ما بعد جنگ کے عالم گیر اثرات۔صرف ایرانی حملے سے 5کھرب روپے کا نقصان

حماس، حزب اللہ اور حوثیوں کی کارروائیاں الگ

0

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

یہودیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی۔ پانچ لاکھ صہیونی اسرائیل چھوڑ گئے، قبرص میں پناہ کی کوشش
گزشتہ منگل تیل کی قیمت میں تقریباً چھ فیصد کمی دیکھی گئی جو اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کے نتیجے میں ممکن ہوئی۔ اگر جنگ طول پکڑتی تو خدشہ تھا کہ تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوتا۔ جنگ بندی کے باعث عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں تیزی آئی اور امریکی ڈالر کی قدر میں کمی ہوئی، کیونکہ سرمایہ کاروں نے وقتی سکون کا اظہار کیا۔ برینٹ فیوچرز میں پیر کو سات فیصد کی گراوٹ درج ہوئی۔ ہفتے کے اختتام پر ایرانی ردِ عمل اور امریکی فوجی اڈوں پر حملے کے بعد ایران کی جانب سے وقتی طور پر کارروائیاں روکنے کے اشارے نے امریکی شیئر مارکیٹوں میں بہتری لائی۔ ہرمز اسٹریٹ سے متعلق بحری راستے پر فوری خطرہ ٹلنے کے بعد برینٹ بینچ مارک 11 جون کے بعد کی سب سے نچلی سطح یعنی 68.81 ڈالر فی بیرل پر بند ہوا جو 3.7 فیصد کی گراوٹ تھی۔ اسی طرح امریکی خام تیل کی قیمت بھی 3.7 فیصد کم ہو کر 65.91 ڈالر فی بیرل پر آ گئی۔
’’سوسیاتے جنرالی‘‘ میں کارپوریٹ ریسرچ، ایف ایکس اینڈ ریٹس کے چیف، کینتھ بروکس نے کہا: ’’سرمایہ کاروں نے جیوپولیٹیکل کشیدگی کو وقتی سمجھا، اور جنہوں نے صبر کا مظاہرہ کیا وہ اب تک درست ثابت ہوئے۔ اگرچہ جنگ بندی کمزور لگ رہی ہے، تاہم سابق امریکی صدر ٹرمپ نے سخت لہجے میں کہا کہ اگر جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوئی تو ٹھیک نہیں ہو گا، خاص طور پر اسرائیل کی جانب سے۔‘‘
ایس اینڈ پی 500 فیوچرز میں 0.8 فیصد اور نیس ڈیک فیوچرز میں ایک فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ یورپ کا ’’اسٹاکس 600‘‘ انڈیکس بھی 1.3 فیصد بڑھا، جہاں ایئرلائنز اور ٹریول شیئرز میں 3.8 فیصد تیزی، جبکہ تیل و گیس کمپنیوں کے شیئرز میں تقریباً دو فیصد کمی دیکھی گئی۔ سرمایہ کار امریکی فیڈرل ریزرو کی پالیسی پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، جو حالیہ مہینوں میں شرح سود میں کٹوتی کے واضح اشارے دینے سے گریزاں رہا ہے۔
اگرچہ ایران اور اسرائیل نے جنگ بندی کی ہے مگر دونوں اس کی خلاف ورزی بھی کر چکے ہیں۔ ایرانی پارلیمنٹ کی جانب سے ہرمز اسٹریٹ بند کرنے کا جو فیصلہ لیا گیا تھا، اسے اب بھی نافذ کیا جا سکتا ہے، جس سے بھارت کی خام تیل درآمدات پر منفی اثر کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ گزشتہ برس بھارت نے یومیہ تقریباً 49 لاکھ بیرل خام تیل درآمد کیا تھا جس میں سے 39 فیصد اسی راستے سے آیا تھا۔ حالانکہ حالیہ برسوں میں بھارت نے روس سے خام تیل کی درآمدات میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ مالی سال 2021-22 میں روس کا حصہ محض 1.9 فیصد تھا جبکہ عراق سے 25.6 فیصد تیل درآمد کیا گیا تھا۔ تاہم 2024-25 میں روس کی شراکت بڑھ کر 35 فیصد اور عراق کی کم ہو کر 18 فیصد رہ گئی ہے۔
خلیج فارس اور خلیج عمان کے درمیان واقع ہرمز اسٹریٹ بھارت، چین اور جنوبی کوریا جیسی ایشیائی معیشتوں کے لیے نہایت اہم ہے۔ بھارت نے اگرچہ اس راستے سے درآمدات میں کچھ کمی کی ہے، لیکن اس کی اسٹریٹیجک اہمیت بدستور برقرار ہے۔
