مدارس کے نصاب میں تبدیلی کا مسئلہ:چند غور طلب پہلو
ابتدائی درجات کے نصاب میں جزوی تبدیلی سے خوش گوار نتائج کی امید
ابوفہد ندوی ، نئی دہلی
مدارس کے نصابِ تعلیم میں درکار تبدیلی:
۱۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ حفظ میں منتخب بچے ہی رکھے جائیں،جو بچے حفظ میں چلنے کے لائق نہ ہوں، خود ان سے اوران کے والدین سے بات چیت کرکے، انہیں دینیات کے درجات میں بٹھایا جائے، دینیات کے درجات کا نصاب ایسا ہو کہ سال دو سال بعد اگر کچھ طلباء کسی مجبوری کی وجہ سے مدرسہ چھوڑ بھی دیں تو وہ مقامی اسکول میں ایڈمیشن لے سکیں۔ ان کی عمر بھی زیادہ نہ ہو اور اتنی صلاحیت بھی ہوکہ مطلوبہ کلاس میں داخلہ مل سکے۔
۲۔ اس سلسلے میں سب سے بہتر طریقہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ دسویں / بارہویں تک ہرمدرسے کا نصاب اور پڑھانے کے طورطریقے اسکول کی طرح ہی رکھے جائیں۔ گورنمنٹ اسکول کے نصاب میں چند کتابیں کم کرکے دینیات کی چند کتابیں داخل کردی جائیں اور دسویں وبارہویں کے امتحان کسی بھی بورڈ سے دلوائے جائیں۔اگر اتنا نہیں کرسکتے تو کم از کم آٹھویں تک تو لازما یہی اسکول والا نصاب جزوی تبدیلی اور حذف واضافے کے ساتھ رکھا جائے۔ابتداء میں بے شک کچھ مشکلات آئیں گی مگر چند سالوں میں اس مشکل پر آسانی کے ساتھ قابو پایا جاسکتا ہے۔
۳۔ دسویں ، بارہویں کرنے کے بعد جو طلبہ کالج ویونیورسٹی کی طرف جانا چاہیں وہ ادھر چلے جائیں اور جو طلباء عالم وفاضل بننا چاہیں انہیں اسی مدرسے میں عالمیت کے درجے میں بٹھایا جائے، اگر مدرسہ چھوٹا ہو اور عالمیت کے درجات نہ ہوں تو ا نہیں بڑے مدارس میں داخل کیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ان طلباء کی بروقت صحیح کونسلنگ کی جائے تو ان میں سے ساٹھ ستر فیصد طلباء ضرور بالضرور علم دین حاصل کرنا چاہیں گے۔
اب فرض کریں کہ ان میں سے بعض طلباء اگر کسی مجبوری کی وجہ سے آگے کی تعلیم جاری نہ رکھ سکیں، نہ مدرسے کی اور نہ ہی یونیورسٹی کی توان طلباء کے پاس اتنی صلاحیت ضرور ہوگی کہ وہ زندگی میں سروائیو کرپائیں گے، چھوٹی موٹی جاب بھی کرنے کے اہل ہوں گے اور ناخواندہ لوگوں کے مقابلے میں اپنے کاروبار میں بھی بہتر کریں گے۔
۴۔ جب یہ طلبہ بارہویں کرلیں گے تب ان کی عمر یہی کوئی اٹھارہ، انیس سال کی ہوگی اور ان کے لیےعالم وفاضل بننے کے لیے پانچ چھے سال بہت کافی ہوں گے۔ جب یہ طلباء عالم وفاضل بن کر نکلیں گے تو دنیا کا ہر کورس اور دنیا کی ہر جاب کرنے کے اہل ہوں گے۔
۵۔ انہی دس بارہ سالوں میں جب اسکول جیسی تعلیم دی جارہی ہوگی، زبانیں سکھانے پر خاص فوکس کیا جائے، ہر طالب علم کو چار پانچ زبانیں آنی ہی چاہئیں۔یہ طلباء ہندی و اردو تو بہت آسانی سے سیکھ لیں گے، بس انگریزی و عربی زبان پر ذرا زیادہ فوکس کرنا پڑے گا، تاکہ وہ عالمیت وفضیلت کرنے کے لیے پوری طرح اہل ہوسکیں۔ پھر ان زبانوں کو پڑھانے کا طریقہ بھی جدید اورکامیاب طریقہ ہونا ضروری ہے۔
۶۔ عالمیت وفضیلت کے جو درجات ہیں ان میں اہل مدارس چاہیں تو ہلکی پھلکی تبدیلی کرلیں، یا نہ کرنا چاہیں تو نہ کریں ۔البتہ عالمیت کا جو طویل دورانیہ ہے اس میں سے دو تین سال کم کرنا مناسب رہے گا ۔ نحو و صرف کی اضافی کتابیں منہا کی جاسکتی ہیں ،اسی طرح فقہ کی بعض کتابیں بھی ۔ اس کے علاوہ جو مشکل کتابیں ہیں انہیں آسان کتابوں سے ضرور بدلنا چاہیےاوریہ تبھی ہوگا جب کتاب سے زیادہ فن کو اہمیت دی جائے گی ۔
