مغربی چمک دمک سے مرعوبیت کیوں؟

اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں بچوں کے بہترین پروگرام کئے جاسکتے ہیں

غازی سہیل خان

تعلیم کے نام پر نئی نسل کو موسیقی اور دیگر حیا باختہ امور میں ملوث کرنا بدترین خیانت ہے
ساری دنیا میں آج شرح خواندگی اپنے عروج پر ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں، بلکہ انسان کی سوچ سے بھی زیادہ سائنس آگے نکل چکی ہے۔ تعلیم کو عام کیا جا رہا ہے اور حکومتوں کی یہ کوشش بلکہ مشن ہے کہ کوئی بھی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے۔ سرکاری اسکولوں میں چھوٹے بچوں کو کتابیں، وردیاں، کھانا اور وظائف سے بھی نوازا جاتا ہے، وہیں استاد بچے کو چھڑی سے مارنا تو دور اونچے لہجے میں بول بھی نہیں سکتا۔ ہمیں اپنے بچپن کا وہ زمانہ یاد آتا ہے جب ٹیچر ہمارے لیے گھر سے ہی چھڑیاں لاتے تھے، چند اساتذہ صاحبان جب گھر سے اسکول کی طرف نکلتے تو معمول کے مطابق ایک پولیس والے کی طرح چھڑی کو ہاتھ میں لیے ہوئے اسکول آتے، جس کے نتیجے میں بہت سارے بچوں نے اسکول جانا بھی چھوڑ دیا تھا اور چند بچوں نے تو گھر والوں کے حصول تعلیم کی ضد کے نتیجے میں اسکول کے ساتھ ساتھ اپنے گھر وں کو بھی خیر باد کہہ دیا تھا۔ لیکن ان میں سے جو کوئی بھی استاد کی مار کو سہہ کر آگے بڑھا وہ بہت آگے پہنچ گیا۔ اس زمانے میں استاد کی مار اور آج کے نہ مارنے کی پالیسی کے جو منفی یا مثبت نتائج سامنے آئے ہیں وہ قارئین خود بھی سمجھ سکتے ہیں۔ استاد کی اس مار کے منفی پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نے اس پر پابندی عائد کر دی ہے۔
  آج شرح خواندگی بہت بڑھ گئی ہے، کوئی گھر نہیں رہ گیا ہے جہاں بچے پڑھتے نہ ہوں، کوئی محلہ اور گاؤں ایسا نہیں ہے جہاں ڈاکٹرز، انجینئرز اور استاد نہ ہوں اور کوئی ایک ضلع اور تحصیل نہیں جہاں آئی پی ایس اور آئی اے ایس افسران نہ ہوں۔ تعلیم انسان کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لاتی ہے، اور سماج کو امن کا ماحول فراہم کرتی ہے۔ تعلیم ہی سے ظلم و جبر، قتل و غارت گری، غریبی و مفلسی، فحاشی و عریانیت دور ہوتی ہے، دنیا میں امن اور سکون آتا ہے۔ ان سب کے باوجود معلوم نہیں مجھے اپنی ہی ان باتوں پہ شک کیوں ہو رہا ہے۔ کیا واقعتاً شرح خواندگی کے بڑھنے سے تعلیمی نظام نے دنیا میں اس قسم کی تبدیلیاں لائی ہیں؟ بے روزگاری اپنے عروج پر ہے، بدامنی اور قتل غارت گری ہر سو ہے، غریب، غریب تر اور امیر امیر تر ہو رہے ہیں۔ دنیا کی نصف سے زائد دولت محض ایک فیصد افراد کے پاس ہے۔ فحاشی و عریانیت نے معاشرے اور گھریلو نظام کو تہس نہس کر دیا ہے، ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے۔
 جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تعلیم سے اندھیرے دور ہوجاتے ہیں اور روشنی سے دنیا منور ہوتی ہے تو ہمیں یہ بھی کہنا ہوگا کہ موجودہ نظام تعلیم کے سبب دنیا اب اس بچی کھچی روشنی سے بھی محروم ہونے لگی ہے جو نبی اکرم (ﷺ) ہمارے لیے چھوڑ کر گئے تھے۔ نظام تعلیم کی بنیاد ہی ایسی ہے کہ ہم انسان نہیں بلکہ مشینیں تیار کر رہے ہیں، اس نظام کے ذریعے ہمارے نو نہالوں کے جذبات و احساسات کا خون کیا جا رہا ہے۔ ماڈرن ازم اور ترقی کے نام پر ہمارے بچوں کو جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھروں میں دھکیلا جا رہا ہے۔ تعلیم کے نام پر خدا بیزاری کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ تعلیم کے مقصد کا جنازہ تب نکلتا ہے جب اسکولوں میں سالانہ دن (Annual Day) کے نام پر بچوں اور بچیوں کو ایک اسٹیج پر نچایا جاتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ کیسے تعلیمی اداروں میں سالانہ دن پر کلچر، تہذیب فن و ثقافت کے نام پر بچوں کی خواہشات کی قربانی دی جاتی ہے۔ اس معاملے میں والدین بھی پیچھے نہیں ہیں وہ اپنے بچے کو ماڈرن بنانے کے لیے ان کو اپنے ماضی اور اپنے دین کی نسبت کو منقطع کر کے اپنے ہی ہاتھوں سے ان کی زندگیاں برباد کر دیتے ہیں۔ بچوں کا دنیا کے مختلف علوم و فنون، سائنس و ٹیکنالوجی کو پڑھنا اس میں تخصص حاصل کرنا کوئی غلط بات نہیں اور نہ ہی ہم اس کے مخالف ہیں، لیکن ان علوم کی بنیاد پر اپنی اصل، ماضی، فطرت اور دین سے بچوں کو دور کرنا ہمارے ملک وقوم کے ساتھ ساتھ پوری انسانیت کے لیے سِم قاتل ثابت ہو رہا ہے۔ تاہم، اس مایوسی کے عالم میں چند زندہ دل اور بڑی سوچ والے افراد آج بھی ہمارے سماج میں موجود ہیں، جن کی کوشش ہے کہ وہ بچوں کو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کو اپنے ماضی سے جوڑ کر معاشرے کو انسان نُما روبوٹ بنانے کے بجائے ایک کامیاب اور پُرامیدانسان بنائیں جن کے سینوں میں دنیا کے مجبوروں اور لاچاروں کے لیے دھڑکتے ہوئے دل ہوں، جو ہمارے مستقبل کے لیے ایک اُمید بن کے آئیں، جن سے دنیا میں جنگ و جدل نہیں بلکہ امن وسکون ملے، جن کی معاشرتی زندگی غیروں کے لیے ایک نمونہ بنے، جن کے گھر اور بازار ساری دنیا کے لیے ایک مثال بنیں، وہ زندگی کے ہر ایک شعبے میں ساری دنیا کے لیے ایک روشن مستقبل کی نوید لے کر آئیں۔ اسی سوچ و فکر کے مطابق ملک بھر میں چند تعلیمی ادارے آج بھی یہ کارِ
عظیم انجام دے رہے ہیں۔ انہی اداروں میں ایک نام فاؤنڈیشن ورلڈ اسکولFOUNDATION WORLD) SCHOOL)ہے۔ راقم الحروف گزشتہ ایک سال سے اس ادارے کے ساتھ وابستہ ہے۔ میں یہاں کے تعلیمی سیٹ اپ کو دیکھ کر خاصا متاثر ہوا ہوں۔ گزشتہ دنوں جب انڈور اسٹیڈیم سری نگر میں ’’سہ روزہ سالانہ دن‘‘ کی شاندار تقریب منعقد ہوئی تو دل نے گواہی دی کہ ابھی ہمارے پاس ایسی پاکیزہ فکر و سوچ والے لوگ موجود ہیں جو ملت کے بچوں کا حقیقی درد رکھتے ہیں اور ایک ایسی نسل تیار کرنا چاہتے ہیں جو عصری علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم میں بھی آگے آ کر انسانیت کے لیے بہترین نمونوں کی صورت میں پیش ہوں، کیوں کہ دنیا ایسے انسانوں کو دیکھنے اور سُننے کے لیے ترس رہی ہے جن کے سینوں میں دھڑکتے دل، زندہ ضمیر اور انسانیت کے لیے جینے کا جذبہ رکھتے ہوں، ورنہ آج  کا نظام تعلیم ہی کچھ ایسا ہے کہ 15سے 20 سالوں میں طلباء کو ڈگریاں تو مل جاتی ہیں انسانیت نہیں سکھائی جاتی۔ بہر کیف متذکرہ بالا پروگرام میں بغیر ناچ نغمے کے بچوں نے نا قابل یقین کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس سے ان کے والدین اور مہمان بھی حیرت میں پڑ گئے۔ ہر ایک کے پروگرام میں نصیحت، حکمت، تدبر اور علم تھا۔ بچوں نے نت نرالے انداز میں اس آلودہ سماج کو آئنیہ دکھانے کی بھرپور کوشش کی۔ فاونڈیشن ورلڈ اسکول (FWS) کی خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ کشمیر کا واحد اسکول ہے جو کیمبرج کے نصاب کے ساتھ وابستہ ہے۔ کیمبرج کے نصاب پر من و عن عمل کرتے ہوئے دینی تعلیم کا بھر پور انتظام ہے جس میں قابل اور محنتی اساتذہ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اسکول میں نماز پابندی سے ادا کی جاتی ہے۔ طلبا جہاں اس اسکول میں عصری تعلیم میں پیچھے نہیں ہیں وہیں کھیل کود میں بھی ریاستی سطح پر طلباء نے اسکول کا نام روشن کیا ہے۔ اسکول میں انتظامیہ، اساتذہ اور دیگر عملہ ایک فیملی کی طرح رہتے ہیں، اس کے باوجود چند چیزوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ الغرض اگر اس طرح سے یہاں کے تعلیمی ادارے کام کرنا شروع کریں گے تو وہ دن دور نہیں جب ان اداروں سے بچے روبوٹس نہیں بلکہ انسان، جس کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کے لقب سے ملقب کیا ہے، بن کر نکلیں گے۔
***