وزارتِ مالیات کا ماننا ہے کہ حالیہ جنگ بندی کے باوجود، آنے والے مہینوں میں بھارت کو معاشی توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہوگی۔ وزارت نے خام تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور جیوپولیٹیکل کشیدگی کو مہنگائی کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ ماہانہ تجزیے میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر تیل کی سپلائی تسلی بخش ہے، لیکن بیمہ لاگت، لاجسٹکس اور سمندری راستوں کی بندش جیسے خطرات تشویشناک ہو سکتے ہیں۔ وزارت نے اس غیر یقینی صورتِ حال کے باوجود بھارت کی پوزیشن کو دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتر قرار دیا ہے۔
تجزیے میں مینوفیکچرنگ اور وہیکل سیلز جیسے شعبوں میں کچھ سست روی کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ مالی سال 2025 میں بھارت کی حقیقی جی ڈی پی میں 6.5 فیصد اضافہ ہوا، جو تخمینوں کے مطابق ہے۔ یہ مثبت رجحان مالی سال 2026 میں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔
اس جنگ کے ممکنہ دائرہ وسیع ہونے کی صورت میں بھارت کو بڑے پیمانے پر معاشی نقصان ہو سکتا ہے۔ ’’گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشی ایٹو (GTRI)‘‘ کے مطابق، اگر جنگ مغربی ایشیا کے دیگر ممالک تک پھیلتی ہے تو بھارت کی اربوں روپے کی تجارت متاثر ہو سکتی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل، عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جہاں چاہتے ہیں بمباری کر دیتے ہیں۔ غزہ میں جاری نسل کشی میں اب تک 60 ہزار سے زائد معصوم خواتین اور بچوں کی شہادت ہو چکی ہے اور مغرب کی پشت پناہی سے ایران پر بھی حملہ کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ ایران، اردن، لبنان، شام اور یمن جیسے مغربی ایشیائی ممالک سے بھارت تقریباً 2.75 لاکھ کروڑ روپے کی درآمدات کرتا ہے اور 71 ہزار کروڑ روپے کی برآمدات کرتا ہے۔ بمبئی کے ایکسپورٹر اور ٹیکنوکرافٹ انڈسٹریز کے چیئرمین شرد صراف نے بتایا کہ ان کی کمپنی نے ایران اور اسرائیل کے لیے سامان کی ترسیل روک دی ہے، اور دیگر ایکسپورٹرز بھی یہی کر رہے ہیں۔
بحرِ احمر میں حملوں کے خطرات کے سبب بھارتی تاجروں کو متبادل راستے، جیسے کیپ آف گڈ ہوپ، اختیار کرنے پڑ رہے ہیں، جس سے لاگت اور وقت دونوں بڑھتے ہیں۔ اسٹریٹ آف ہرمز سے دنیا کا تقریباً ایک تہائی تیل گزرتا ہے۔ اگر یہ راستہ بند ہو گیا تو تیل کی قیمتیں آسمان کو چھو سکتی ہیں، جس کا براہِ راست اثر روزمرہ کی اشیاء پر پڑے گا۔ GTRI کے بانی اجیت شریواستو کے مطابق، اگر شپنگ اور پیکنگ کے نظام میں خلل پیدا ہوا تو بھارتی تجارت کو زبردست جھٹکا لگے گا اور شپنگ انشورنس کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے۔ سپلائی چین متاثر ہوگی۔ صرف ایران کو بھارت نے دس ہزار کروڑ روپے کا مال بھیجا، جس میں سب سے زیادہ باسمتی چاول، موز، سویا بین اور چائے شامل تھے۔ ایران سے بھارت کی درآمدات 30,700 کروڑ روپے کی رہیں۔ اسرائیل کو بھارت نے تقریباً 17,500 کروڑ روپے کا مال برآمد کیا اور تقریباً 13,300 کروڑ روپے کا مال درآمد کیا۔
