ماس میڈیا،عورت اور اخلاق

میڈیا میں’ نسائیت‘ کی صحیح تصویر کشی ۔اخلاقیات کے باب میں انقلاب کا ضامن

محمد انور حسین،اودگیر

عورت کی بحیثیت ماں ،بیوی ، بہن اور بیٹی کے حقیقی کردار سے آگاہی ۔کئی مسائل کا حل
آرٹ اور ادب کے مشہور نقاد اور ناول نگار جان برگر نے1972 کے اپنے ایک مضمون Essay on Art Criticism میں لکھا تھا کہ موجودہ ڈراموں اور سنیما میں ” مرد کردار ادا کرتے ہیں ،عورتیں ظاہر ہوتی ہیں ،مرد اسے دیکھتے ہیں ،عورتیں خود اپنے آپ کو دیکھتی ہیں کہ وہ دیکھی جارہی ہیں ۔‘‘گویا عورت دیکھنے کی چیز ہے تو اسے دکھایا جانا چاہیے ۔جب یہ بات طے ہوگئی کہ عورت کو دکھانا چاہیے تو پھر یہ سفر شروع ہوا کہ عورت کو کس طرح دکھایا جانا چاہیے؟
سائنس اور ٹکنالوجی کی دنیا نے کیمرہ کی ایجاد کی، تصویر اور ویڈیو بننے لگے آہستہ آہستہ فلمیں بننے لگیں ۔پھر زمانہ ترقی کرتا گیا ٹیلی ویژن گھر گھر پہنچ گیا ۔ پھر سفر آگے بڑھا ، موبائل اور انٹرنیٹ نے ماس میڈیا کو جنم دیا اور اب ماس میڈیا اور سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع پوری دنیا میں دھوم مچارہے ہیں ۔
جب جمہوریت کا نعرہ بلند ہوا تو یہ کہا جانے لگا کہ ماس میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے ۔چوتھا ستون مان لینے کے بعد اس کی کچھ ذمہ داریا ں بھی طے ہوئیں لیکن یہ میڈیا اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہے ۔بھارت میں آزادی کے بعد فلمی صنعت کو فروغ ملا ،ادیب ،شعراء اور فن کاروں کو اپنے فن کے جوہر دکھانے کا موقع ملا ۔فلمی صنعت نے ابتدا میں عورت کو ایک ذمہ دار ماں کے کردار میں پیش کیا ۔مدر انڈیا جیسی فلموں نے سخت حالات میں ماں کے جرأت مندانہ کردار کو پیش کیا ۔اس کےبعد کے زمانے میں بھی عورت کو ایک وفادار بیوی کے روپ میں پیش کیا گیا جو ہر حال میں خاندان کی بقاء کے لیے قربانیاں دیتی ہے۔ ’خاندان ‘ جیسی فلموں نے اس بیانیہ کو مضبوطی کے ساتھ پیش کیا ۔
80 کی دہائی آتے آتے عورت کو گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ معاشی اور پیشہ ورانہ زندگی میں حصہ لینے والی ایک آزاد خاتون کی صورت میں پیش کیا گیا۔ اس کے بعد تبدیلیاں بڑی تیزی سے آئیں۔ رومانس،مغربی تہذیب ،آزادخیالی ،عریانیت اورجنسی بے راہ روی کی کہانیاں مقبول ہونے لگیں۔درمیان میں کچھ اچھی فلمیں بھی بنائی گئیں جن میں عورت کے مثبت کردار کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن بیشتر فلموں نے فحاشی ،عریانیت،دھوکہ، فریب،مکاری،جنسی بےراہ روی ،نشہ ڈرگس اورپاپ کلچر کو فروغ دیا اور اس سے آگے عورت کوایک ” آیٹم گرل ” بنادیا گیا۔ابتدائی فلموں میں اشتراکیت اور سوشلسٹ نظریات کی چھاپ نمایاں تھی۔ اس کے علاوہ بہت سی فلمیں بھارت کی تہذیبی روایات پر بھی بنائی گئیں لیکن جلد ہی یہ فلمیں سرمایہ دارانہ استعماریت کے نرغے میں آگئیں۔ وہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے فلموں کا استعمال کرنا شروع کردیا ۔اس کے علاوہ نسائی تحریک کے اثرات بھی نمایاں طور پر دیکھے گئے جس میں مرداور عورت میں مساوات قائم کرنے کی کوشش کی گئی ۔لیکن جلد ہی یہ فلمیں لبرلزم اور ایل جی بی ٹی تحریک کے ہاتھ لگ گئیں جس نے فلموں کے ذریعے اپنے ناپاک تصور کو فروغ دینے کی کوشش کی اوراپنے حق میں نہ صرف ہمدردیاں بٹوریں بلکہ قانونی جواز بھی حاصل کر لیا ۔اس کے علاوہ پچھلے کچھ سالوں میں نسائی تحریک سے آگے زہریلی نسائیت (Toxic Feminism ) کو فروغ دینے میں ان فلموں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