۷۔ مدارس میں عالمیت کے بعد جو فضیلت وتخصص کے شعبے ہیں ، وہ شعبے اسی طرح یا نصاب میں جزوی حذف واضافے کے ساتھ فعال رکھے جاسکتے ہیں تاہم انہی شعبوں میں ’’تقابلِ ادیان‘‘ شعبے کا اضافہ بھی ضرور کیا جائے جس میں سنسکرت زبان سکھائی جائے اور ہندوستان میں جو مختلف مذاہب ہیں ان کی اہم اور بنیادی کتابیں بھی پڑھائی جائیں تاکہ وہ غیر مسلموں میں دعوت کا کام بحسن وخوبی کرسکیں۔ فضیلت وتخصص میں منتخب طلباء کو لیا جائے، ایسے طلباء کو جو کم عمر ہوں، محنتی ہوں اورذی استعداد بھی ہوں اور پھر ان کے گھر کی مالی پوزیشن بھی مستحکم ہو، تاکہ وہ مزید یکسوئی کے ساتھ علمی ودعوتی کام کے لیے خود کو وقف کرسکیں۔ مدارس میں اوپر کے شعبوں میں سب سے زیادہ فعال اسی شعبے کو ہونا چاہیے اور سب سے زیادہ وسائل بھی اسی شعبے کو حاصل ہونے چاہئیں،کیونکہ یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
۸۔ چھوٹے مدارس میں بھی اساتذہ کی تنخواہیں اچھی اور معیاری ہوں اور سہولتیں بھی اچھی ہوں تاکہ طالب علم اپنے مستقبل میں ایک استاذ کی حیثیت سے اپنا کرئیر بنانے کی کوشش کریں اور ان کے سرپرست،دوست واحباب اورمحلے کے لوگ ان کے بارے میں یہ رائے قائم کریں کہ سب سے اچھا پیشہ یہی تدریس کا پیشہ ہے۔ مدارس اور اہل مدارس کے تعلق سے جب تک خود مدارس کے تدریسی اسٹاف اور عام لوگوں کے اندریہ احساس پیدا نہیں ہوگا کہ مدارس کے خدام کی زندگی بھی قابل رشک زندگی ہے، تب تک مدارس کو طلباء نہیں ملنے والے ہیں اور اگر ملیں گے بھی تو ایسے ہی ملیں گے جو غریب اورکمزوراور نادار ہوں گے،جو اسکول نہیں جاسکتے، جنہیں پڑھنے لکھنے کا کچھ بھی شوق نہیں ہوگا ، بس یونہی مارے کھینچے مدرسے میں پہنچائے گئے ہوں گے۔
اس پورے معاملے میں سب سے اہم جو بات ہے وہ یہی ہے کہ مدارس کے طلباء فراغت کے بعد جب تدریس وامامت کے پیشوں سے وابستہ ہوں تو انہیں موجودہ زمانے کے حساب سے اچھی اورمعیاری تنخواہیں ملیں اور انہیں بہتر سہولیات فراہم کی جائیں۔ نہیں تو آج کل کے جو حالات ہیں اگر یہی حالات چلتے رہے تو بہت زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ نہ مساجد کے لیے امام میسر ہوں گے اور نہ مدارس کے لیے طلباء واساتذہ۔ اس پورے میں معاملے یہی سب سے بنیادی کام ہے مگر اسی پر سب سے کم توجہ ہے، خود اہل مدرسہ کی بھی اور قوم کے مخیر حضرات کی بھی ۔اگر تنہا یہی ایک چیز درست کرلی جائے تو دیگر بہت ساری چیزیں خود بخود اپنے ٹریک پر آتی چلی جائیں گی۔
۹۔ مدارس کے نصاب میں یہ جزوی تبدیلی اس لیے بھی ضروری ہے کہ قوم کے بے شمار بچے سرکاری اسکولوں میں پڑے برباد ہورہے ہیں، ان کے سرپرست خانگی اسکولوں میں بٹھانہیں سکتے کیونکہ فیس زیادہ ہوتی ہے اور سرکاری اسکولوں میں انہیں تعلیم نہیں ملتی۔سال کا کم وبیش نصف حصہ تو چھٹیوں میں ہی گزرجاتا ہے، کبھی ٹیچرس غائب رہتے ہیں تو کبھی طالب علم۔ اگر آپ گاوؤں ، و قصبوں میں مسلم محلوں کا سروے کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اسکولوں میں پڑھنے والے مسلمان بچوں کی کتنی بڑی تعداد برباد ہورہی ہے۔ پچاس ساٹھ فیصد بچے تو آٹھویں دسویں سے آگے ہی نہیں بڑھ پاتے اور جو تھوڑے بہت بچے لشتم پشتم کسی طرح انٹر کر بھی لیتے ہیں تو ان کے پاس ڈگری کی سواکچھ نہیں ہوتا، بلکہ بہت سارے بچے تو غلط صحبتوں میں پڑ کر برباد ہوجاتے ہیں۔ یہ بڑی تکلیف دہ صورت حال ہے مگر اس طرف کسی کا بھی دھیان نہیں جاتا۔اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں برباد ہونے سے بچانا ہے تو ہمیں اپنے مدرسوں میں لازماً وہ تعلیم دینا چاہیے جو وہ سرکاری اسکولوں میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