اب تو امریکہ براہِ راست اس جنگ میں کود پڑا ہے اور ایران کی نیوکلیئر سائٹس پر بمباری کر کے اس کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایران نے امریکہ اور اسرائیل کو جنگ شروع کرنے کا مجرم قرار دیا ہے۔ اگر یہ جنگ مزید بڑھی تو یہ محض تناؤ نہیں ہوگا بلکہ اس سے ایک عالمی معاشی بحران پیدا ہوگا، جس کا اثر بھارت کی تجارت پر بھی پڑے گا۔ ایران اور اسرائیل کی یہ جنگ صرف دو ملکوں کے درمیان گولیوں کی جنگ نہیں بلکہ یہ تجارت اور مہنگائی کی جنگ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
تھامس ایل فریڈمین کا ماننا ہے کہ اگر امریکہ ایران سے الجھنے کی کوشش کرے گا تو ایران تیل کی قیمتوں کو آسمان تک پہنچا کر ٹرمپ انتظامیہ کو پریشانی میں ڈالنے کی کوشش کرے گا، اور مغربی ممالک میں افراطِ زر بڑھا سکتا ہے۔ اس کے لیے ہرمز اسٹریٹ میں چند تیل یا گیس ٹینکروں کو ڈبونا کافی ہوگا تاکہ اس راستے سے برآمدات رک جائیں۔ حقیقتاً، یہی اندیشہ تیل کی قیمتوں کو بڑھانے کے لیے کافی ہے۔
یہ پہلی بار ہے کہ اسرائیل نے جنگ بندی کی بھیک مانگی ہے، کیونکہ ایران نے اسرائیل کے تقریباً تمام علاقوں پر حملہ کیا۔ شمال میں گلیلی، وسطی اسرائیل میں حیفہ شہر کے ایئرپورٹ اور بندرگاہ کو زبردست نقصان پہنچا۔ بن گورین ایئرپورٹ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ اسرائیل کے جنوبی شہر ایلات کو بھی نشانہ بنایا گیا اور تل ابیب کا ایک تہائی حصہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اسرائیل کا کوئی علاقہ ایرانی حملے سے محفوظ نہیں رہا۔ دسویں دن ہی اسرائیل گڑگڑانے لگا اور امریکہ سے فریاد کی کہ بچاؤ، ورنہ ہم تباہ ہو جائیں گے۔
جو خبریں اب تک آئی ہیں وہ بہت کم ہیں، کیونکہ فوجی سنسر نافذ ہے۔ دو تین ماہ بعد اس ناجائز ریاست کی تباہی کا منظر پوری طرح سامنے آ سکتا ہے۔ اسرائیل کے قیام کے بعد سے یہ دہشت گرد ریاست کبھی بھی جنگ بندی کی درخواست پر مجبور نہیں ہوئی تھی، کیونکہ اس کی غذا ہی نسل کشی رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے کی رپورٹ کے مطابق چالیس سے پچاس ہزار اسرائیلی یہودیوں نے جنگ کی تباہی کے ازالے کی درخواست دی ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً پانچ لاکھ صہیونی یہودی اسرائیل چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں۔ ہوائی اڈے اور بندرگاہیں تباہ ہو کر بند پڑی ہیں۔ جو لوگ اسرائیل سے جان بچا کر فرار ہو رہے ہیں، وہ کشتیوں کے ذریعے جا رہے ہیں اور قبرص کی شہریت حاصل کر رہے ہیں، جہاں وہ جائیدادیں خرید رہے ہیں۔ قبرص کے وزیر نے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا آنا دراصل ہمارے ملک پر حملہ ہے۔ بڑی تعداد میں اسرائیلی رفاہ سرحد سے بھی فرار ہو کر وہاں پناہ لے رہے تھے۔
اسرائیل میں موساد، وزارتِ دفاع اور وزارتِ داخلہ کی عمارتیں بھی ایرانی میزائلوں سے تباہ ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ پینتیس ہزار فیکٹریاں بند ہو گئی ہیں۔ باہر سے کوئی بھی سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں۔ محض ایرانی حملے سے اسرائیل کو پانچ کھرب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ باقی نقصان حزب اللہ، حماس اور حوثیوں کے ساتھ جاری جنگ سے الگ ہے۔ اقتصادی طور پر اسرائیل کو بہت بڑا دھکا لگا ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے فوراً بعد بائیڈن نے سولہ ہزار ملین ڈالر کی امداد دے کر اسرائیل کی مدد کی تھی۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہم کچھ نہیں کریں گے مگر انہوں نے B2 بمبار کے ذریعے ایران کی نیوکلیئر سائٹس پر حملہ کر دیا اور دعویٰ کیا کہ ہم نے اپنا کام مکمل کر دیا ہے نتیجے میں ایران برسوں پیچھے چلا گیا ہے۔ جواب میں ایران نے بھی قطر میں امریکی فوجی اڈے پر محدود جوابی حملہ کیا ہے۔
