مغربی ایشیا میں جنگ کے اقتصادی اثرات

تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافے سے عالمی معیشت پر ضرب لگے گی

0

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ایران اور اسرائیل کی جنگ نے عالمی معیشت کے سامنے غیر یقینی صورتِ حال کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے جس کے اثرات بھارت پر بھی پڑنے کے واضح امکانات ہیں۔ ایران نے اسرائیلی غنڈہ گردی کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا ہے۔ نسل کشی کا مرتکب اسرائیل اب اس قدر دلیر ہو چکا ہے کہ اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ذرا برابر بھی تامل نہیں ہوتا، کیونکہ اسے یقین ہے کہ امریکہ، بالخصوص اور مغربی ممالک بالعموم اس کی حسب سابق پشت پناہی کرتے رہیں گے۔ مغربی دنیا کی منافقت، بے حسی اور اندھی حمایت نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
مغربی ایشیا میں شروع ہونے والی یہ جنگ فی الحال رک گئی ہے لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ یہ کسی بھی وقت دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔ اس جنگ کا فوری اثر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو چکا ہے۔ جنگ کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیشِ نظر خام تیل کی قیمت میں نو فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر حالات قابو میں نہ آئے تو موجودہ پینسٹھ ڈالر فی بیرل کی قیمت دُگنی ہو سکتی ہے۔ اس سے قبل روس-یوکرین جنگ کے دوران بھی تیل کی قیمت پانچ ماہ تک سو ڈالر فی بیرل سے زائد رہی۔
اسرائیل نے نہ صرف ایرانی جرنیلوں اور ایٹمی سائنس دانوں کو نشانہ بنایا ہے بلکہ تیل کے مراکز پر بھی حملے کیے ہیں، جس سے سپلائی میں خلل پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ اگرچہ پٹرولیم برآمد کنندہ ممالک کے پاس اس کمی کی تلافی کی گنجائش موجود ہے، تاہم اگر جنگ دیگر جغرافیائی خطوں تک پھیلتی ہے تو اس کے اثرات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔
غیر یقینی صورتِ حال کی ایک بڑی وجہ آبنائے ہرمز میں ممکنہ رکاوٹ ہے جو دنیا کے تقریباً ایک تہائی تیل کی ترسیل کا اہم راستہ ہے۔ خام تیل کے ساتھ قدرتی گیس کی سپلائی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ پہلے ہی بے یقینی سے دوچار عالمی معیشت کو تیل و گیس کی بڑھتی قیمتیں مزید مشکلات سے دوچار کر دیں گی۔
بھارتی معیشت پر تیل و گیس کی اونچی قیمتوں کے براہِ راست اثرات ہوں گے۔ ویسے بھی ملک میں پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں کئی سال سے بلند سطح پر برقرار ہیں؛ پٹرول تقریباً سو روپے اور ڈیزل نوے روپے فی لیٹر کے آس پاس ہے۔ موجودہ حالات میں، جب عوام مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان ہیں، تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ان کے مالی بوجھ کو اور بڑھا دے گا۔
ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کا اثر صرف ایندھن تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس سے حمل و نقل کے کرایوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے، جس کا براہِ راست اثر روزمرہ کی اشیائے ضروریہ، جیسے آٹا، دال، سبزیاں اور دیگر خوراکی اجناس پر پڑتا ہے۔ اس طرح عام شہری کی زندگی مزید دشوار ہو جائے گی۔
ایران نے اسرائیلی جارحیت کا بھرپور جواب دیتے ہوئے اس پر شدید حملے کیے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ مغربی ایشیا میں جنگی صورتِ حال پیدا ہونے سے لاجسٹک لاگت میں اضافہ ہوگا، جس کا اثر خام تیل، الیکٹرانکس اور زرعی شعبے کی تجارت پر پڑنے کا اندیشہ ہے۔
یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان براہِ راست جنگ کی صورت میں بھارت کے برآمد کنندگان کے لیے بحرِ احمر جیسی اہم تجارتی گزرگاہ شدید متاثر ہو سکتی ہے۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے مطابق ایران اور اسرائیل دونوں بھارت کے لیے کئی محاذوں پر اہم تجارتی شراکت دار ہیں، جن سے بھارت کی کل تجارت تقریباً 8.86 ارب ڈالر ہے۔
