![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2025/02/20250209-12.jpg)
معاون تولیدی ٹیکنالوجی کا بے جا استعمال سماج کے لیے نقصان دہ: ماہرین
آئی وی ایف اور سروگیسی تجارت بن چکی ہے۔تدارک کے لیے سخت ضابطے ضروری
حیدرآباد۔ (دعوت نیوز ڈیسک)
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد میں ’’خواتین اور مادریت پر معاون تولیدی تکنیکوں کے اثرات‘‘ کے موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی، جس کا اہتمام شعبۂ تعلیمِ نسواں، مانو اور مرکز برائے مطالعہ و تحقیق (نئی دہلی) کے اشتراک سے کیا گیا۔ اس کانفرنس میں ملائشیا، برطانیہ اور ہندوستان کے ممتاز ماہرین نے شرکت کی اور معاون تولیدی تکنیکوں (ART) کے سماجی، اخلاقی اور قانونی اثرات پر تفصیلی اظہارِ خیال کیا۔ ماہرین نے خاص طور پر سروگیسی (متبادل ماں بننے) آئی وی ایف (IVF) اور جینیاتی مواد کو منجمد کرنے جیسے امور پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان تکنیکوں کا غیر ضروری استعمال ایک سنجیدہ مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
اس کانفرنس میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، ملائشیا کے ڈاکٹر سید محمد محسن، انسٹیٹیوٹ اسلام حداری (یو کے ایم، برطانیہ) کی ڈاکٹر روحیضہ روکس اور ڈاکٹر فریضہ شمس نے بین الاقوامی مہمانانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اور کلیدی خطابات پیش کیے۔
اسی طرح حیدرآباد کے ممتاز ماہرین میں پروفیسر آنندیتا مجمدار (آئی آئی ٹی، حیدرآباد) اور پروفیسر شیلا سورینارائنا (حیدرآباد مرکزی یونیورسٹی) شامل تھیں، جنہوں نے ہندوستان میں قانون سازی کے تناظر میں معاون تولیدی تکنیکوں کے بیانیوں (ART Discourses) کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
مرکز برائے مطالعہ و تحقیق، نئی دہلی کی جانب سے ڈاکٹر محمد رضوان (ڈائریکٹر سی ایس آر) اور ڈاکٹر عائشہ علوی نے خطابات کیے، جبکہ کیرالا، کرناٹک اور دہلی کے محققین نے اپنے تحقیقی مقالات پیش کیے۔
کانفرنس میں کل بارہ تحقیقی مقالات اور چھ کلیدی خطابات پیش کیے گئے، جن میں معاون تولیدی تکنیکوں کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔
افتتاحی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے پروفیسر آنندیتا مجمدار نے کہا:”معاون تولیدی تکنیکوں کا غیر ضروری استعمال معاشرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ آئی وی ایف کا آغاز بے اولاد جوڑوں کو اولاد کی خوشی دینے کے لیے ہوا تھا، مگر اب یہ طریقہ ایک بڑے کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ انسانوں کی تولیدی صلاحیت کو ایک تجارتی مصنوع میں بدل دیا گیا ہے، جہاں لوگ اپنی مرضی سے بچوں کی پیدائش کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔”ڈاکٹر عائشہ علوی (مرکز برائے مطالعہ و تحقیق، نئی دہلی) نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا:
"سروگیسی کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں کے لیے ماں کی شناخت ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ کئی مواقع پر بچے کو جنم دینے والی ماؤں کو ان سے ملنے تک کی اجازت نہیں دی جاتی۔ معاون تولیدی تکنیکیں، بالخصوص سروگیسی، جدید تجارتی منڈی کا ایک بڑا ذریعہ بن چکی ہیں۔ ان کے بے جا استعمال کو روکنے کے لیے اخلاقی اور مذہبی اصولوں پر عمل درآمد ضروری ہے۔”
اس کانفرنس میں درج ذیل نکات پر اتفاق کیا گیا:
• معاون تولیدی تکنیکوں، خصوصاً سروگیسی، آئی وی ایف اور جینیاتی مواد کو منجمد کرنے کے عمل کو نہایت احتیاط سے استعمال کیا جانا چاہیے۔
• یہ تکنیکیں طبی مسائل سے دوچار افراد کے لیے ایک انقلابی تبدیلی ثابت ہو سکتی ہیں، مگر ان کا غلط استعمال ایک سنجیدہ مسئلہ بن سکتا ہے۔
• ماں نہ بننے کے رجحان کو فیشن کے طور پر اپنانا سماجی اور اخلاقی انحطاط کا سبب بن سکتا ہے۔
• سروگیسی کے لیے اخلاقی، سماجی اور قانونی اصولوں کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔
• پالیسی ساز اداروں اور متعلقہ شعبوں پر زور دیا گیا کہ وہ معاون تولیدی تکنیکوں کے استعمال کے لیے واضح رہنما اصول مرتب کریں۔
• ہندوستان میں ان تکنیکوں کے لیے یکساں قانونی ڈھانچے پر غور و خوض کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
کانفرنس کی اختتامی نشست کی صدارت اسکول برائے سماجی علوم و فنون، مانو کی ڈین پروفیسر شاہدہ نے کی، جبکہ پروفیسر آمنہ تحسین نے استقبالیہ خطاب پیش کیا۔ شعبۂ تعلیمِ نسواں کی صدر ڈاکٹر شبانہ کیسر نے بطور منتظمہ اجلاس کی کارروائی انجام دی۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 فروری تا 15 فروری 2025