مدرسے کے بچوں کو پولیس کے ذریعہ ہراسانی کا سامنا
مختلف سماجی تنظیموں نے ریلوے پولیس کی مشتبہ کاروائی پر سوالات اٹھائے
ممبئی (دعوت نیوز نیٹورک)
ایس آئی ٹی کے ذریعے جانچ کے ساتھ،دودولاکھ روپئے بطور معاوضہ اداکرنے کا مطالبہ۔ خاطی افسران کے خلاف سخت کاروائی کی مانگ
گزشتہ دنوں مہاراشٹر کے بھساول اور منماڑ ریلوے اسٹیشن سے آر پی ایف نے مدرسے میں حصول تعلیم حاصل کے لیے مہاراشٹر جانے والے 59 بچوں کو ٹرین سے اتار کر اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ انہیں اپنے ساتھ لے کر آنے والے پانچ افراد کو انسانی اسمگلنگ کا الزام لگا کر گرفتار کر لیا گیا تھا اس کے بعد تحویل میں لیے گئے بچوں کو ناسک اور جلگاؤں کی چائلڈ ویلفئر کمیٹی کے سپرد بھی کر دیا گیا تھا۔ اس پورے معاملے میں پولیس کی جانبدارانہ کارروائی پر مختلف اداروں کی جانب سے سوالات اٹھائے گئے اور ساتھ ہی اس معاملے کی صاف و شفاف جانچ کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
اسی طرح گزشتہ دنوں جلگاؤں کے پترکار بھون میں مختلف سماجی تنظیموں کے نمائندوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس پورے معاملے کی ایس آئی ٹی یا سی آئی ڈی سے جانچ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پریس کانفرنس میں تحویل میں لیے گئے بچوں کو ان کے اہل خانہ کے سپرد کرنے نیز، بچوں کے ساتھ سفر کرنے والے پانچ علماء کرام کو ہرجانے کی ادائیگی کے ساتھ رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جلگاؤں ضلع منیار برادری کے صدر فاروق شیخ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ اس معاملے کے متعلق دس صفحات پر مشتمل مکتوب انڈین ریلوے بورڈ، حکومت مہاراشٹر، چائلڈ رائٹس کمیشن، قومی اور ریاستی اقلیتی کمیشن، آر پی ایف ڈیویژنل کمشنر اور جی آر پی کمشنر کو روانہ کیا گیا ہے۔
اس پریس کانفرنس میں راشٹروادی کانگریس پارٹی کے سماجی خدمت شعبہ کی سکریٹری پرتیبھا شرساٹ، ضلعی خواتین مشاورتی کمیٹی برائے خواتین و اطفال بہبود کمیٹی کی رکن نویدیتا تاتھے، نیشنل کانگریس ریاستی جنرل سکریٹری بابا دیشمکھ، وحدت اسلامی کے صدر عتیق احمد، کل جماعتی تنظیم جلگاؤں اور اہل سنت والجماعت کے اقبال شیخ، حسینی سینا کے صدر فیروز شیخ، عید گاہ قبرستان ٹرسٹ کے سکریٹری انیس شاہ اور شکلگار فاؤنڈیشن کے صدر انور خان نے پریس کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے مطالبے کی پر زور حمایت کی۔
پریس کانفرنس میں فاروق شیخ نے ریلوے پولیس کی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ بھساول اور منماڑ آر پی ایف اور جی آر پی پولیس نے 59 بچوں کو ایک ہی مقام پر ٹرین سے اتار کر مقدمہ درج کیوں نہیں کیا، دو الگ الگ مقامات پر اتار کر مقدمہ درج کیوں کیا گیا؟ بچوں کے ساتھ ان کے نگراں موجود تھے، ایسی صورت میں نگراں افراد کے خلاف اغوا کا معاملہ کیوں درج کیا گیا؟ تحویل میں لیے گئے بچوں کے والدین اپنے خرچ پر بھساول اور منماڑ پہنچے، انہوں نے پولیس کے سامنے اپنا جواب بھی داخل کیا اس کے باوجود پولیس والدین کے جواب سے مطمئن کیوں نہیں ہوئی؟ اس کے ساتھ ہی اورنگ آباد ڈویزن کے جی آر پی ایف سپرنٹنڈنٹ پولیس نے خود والدین سے ملاقات کی اور کاغذات کا معائنہ کیا۔ اس کے باوجود سی آر پی 169 کے تحت کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ اس معاملے میں پانچوں علماء کرام کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 370 کے تحت کارروائی پر بھی سوال اٹھایا گیا۔ انہوں نے بچوں کا نہ اغوا کیا تھا، نہ انہیں دھمکایا تھا اور نہ ہی ان کے ساتھ کسی قسم کی بدسلوکی کی تھی، اس کے باوجود ان پانچوں افراد پر تعزیرات ہند کی دفعہ 370 کیوں عائد کی گئی؟ مسافر پاٹھک، آر پی ایف انسپکٹر مینا اور آر پی ایف انسپکٹر دیسوال کی شکایت کے مطابق بچوں کو بچہ مزدوری کے لیے لے جایا جا رہا تھا، اس معاملے میں حقیقت کو جانے بغیر جی آر پی نے انسانی اسمگلنگ کا کیس کیوں درج کیا؟ دونوں ہی معاملات میں تعزیرات ہند کی دفعہ 379 کا استعمال کیا گیا ہے جبکہ دونوں ہی شکایتوں میں چائلڈ لیبر کا الزام عائد کیا گیا ہے ایسی صورت میں تعزیرات ہند کی دفعہ 370(اے) عائد ہونی چاہیے تھی، جس میں تین سال کی سزا ہے لیکن ان پر مطلق دفعہ 370 لگائی گئی عائد جس میں عمر قید یعنی چودہ سال کی سزا ہو سکتی ہے۔ لہذا ان تمام سوالات کے متعلق حکومت، پولیس اور متعلقہ محکموں کو جو مکتوب روانہ کیا گیا اس میں درج ذیل مطالبات کیے گئے ہیں:
1- اس معاملے میں میڈیا اور پولیس کو انسانی اسمگلنگ جیسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں اور نہ ہی مدرسے کو دہشت گردی کا اڈہ کہنا چاہیے۔
2- جی آر پی پولیس کو دونوں ہی ایف آئی آر میں سی آر پی سی 169 کے تحت پانچوں ملزمین کو جلد از جلد رہا کرنا چاہیے۔
3- چائلڈ ویلفئر کمیٹی جلگاؤں اور ناسک نے 30 مئی سے 59 بچوں کو اپنی تحویل میں لینے کے بعد ان کو اپنے والدین کے سپرد نہیں کیا۔ ضلع مجسٹریٹ ان بچوں کو بہار اور اراوی سمیتی کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں اپنے والدین کے سپرد کرنے کے متعلق بھی ایکشن لے۔
4- آر پی ایف انسپکٹر رادھا کن مینا، بھساول آر پی ایف انسپکٹر سندیپ کمار دیسوال، منماڑ جی آر پی پولیس انسپکٹر وجئے بابا، اسسٹنٹ پولیس انسپکٹر مگرے کو جلد از جلد معطل کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی جائے کیونکہ ان لوگوں پر جھوٹا مقدمہ دائر کیا گیا۔ بچوں کو ٹرین اسٹیشن سے پولیس تھانے لایا گیا۔ اس وقت تمام پولیس اسٹاف وردی میں تھا۔ انہوں نے ان بچوں کو سات تا آٹھ گھنٹے تک پولیس اسٹیشن کے سامنے بٹھائے رکھا۔ ان چھوٹے بچوں کو پولیس اپنی گاڑی میں بٹھا کر بھساول سے جلگاؤں اور منماڑ سے ناسک لے گئی اس سفر کے دوران بچوں کو جن تکالیف سے دوچار ہونا پڑا ان کے لیے جی آر پی پولیس ذمہ دار ہے۔
5- اس کارروائی کے دوران بچوں کو جن نفسیاتی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ساتھ ہی والدین کو جو جسمانی، معاشی اور ذہنی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح بچوں کو تعلیمی نقصان سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ ان نقصانات کے عوض انڈین ریلوے اور حکومت مہاراشٹر 59 بچوں کو فی کس دولاکھ روپے معاوضہ ادا کرے اسی طرح پانچوں علماء کرام کو بھی پانچ پانچ لاکھ روپے بطور ہرجانہ ادا کرے۔
ان تمام مطالبات کے ساتھ سماجی کارکنان نے مکتوب کے ذریعے اس پورے معاملے کی جانچ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی صدارت میں ایس آئی ٹی کے ذریعے کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری صورت میں حکومت مہاراشٹر سے اپیل کی گئی کہ وہ اس پورے معاملے کی انکوائری کو مرکزی حکومت کے سپرد کرتے ہوئے سی آئی ڈی کی نگرانی میں کیس کو انجام دینے کی اپیل کرے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 جون تا 24جون 2023