بڑھتے ہوئے تناؤ کے باعث آبنائے ہرمز میں حالات نہایت کشیدہ ہو چکے ہیں۔ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کے مطابق اگر تیل کی سپلائی میں رکاوٹ آئی تو بھارت کا درآمداتی بل اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ (CAD) بڑھ سکتا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی بڑھے گی اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوگی۔
یاد رہے کہ 13 جون کو اسرائیل نے جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کے فوجی اڈوں اور توانائی کے مراکز پر شدید حملے کیے تھے۔ ایک طرف امریکہ ایران کے ساتھ جوہری توانائی کمیشن کے مذاکرات میں مصروف تھا، دوسری طرف اسی امریکی اتحاد نے ایران کے کئی اعلیٰ فوجی کمانڈروں اور سائنس دانوں کو نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ ICRA کے مطابق اگر خام تیل کی قیمت میں دس ڈالر فی بیرل کا اضافہ ہوتا ہے تو بھارت کا درآمداتی بل تیرہ تا چودہ ارب ڈالر تک بڑھ سکتا ہے، اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 0.3 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔
آبنائے ہرمز بھارت کے لیے انتہائی اہم تجارتی راستہ ہے جس کے ذریعے بھارت کے خام تیل کی پینتالیس تا پچاس فیصد اور قدرتی گیس کی ساٹھ فیصد درآمدات ہوتی ہیں۔ عراق، سعودی عرب، عرب امارات اور کویت سے آنے والا تیل بھی اسی راستے سے بھارت پہنچتا ہے۔ اگر جنگ طول پکڑتی ہے تو تیل کی قیمتیں فی بیرل دس ڈالر تک بڑھ سکتی ہیں۔ ICRA کا اندازہ ہے کہ مالی سال 2025-26 میں خام تیل کی اوسط قیمت ستر تا اسی ڈالر فی بیرل رہنے کا امکان ہے۔ اگر قیمتیں اسی سطح پر برقرار رہیں تو بھارت کی جی ڈی پی کی شرحِ نمو پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، لیکن اگر قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا تو بھارتی کمپنیوں کا منافع متاثر ہوگا۔ جبکہ تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں کو قیمتوں میں اضافے سے فائدہ ہوگا، مگر ریفائنری کمپنیوں کے منافع میں کمی آ سکتی ہے۔ اسرائیل کی سب سے بڑی ریفائنری کمپنی کے تمام پلانٹس بند ہو چکے ہیں، جس سے اسرائیلی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
جنگ میں شدت آنے سے خلیجی ممالک میں کام کرنے والے تقریباً ایک کروڑ بھارتیوں کے تحفظ کے بارے میں تشویش بڑھ گئی ہے۔ ان بھارتیوں نے گزشتہ برس 145 ارب ڈالر اپنے وطن بھیجے تھے جو ملکی معیشت کا اہم سہارا بنے۔
جنگ کے شدت اختیار کرنے کی صورت میں "سیف ہیون ایسیٹ” کے طور پر ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوگا، جس سے روپے پر دباؤ بڑھے گا۔ اس کا براہِ راست اثر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور تجارتی خسارے پر پڑے گا۔ روپے کی قدر میں کمی کے نتیجے میں مہنگائی میں بھی اضافہ ہو گا، کیونکہ درآمدی اشیاء مہنگی ہو جائیں گی۔
بھارت اپنی ضروریات کے لیے تقریباً پچاسی فیصد خام تیل درآمد کرتا ہے۔ اگر خام تیل کی قیمت میں فی بیرل دس ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے تو خوردہ مہنگائی میں 0.5 فیصد تک اضافہ ممکن ہے۔ اس کے نتیجے میں پینٹس، ٹائر، لبریکنٹس اور دیگر مصنوعات کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں۔
تیل کی بلند قیمتوں کے باعث حکومت نے پیداواری ٹیکس کم کر دیا ہے تاکہ کمپنیوں کو کچھ ریلیف ملے، مگر اس کا بوجھ سرکاری خزانے پر پڑ سکتا ہے۔ اگر قیمتیں برقرار رہیں تو ترقیاتی منصوبے اور ٹیکس وصولی متاثر ہو سکتے ہیں، اور خاندانوں و کمپنیوں کے اخراجات و سرمایہ کاری کے فیصلے بھی متاثر ہوں گے۔ اس لیے پالیسی سازوں کو دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
امسال مئی میں خام تیل کی قیمت ساٹھ تا اکسٹھ ڈالر فی بیرل کی نچلی سطح سے بڑھ کر پچھتر ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہے۔ وزارتِ پٹرولیم کے اعداد و شمار کے مطابق مئی میں بھارتی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت چونسٹھ ڈالر سے بڑھ کر 13 جون تک تہتر ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے۔
