مدارس کے نصاب میں تبدیلی کا مسئلہ: کچھ غور طلب پہلو
مدارسکے نصاب میں تبدیلی کا مسئلہ: کچھ غور طلب پہلو
ابو فہد ، نئی دلی
بڑے مدارس کو معیاری لیاقت رکھنے والے طلباء کی دستیابی کا چیلنج درپیش!
دینیات کی ابتدائی تعلیم دینے والے مدارس و مکاتب کے نظام کوزیادہ فعال اور متحرک بنانے کی ضرورت
مدراس کے نصاب میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، مگر یہ سب جزوی تبدیلیاں ہی تھیں۔ پھر جب منتظمین کو اور خود فارغین مدارس کو بھی اس بات کا احساس ہوا کہ عالمیت و فضیلت کے بعد بھی بعض ایسے پہلوؤں میں ناپختگی رہ جاتی ہے جو جدید دنیا میں دعوت و تبلیغ کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ضروری ہیں، تو فارغین مدارس کے لیے عصری اداروں میں اعلیٰ تعلیم کی راہیں کھولی گئیں۔
چنانچہ طلباء مدارس عالمیت و فضیلت سے فراغت کے بعد اندرون ملک مختلف یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں اور بیرون ممالک جامعہ ازہر اور ام القری جیسے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو پروفیشنل کورسز کرتے ہیں۔ خود فارغین مدارس کی طرف سے ایسے ادارے بھی چلائے جا رہے ہیں جو مدارس کے طلباء کو فراغت کے بعد کمپیوٹر اور انگریزی زبان میں مہارتیں پیدا کراتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو فارغین مدارس کے لیے بہت سی راہیں کھلی ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فارغین مدارس تقریباً ہر شعبے میں ہیں اور دنیا کے ہر خطے میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مگر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس معاملے میں جو کچھ بھی پیش رفت ہوئی ہے اور جو کچھ بھی اضافی کوششیں کی گئی ہیں وہ زیادہ تر عالم وفاضل طلباء کے لیے ہی ہوئی ہیں۔ ان کے لیے مختلف قسم کے کورسز ہیں، ان کے لیے وظائف بھی مقرر کیے گئے ہیں، مگر ابتدائی درجات ابھی تک بھی انتظامیہ کی بے توجہی کا شکار ہیں، حالانکہ ابتدائی درجات کی تعلیم پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، اور یہ ضرورت آج مزید بڑھ گئی ہے۔ آج زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ دینیات کی ابتدائی تعلیم دینے والے مدارس و مکاتب کے نظام کو زیادہ فعال اور متحرک بنایا جائے، کیونکہ ابتدائی درجات کی تعلیم دینے والے مدارس و مکاتب ہی طلباء کو اس لائق بناتے ہیں کہ وہ عالم وفاضل بن سکیں۔
بڑے مدارس کو طلباء کی مدد کہاں سے ملتی ہے؟
بڑے مدارس کی طرف جو طلباء سال بہ سال رخ کرتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر اپنے علاقائی مکاتب اور مدارس سے ہی آتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کا پس منظر رکھنے والے بھی کئی طلباء مدارس میں آتے ہیں۔ اگر ابتدائی تعلیم فراہم کرنے والے مدارس و مکاتب نہ ہوں تو بڑے مدارس جیسے ندوہ، دیوبند، مظاہرالعلوم، سلفیہ، اشرفیہ اور فلاح و اصلاح کو اتنے طلباء نہیں مل سکیں گے جتنے انہیں فی الوقت مل رہے ہیں، جو کہ انہیں ہر سال بہت سے طلباء کو واپس کرنا پڑتا ہے۔
لیکن ابتدائی تعلیم دینے والے مدارس و مکاتب کا حال یہ ہے کہ ان میں سال کی ابتداء میں اگر 100 بچے داخل ہوتے ہیں تو سال کے آخر تک نصف ہی رہ جاتے ہیں، بلکہ نصف سے بھی کم رہ جاتے ہیں۔ یعنی 60 سے 70 فیصد بچے درمیان ہی میں تعلیم چھوڑ دیتے ہیں، یا تو اسکول کی لائن پکڑ لیتے ہیں یا پھر تعلیم ہی منقطع کر دیتے ہیں۔
