
مدارس کے بعد مسلمانوں کے عصری تعلیمی ادارے نشانے پر کیوں ہیں؟
محبوب الحق، آسام حکومت کی مسلم مخالف پالیسیوں کا نیا شکار
نوراللہ جاوید
بنگالی نژاد مسلمانوں کے خلاف حکومت آسام کا نیا محاذ۔ مسلم سماج کی ترقی روکنے کی سازش!
مسلمانوں کے زیر انتظام کالجوں کی تعداد آزادی کے بعد 17 سے بڑھ کر 1,155 تک پہنچی، مگر یہ اضافہ بھی تعلیمی پسماندگی کے چیلنجوں کو دور نہیں کر سکا۔ ان اداروں میں زیادہ تر پرائیویٹ ہیں اور انہیں حکومتی امداد نہیں ملتی۔ دیہی علاقوں میں 57.8 فیصد کالج واقع ہیں، مگر طلبہ کے اندراج کی شرح اکثر کم ہے۔ٹیکنیکل تعلیم میں بھی مسلمان پیچھے ہیں، جہاں AICTE کے تحت صرف 141 مسلم ادارے رجسٹرڈ ہیں، جبکہ دیگر اقلیتی گروپوں کے 710 ادارے ہیں۔ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کی بڑی وجوہات میں ادارہ جاتی رکاوٹیں اور فرقہ وارانہ ذہنیت شامل ہیں۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ میں تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ ”تعلیم کے حصول کو عالمی سطح پر انسان کے بنیادی حقوق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ سماجی، معاشرتی، اقتصادی اور ذاتی ترقی کے لیے فرد کا تعلیم یافتہ ہونا ناگزیر ہے۔ تعلیم تنقیدی سوچ کو فروغ دیتی ہے اور کسی بھی فرد کو معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہے۔ تعلیم طاقتور رویوں کو تشکیل دینے، مواقع کو بڑھانے اور امتیازی سلوک اور عدم مساوات کے گھن چکر کو توڑنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔
چونکہ بھارت کے مسلمان تعلیمی طور پر پسماندہ ہیں، اس لیے وہ سماجی، معاشرتی اور اقتصادی منظر نامے پر بھی حاشیے پر ہیں۔ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے مختلف عوامل کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ پسماندگی کی ایک بنیادی وجہ مسلمانوں میں اعلیٰ و عصری تعلیمی ادارے قائم کرنے کے رجحان کی کمی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد مسلمانوں میں عصری اعلیٰ تعلیمی اداروں کا رجحان بہت کم رہا ہے۔
سنٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ انڈیا اور ناؤز میڈیا کی مشترکہ رپورٹ
"A Survey of Muslim Managed Public and Private Institutions of Higher Education in India” کے مطابق مسلمانوں کے زیر انتظام ادارے بھارت میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہیں۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں سے صرف 2.1 فیصد یونیورسٹیاں مسلمانوں کے زیر انتظام چل رہی ہیں، جبکہ ملک کے کالجوں میں 2.6 فیصد کالجز مسلمانوں کے ماتحت میں ہیں۔ ٹیکنیکل کالجوں میں مسلمانوں کی نمائندگی انتہائی کم ہے۔ مسلم زیر انتظام کالجوں کی جامع سالانہ شرح نمو محض 2.8 فیصد ہے۔
مزید یہ کہ کالجوں کی تعداد فی لاکھ اہل آبادی (18-23 سال کی عمر کے افراد) ریاستوں میں نمایاں طور پر مختلف ہے۔ کیرالا میں یہ شرح 24.9 فیصد ہے جبکہ مغربی بنگال میں صرف 1.8 فیصد ہے، جس کے حساب سے قومی اوسط 6.4 بنتا ہے۔ یہ اعداد و شمار مسلمانوں میں تعلیم کی طرف عدم رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں۔
