکہ وہ ہمارے لیے عبرت کا سامان بنیں۔ کچھ آیات میں احکامات اور ان کی علت بیان کی گئی ہے اور کچھ آیات میں منکرات کا ذکر ہے، جن سے روکا گیا ہے۔ کچھ آیات تذکیر کے طور پر، کچھ تبشیر کے طور پر اور کچھ انذار کے طور پر قرآن میں آئی ہیں۔ ان کو پڑھ کر گمراہ ہونے کا کہاں امکان ہے؟
بعض احکام کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے، جیسے وراثت کی تقسیم اور زکوٰۃ کا حساب لگانا جب اثاثے (assets) مختلف شکلوں میں ہوں۔ ایسی صورت میں بھی یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اہلِ علم سے استفادہ کیا جائے (سورۃ النحل: ۴۳)۔
قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کون لوگ قرآن سے گمراہ ہوتے ہیں۔ قرآن نے واضح کیا کہ وہ لوگ جن کے دل میں ٹیڑھ ہو، جو فاسق ہوں اور جو ہدایت کے طالب نہ ہوں، وہی گمراہ ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو عربی کا ایک حرف تک نہیں جانتے، وہ اپنی مادری زبان میں ترجمہ پڑھ کر قرآن کے مضامین سے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ ایمان لے آتے ہیں۔ نو مسلموں میں سے اکثریت قرآن کے ترجمے پڑھ کر مشرف بہ ایمان ہوئی ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بندہ ہدایت کا طالب ہو اور اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دے؟ قرآن کا اعجاز یہ ہے کہ اس کا مصنف وہ ذات ہے جو پڑھنے والے کے دل کے حالات کو جانتی ہے۔ یہ شرف دنیا کی کسی کتاب کو حاصل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون کس نوعیت کی ہدایت کا محتاج ہے، اور اس کے عین مطابق اللہ تعالیٰ قرآن کے ذریعے لوگوں کو ہدایت سے نوازتا ہے۔
قرآن کے بارے میں یہ کہنا کہ اسے ترجمے کی مدد سے سمجھنے کی کوشش انسان کو گمراہ کر دیتی ہے، ایک بہت بڑی بات ہے جس کی اللہ کے حضور جواب دہی کرنی ہوگی۔ قرآن کو سمجھنے سے صرف شیطان ہی انسان کو روک سکتا ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا:
فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ(سورۃ النحل: ۹۸)
"پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔”
اس لیے کہ شیطان جانتا ہے کہ جو انسان قرآن سے ہدایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے، وہ جنت کے راستے کا راہی بن جاتا ہے۔ اسی لیے شیطان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ انسان سب کچھ پڑھے، لیکن قرآن نہ پڑھے۔ اگر قرآن پڑھے تو ناظرہ پڑھے، لیکن سمجھے نہیں۔
قرآن جس شخص کے دل میں تذکر (سمجھنے) و تدبر (غور و فکر کرنے) کے نتیجے میں گھر کر جائے، وہ ایسی رہنمائی پائے گا کہ ابدی زندگی میں جنت اس کا مقدر ہوگی۔ اسے ایسا ایمان نصیب ہوگا جسے کوئی طاقت متزلزل نہیں کر سکتی۔ اسے اللہ پر ایسا توکل حاصل ہوگا کہ دنیا کی کوئی مصیبت یا خوف اسے کمزور نہیں کر سکے گا۔ قرآن کی بدولت انسان کے اندر وہ صبر پیدا ہوگا جو ظالموں کو بھی حیران کر دے گا۔
رمضان کے اثرات کو باقی رکھنے کا قیمتی نسخہ یہ ہے کہ رمضان میں نازل کردہ قرآن کی آیات کو ہر روز ہمارے قلوب کی زینت بنایا جائے۔ اس کے لیے روزانہ چند آیات کی تلاوت کریں، انہیں ترجمہ و تفسیر کے ساتھ سمجھیں اور غور کریں کہ یہ آیات ہماری زندگی میں کیسے رہنمائی کرتی ہیں۔ کچھ آیات کو حفظ کریں تاکہ وہ ہماری زندگی کا حصہ بن جائیں اور جب چاہیں، ہم ان آیات کی مدد سے دوست و احباب میں تذکیر کر سکیں۔
رمضان کے بعد بھی قرآن سے تعلق برقرار رکھنے کا بہترین طریقہ
رمضان کے بابرکت مہینے میں قرآن سے جو قربت نصیب ہوئی، اسے باقی رکھنا نہایت ضروری ہے۔ اس کا آسان نسخہ یہ ہے کہ روزانہ چند آیات کی تلاوت کریں، انہیں ترجمہ و تفسیر کے ساتھ سمجھیں اور غور کریں کہ وہ ہماری زندگی میں کیا رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ کچھ آیات کو حفظ کرنے کی عادت ڈالیں تاکہ وہ ہمارے دل و دماغ میں راسخ ہو جائیں اور جب چاہیں ان کے ذریعے خود کو اور دوسروں کو نصیحت کر سکیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جو ہمارے ایمان کو تازہ رکھے گا اور ہمیں قرآن کی روشنی میں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھائے گا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025