تعلیم منقطع کرنے کی عام وجوہات:
۱۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مدارس میں زیر تعلیم طلباء کے والدین ان کے معاملے میں زیادہ حساس اور سنجیدہ نہیں ہوتے۔ ان کے سرپرستوں میں زیادہ تر کاشتکار، مزدور، اور چھوٹے کاروباری ہوتے ہیں، اور ان میں سے بیشتر تعلیم کے میدان کی زیادہ واقفیت نہیں رکھتے۔ جب واقفیت نہیں ہوتی تو وہ ان کی صحیح رہنمائی بھی نہیں کر پاتے۔ ان میں سے زیادہ تر سرپرستوں کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ ان کے بچے کیا پڑھ رہے ہیں اور کیسے پڑھ رہے ہیں۔
اس کے برعکس، جو طلباء علمی گھرانوں سے آتے ہیں، وہ اگر کم محنت بھی کریں اور معمولی ذہانتیں رکھتے ہوں تو وہ تعلیم کے اگلے مراحل میں یا پھر تعلیم کے بعد والے مراحل میں زیادہ کامیاب ہو جاتے ہیں، کیونکہ ان کے والد، چچا، اور بھائی وغیرہ ان کی خبرگیری کرتے رہتے ہیں، قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتے ہیں، اور انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ان کے بچے کا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے۔ ان کی مسلسل نگرانی اور توجہ وسائل کی کمی کی بھی بھرپائی کر دیتی ہے۔
۲۔ سات آٹھ سال کی چھوٹی عمر کے بچے گھر بار اور والدین سے دور مدرسے کے سخت ماحول میں نہیں رہ پاتے۔ان چھوٹے بچوں کو اساتذہ اور منتظمین کی طرف سے سختیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ کئی بار تو سختی کرنا انتظامیہ اوراساتذہ کی مجبوری بن جاتی ہے کیونکہ بچے شرارتیں ہی کچھ ایسی کرتے ہیں کہ اساتذہ کا صبر جواب دے جاتا ہے۔
۳۔ طلباء کے والدین ،سرپرست اور خود اہل مدرسہ انہیں زیادہ سہولتیں فراہم نہیں کرپاتے ،اس لیے وہ تعلیم منقطع کردیتے ہیں۔اگر آپ اپنے علاقے کے چھوٹے مدارس کا دورہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں سے بہت سے طلباء ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انہیں روز مرہ کی ضروریات کی چیزیں بھی میسر نہیں ہیں۔
۴۔ شاید سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان طلبہ میں سے زیادہ ترایسے ماحول سے آتے ہیں جہاں ان کی ابتدائی تعلیم وتربیت پر بالکل بھی توجہ نہیں دی گئی ہوتی ہے، پھر جب ان کے سامنے ایسی کتابیں آتی ہیں جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوتی ہیں تووہ ماہ دو ماہ تو کوشش کرتے ہیں کہ وہ کتابیں کسی طرح ان کی گرفت میں آجائیں مگر جب کتابیں کسی طرح بھی ان کی گرفت میں نہیں آتیں تو وہ مدرسے سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔اسی طرح حفظ کے طلباء سبق اور آموختہ یاد نہ ہونے کی وجہ سے حافظ صاحب کی باربار مارکھاتے ہیں اور بالآخر تنگ آکر مدرسے سے بھاگ جاتے ہیں۔ بے شک حفظ کرنا آسان نہیں ہے اور یہ ہر طالب علم کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔
حفظ کے طلباء عموماً آٹھ سے دس سال کی عمر میں حفظ کرنے بیٹھتے ہیں اور دو ڈھائی سال سے تین چار سال تک کے عرصے میں حفظ کرتے ہیں، جبکہ بعض طلباء ایسے بھی ہوتے ہیں جو بہت زیادہ عمر کے ہوتے ہیں، تاخیر کے ساتھ حفظ میں بیٹھنے کی وجہ سے یا پھر باربار مدرسے تبدیل کرنے کی وجہ سے یا قوت حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے وہ کئی کئی سال درجۂ حفظ ہی میں نکال دیتے ہیں۔ میں نے جس مدرسے میں حفظ کیا تھا اس میں دسیوں بچے ایسے تھے جن کی عمر بیس سال سے متجاوز تھی۔ ان میں کئی طلباء نے تو پانچ پانچ اور چھے چھے سال لگادیے اور پھر بھی ان کا حفظ پختہ نہیں ہوپایا۔ پھر اس دور میں جو بچے حفظ کرتے تھے وہ صرف حفظ ہی کرتے تھے، ایک گھنٹہ بھی ان کے لیے ایسا نہیں تھا جس میں وہ اردو ہندی اورانگریزی وغیرہ سیکھتے ہوں یا کم ازکم دینیات کا ہی سبق لیتے ہوں، سارا وقت حفظ کے لیے وقف ہوتا تھا۔ مگر آج کل اس میں کچھ تبدیلی آئی ہے اور حفظ کے طلباء بھی گھنٹے دو گھنٹے کے لیے دینیات کی تعلیم بھی لیتے ہیں اور ہندی وانگلش وغیرہ بھی سیکھتے ہیں اور یہ ہر طرح سے اچھی بات ہے۔
پھرعمر زیادہ ہونے کی وجہ سے ایسے طلباء حفظ کے بعد عربی کلاسوں میں بیٹھنے کے بجائے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے ہیں اوران میں سے کئی طلباء کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہندی اور انگلش تو جانے دیں اردو بھی نہیں پڑھ سکتے۔ اب اگر ان کے گھر کے حالات اچھے ہوئے تو وہ آگے کی زندگی میں کسی نہ کسی طرح سروائیو کرہی لیں گے، لیکن اگر ان کے گھروں کے حالات بھی اچھے نہ ہوئے تو ان کے لیے زندگی بہت مشکل ہونے والی ہوتی ہے، کیونکہ مدرسے میں چار پانچ سال گزارنے کے بعد جب آدھی ادھوری پڑھائی کرکے گھر لوٹتے ہیں تو ان کے لیے آگے کی تعلیم کی راہیں مسدود ہوتی ہے، پھران کے پاس کوئی ڈگری نہ ہونے کی وجہ سے وہ کالجز و یونیورسٹیوں کو بھی نہیں جاپاتے۔
میرے حفظ کے جو ساتھی تھے وہ بھی میری ہی طرح کسانوں کی اولاد تھے اور گاؤں دیہات کے غریب گھرانوں سے ان کا تعلق تھا، ان میں سے تقریبا اسّی فیصد طلباء عمرزیادہ ہونے کی وجہ سے، گھر کی مجبوریوں کی وجہ سے یا پھرآگے پڑھنے کا مزاج نہ بننے کی وجہ سے حفظ کے بعد عربی کلاسوں میں نہیں بیٹھ سکے اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔اور اس حال میں لوٹے کہ وہ اٹھارہ بیس سال کی عمر کو پہنچ چکےتھے اور ان کے پاس کوئی ڈگری نہیں تھی، نہ آٹھویں کلاس کی اور نہ دسویں کلاس کی۔اس لیے وہ اوپن اسکولنگ سسٹم سے بھی نہیں جڑ سکے۔
اگر یہ سب پہلو آپ کی نظر میں ہیں تو آپ یہ احساس کیے بغیر نہیں رہیں گے کہ حفظ پلس کے جو ادارے ’’شاہین گروپ‘‘وغیرہ کام کررہے ہیں وہ بہت غنیمت ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ان اداروں سے بھی وہی بچے فائدہ اٹھاسکتے ہیں جنہوں نے کم عمر میں حفظ مکمل کرلیا ہو اور ان کے سرپرست ان کی مزید تعلیم کے بھاری اخراجات برداشت کرسکتے ہوں۔ غریب طلباء اکا دکا مثالوں کو اگر منہا کردیں تو ان میں سے زیادہ تر حفظ پلس کورس سے بھی فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔
اگر آپ اس ساری صورت حال کو سامنے رکھیں اور کسی طرح کے رد عمل کی نفسیات کا شکار نہ ہوں تو آپ مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی بات کو آسانی سے رد نہیں کرسکتے۔ اور آپ یہ بات بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ حفظ کے بعد یا عربی کی ایک دو کلاس پڑھنے کے بعد مدرسے سے ڈراپ آؤٹ کرنے والے طلباء کی زندگی کتنی مشکل ہوسکتی ہے؟ اور یہ بات تو پیچھے آہی چکی ہے کہ ان طلباء میں سے بیشتر وہ ہوتے ہیں جو علمی گھرانوں سے نہیں ہوتے اور جن کی مالی پوزیشن بھی مستحکم نہیں ہوتی۔ ان میں سے زیادہ تر طلباء اپنی زمینوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں یا پھر کوئی ہنر سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہنرسیکھنے والے بھی زیادہ کامیاب نہیں ہوپاتے کیونکہ ایک تو ان کی عمر کافی ہوچکی ہوتی ہے اور ان کے گھر والوں کو ان کی شادی کی فکر ہونے لگتی ہے۔ اور دوسرے ہندی وانگریزی زبانوں سے بنیادی واقفیت بھی نہیں ہوتی اس لیے وہ تجارت وہنرمیں بھی زیادہ کامیابیاں حاصل نہیں کرپاتے۔ وہ ایک طرح سے حافظ ہونے کے باوجود بھی ناخواندہ ہی رہ جاتے ہیں۔
اگر اس ساری صورت حال سے آپ واقف نہیں ہیں یا جانتے بوجھتے نظرانداز کرنا چاہتے ہیں تو پھر آگے بات کرنا ہی بے کار ہے۔لیکن اگر واقف ہیں اور نظرانداز بھی نہیں کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے لیے چند مزید سطریں حاضر ہیں۔
مدارس کی مشکلات:
ایسا نہیں ہے کہ مجھے مدارس کی مشکلات کا علم نہیں ہے۔ اگر بڑے مدارس کو منہا کردیں تو ملک میں پھیلے ہوئے بیشتر چھوٹے چھوٹے مدارس دونوں طرح کی مشکلات سے گزرتے ہیں، مالیاتی مشکلات سے بھی اور طلباء کی مطلوبہ تعداد نہ ملنے کی مشکلات سے بھی۔ یہ مدارس طلباء سے اسکولوں کی طرح بھاری فیس بھی نہیں لے سکتے کیونکہ اگر وہ فیس دے سکتے تو ان کے والدین انہیں اسکول ہی بھیجتے، مدرسے میں داخل نہیں کرتے، اس لیے یہ مدارس ہمیشہ مالی مشکلات سے گِھرے رہتے ہیں اور انہی مشکلات کی وجہ سے منتظمین خود اپنے مدرسے اور طلباء کے روشن مستقبل کے لیے کوئی بہت ٹھوس پیش بندی اور منصوبہ بندی کرنے سے بھی عاجز رہتے ہیں۔
مدارس کا معاملہ کالجوں و یونیورسٹیوں کی طرح نہیں ہے جہاں دس دس سیٹوں کے لیے دس دس ہزار طلباء داخلہ امتحان میں بیٹھتے ہیں اور یونیورسٹیاں اربوں روپے کی کمائی صرف ایک جھکٹے میں ہی کرلیتی ہیں۔ پھر انہیں حکومت جو گرانٹس ملتی ہیں وہ الگ ہیں اور پھر آمدنی کے دوسرے ذرائع بھی ہوتے ہیں ان کے پاس۔اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ جودانشورحضرات یونیورسٹیوں سے وابستہ ہیں وہ کسی بھی قیمت پر اہل مدارس کے لیے صحیح اور مبنی بر انصاف فیصلے نہیں کرسکتے، الایہ کہ وہ مدارس سے نکل کر ہی وہاں پہنچے ہوں اور مدارس کا سارا انتظام وانصرام ان کا دیکھا بھالا ہو۔
حفظ کے طلباء کے لیے چند گزارشات:
۱۔ درجۂ حفظ میں کسی بچے کو داخل کرنے کے لیے عمر کا خاص خیال رکھا جانا چاہیے، حفظ میں بیٹھنے والے طالب علم کی عمر کسی بھی صورت میں دس سال سے زیادہ نہ ہو۔ حفظ شروع کرنے کے لیے سات سے نو سال کی عمر بہت زیادہ موزوں ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ حفظ کے درجات میں بعض طلباء آٹھ دس سال کی عمرکے ہوتے ہیں اور بعض اٹھارہ بیس سال کے بھی۔ کیونکہ حفظ میں بچوں کو داخل کرتے وقت ان کی عمر نہیں دیکھی جاتی اور نہ ہی یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ بچہ حفظ کرنے کے لائق ہے بھی یا نہیں۔
