معاشی نمو اور فراہمی روزگار میں تحقیق و اختراعیت کا کلیدی رول

کیا بھارت تحقیق میں جی ڈی پی کا محض ایک فیصد خرچ کرکے ’وشو گرو‘ بن سکتا ہے؟

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کو اسکولی تعلیم سے جوڑتے ہوئے سوچ میں انقلابی تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت
ہمارے ملک میں بے روزگاری گزشتہ کئی سالوں سے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے جب کہ کورونا قہر کی مصیبت نے شرح بے روزگاری کو مزید بڑھا دیا ہے۔ شرح بے روزگاری سے عیاں ہے کہ گھریلو طلب میں بے حد کمی اور معاشی اصلاحات میں سستی نے اس تشویش کو مزید بڑھا دیا ہے۔ حکومت کے سہ ماہی روزگار سروے (QES) میں کہا گیا ہے کہ تجارت، مینوفیکچرنگ اور آئی ٹی سمیت نو خاص شعبوں میں گزشتہ سال اکتوبر سے دسمبر کے درمیان چار لاکھ روزگار کے مواقع پیدا ہوئے حالانکہ کورونا قہر کے زمانے میں دیہی اور شہری علاقوں میں تقریباً گیارہ کروڑ تنخوار دار ملازمتیں چلی گئیں۔ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ان میں سے کتنے لوگ روزگار سے دوبارہ وابستہ ہو سکے اور کتنے ہو سکتے ہیں۔ روزگار سے متعلق مسائل میں یہ سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ ہے۔ گزشتہ کئی سالوں میں بھارت میں لیبر پارٹسپیشن کی شرح چالیس فیصد کی بڑی کمی دیکھی گئی ہے۔ جن ممالک کے ساتھ بھارت کا تقابل کیا جاسکتا ہے ان سب میں یہ گرواٹ بڑی تیز رفتار ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اکثر ممالک نے لیبر فورس سے دوری بنانے کا متبادل اپنایا کیوں کہ اچھی ملازمت کی دستیابی کے متعلق ان کے دلوں میں نا امیدی پیدا ہوگئی۔ لیبر پارٹسپیشن میں خواتین کی موجودگی زیادہ ہی تشویش ناک ہے جو عالمی اوسط سے بہت ہی کم ہے۔ کورونا قہر کے شروع میں شرح بے روزگاری بہت زیادہ تھی یعنی ملازمت تلاش کرنے اور نوکری پانے میں ناکام لوگوں کی تعداد مسلسل بڑھتی رہی۔ اس بے روزگاری کی حالت نوجوانوں اور تعلیم یافتہ میں بہت لوگوں میں بہت زیادہ ہی تشویش ناک ہے۔ معاشی اور سماجی سلامتی کے فقدان کے مد نظر لیبر فورس کا بڑا حصہ غیر منظم شعبوں سے منسلک ہے۔ حکومت نے روزگار کے مسئلے سے نمٹنے میں کوئی زیادہ سنجیدگی نہیں دکھائی لیکن لیبر کے مفاد والے مینوفیکچرنگ شعبوں کی کمی کی وجہ سے روزگار کی مصیبت بڑھتی ہی گئی۔ ہر سال لیبر فورس کا جز بننے کے خواہاں لاکھوں نوجوانوں کے لیے مینوفیکچرنگ کا شعبہ روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرسکتا ہے بلکہ یہ زرعی اور اس سے منسلک اضافی لیبر فورس کے لیے بھی معاون و مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کے لیے ٹکنالوجی روزگار کے مواقع فراہم کرسکتی ہے۔ اب حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ بنیادی ڈھانچہ میں اضافہ اور مینوفیکچرنگ شعبہ میں سرمایہ کاری بڑھا کر روزگار کی حالت بہتر کی جاسکتی ہے۔ عالمی سطح پر لیبر پر منحصر مینوفیکچرنگ صنعتوں کے تحت بھارت کی حصہ داری محض 2.5فیصد ہے جب کہ چین کی حصہ داری 3.2 فیصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے بڑے شہروں میں صنعتیں اور کارخانے نظر نہیں آتے۔ مینوفیکچرنگ شعبہ کا برآمدات 1.45 فیصد ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تحقیق (ریسرچ) پر بہت کم سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ گزشتہ مالی سال میں جی ڈی پی کا محض 0.7فیصد ہی اس زمرے میں خرچ کیا گیا تھا جبکہ اسرائیل میں تحقیق پر خرچ اس کی جی ڈی پی کا 4.6فیصد ہے تو چین میں 2.1فیصد ہے۔ مسابقت میں آنے کے لیے اور وشو گرو بننے کے لیے اپنی جی ڈی پی کا تعلیم کے شعبہ میں کم از کم چھ فیصد خرچ کرنا ہوگا اس لیے ہم معیاری تعلیم میں کمزور ہیں اور ہمارے ملک کے نوجوان ہزاروں کروڑ خرچ کرکے حصول علم کے لیے بیرون ملک سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس لیے اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے ہمیں ضرور ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (آر اینڈ ڈی) کو اسکولی تعلیم سے جوڑنا ہو گا، ساتھ ہی اپنی سوچ میں بھی انقلابی تبدیلی لانی ہوگی۔
یہ سب پر عیاں ہے کہ ہماری معیشت برے دور سے گزر رہی ہے اس لیے اب ضروری ہو گیا ہے کہ بھارت کو مینوفیکچرنگ ہب بنانے کے لیے تحقیق اور اختراعیت(Innovation) کو فروغ دینا ہو گا کیوں کہ اختراعیت حقیقتاً معاشی نمو کا انجن ہے۔ 2016ء میں مودی حکومت نے اٹل انوویشن مشن(AIM)کے ذریعہ اختراعیت کو بڑھانے کا نعرہ دیا تھا مگر فنڈز کی کمی کی وجہ سے آج تک مکمل شکل اختیار کرنے سے قاصر رہا۔ اب آگے دیکھنا ہے کہ آر اینڈ ڈی پر بھارت کتنا خرچ کرتا ہے اور جی 20 ممالک کے مقابلے جی ڈی پی فیصد کا کتنا خرچ کرتا ہے۔ G-20 ممالک کے پاس عالمی جی ڈی پی کا 86.2 فیصد ہوتا جب کہ 2021ء کے مطابق اس کی آبادی دنیا کا 60 فیصد ہے۔ جی 20 ممالک میں امریکہ آر اینڈ ڈی پر سب سے زیادہ 581.6 بلین ڈالر خرچ کرتا ہے اس کے بعد یورپی یونین 323 بلین ڈالر جب کہ 2018ء میں چین نے اس شعبہ میں 297.3 بلین ڈالر خرچ کیے اور بھارت پیچھے رہتے ہوئے آر اینڈ ڈی پر محض 176 بلین ڈالر ہی خرچ کر پایا۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ آر اینڈ ڈی میں امریکہ کی حصہ داری 36 فیصد ہے۔ یورپی یونین کی 20 فیصد ہے جب کہ بھارت کی شرکت محض ایک فیصد ہی ہے۔ کیا اس سے وشوگرو بنا جا سکتا ہے؟ اس لیے ہمیں مختلف طرح کی سبسیڈیز خوراک، فرٹیلائزر، پی ایم کسان فری الکٹریسٹی وغیرہ شعبوں کے خرچ کو مناسب تنظیم کرکے کئی گنا اخراجات آر اینڈ ڈی اور اختراعیت کے لیے کرنا ہو گا۔ دلچسپ بات ہے کہ 2018ء کے اطلاعات کے مطابق جنوبی کوریا کی ریسرچ انٹینسٹی (RI) سب سے زیادہ 4.30فیصد ہے اس کے بعد جاپان 3.09 فیصد، امریکہ 2.83فیصد، چین 2.14فیصد، فرانس 2.02فیصد اور ای یو 2.02 فیصد جب کہ بھارت کی درجہ بندی 420 ممالک میں 17ویں مقام پر ہے اور اس کا آر آئی محض 0.65 فیصد ہے۔ بہت سارے جی 20 ممالک کے علاوہ ایسے ممالک بھی جن کا آر آئی تمام ممالک سے زیادہ ہے ان میں غیر جی 20 ملک اسرائیل ہے۔ اسرائیل جس کی آبادی 93 لاکھ ہے اس کا آر آئی پر خرچ 18.6 بلین ڈالر ہے جب کہ اس کا آر آئی پانچ فیصد ہے۔ اس لیے اسرائیل کو اختراعیت کا ملک کہا جاتا ہے اور اختراعیت ہی اسرائیل کی معاشی نمو کی اصل ہے۔ اس لیے اب بھارت کو روزگار میں اضافہ سے نہ صرف ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کرنا ہوگا بلکہ دفاع، زراعت اور مینوفیکچرنگ میں اپنی بھرپور ہنر مندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا جس کے لیے اختراعیت کافی اہم ہے۔ اگرچہ بھارت نے ڈیجیٹل دنیا اور انفارمیشن ٹکنالوجی میں رہنمائی کے مقام پر ہے اور دوسرے شعبہ جات میں بھی بہتر رہنمائی کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ ہمارے ملک کی 44فیصد آبادی غیر منظم شعبوں میں کام کررہی ہے جہاں روزگار کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ ملازمین کی تنخواہیں کسی اصول کے تحت نہیں ہیں اس کے علاوہ تقریباً 46فیصد آبادی زراعت پر منحصر ہے مگر معیشت کے کارپورٹائزیشن کی وجہ سے ان کی حالت دن بدن غیر ہو رہی ہے۔ دس فیصد آبادی مختلف طرح کے روزگار ،نوکریوں اورچھوٹے موٹے کاروبار سے کسی طرح کام چلارہی ہے۔ پہلے نوٹ بندی پھر جی ایس ٹی نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور مسلسل فروغ پذیر معاشی عدم مساوات اس پر مستزاد ہے۔ ان حالات میں ملک میں اچھا مستقبل نہ دیکھ کر بڑی تعداد میں نوجوان ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔ دیگر ممالک کی طرف رخ کے رجحان میں اضافہ نہ صرف ملک کے لیے معاشی خسارہ ہے بلکہ ہماری نوجوان قوت اور مستقبل کے لیے بھی یہ اچھی بات نہیں ہے کیوں کہ روزگار نہیں کے برابر ہو جانے سے ان کو یہاں کسی طرح کی امید نظر نہیں آ رہی ہے۔ پہلے غیر ملکوں کا رخ کسانوں کے بچے کرتے تھے جو سکڑتے کھیتوں اور کمائی میں کمی کے مد نظر ملک سے نکل جاتے تھے۔ آج تو تاجر اور یہاں تک کہ نوکری پیشہ لوگوں کے بچے بھی دیگر ممالک کو جانے لگے۔ اس بڑھتے اور مسلسل نقصان کو روکنے کے لے روزگار کی فراہمی ہی واحد ذریعہ ہے۔ یہ کام یا تو سرکاری نوکریوں کے ذریعے یا پھر نجی شعبوں میں روزگار کی فرہمی سے ہوگا۔ ایس ایم ای کے کاروبار کو فنڈ فراہم کرتے ہوئے مناسب ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ محض زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا۔
***

 

***

 ہمارے ملک کی 44فیصد آبادی غیر منظم شعبوں میں کام کررہی ہے جہاں روزگار کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ ملازمین کی تنخواہیں کسی اصول کے تحت نہیں ہیں اس کے علاوہ تقریباً 46فیصد آبادی زراعت پر منحصر ہے مگر معیشت کے کارپورٹائزیشن کی وجہ سے ان کی حالت دن بدن غیر ہو رہی ہے۔ دس فیصد آبادی مختلف طرح کے روزگار ،نوکریوں اورچھوٹے موٹے کاروبار سے کسی طرح کام چلارہی ہے۔ پہلے نوٹ بندی پھر جی ایس ٹی نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور مسلسل فروغ پذیر معاشی عدم مساوات اس پر مستزاد ہے۔ ان حالات میں ملک میں اچھا مستقبل نہ دیکھ کر بڑی تعداد میں نوجوان ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 14 جنوری 2023