آزادی سے قبل مسلمانوں کے ذریعہ قائم کردہ یونیورسٹیوں کی تعداد 5 تھی، اور گزشتہ 75 برسوں میں 18 نئی یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ AISHE، AICTE، NCMEI، اور مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی گروپس کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں مسلمانوں کے ذریعہ قائم کردہ پرائیوٹ یا سرکاری یونیورسٹیوں کی کل تعداد 23 ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مسلم اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی اکثریت ہندو طلبہ پر مشتمل ہے۔ مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے زیر انتظام یونیورسٹیوں میں ہندو طلبہ کی اکثریت 52.7 فیصد ہے، جبکہ مسلم طلبہ کی تعداد 42.1 فیصد ہے۔ کم و بیش یہی صورت حال مسلم اقلیت کے زیر انتظام کالجوں میں بھی ہے، جہاں ہندو طلبہ کا سب سے بڑا گروپ 55.1 فیصد ہے، اس کے بعد مسلم طلبہ کی تعداد 42.1 فیصد اور دیگر اقلیتی گروہ 2.8 فیصد ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام میں عدم رجحان اپنی جگہ، لیکن کیا انہیں اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے کے وہی مواقع اور حالات میسر ہیں جو دیگر طبقات کو حاصل ہیں؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ فروری کے آخری عشرے میں میگھالیہ میں واقع USTM یونیورسٹی کے چانسلر محمد محبوب الحق کی گرفتاری آسام کے دارالحکومت گوہاٹی میں جس ڈرامائی انداز میں کی گئی، اسی دن راجستھان کے جودھپور میں مولانا آزاد یونیورسٹی کے ٹرسٹی محمد عتیق کی بھی گرفتاری ہوئی۔
اس سے قبل اتر پردیش کے رامپور میں واقع مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی اور اس کے بانی اعظم خان کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا۔ حکومت نے یونیورسٹی کی 70 ایکڑ زمین پر قبضہ کر لیا۔ مغربی اتر پردیش کے سہارن پور میں واقع گلوکل یونیورسٹی، جہاں چار ہزار طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں، گزشتہ سال مئی میں گلوکل یونیورسٹی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے یونیورسٹی کے بانی حاجی محمد اقبال اور ان کے بیٹوں کے خلاف کارروائی کی گئی اور ای ڈی نے یونیورسٹی کی زمین کو ضبط کر لیا۔
اس وقت ملک میں جو 23 یونیورسٹیاں مسلمانوں کے زیرِ انتظام قائم ہیں، ان میں چار یونیورسٹیاں ادارہ جاتی کارروائیوں کی زد میں ہیں۔ یہ صورتِ حال حکم رانوں کی نیت اور ان کی ترجیحات کو واضح کرتی ہے کہ موجودہ برسرِ اقتدار طبقے کو مسجد اور مدرسے سے کوئی پریشانی نہیں ہے بلکہ وہ مسلمانوں کو زندگی کے کسی بھی شعبے میں آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا۔ چاہے وہ یوگی ہوں یا بسوا سرما، دونوں ہندوؤں کے مسیحا اور محافظ بننے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ مسلم طلبہ کو سائنس اور اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے ہیں لیکن ان کے اقدامات اس کے برعکس ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے اسمبلی میں بارہا "ملا” اور "کٹھ ملا” جیسے نفرت انگیز الفاظ استعمال کر کے اپنی متعصبانہ ذہنیت کا ثبوت دیا ہے۔
اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے پہلے اعظم خان کے نام پر محمد علی جوہر یونیورسٹی اور پھر سہارنپور میں واقع گلوکل یونیورسٹی کو نشانہ بنایا۔ حالیہ برسوں میں اتر پردیش میں کئی سیاست دانوں نے تعلیمی اداروں میں سرمایہ کاری کی مگر نشانہ صرف یہ دو یونیورسٹیاں ہی بنی ہیں۔
محمد علی جوہر یونیورسٹی کی 70 ایکڑ زمین ضبط کی گئی اور گلوکل یونیورسٹی کے خلاف ای ڈی نے کارروائی کرتے ہوئے پوری یونیورسٹی کو ہی ضبط کر لیا۔ اسی طرح جودھپور میں مولانا آزاد یونیورسٹی کے چیئرمین محمد عتیق غوری کے خلاف کارروائی کی گئی اور انہیں دھوکہ دہی سے زمین حاصل کرنے کے الزامات میں حراست میں لیا گیا۔