 

***

   آج شرح خواندگی بہت بڑھ گئی ہے، کوئی گھر نہیں رہ گیا ہے جہاں بچے پڑھتے نہ ہوں، کوئی محلہ اور گاؤں ایسا نہیں ہے جہاں ڈاکٹرز، انجینئرز اور استاد نہ ہوں اور کوئی ایک ضلع اور تحصیل نہیں جہاں آئی پی ایس اور آئی اے ایس افسران نہ ہوں۔ تعلیم انسان کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لاتی ہے، اور سماج کو امن کا ماحول فراہم کرتی ہے۔ تعلیم ہی سے ظلم و جبر، قتل و غارت گری، غریبی و مفلسی، فحاشی و عریانیت دور ہوتی ہے، دنیا میں امن اور سکون آتا ہے۔ ان سب کے باوجود معلوم نہیں مجھے اپنی ہی ان باتوں پہ شک کیوں ہو رہا ہے۔ کیا واقعتاً شرح خواندگی کے بڑھنے سے تعلیمی نظام نے دنیا میں اس قسم کی تبدیلیاں لائی ہیں؟ بے روزگاری اپنے عروج پر ہے، بدامنی اور قتل غارت گری ہر سو ہے، غریب، غریب تر اور امیر امیر تر ہو رہے ہیں۔ دنیا کی نصف سے زائد دولت محض ایک فیصد افراد کے پاس ہے۔ فحاشی و عریانیت نے معاشرے اور گھریلو نظام کو تہس نہس کر دیا ہے، ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 نومبر تا 18 نومبر 2023