اس بارہ روزہ جنگ سے پہلے تمام عرب ممالک اسرائیل سے خوفزدہ تھے، کیونکہ اس نے اپنی فضائی طاقت سے سب کو دھمکا رکھا تھا۔ لیکن اب بے سروسامانی کی حالت میں بھی حماس اور جہاد اسلامی کے مجاہدین نے اسرائیل کے "گریٹر اسرائیل” کے منصوبے پر پانی پھیر دیا ہے۔ ایران میں اقتدار کی تبدیلی کی کوششیں بھی ناکام ہو چکی ہیں۔ نیوکلیئر سائٹس کو مکمل طور پر تباہ کرنے میں امریکہ اور اسرائیل ناکام رہے ہیں۔ ایران کے عوام نے اپنے سرکردہ فوجی جرنیلوں اور سائنس دانوں کی قربانی کے باوجود زبردست جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایران کے عوام میں جفاکشی اور جنگ کے دوران ہمت و حوصلہ برقرار ہے، جیسا کہ مانا شاہ کی رپورٹ (انڈیا ٹوڈے، 9 جولائی) میں بھی درج ہے۔
ایران میں بھی اسرائیلی جارحیت میں 900 افراد شہید ہوئے اور ایران کو بھی بھاری اقتصادی نقصان ہوا ہے۔ اتنی معاشی بربادی اور عالمی سطح پر بدنامی نے اسرائیل کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب اس نسل پرست ناجائز ریاست کو پتہ چل گیا ہے کہ قتل و غارت اور جنگ کا مزہ کیا ہوتا ہے۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ہم نے غزہ کو مکمل صاف کر دیا ہے مگر حماس کی سرنگیں اب بھی موجود ہیں، جہاں سے دو روز قبل ہی ایک بکتر بند گاڑی کو اڑا دیا گیا، جس میں سات اسرائیلی ہلاک ہوئے۔ اب امید ہے کہ غزہ میں جلد ہی جنگ بندی ہو جائے گی۔
آج ساری دنیا اسرائیل کو ایک دہشت گرد ملک سمجھتی ہے۔ اسی لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 140 ممالک نے اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا۔ چند مغربی ممالک بھی اسرائیلی درندگی سے تنگ آ کر اپنے سفارتی تعلقات ختم کر چکے ہیں۔ بہت سے ممالک میں عام مزدوروں نے اسرائیل کے ساتھ تعاون سے انکار کرتے ہوئے بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں پر لوڈنگ اور انلوڈنگ سے انکار کر دیا ہے۔ فرانس اور اسپین بھی ان میں شامل ہیں۔
دفاعی ماہرین اس جنگ بندی کو محض ایک وقفہ قرار دیتے ہیں امن نہیں، کیونکہ کوئی بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ ایران کے جوہری ہتھیار بنانے کا معاملہ جہاں کا وہیں ہے۔ جوہری ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کی جوہری صلاحیت کے حوالے سے خاص طور پر اس کے ہارڈویئر اور سافٹ ویئر کو مدِنظر رکھنا ہوگا۔ امریکہ اور اسرائیل کے حملوں سے "سنٹری فیوج ہال” جیسے کچھ ہارڈویئر اداروں کو جزوی نقصان ضرور پہنچا ہوگا مگر ایران نے گزشتہ چالیس برسوں میں بھاری سرمایہ کاری اور ساز و سامان کی مدد سے جو جوہری صلاحیت حاصل کی ہے، وہ چند سائنس دانوں کی ہلاکت یا تنصیبات کی تباہی سے متاثر نہیں ہوگی۔

 

***

 دفاعی ماہرین کے مطابق یہ جنگ بندی محض وقتی وقفہ ہے نہ کہ دیرپا امن؟ کیونکہ نہ تو بنیادی سیاسی مسائل حل ہوئے ہیں نہ ہی ایران کی جوہری صلاحیت ختم ہوئی ہے۔ اسرائیل اقتصادی و سفارتی طور پر کمزور ہوا ہے، اور اب خود کو تنہا محسوس کر رہا ہے۔ جنگ کے اثرات صرف میدانِ جنگ تک محدود نہیں بلکہ معیشت، سیاست اور سفارت کاری کے میدان میں بھی ظاہر ہو رہے ہیں


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 جولائی تا 19 جولائی 2025