بی جے پی لیڈر اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مسلم طلبہ کو "جدید تعلیم” فراہم کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ مدرسے انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں اور مسلم نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل ہونے سے روکتے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ وزیرِ اعظم سے لے کر بی جے پی کا کوئی بھی لیڈر مسلمانوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا نہیں چاہتا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی درجے کے معاملے میں سپریم کورٹ میں اپنے حلف نامے میں بھی اقلیتی درجہ دینے کی مخالفت کی گئی تھی۔ خوش قسمتی سے سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں 4:3 کی اکثریت سے یونیورسٹی کے اقلیتی درجے کو برقرار رکھا۔
اسی طرز پر جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے ساتھ بھی یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ان دونوں یونیورسٹیوں کے فنڈز میں بھی بڑے پیمانے پر کٹوتی کی گئی ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد سابق یو پی اے حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پانچ مراکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر گزشتہ دس برسوں میں یہ تمام مراکز کسمپرسی کا شکار ہو گئے ہیں۔ بنگال اور کیرالا میں محدود پیمانے پر کیمپس فعال ہیں مگر بہار کے کشن گنج میں اب بھی زمین خالی ہی نظر آتی ہے۔
پارلیمنٹ میں وزیرِ تعلیم نے قانونی سقم کا حوالہ دے کر فنڈ جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر قانونی سقم ہے تو اسے درست کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟
مسلمانوں کے زیرِ انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی کی اس مہم میں میگھالیہ کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے چانسلر محبوب الحق کی گرفتاری نے بی جے پی کے اصل چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ میگھالیہ اور آسام کی سِول سوسائٹی نے اس گرفتاری کی شدید مذمت کی ہے۔
آسام پولیس نے ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن (ERDF) کے زیرِ انتظام چلنے والے سنٹرل پبلک اسکول کے امتحان میں مبینہ بدعنوانی کے الزام میں فاؤنڈیشن کے چیئرمین محبوب الحق کو گرفتار کیا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق عدالتِ عالیہ نے اس مقدمے میں ان کی ضمانت منظور کر لی ہے۔ ERDF کے تحت دو اسکولوں کے علاوہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میگھالیہ (USTM) بھی چلتی ہے اور شمال مشرق کا پہلا نجی میڈیکل کالج بھی گزشتہ برس اسی فاؤنڈیشن نے شروع کیا تھا۔جمعہ کو شری بھومی ضلع کے پاتھرکنڈی میں واقع سنٹرل پبلک اسکول میں CBSE کے تحت 12ویں جماعت کا امتحان ہو رہا تھا۔ امتحان کے بعد کچھ طلبہ نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ پولیس کے مطابق امتحان کے دوران امن و امان کی صورت حال خراب ہو گئی تھی۔
پولیس نے یو ایس ٹی ایم کے چانسلر اور سنٹرل پبلک اسکول کے پرنسپل سمیت کل چھ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ کچھ طلبہ دوسرے اضلاع سے امتحان دینے آئے تھے کیونکہ انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ یہاں سے وہ آسانی سے امتحان پاس کر لیں گے۔
