مغربی معاشرت کی تقلیدسے خاندانی نظام کی تباہی
پردے کو رواج دینے سے بے راہ روی کا تدارک اور خاندانی نظام کا تحفظ ممکن
محمودہ بانو، جبل پور
خاندانی نظام مرد و عورت کے مستقل اور پائیدار تعلق سے تشکیل پاتا ہے جسے نکاح کہا جاتا ہے۔ یہی تعلق افراد کی زندگی میں سکون اور استحکام پیدا کرتا ہے۔ اس دائرے میں محبت، امن اور ایثار کی وہ پاکیزہ فضا قائم ہوتی ہے جس میں نئی نسلیں بہترین اخلاق، درست تربیت اور صالح شخصیت کے ساتھ پروان چڑھتی ہیں۔ مگر آج کے معاشرے میں مرد و عورت کے ذہن سے نکاح اور اس کے مقصد کا تصور ختم ہو گیا ہے۔ اب جہاں شہوانی خواہشات کی تسکین کی خاطر مرد اور عورت پھولوں سے رس چوسنے والے بھونروں کی مانند دربدر پھرتے ہیں، وہاں ازدواجی زندگی کی ذمہ داریوں اور حقوق و فرائض کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس اخلاقی گراوٹ کا نتیجہ ہے کہ نسل کی تربیت روز بروز بدتر ہو رہی ہے اور افراد میں خودغرضی اور خودسری نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ معاشرت کا شیرازہ بکھرنے لگا ہے۔
مسلمانوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان کے رب نے اپنے علم کامل سے پردے کا عظیم قانون نافذ کیا ہے، جو سکون اور اعتماد فراہم کرتا ہے، ایسا سکون جو بے حجاب معاشروں میں نہیں پایا جاتا۔ مغرب کے تجربات نے ثابت کیا ہے کہ بے حجابی اور مخلوط معاشرت کے بھیانک نتائج نکلتے ہیں۔ امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، روزانہ ہزاروں عورتیں جبر و زیادتی کا شکار ہوتی ہیں، ان میں 85 سال کی بزرگ عورتیں بھی شامل ہیں۔ مخلوط معاشرت، مخلوط تعلیم اور مخلوط تفریحی مجالس کی وجہ سے مرد و زن میں حدیں ختم ہوتی جا رہی ہیں، جس سے بے حیائی بڑھتی جا رہی ہے۔
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ کسی قوم کا زوال اس وقت تک شروع نہیں ہوتا جب تک مرد بے غیرت اور عورت بے حیا نہ ہو جائے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ رومی تہذیب نے بامِ عروج حاصل کیا، مگر بے حیائی اس کے زوال کا سبب بن گئی۔ ان کے یہاں فلورا کے نام پر بے حیائی کے میلے منعقد کیے جاتے تھے، فلورا وہ عورت تھی جو ہمیشہ برہنہ رہنے کو پسند کرتی تھی۔ یونانی تہذیب بھی جو ایک وقت میں انتہائی طاقتور تھی، بے حیائی کے سبب زوال پذیر ہو گئی۔ برطانیہ، جو آج ترقی یافتہ کہلاتا ہے، اس کی پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا کہ وہاں کے لوگوں نے معاشی ترقی کی خاطر باہمی احترام اور رشتوں کے تقدس کو قربان کر دیا ہے۔
مغربی معاشرے میں بے حجابی کے باعث عورت ذہنی تناؤ اور اعصابی بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے وہاں خواتین میں شرح اموات بڑھ رہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق خودکشی اور قتل کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، اور نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے شفا خانے قائم کیے جا رہے ہیں۔
ان حالات میں عورت کی سلامتی اسی میں ہے کہ وہ اپنے حقوق و فرائض اور قانونِ حجاب کو سمجھے تاکہ حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کی ہمت پیدا کر سکے۔ اسلام نے زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کی ہے اور معاشرتی زندگی کے لیے واضح ہدایات دی ہیں، جن میں پردے اور نامحرم سے اختلاط کی ممانعت شامل ہے۔ سورہ احزاب اور سورہ نور میں خواتین کے لیے خاص احکام دیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "اے نبی! مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور مومن عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔” یہ ان کے لیے پاکیزگی کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے کئی احکام قرآن میں دیے ہیں۔
پردے کا تصور خاندانی نظام کے تحفظ میں بھی اہمیت رکھتا ہے۔ نامحرم رشتہ داروں میں دیور، جیٹھ، کزن اور دوستوں سے بھی پردے کا حکم ہے۔ مشترکہ خاندان کے نظام میں ایک مرد کا خاندان تو اس کے لیے محرم ہوتا ہے، مگر اس کی بیوی کے لیے شوہر کے علاوہ سب نامحرم ہوتے ہیں۔ اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ سے ایک صحابی نے دریافت کیا کہ دیور کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا کہ وہ تو موت ہے۔ اسی بنا پر مشترکہ خاندانی نظام میں اس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
