
’’ماضی کے معاملات میں انصاف کی تلاش ممکن نہیں، اسے فراموش کر دیں‘‘
ایودھیا کے بعد اب امن و تعمیر کا وقت ہے، تفرقے کا نہیں
نئی دلی: (دعوت نیوز ڈیسک)
ماضی میں الجھنے کے بجائے حال و مستقبل کی فکر کریں۔ رام مندر چیف آرکیٹیکٹ نریپیندر مشرا
کیا ملک بھر میں سینکڑوں مساجد پر دعوے کرنے والے شدت پسند ہندوتوا گروپس، جنہوں نے اترپردیش، مدھیہ پردیش اور دیگر ریاستوں میں متعدد اہم مساجد کے خلاف عدالتی مقدمات بھی دائر کر رکھے ہیں، وزیرِ اعظم نریندر مودی کے سابق پرنسپل سیکریٹری نریپیندر مشرا کے مشورے پر کان دھریں گے؟ یاد رہے کہ مشرا 2014 سے 2019 تک وزیر اعظم کے پہلے دورِ حکومت میں ان کے پرنسپل سکریٹری رہے اور 2020 میں انہیں مندرِ رام جنم بھومی کی تعمیراتی کمیٹی کا صدر مقرر کیا گیا اور وہ اس وقت رام مندر کے چیف آرکیٹیکٹ افسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ایک قومی انگریزی روزنامے کو دیے گئے انٹرویو میں مشرا نے کہا:
’’ہم ماضی کے انصاف کو تلاش نہیں کر سکتے۔ اسے فراموش کرنا ہی ہوگا۔‘‘
یہ بیان انہوں نے ایودھیا میں رام مندر کی تحریک کی کامیابی کے بعد ان ہندوتوا گروپوں کے تناظر میں دیا جو مزید مساجد پر مندروں کی تعمیر کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
یہ انٹرویو انہوں نے اس وقت دیا جب ایودھیا میں رام کی بطورِ راجا مورتی کی پران پرتشٹھا کی تقریب کو صرف دو ہی روز گزرے تھے۔
جب ان سے سنبھل کی جامع مسجد کے بارے میں سوال کیا گیا، جہاں گزشتہ برس نومبر میں ایک مقامی عدالت نے سروے کی اجازت دی تھی اور جس کے نتیجے میں مسلمانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، تو انہوں نے کہا:
’’یہ ایک مسئلہ ہے۔ کچھ امور کسی نہ کسی طرح مقامی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ رام مندر کا فیصلہ سب نے اس لیے قبول کیا کیونکہ وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا۔ سب کچھ معمول پر آ گیا۔ سب لوگ اپنی روزمرہ کی زندگی میں مشغول ہو گئے۔ ہم ماضی کے انصاف کو تلاش نہیں کر سکتے۔ اسے فراموش کرنا ہی ہوگا۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا رام مندر کی تحریک کی کامیابی کے بعد دیگر مقامات پر مزید مندروں کے لیے دعوے سامنے آئیں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اس کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھیرایا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق اس کے ذمہ دار افراد، گروہ، سماجی رہنما اور منتخب یا غیر منتخب نمائندے ہیں جو ان دعووں کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے افراد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ’’مسائل کی اصلاح میں ان کی حدود ہیں‘‘اپنی بات کو واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا:
’’ہم سب جانتے ہیں کہ گزرا ہوا وقت لوٹ کر نہیں آتا۔ ہم اسے اپنی گرفت میں نہیں رکھ سکتے۔ جب وہ یہ بات سمجھیں گے کہ وقت گزر چکا ہے اور جب وہ حال میں رہتے ہوئے مستقبل کے خواب کو پہچانیں گے تب معاشرہ زیادہ مثبت سوچ اختیار کرے گا اور ترقیاتی مسائل کی طرف توجہ دے گا‘‘
انہوں نے لوگوں کو نصیحت کی کہ وہ تفرقہ انگیز مسائل سے توجہ ہٹا کر صحت، تعلیم، دیہی خواتین کو بااختیار بنانے اور بھارت کو دنیا کی سرفہرست معیشت بنانے پر دھیان دیں۔
انہوں نے کہا کہ عوام کے ذہنوں میں ایک دوسرا ایجنڈا بھی ہے:
’’ہماری معیشت 7 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی ہے۔ کیا میں اسے برقرار رکھ سکتا ہوں؟ ہم جلد ہی دنیا کی تیسری بڑی اقتصادی طاقت بننے جا رہے ہیں۔ تو پھر ہم دوسرے یا پہلے نمبر پر کیوں نہیں آ سکتے؟ چین کا نام ہمیشہ ہمارے سامنے آتا ہے کیونکہ وہ ہم سے بہت آگے ہے۔ اگر یہی چیلنجز ہیں تو معاشرے کو توڑ کر ہم خود کو کمزور کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمیں معاشرے کو مضبوط کرنا چاہیے تاکہ اس توانائی کو ترقی کی جانب موڑا جا سکے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بھارت عنقریب جاپان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بننے والا ہے۔
’’ممکن ہے ہم جاپان کو پیچھے چھوڑ چکے ہوں، لیکن وہاں اتنی غربت نہیں ہے، نہ ہی تعلیم اور صحت کے اتنے سنگین مسائل ہیں۔ میں یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ میں سب سے زیادہ دودھ پیدا کرتا ہوں، مگر کیا ہر شخص دودھ پیتا ہے؟ جواب ہے نہیں۔
لہٰذا میرا ہدف یہ نہیں ہونا چاہیے کہ میں محض پیداوار میں سب سے آگے ہوں، بلکہ میرا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ کیا میری ترقی کے ثمرات ہر فرد تک پہنچ رہے ہیں؟
میں صحت، تندرستی اور ہسپتالوں کو پہلی ترجیح دیتا ہوں، تعلیم کو دوسری، اور تیسری اور سب سے اہم ترجیح دیہی خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔
میرا ایجنڈا ان اہداف کے حصول پر مرکوز ہوگا۔‘‘
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ان بنیادی اور اہم مسائل پر توجہ دیں، نہ کہ ان تفرقہ انگیز معاملات پر جو بھارت کو کمزور کرتے ہیں؟
کیا ہندو انتہا پسند گروپس ایک سابق اعلیٰ افسر کی بات کو سنجیدگی سے لیں گے اور اس امن و ہم آہنگی کے لیے کام کریں گے جو اقتصادی ترقی کے لیے ازحد ضروری ہے؟
(بشکریہ انڈیا ٹومارو ڈاٹ نیٹ)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جون تا 28 جون 2025