80 کی دہائی آتے آتے ٹیلی ویژن ہر گھر تک پہنچ گیا اور سیریلوں کا ایک نیا تصور سامنے آیا اور ملک کا بیشتر طبقہ اس کی زد میں آگیا ۔نئی کہانیاں لوگوں کو دیکھنے کو ملیں ،رامائین اور مہا بھارت کی کہانیاں بھی بتائی گئیں وہیں ٹیپو سلطان کی کہانی بھی نشر ہوئی اور ٹیلی ویژن ایک فیملی مشغلہ بن گیا ۔لیکن بہت جلد یہ بھی ہاتھ سے چلا گیا ۔ڈایریکٹ ٹو ہوم کی ترقی نے سیکڑوں چینلوں کی گنجایش پیدا کردی ۔نتیجہ سنسر سے آزاد ٹیلی ویژن ہر گھر کی زینت بننے لگا ۔عورتیں بچے ،بوڑھے سب کے ذہنوں پر اس کے غیر معمولی اثرات دیکھنے کو ملے اور یہ بد سے بد تر ہوتا گیا۔
اس کے بعد انٹرنیٹ کی ترقی نے موبائل فون کو ہر ہاتھ کی زینت بنادیا ۔سنسر سے آزاد بے شمار مواد سیلاب کی طرح دید کے لیے دستیاب ہوگیا ۔طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ کووڈ کے دور میں لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ہر خاص وعام اور بچوں کی پوری نسل موبائل اور تیز رفتار و سستے انٹرنیٹ سے جڑ گئی۔
اب سوشل میڈیا کی ایک نئی دنیا متعارف ہوئی اور تیزی سے لوگ اس سے جڑنے لگے ۔اس کی اثر پذیری کا اندازہ بھی لگانامشکل ہوگیا ۔فلم ،ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کے اس سیلاب میں اپنے آپ کو بچانا ناممکن ہوتا جا رہاہے ۔
ان ساری تبدیلیوں کے کچھ مثبت و منفی اثرات بھی سامنے آئے ہیں جو اس طرح ہیں ۔ہم پہلے اس کے کچھ مثبت اثرات کا جائزہ لیں گے :
1۔ادیب ،شعراء اور فن کاروں کو اپنے ہنر کو پیش کرنے کی آزادی ملی۔
2۔معلومات کا ایک غیر معمولی خزانہ جو عام لوگوں کی پہنچ سے دور تھا اب فنگر ٹپس پر دستیاب ہوگیا ۔
3_ ہر عام وخاص کو اپنے خیالات پیش کرنے کی مکمل آزادی مل گئی ۔
4_ ہر خاص و عام کو ان ذرائع کا استعمال کرکے تجارت کرنےکے مواقع دستیاب ہوگئے ۔
لیکن مثبت اثرات سے زیادہ اس ماس میڈیا نے، جس میں سوشل میڈیا بھی شامل ہے منفی اثرات ڈالے ہیں جو اس طرح ہے:
1۔ملک میں نفرت کو پھیلانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے جس نے خاص طور پر مسلمانوں اور اسلام سے متعلق نفرت میں اضافہ کیا ہے ۔
2_ دوسرا منفی اثر عورت کے کردار کو بدترین شکل میں پیش کیا ہے ۔فحاشی ،بے راہ روی کی حدوں کو پار کیا گیا ۔عورت کو لذت کے حصول کا ذریعہ بنادیا گیا اس کو سرمایہ دارانہ تجارت کا ایک آئٹم بنادیا گیا جو ہر وقت گویا فروخت ہونے کے لیے تیار ہے ۔
3 ۔اخلاق کردار ،سماجی قدریں اور خاندانی نظام کی پوری عمارت کو منہدم کردیا گیا ۔
4_ آزادی اور حقوق کے نام پرغیر معیاری معیارات طے کیے جو پوری نسل کو ذہنی ،فکری اور جسمانی مریض بنانے میں اپنا رول ادا کر رہے ہیں ۔
اخلاقی قدریں کسی بھی سماج اور معاشرہ کی بنیاد ہوتی ہیں۔اخلاقی قدروں کے بغیر ایک ملک یا سماج معاشی اور مادی ترقی تو کر سکتا ہے لیکن اس قوم کی اخلاقی ترقی ممکن نہیں ۔