قرآن خواتین کو اپنی خوبصورتی کا اظہار کرنے سے منع کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے عورت کو چاہیے کہ وہ تنگ کپڑے پہننے سے پرہیز کرے اور عریانیت سے دور رہے۔ آج کل کے فیشن میں ایسے برقعے اور ملبوسات ہیں جن میں جسم کی نمائش بڑھ جاتی ہے۔ یہ چیز عورت کی عزت کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ خاندان کی حفاظت مرد کی ذمہ داری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے جسمانی طور پر مضبوط بنایا ہے، جبکہ عورت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ شوہر کی غیر موجودگی میں گھر کی نگہداشت کرے اور بچوں کی تعلیم و تربیت کرے۔ عورت، انبیاء اور رہنما پیدا کرتی ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اسے کچھ ایسی خصوصیات سے نوازا ہے جن سے مرد محروم ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام ان کی والدہ سے منسوب کر کے قرآن نے عورت کے وقار کو بلند کیا ہے۔
سورہ القصص میں دو خواتین کا ذکر ہے جو اپنے بچے کو فرعون کے ظلم سے بچانے کے لیے اسے ایک تیرتی ہوئی ٹوکری میں رکھ کر بہا دیتی ہیں۔ وہ ٹوکری فرعون کے ہاتھ لگتی ہے، اور فرعون اسے قتل کرنا چاہتا ہے، مگر اس کی بیوی (مصر کی ملکہ) کو بچے پر رحم آتا ہے اور وہ اسے گود لے لیتی ہے۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش فرعون کے محل میں ہوتی ہے۔
سورہ النمل میں ملکہ سبا کا واقعہ بیان ہوا ہے، جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے توحید کی دعوت دی اور بالآخر اس نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ واقعہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ قرآن پاکباز اور نیک عورتوں کو عظیم مقام عطا کرتا ہے اور ان کے کردار کو قدر و احترام کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس کے برعکس، سورہ یوسف میں عزیز مصر کی بیوی زلیخا کا قصہ ہے، جس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی، مگر حضرت یوسف نے پاکدامنی اور تقویٰ کا مظاہرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی بےگناہی کو واضح کیا، جس سے زلیخا کا منفی کردار بے نقاب ہو گیا۔ اسی طرح، قرآن میں حضرت لوط اور حضرت نوح علیہما السلام کی بیویوں کا تذکرہ بھی ہے، جنہوں نے خیانت کی اور اپنے ناپاک اعمال کے سبب عذاب میں مبتلا ہوئیں۔ سورہ اللہب میں ابو لہب اور اس کی بیوی کا ذکر ہے، جنہوں نے نبی کریم ﷺ کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کی اور بالآخر عبرتناک انجام کو پہنچے۔
قرآن کی نظر میں عبادت اور تقویٰ کے معاملے میں عورت اور مرد دونوں برابر ہیں۔ دونوں اللہ کے احکامات سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں، اور شیطان دونوں کو بہکاتا ہے۔ اللہ کی رحمت اور مغفرت دونوں کو مل سکتی ہے۔ سورہ التوبہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ "ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں ایک دوسرے کے دوست اور مددگار ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ رحم کرے گا، بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہے۔
***
مغربی معاشرت کی تقلید نے خاندانی نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، جہاں مرد و عورت کے تعلقات میں اخلاقی زوال اور بے حیائی نے جگہ بنا لی ہے۔ اسلام نے پردے اور اخلاقی حدود کے ذریعے معاشرتی سکون اور استحکام فراہم کیا ہے اور خواتین کی عزت و وقار کو بلند کیا ہے۔ اس کے برخلاف، مغربی معاشرت میں بے حجابی اور مخلوط تعلقات نے ذہنی و جسمانی مسائل پیدا کیے ہیں۔ اسلام نے خاندانی نظام کو مضبوط رکھنے اور نسلوں کی درست تربیت کے لیے واضح رہنمائی فراہم کی ہے
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 دسمبر تا 7 دسمبر 2024