وزیرِ اعلیٰ آسام ہمانتا بسوا سرما نے سوشل میڈیا پر 209 طلبہ کی فہرست شیئر کی اور کہا کہ آسام پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اور مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے اس واقعے کو سنگین معاملہ قرار دیا اور تمام متعلقہ افراد سے تعاون کی توقع ظاہر کی۔
محبوب الحق نے مالی بے ضابطگیوں کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ رشوت لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امتحان دینے والوں میں 80 فیصد وہ طلبہ شامل ہیں جنہیں "وژن 50” کے تحت مفت داخلہ دیا گیا ہے۔ یہ فاؤنڈیشن کی ایک فلاحی اسکیم ہے جس کا مقصد شمال مشرقی ریاستوں کے پسماندہ طلبہ کی مدد کرنا ہے۔ "وژن 50” کوئی کاروباری منصوبہ نہیں بلکہ دیہی طلبہ کی رہنمائی کے لیے ERD فاؤنڈیشن کے مشن کا ایک حصہ ہے۔
امتحان میں بے ضابطگیوں کے دعوؤں کا جواب دیتے ہوئے، محبوب الحق نے یونیورسٹی کے موقف کا دفاع کیا اور کہا کہ جب کچھ طلبہ نے غیر منصفانہ طریقے سے امتحان دینے کی کوشش کی تو یو ایس ٹی ایم کے اساتذہ نے مداخلت کرکے اسے روکا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے اساتذہ کو دیانتداری برقرار رکھنے پر سراہنا چاہیے، نہ کہ ان سے سوال کرنا چاہیے؟
محبوب الحق اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاریوں پر میگھالیہ اور آسام کے تعلیمی حلقوں سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ یو ایس ٹی ایم کے سیکڑوں طلبہ اور فیکلٹی ممبران اپنے چانسلر کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ بسوا سرما کے بیان "محبوب الحق کو طویل مدت تک جیل میں رہنا پڑے گا” نے اس شک کو مزید تقویت دی کہ یہ کارروائی مسلم دشمنی پر مبنی ہے۔
میگھالیہ کے سیاسی تجزیہ نگار گویرا پینٹورا چیرین مومن نے سوشل میڈیا پر بسوا سرما کے ریمارکس کی مذمت کرتے ہوئے ان پر "جج، جیوری، اور جلاد” کے طور پر کام کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے لکھا کہ "یہ گورننس نہیں، بلکہ سیاسی ظلم ہے۔”
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یو ایس ٹی ایم کو، جو NIRF کے مطابق ہندوستان کی ٹاپ 200 یونیورسٹیوں میں شامل اور NAAC A-گریڈ شدہ ادارہ ہے، پہلے کبھی دھوکہ دہی کے الزامات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ محبوب الحق کی آدھی رات کی گرفتاری قانونی طریقہ کار کے بجائے ایک ہائی پروفائل مجرمانہ کریک ڈاؤن جیسی دکھائی دیتی ہے۔
متاثرہ طلبہ کی جانب سے کوئی شکایت درج نہ ہونے کے باوجود از خود کارروائی کی گئی۔ میگھالیہ حکومت کے وزیر اعلیٰ چیکونراڈ سنگما اور چیف سکریٹری نے یو ایس ٹی ایم کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا اور کہا کہ یونیورسٹی UGC سے منظور شدہ ادارہ ہے، اور اس کے خلاف کارروائی کا اختیار آسام حکومت کو نہیں ہے۔
"دی شیلانگ ٹائمز” کی ایڈیٹر پیٹریشیا موکھم کہتی ہیں کہ "یو ایس ٹی ایم میں زیادہ تر طلبہ اور اساتذہ آسام سے ہیں۔ شاید وزیر اعلیٰ بسوا سرما کو یہ پسند نہیں یا ان کا کوئی اور مقصد ہے”
اگر یو ایس ٹی ایم یو جی سی کے اصولوں کے مطابق چل رہی ہے تو باقی کارروائیاں انہیں ہراساں کرنے کے لیے ہیں۔ آسام میں بی جے پی مسلمانوں کے خلاف سیاست کر رہی ہے، خاص طور پر وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما مسلمانوں کے خلاف کھل کر بولتے ہیں۔ بنگالی نژاد مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پیٹریشیا موکھم کہتی ہیں کہ اگر کوئی ادارہ اصولوں کے مطابق صحیح چل رہا ہے تو وزیر اعلیٰ کو "فلوڈ جہاد” جیسے بیانات نہیں دینے چاہیے۔ وزیر اعلیٰ سرما جعلی ڈگری کا الزام لگاتے ہیں لیکن تحقیقات نہیں کرتے جو ان کے اصل مقصد کی نشاندہی کرتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2021 میں یو ایس ٹی ایم کے ایک پروگرام میں وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما مہمان خصوصی کے طور پر شریک تھے۔
کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق رکن پارلیمنٹ رپن بورا نے وزیر اعلیٰ ہمنتا پر الزام لگایا کہ وہ آسام کو ملک کی پانچ بہترین ریاستوں میں شامل کرنے کے بجائے اپنے خاندان کو ملک کے پانچ امیر ترین خاندانوں میں شامل کرنے میں مصروف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گوہاٹی برسوں سے سیلاب کا سامنا کر رہا ہے لیکن وزیر اعلیٰ نے پچھلے سال سیلاب کا سارا الزام یو ایس ٹی ایم پر ڈال دیا۔ ان کے بقول، وزیر اعلیٰ سرما اپنے مفادات کے لیے مشہور شمال مشرقی ریاست کے ماہر تعلیم محبوب الحق پر حملہ کر رہے ہیں۔
2016 میں آسام میں بی جے پی حکومت بننے کے بعد سے ہی مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، لیکن 2021 میں ہمنتا بسوا سرما کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد مسلم مخالف اقدامات میں تیزی آئی ہے۔
پہلے حکومت کے زیر انتظام 1200 کے قریب سرکاری امداد یافتہ مدارس کو سرکاری اسکولوں میں تبدیل کر دیا گیا، جب کہ ان مدارس کے لیے مسلمانوں نے زمینیں دی تھیں۔
آسام میں بنگالی نژاد مسلمان وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما کے "سافٹ ٹارگٹ” بنے ہوئے ہیں۔ مسلم کمیونٹی میں بچپن کی شادی ہو یا تعدد ازدواج سے متعلق مسئلہ، حکومت نے ایکشن لینے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے دعوے بھی کیے ہیں۔
آسام اسمبلی میں نماز جمعہ کے لیے تین گھنٹے کا وقفہ ختم کر دیا گیا۔ بسوا سرما حکومت نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی، گوریا، موریہ، جولاہ، دیسی اور سید برادریوں کو ‘دیسی مسلمان’ قرار دیا تاکہ مسلمانوں کی اجتماعیت ختم ہو جائے۔
آسام میرج ایکٹ میں تبدیلی کی گئی، قاضی سے رجسٹریشن کرانے کی سہولت ختم کر دی گئی اور لوگوں کو سرکاری دفاتر کا چکر لگانے پر مجبور کر دیا گیا۔
اب ان کے نشانے پر یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی میگھالیہ اور اس کے چانسلر محبوب الحق ہیں۔ یو ایس ٹی ایم میں 80 فیصد طلبہ کا تعلق شمال مشرقی ریاستوں کے قبائلی برادری سے ہے۔
ملک کی آبادی کا 14 فیصد ہونے کے باوجود اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی نمائندگی انتہائی کم ہے۔ تعلیمی سال 2022-23 کے آل انڈیا سروے آف ہائر ایجوکیشن (AISHE) کے حالیہ اعداد و شمار اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کا داخلہ صرف 4.8 فیصد ہے۔ یہاں تک کہ یہ شرح ایس سی (SC) اور ایس ٹی (ST) برادریوں سے بھی کم ہے، جن میں بالترتیب 15.3 فیصد اور 6.3 فیصد طلبہ شامل ہیں۔
قومی اہمیت کے اداروں، جیسے آئی آئی ٹی، آئی آئی ایس ای آر، این آئی ٹی، اور آئی آئی ایم میں صورتحال اور بھی سنگین ہے، جہاں صرف 1.76 فیصد مسلم طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ 1947 میں آزادی کے وقت ملک میں صرف 17 کالجز تھے جو مسلمانوں کے زیرِ انتظام تھے۔ تاہم، 75 سال کے دوران یہ تعداد بڑھ کر 1,155 ہو گئی ہے، جو 2.8 فیصد کی جامع سالانہ شرحِ نمو کی نمائندگی کرتی ہے۔
اعداد و شمار کا مزید جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ 2001 سے 2010کے درمیان مسلمانوں کے زیرِ انتظام کالجوں کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا، جبکہ 2011 سے 2020 کے درمیان اس رجحان میں کمی آئی ہے۔
سنٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ انڈیا اور ناؤز میڈیا کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق، 1,155 کالجوں میں سے 83.1فیصد ادارے پرائیویٹ ہیں اور انہیں حکومت کی جانب سے کوئی امداد نہیں ملتی۔ جبکہ 10.6فیصد ادارے پرائیویٹ تو ہیں، مگر انہیں حکومت کی امداد ملتی ہے۔ سرکاری کالجز کا کل تناسب 3.9 فیصد تھا، باقی کالجز مقامی اداروں کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔
کالجوں کا ایک اہم تناسب (57.8 فیصد) دیہی علاقوں میں واقع ہے، جبکہ 42.2 فیصد شہری علاقوں میں موجود ہیں۔ زیادہ تر مسلمانوں کے زیرِ انتظام کالجوں میں طلبہ کی تعداد نسبتاً کم ہے۔ تقریباً 19.7 فیصد کالجوں میں 100سے کم طلبہ کا اندراج ہے، جبکہ 43.1 فیصد کالجوں میں طلبہ کی تعداد 101سے 500کے درمیان ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 62.8 فیصد کالجوں میں 500 یا اس سے کم طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔
اسی طرح، 1,155 مسلم زیرِ انتظام کالجوں میں سے 141 ٹیکنیکل کالجز آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن (AICTE) کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ اس کے برعکس، دیگر اقلیتی گروپوں کے اجتماعی طور پر 710 ادارے AICTE کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، جو تمام اقلیتی اداروں کا 83.4 فیصد بنتے ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جہاں مسلمان تمام اقلیتی گروپوں میں 73.4 فیصد ہیں، ٹیکنیکل کالجوں میں ان کی نمائندگی صرف 16.6 فیصد ہے۔ جبکہ دیگر اقلیتی گروہ، جو 26.6 فیصد آبادی پر مشتمل ہیں، تکنیکی کالجوں کا 83.4 فیصد حصہ رکھتے ہیں۔
یہ صورتِ حال واضح کرتی ہے کہ بھارت کے مسلمان تعلیمی میدان میں انتہائی پسماندگی کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ ادارہ جاتی نمائندگی، تکنیکی تعلیم میں شرکت، جغرافیائی تقسیم اور اندراج کے نمونوں میں دستاویزی تفاوت اعلیٰ تعلیم تک مساوی رسائی اور قوم کی مجموعی ترقی میں رکاوٹ بننے والے کثیر جہتی چیلنجوں کی نشاندہی کرتی ہے۔
موجودہ حالات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ کیونکہ اگر مسلم کمیونٹی خود کفیل بننے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے لیے ادارہ جاتی مشکلات پیدا کی جاتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر امیدِ فردا کے انتظار میں بیٹھ جانا چاہیے؟ ظاہر ہے کہ مایوسی اور ناامید ہو جانا خودکشی کے مترادف ہوگا۔
حالات سخت ہونے کے باوجود فرقہ وارانہ ذہنیت اور سوچ کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ ملک میں ایک بڑا طبقہ ہے جو اس ناانصافی اور ظلم کو محسوس کر رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی مداخلتوں اور ناانصافی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل بنا کر جدوجہد کی راہ اپنائی جائے۔ ایسی کارروائیوں کو کسی ایک فرد یا ایک ادارے کے خلاف سمجھ کر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے
بلکہ جس طرح وقف بل کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا عزم کیا گیا ہے، اسی طرح مسلمانوں کو تعلیمی پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی کوششوں کے خلاف مزاحمت کی جائے اور ہر پلیٹ فارم پر اس کے خلاف آواز بلند کی جائے۔
