مغرب اور اس کے اتحادی ’مہذب‘ یا وحشی؟

یہ کیسی تہذیب ہے؟ اب وحشی کو تکنیکی طور پر مہذب کہا جاتا ہے۔ مہذب دنیا کو لوگوں کی جان بچانے کے بجائے اپنی معیشت اور فوجی طاقت کے فروغ میں زیادہ دلچسپی ہے۔

ڈاکٹر جاوید جمیل

مغرب اور اسرائیل کے نزدیک ان کے خلاف ہونے والا کوئی بھی تشدد، دہشت گردی ہے، جو انتہائی قابل مذمت اور ’برائی‘ ہے۔ لیکن ان کی طرف سے کیا جانے والا ایک بہت بڑا تشدد بھی صرف ’’حقیقی انتقام‘‘ یا ’’کولیٹرل ڈیمیج‘‘ ہے۔
یہاں تک کہ جیوش ورچوئل لائبریری کی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل-فلسطین تنازع کے آغاز سے 2021 تک تقریباً 24 ہزار اسرائیلی/یہودی اور تقریباً 94000 عرب/فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ دوسرے ذرائع بہت زیادہ فرق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ یہ یہودی ہی ہیں جنہوں نے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی مدد سے فلسطینی زمینوں پر قبضہ کیا ہے۔ آج بھارتی میڈیا اور بھارتی حکومت بھی حماس کو آزادی پسندوں کے بجائے دہشت گرد قرار دے رہی ہے۔ اگر ان کے تازہ ترین حملوں کو غلط بھی مان لیا جائے تو یہ ان کے خلاف 70 سال سے زیادہ عرصے سے مسلسل کیے جانے والے بہت بڑے غیر انسانی اقدامات کے جواب میں تھے۔ میں مانتا ہوں کہ ایک بے گناہ کی ہر موت کی مذمت کی جانی چاہیے لیکن آئیے ہم ہر طرف سے اس کی اتنی بار مذمت کریں جتنی بار کئی بے گناہوں کو مارا گیا ہے۔
اب مغرب کی طرف آتے ہیں۔ امریکہ کی قیادت میں مغربی قومیں اپنے آپ کو مہذب کہلوانا پسند کرتی ہیں اور وہ یہ دعویٰ صرف اس لیے کرتی ہیں کہ انہیں ٹیکنالوجی اور فوجی طاقت میں برتری حاصل ہے اور ان کے ذریعے وہ پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ترقی، پیسے کی طاقت اور سیاسی طاقت کو ہر جگہ موت اور تباہی لانے میں استعمال کیا ہے۔ وہ دو عالمی جنگوں میں بڑے قاتل تھیں۔ جب 9/11 ہوا تو کچھ ہی دیر میں انہوں نے اسے القاعدہ کی طرف سے دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا۔ وہ لوگ جنہوں نے حقیقت میں یہ فعل انجام دیا وہ جو بھی تھے، طیاروں کے ساتھ ہی ہلاک ہو گئے۔ جس شخص کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا وہ 11 سال بعد پاکستان میں ایک الگ تھلگ حملے میں مارا گیا۔ اس دوران امریکہ نے افغانستان میں 70000 سے زائد اور عراق میں 10 لاکھ سے زائد افراد کو ہلاک کیا۔ کہا جاتا ہے کہ مزید 2 ملین لوگ طویل جنگ کے بعد کے اثرات کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ سب بے قصور لوگ تھے اور عراق کا نائن الیون سے قطعاً کوئی تعلق نہیں تھا۔ عراق کے جوہری منصوبوں کے بارے میں بھی دعوے غلط ثابت ہوئے۔ لیکن پھر بھی امریکہ اور اس کے اتحادی ’’مہذب‘‘ رہیں گے۔ 5 سپر پاورز گزشتہ 120 سالوں میں جنگوں میں ہونے والی زیادہ تر اموات کی ذمہ دار ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ ’’امن پسند‘‘ ہیں۔
صرف باہر ہی نہیں بلکہ داخلی طور پر بھی مغربی ممالک تشدد سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ قاتلانہ حملوں، عصمت دری، خودکشیوں اور چنیدہ اسقاط حمل کے معاملے میں سرفہرست ممالک میں شامل ہیں۔ خاندانی نظام مکمل طور پر ٹوٹ چکا ہے، اور آدھے سے زیادہ بچے رشتہ ازدواج کے بغیر ہی پیدا ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر بچے واحد والدین کے خاندانوں میں رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ سائنس اور ٹیکنالوجی اور صحت کے بنیادی ڈھانچے اور نام نہاد جدید قانونی نظام میں ان کی ترقی کے باوجود ہوا ہے۔ یہاں تک کہ کوویڈ وبا کے دوران بھی امریکہ میں سب سے زیادہ 10 لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوئیں، یہ کیسی تہذیب ہے؟ اب وحشی کو تکنیکی طور پر مہذب کہا جاتا ہے۔ مہذب دنیا کو لوگوں کی جان بچانے کے بجائے اپنی معیشت اور فوجی طاقت کے فروغ میں زیادہ دلچسپی ہے۔
اور اس بات کا شاید ہی کوئی ثبوت ہے کہ مستقبل قریب میں ان کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی آئے گی، الّا یہ کہ خدائی طاقت اس میں مداخلت کرے۔ اسرائیل۔ فلسطین تنازعہ کا آخر حل کیا ہوگا اس کا اندازہ لگانا ابھی مشکل ہے۔ ہم صرف امید کر سکتے ہیں کہ بدی کی طاقتیں اپنی حماقتوں کا ادراک کریں گی اور سب کے لیے امن لوٹ آئے گا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 اکتوبر تا 28 اکتوبر 2023