مغربی مفکرین نے اخلاقی قدروں کا تصور تو دیا لیکن مغرب وہ ساری قدریں محض استعماری مفادات کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہوئی ہیں اور سماج اعلیٰ قدروں سے محروم ہوگیا ہے ۔
مغربی فکر اور اسلامی فکر کے درمیان ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ مغرب قدروں کو انسان کی خواہشات سے جوڑتا ہے اس کی وکالت یہ ہے کہ انسان خواہشات کا مجموعہ ہے اور اسے اس کی مرضی کے مطابق پوری کرنے کی آزادی دی جائے اور آزادی سے اپنی خواہش کو پورا کرنا ہی اصل مقصد ہے اور اس کی پذیرائی ہونی چاہیے ۔وہ اس بنیادی مسئلہ سے صرف نظر کرتا نظر آتا ہے کہ انسان اپنی خواہشات کی تکمیل اپنی مرضی سے پوری کرنے کے نتیجہ میں دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے اوردوسروں کے حقوق سلب ہوتے ہیں ۔مثال کے طور پر ناجائز طریقے سے جنسی خواہشات کا پورا کرنا بیوی کی حق تلفی ہے اور خاندانی نظام کا بکھراؤ بچوں کی حق تلفی ہے ۔اپنے آپ کو حقوق انسانی کا چمپئین بتانے والا یہ مغرب، اجتماعی اور سماجی اقدار کی پروا سے گزر کر بے نیاز ہوتا گیا جس کے نتیجہ میں نہ صرف فرد بےراہ روی کا شکار ہوتا گیا بلکہ سماج بھی اقدار سے خالی ہوگیا۔ جبکہ اخلاقیات کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر بالکل واضح ہے وہ انفرادی خواہشات کا بھرپور احترام کرتا ہے اور ساتھ ہی اجتماعی مصالح کا بھی پورا خیال رکھتا ہے ۔ایسی کسی قدر کی پذیرائی اسلام نہیں کرتا جو انفرادی خواہش کو پورا کرنے کی اجازت تو دیتا ہے لیکن اجتماعی مصالح کی قربانی ہرگز نہیں ۔نیز خواہشات اور حقوق کو رب کائنات کی مرضی کے تابع کرتا ہے ۔اس تصور کے موہوم ہونے کے نتیجہ میں اخلاقی قدروں کا زوال ہوتا گیا ۔
تدارک کے طریقے
ماس میڈیا کی ذمہ داری :
ماس میڈیا جمہوری طرز زندگی کا چوتھا ستون ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں اخلاقی اقدار کی بازیابی کی کوشش کرے ۔ ماس میڈیا سے بچنا اب مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ اوسطاً بھارت کا ہر شہری روزانہ چار گھنٹے سے زیادہ اسکرین کے سامنے گزارتاہے ۔ یہی ماس میڈیا اقدار کی گراوٹ کا ذمہ دار ہے ۔ اخلاقی گراوٹ کو پروان چڑھانے میں ماس میڈیا نے عورت کا استعمال کیا ہے ۔
اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے عورت کو اس کے مقام سے گرادیا گیا ۔عورت کے کردار کی بازیابی کے بغیر ماس میڈیا کے بہتر ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔جبکہ حکومتیں اس سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔اسی لیےاس کی تباہ کاریاں کھل کر سامنے آنے کے باوجود حکومت سخت قوانین بنانے میں ناکام ہے ۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف قوانین بنائے بلکہ سول سوسایٹیوں،تعلیمی اداروں،مختلف آرگنائزیشنس اور این جی اوز کے ساتھ مل کر سماجی اقدار کے بارے میں شعور پیدا کرے اور اس کے فروغ کے لیے ماحول ساز گار کرے ۔
ہماری ذمہ داری:
یاد رہے کہ نوجوان نسل کو اس کی تباہ کاریوں سے بچانا ۔ ماس میڈیا کے مثبت استعمال کا شعور پیدا کرنا ۔اچھے برے کی تمیز اور اقدار سے واقف کروانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔
خدا کا خوف آخرت کی جوابدہی کا احساس ،مقصد زندگی کا شعور ہی انہیں اس سیلاب بدتمیزی سے بچا سکتا ہے ۔بحیثیت مسلم ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم نہ صرف اپنے آپ کو اس آگ سے بچائیں بلکہ پورے ملک کو اس سے بچانے کی فکر کریں ۔
ماس میڈیا میں عورت کی جو تصویر نمایاں ہورہی ہے وہ آہستہ آہستہ نوجوان لڑکیوں کے لیے رول ماڈل بنتی جا رہی ہیں ۔اس ماس میڈیا نے اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے اشتہارات کا سہارا لیا اور اپنے پروڈکٹس سے متاثر کرنے لیے عورت کا استعمال کیا اور مڈل کلاس اور لوور کلاس کی عورتوں میں صارفیت کا مزاج پروان چڑھایا ۔یہ میڈیا اور اشتہارات کی دنیا عورت کے سہارے لوگوں کے زندگی سے متعلق تصورات ،ان کے تہذیبی و اخلاقی معیارات ،فطری جذبات ،مذہبی جذبات یہاں تک کہ ان احساس کو بھی متاثر کررہی ہے ۔
نوجوان نسل کو بچانے کے لیے صارفیت کے نقصانات سے آگاہ کرنا ہوگا صرف ماتم سے کام نہیں چلے گا۔ اس جدید میڈیا اور انٹرنیٹ کی دنیا نے جہاں ہزاروں مسائل اور مشکلات پیدا کردی ہیں وہیں مواقع کی ایک بے مثال دنیا بھی پیدا کردی ہے ۔اب ہمارے شعرا ،ادیب ڈرامہ نگار ،صحافی اور فنکاروں کو ایک صحت مند ڈسکورس تیار کرنا پڑے گا ۔ہماری کہانیوں ،ڈراموں اور فلموں میں عورت کے پاکیزہ کردار کو نمایاں کرنا ہوگا ۔ نام نہاد آزادی اور نسائیت کے نام پر عورت کے استحصال سے عورتوں کو آگاہ کرنا ہوگا ۔
عورت کا سب سے مضبوط کردار ماں کا کردار ہے ۔اسلام نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت کا تصور دیا ہے ۔اس کی بازیافت ضروری ہے ۔دوسرا کردار بیوی کا کردار ہے۔ شوہر کے ساتھ محبت ،وفاداری اورپاکیزگی کے کردار سے خاندانی نظام کو مضبوطی مل سکتی ہے ۔اس کے علاوہ بیٹی اور بہن کے مثبت کرداروں کا اظہار اور بیان ضروری ہے ۔اب نئے ڈرامے ،نئے ناول ،نئی کہانیاں ،نئی شاعری اور سوشل میڈیا پر نئے اور صحتمند مواد کی تیاری کے لیے زبردست کوشش کرنی پڑے گی ۔
یہ حقیقت ہے کہ عورت ہی کے حسن سے کائنات کا حسن ہے ۔ اگر عورت کے کردار کو اعلیٰ انسانی اور اسلامی قدروں کے ساتھ پیش کیا جائے تو یہی ماس میڈیا سماجی اخلاق کی بقاء اور اقدار کے قیام میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ۔ اس کام کے لیے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی آگے آنا پڑے گا ۔
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
***

 

***

 عورت کا سب سے مضبوط کردار ماں کا کردار ہے ۔اسلام نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت کا تصور دیا ہے ۔اس کی بازیافت ضروری ہے ۔دوسرا کردار بیوی کا کردار ہے۔ شوہر کے ساتھ محبت ،وفاداری اورپاکیزگی کے کردار سے خاندانی نظام کو مضبوطی مل سکتی ہے ۔اس کے علاوہ بیٹی اور بہن کے مثبت کرداروں کا اظہار اور بیان ضروری ہے ۔اب نئے ڈرامے ،نئے ناول ،نئی کہانیاں ،نئی شاعری اور سوشل میڈیا پر نئے اور صحتمند مواد کی تیاری کے لیے زبردست کوشش کرنی پڑے گی ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024