ایچ ڈی ایف سی بینک کی ماہرِ معاشیات ساکشی گپتا کے مطابق، اگر قیمت اسی ڈالر فی بیرل سے تجاوز کرتی ہے تو مالی سال 2026 کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں تیس تا چالیس بیسس پوائنٹس کا اضافہ ممکن ہے۔ ICRA ریٹنگ ایجنسی کی چیف اکنامسٹ ادیتی نائر کے مطابق، اگر تیل کی قیمت پچھتر ڈالر فی بیرل برقرار رہی تو CAD جی ڈی پی کے 1.1 فیصد سے بڑھ کر 1.3 فیصد ہو سکتا ہے۔
اگرچہ بھارت نے 2020 سے ایران سے تیل خریدنا بند کر دیا تھا، مگر 2022 سے روسی تیل اور گیس پر انحصار بڑھ گیا ہے جو زیادہ تر آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے۔ ایران کی جانب سے اس گزرگاہ کو بند کرنے کی دھمکی کے بعد خطرات بڑھ گئے ہیں۔
بینک آف بڑودہ کے چیف اکنامسٹ مدن سبرامنیم سابنویس کے مطابق، اگر آبنائے ہرمز بند ہوتا ہے تو تیل کی قیمتوں پر فوری اثر پڑے گا اور کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ایران مسلسل میزائل حملوں کے ذریعے اسرائیل کے معاشی، دفاعی، بندرگاہی، ہوائی اڈوں، کیمیکل کمپنیوں اور اسٹاک مارکیٹوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس چند روزہ جنگ میں اسرائیل کو پانچ بلین ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔ ایران نے اسرائیل کے تمام بڑے بندرگاہیں اور ہوائی اڈے بند کر دیے ہیں اور بیشتر بنیادی ڈھانچوں کو تباہ کر دیا ہے۔
اسرائیل کے لیے بھارت ایشیا میں دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار اور عالمی سطح پر نواں بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔ جنگ کی وجہ سے بھارت سے تقریباً ایک لاکھ میٹرک ٹن چاول کی برآمد روک دی گئی ہے۔
حیفہ پورٹ کی تباہی سے گوتم اڈانی کی کمپنی "اڈانی پورٹس” کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس کے شیئرز کی قیمت میں گزشتہ دس دنوں میں تقریباً دس فیصد کی کمی آئی ہے۔ ان کی نیٹ ورتھ میں صرف چوبیس گھنٹوں کے دوران دس ہزار کروڑ روپے کی کمی ہو چکی ہے۔ حیفہ پورٹ اسرائیل کی درآمدات میں تیس فیصد کا حصہ رکھتا ہے۔ اس کے صنعتی ادارے بند ہو چکے ہیں اور اسلحے کے گودام تباہ ہو چکے ہیں۔
اڈانی پورٹس نے جنوری 2023 میں اسرائیلی "گیڈٹ گروپ” کے ساتھ مل کر حیفہ پورٹ کی ستر فیصد حصص تقریباً 1.8 ارب ڈالر میں خریدے تھے۔ اب ایران کے حملوں نے تل ابیب کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ وزارتِ داخلہ کی عمارت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔
حکومتِ ہند بھی ایران-اسرائیل جنگ کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور اس کے تجارتی اثرات کے اندازے کے لیے ایندھن لے جانے والی کنٹینر کمپنیوں اور دیگر متعلقہ اداروں سے مشاورت کر رہی ہے۔ بزنس سکریٹری نے کہا کہ جنگ کا اثر حالات کی سمت پر منحصر ہوگا۔ ایکسپورٹروں کا کہنا ہے کہ اگر جنگ طویل ہوتی ہے تو ہوائی و بحری مال برداری کی شرح میں اضافہ یقینی ہے۔
ریسرچ انسٹیٹیوٹ GTRI کے مطابق، آبنائے ہرمز میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ جہاز رانی کے اخراجات اور بیمہ پریمیم میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے، جس سے افراطِ زر، روپے کی قدر اور خزانے کے وزن میں کمی ہو رہی ہے۔
***

 

***

 جنگ کے دوران ایران نے اسرائیل کو سبق سکھانے کے لیے بھرپور حملے کیے ہیں، جن کے نتیجے میں کئی اہم اقتصادی، دفاعی اور صنعتی تنصیبات متاثر ہوئیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جنگ سے لاجسٹک لاگت میں اضافہ، خام تیل، الیکٹرانکس اور زرعی شعبے کی تجارت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ایران اور اسرائیل کے درمیان تجارتی لحاظ سے بھارت کی تجارت تقریباً 8.86 ارب ڈالر تک ہے۔ اگر یہ تنازعہ مزید بڑھتا تو بحر احمر جیسے اہم تجارتی راستے بھی متاثر ہو سکتے تھے جو بھارتی برآمدات کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 جولائی تا 12 جولائی 2025