جو طلباء حفظ میں نہیں چل پاتے انہیں بھی مارے باندھے کسی نہ کسی طرح مکمل حافظ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کے والدین اور اساتذہ یہ دلیل رکھتے ہیں کہ چار پانچ پارے حفظ کرلیے ہیں، اب جیسے بھی ہواور خواہ کتنا بھی وقت لگے حفظ مکمل ضرور کرنا ہے، وہ اسے گناہ کی بات سمجھتے ہیں کہ ان کا بچہ دس پندرہ پارے حفظ کرکے چھوڑ دے، بھلے ہی اس نے دس پندرہ پارے ڈھائی تین سال میں ہی کیوں نہ کیے ہوں۔
۲۔ انہی بچوں کو حفظ میں بٹھایا جائے جو حفظ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اگر حفظ کا کوئی طالب علم مغرب سے عشاء کے درمیانی وقت میں قرآن کے دو ڈیڑھ صفحات پختہ یاد کرکے سنادے تو اس کے بارے میں گمان یہی ہے کہ وہ حفظ کرنے کا اہل ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی طالب علم مغرب سے عشاء تک کے وقت میں صرف ایک یا آدھا صفحہ ہی یاد کرکے سنائے اور وہ بھی ٹھیک سے یاد نہ ہو تو اس کے بارے میں گمان یہی ہے کہ وہ حفظ کے لائق نہیں ہے۔ ہفتے بھر میں اس بات کا آسانی سے پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ مگر مشکل یہی ہے کہ بیشتر مدارس کو طلباء کی ضرورت رہتی ہے اس لیے وہ کڑی شرائط نہیں لگاپاتے اورہر طالب علم کو حفظ میں بٹھالیتے ہیں۔
۳۔ حفظ کے ساتھ کم از کم دو گھنٹے ضرور نکالے جائیں جن میں انہیں زبانوں کی تعلیم تو کم ازکم دی ہی جانی چاہیے، تاکہ اگر وہ مدرسہ چھوڑ کر جائیں بھی تو اوپن اسکولنگ سے اپنی تعلیم کم از کم انٹرتک کی تعلیم ہی مکمل کرسکیں۔
۴۔ حفظ کے طلباء کے ساتھ ایک مشکل یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر وہ حفظ کے بعد عربی درجات بھی پڑھنا چاہیں تو ان کی عمر بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ عالمیت وفضیلت سے فارغ ہوتے ہوتے پچیس چھبیس سال کے ہوجاتے ہیں، اب خود ان کے اور ان کے سرپرستوں کے اندر مزید تعلیم حاصل کرنے کا حوصلہ نہیں رہ پاتا۔
۵۔ سرپرستوں کے لیےایک بہت ضروری بات یہ بھی ہے کہ چھوٹے بچوں کو دوردراز کے مدرسوں میں ڈالنے کے بجائے مقامی مدارس میں بٹھائیں، آپ کا بچہ صبح کو گھر سے نکلے اور سبق لے کر شام کو گھر لوٹ آئے، اس سے بہتر کوئی اوربات نہیں ہوسکتی۔ آٹھ دس سال کے بچوں کو گھرسے سیکڑوں میل دور ہاسٹل میں ڈالنا اور وہ بھی ایسے ہاسٹل میں جہاں سہولتیں بھی ناکافی ہوں، کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہے کہ چھوٹے بچے مقامی مدارس ومکاتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کریں اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے بڑے مدارس کا رخ کریں۔
(جاری)
***
ابتدائی تعلیم کے درست ہونے سے دیگر بہت سارے مسائل بھی از خود حل ہوجائیں گے۔ ایک تو جب طلباء کی بنیاد مضبوط ہوگی تو انہیں آگے کی تعلیم کا شوق پیدا ہوگا، پھر خود سرپرست بھی چاہیں گے کہ وہ اپنے بچوں کو مزید تعلیم دلائیں۔پھر اگر ایسا ہوسکے کہ بڑے پیمانے پرسرکاری اسکولوں میں جانے والے طلباء مدارس کی طرف آجائیں تو تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی اسلامی تربیت بھی ہوسکے گی اور پھر جب ان میں سے کچھ طلباء سولہ، سترہ سال کی عمر میں یونیورسٹیوں کا رخ کریں گے تو وہ الحادو دہریت کے اسٹروکس سے بھی کسی قدر محفوظ رہ پائیں گے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اکتوبر تا 12 اکتوبر 2024