***
***
مسلمانوں کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانا،غیر منصفانہ :جماعت اسلامی ہند
ملک میں بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں مسلمانوں کے زیر انتظام چلنے والی بعض یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کو نشانہ بنائے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر جناب ملک معتصم خان نے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’یہ انتہائی تاسف و تشویش کی بات ہے کہ بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں ان تعلیمی اداروں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے جو مسلمانوں کے زیر انتظام چل رہے ہیں۔ نئے نئے بہانے تراش کر کے ان اداروں سے منسلک افراد کو گرفتار کیا جارہا ہے جیسا کہ ابھی حال ہی میں آسام میں ’یو ایس ٹی ایم‘کے چانسلر محبوب الحق کو آدھی رات کو گرفتار کیا گیا۔ اس سے قبل راجستھان میں مولانا آزاد یونیورسٹی کے چیئر پرسن کو بھی ہراساں کرنے کی کوششیں کی گئی، گلوکل یونیورسٹی کے اثاثوں کو ضبط کیا گیا اور اترپردیش میں محمد علی جوہر یونیورسٹی پر مسلسل کریک ڈائون کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سب اس بات کی واضح علامت ہے کہ مسلمانوں کے زیر نگرانی اعلیٰ تعلیمی مراکز کو خصوصی طور پر نشانہ بنانے کی منصوبہ بند کوشش کی جا رہی ہے جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی قیادت میں جاری تعلیمی ترقیات کی سرگرمیوں کو دبانے کے لیے ان اداروں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایاجا رہا ہے۔ اس غیر منصفانہ رویے کی سنگینی اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ان کارروائیوں کے ساتھ ہی بعض سیاست دانوں کی جانب سے ان اداروں کے لیے بنیاد پرست، دقیانوس جیسے غیر مناسب الفاظ استعمال کرکے ان کی شبیہ کو خراب کیا جاتا ہے۔‘‘
جناب ملک معتصم خان نے مزید کہا کہ ’’حکومتوں کی جانب سے اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف ان یونیورسٹیوں کی ساکھ داغدار ہوتی ہے بلکہ ان میں تعلیم حاصل کر رہے ہزاروں طلباء اور فیکلٹی ممبران کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اس سے ملک میں تعلیم کے بنیادی حق اور سب کے لیے مساوی مواقع کی پالیسی کو زک پہنچتی ہے۔ ان یونیورسٹیوں کے خلاف ہو رہی یہ کارروائیاں ہماری جمہوری اقدار کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ہمارے ملک کے آئین میں ذات پات، نسل برادری اور مذہب و ملت سے قطع نظر سب کے ساتھ یکساںسلوک کی تاکید کی گئی ہے۔اگر اس طرح ’NAAC‘سے تسلیم شدہ ’اے‘ گریڈ کی یونیورسٹیاں سیاسی موقع پرستی اور فرقہ وارانہ تعصب کا شکار ہوتی رہیں تو ملک میں اعلیٰ تعلیم سنگین بحران کا شکار ہو جائے گی۔ ہم عالمی رہنما ’’وشو گرو‘‘ بننے اور غیر ملکی یونیورسٹیوں کو ہندوستان میں کیمپس کھولنے کی دعوت دینے کی کوششیں کررہے ہیں لیکن اگر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ساتھ ہمارا یہی سلوک رہا تو ہمارے ان عزائم کو شدید دھچکا لگے گا۔ لہٰذا ہم حکومت سے مسلمانوں کے زیر انتظام اعلیٰ تعلیمی اداروں کو چن چن کر ہدف بنانے کے اس غیر اخلاقی رویے کو سختی سے ترک کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ریاستی حکومتیں ایسی فرقہ وارانہ اقدام، متعصبانہ فیصلے اور ووٹ بینک کی سیاست سے پرہیز کریں گی کیونکہ اس سے ہزاروں طلباء کے تعلیمی مفادات کو خطرہ لاحق ہو رہا ہے جو کہ ملک کی ترقی اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 مارچ تا 15 مارچ 2025