۱۰۔ ابتدائی تعلیم کے درست ہونے سے دیگر بہت سارے مسائل بھی از خود حل ہوجائیں گے۔ ایک تو جب طلباء کی بنیاد مضبوط ہوگی تو انہیں آگے کی تعلیم کا شوق پیدا ہوگا، پھر خود سرپرست بھی چاہیں گے کہ وہ اپنے بچوں کو مزید تعلیم دلائیں۔پھر اگر ایسا ہوسکے کہ بڑے پیمانے پرسرکاری اسکولوں میں جانے والے طلبہ مدارس کی طرف آجائیں تو تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی اسلامی تربیت بھی ہوسکے گی اور پھر جب ان میں سے کچھ طلباء سولہ، سترہ سال کی عمر میں یونیورسٹیوں کا رخ کریں گے تو وہ الحادو دہریت کے اسٹروکس سے بھی کسی قدر محفوظ رہ پائیں گے۔
۱۱۔ وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے اندر بلکہ خود علماء کے اندر بھی جو کچھ بھی اور جیسی کچھ بھی تبدیلی آرہی ہے وہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ میری طرح آپ بھی یہ بات نوٹ کیے بنا نہیں رہ سکتے کہ اب مدارس کے اساتذہ ومنتظمین اور ائمہ مساجد بھی اپنے بچوں کو اسکول کی تعلیم دلارہے ہیں۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے یاوقت اور حالات کی مار کہیے کہ اہل مدارس تو گاؤں دیہات سے چھوٹے بچوں کو پکڑ پکڑ کر لائیں اور انہیں عالم وفاضل بنائیں لیکن جب وہ عالم وفاضل بن جائیں تو وہ خود اپنے بچوں کو مدارس میں نہ بھیج کر اسکولوں میں بھیجیں ، باوجود اس کے کہ ان کی آمدنی کم ہے اور اسکول کی تعلیم میں اخراجات بہت زیادہ ہیں
اورجبکہ اسکول کی تعلیم کی بنسبت کہ مدارس کی تعلیم میں اخراجات بہت کم ہیں۔
ویسے میرا خیال تو یہ ہے کہ اس بات میں، یعنی علماء بھی اپنے بچوں کو اسکول کی تعلیم دلا رہے ہیں، کچھ زیادہ حرج بھی نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی فرض وواجب تو نہیں ہے کہ عالم دین کے بچے بھی عالم دین ہی بنیں، وہ دوسرے علوم بھی حاصل کرسکتے ہیں اور دوسرے ذرائع سے پیسے کماکر اپنے والدین کی مدد کرسکتے ہیں۔ مگر یہ کہ اس سے مدارس کے خلاف ایک ذہنیت تو پیدا ہوتی ہی ہے کہ اگر مدارس کی تعلیم اتنی ہی اچھی ہے جتنی اچھی بتائی جاتی ہے تو علماء خود اپنے بچوں کو مدارس میں کیوں داخل نہیں کرواتے۔
ان سب وجوہات کو دیکھتے ہوئے کم از کم مجھے تو پورا انشراح ہے کہ مدارس کے ابتدائی درجات کے نصاب میں جزوی تبدیلی خوشگوار نتائج پیدا کرے گی ۔اور یہ تبدیلی کسی طرح سے بھی کلی تبدیلی نہیں ۔
(ختم شد)
***
گزشتہ سے پیوستہ : اس مضمون میں مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ، ابتدائی درجات کی تعلیم کی اہمیت، اورطلبائے مدارس کی تعلیم سے متعلق مسائل کا جائزہ لیاگیاہے۔مضمون نگار نے پچھلی قسط میں (جو شمارہ نمبر 39 میں شائع ہوئی ) بڑے مدارس کو معیاری طلبہ کی فراہمی، تعلیم منقطع کرنے کی عام وجوہات ،مدارس کی مشکلات اور حفظ کے طلباء کے لیے توجہ طلب امور پر بات کی تھی ۔ اس شمارے میں اس سے آگے کا مضمون بیان ہوا ہے۔ احسن ہوگا اگر اسے پچھلی قسط کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024