لوک سبھاانتخابات کے نتائج: ایک تجزیہ

بہار میں ووٹ، سیٹوں میں تبدیل کیوں نہیں ہوئے؟

رضوان احمد اصلاحی،پٹنہ

عوام نے فرقہ پرستی کو مسترد کردیا۔ کاسٹ کی سیاست کامیاب
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا سہرا بھی اسی کے سرباندھا جاتا ہے۔اس جمہوری نظام کی ایک خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں ہر پانچ سال میں عوام کے مشورے اور ان کی رائے سے قومی سطح پر اور اسی طرح ریاستی سطح پر بھی سرکار بنتی ہے۔ حسب روایت امسال 2024 میں آئندہ پانچ سال کے لیے قومی سطح پر نئی سرکار تشکیل دینے کے لیے ایک طویل پارلیمانی انتخابات ہوئے اور 4 جون 2024 کو نتائج بھی آگئے۔ بنیادی طور پر دو بلاک عملی میدان میں سرگرم تھے، ایک نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (NDA) اور دوسرا انڈیا بلاک۔ دونوں محاظوں نے سردھڑ کی بازی لگا دی، عوام سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے جس حد تک جاسکتے تھے اس حد تک پہنچنے کی انتھک کوشش کی۔ اس کوشش میں بعض لوگوں اور بعض پارٹیوں نے تو ساری حدیں پار کر دیں۔ الزام، بہتان کے علاوہ عام انسانی و اخلاقی قدروں کو بھی پامال کرنے سے گریز نہیں کیا۔ عزت نفس کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ بہرحال 4 جون کو ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی اور دیر رات تک نتائج کا اعلان ہوگیا۔ آزادی کے پچھتر سال میں شاید ہی کسی الیکشن کا ایسا رزلٹ آیا ہو جس نے دونوں بلاک کے لیڈران اور ووٹرس کو خوش کر دیا۔ NDA بھی خوش اور INDIA بھی خوش۔ برسر اقتدار پارٹی بھی جشن منا رہی ہے اور حزب اختلاف بھی مبارکبادیوں کا تبادلہ کر رہا ہے۔
بعض ریاستوں میں NDA کو توقع سے زیادہ کامیابی ملی اور بعض ریاستوں میں توقع سے بہت کم، اسی طرح INDIA بلاک کو کہیں امید سے زیادہ تو کہیں امید سے بہت کم کامیابی ملی ہے۔ انہی ریاستوں میں سے ایک ریاست بہار ہے جہاں انڈیا الائنس کو توقع سے بہت کم کامیابی ملی ہے۔ یہ بات کہی جا رہی ہے کہ بہار نے انڈیا الائنس کو مایوس کیا ہے، لہذا اس کا تجزیہ ہونا چاہیے کہ بہار میں ایسا کیوں ہوا۔ متوقع کامیابی کیوں نہیں مل سکی، پانی کہاں مر گیا۔
بہار میں لوک سبھاکی کل 40 سیٹیں ہیں جن میں NDA اتحادی کی جے ڈی یو اور بی جے پی کو 12-12 سیٹیں آئی ہیں جبکہ لوک جن شکتی پارٹی پانچ سیٹ پر الیکشن لڑرہی تھی حسن اتفاق سے پانچوں سیٹ پر جیت حاصل ہوئی، جب کہ ہندوستانی عوامی مورچہ (HAM) ایک سیٹ پر کامیاب ہوئی ہے۔ اس طرح NDA کو کل 30 سیٹیں آئی ہیں جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ NDA بلاک کے لیڈران اور کارکنان تو اس کو فتح مبین سمجھ رہے ہیں جب کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے مقابلے میں یہ کامیابی نہیں، بلکہ 9 سیٹوں کا خسارہ ہے۔ جنتا دل یو کو کشن گنج، کٹیہار، پورنیہ اور جہان آباد میں چار سیٹوں پر شکست ہوئی ہے، بی جے پی کو پاٹلی پترا، آرہ بکسر اور نگ آباد اور سہسرام میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس کے برعکس INDIA الائنس کی سیٹیں توقع سے کم آئی ہیں، راشٹریہ جنتا دل کو صرف 4 سیٹیں ملی ہیں اور کانگریس کو صرف تین پر اکتفا کرنا پڑا جب کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو 2 سیٹیں مل سکی ہیں۔ آزاد امیدوار کی حیثیت سے پپو یادو نے راجد امیدوار بیما بھارتی اور جدیو امیدوار سنتوش کمار کو شکست دے کر بہار میں اکلوتے آزاد امیدوار کے طور پر تاریخی جیت درج کرائی ہے۔
رہی بات مسلم نمائندگی کی تو کانگریس نے دو مسلم امیدوار میدان میں اتارے تھے، حسن اتفاق دونوں نے کامیابی حاصل کی، طارق انور صاحب نے کٹیہار میں JDU کے دلال چند گوسوامی کو ہرایا اور ڈاکٹر محمد جاوید نے کشن گنج میں JDU کے ماسٹر مجاہد کو شکست دی۔ عجب اتفاق ہے کہ آر جے ڈی نے بھی دو مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا تھا سوئے اتفاق دونوں مقابلے میں شکست کھا گئے، ارریہ سے سیمانچل گاندھی کہلانے والے معروف سیاست داں مرحوم تسلیم الدین صاحب کے حقیقی وسیاسی وارث شاہنوار عالم کو ٹکٹ ملا تھا لیکن شاہنواز صاحب 20094 ووٹ سے پیچھے رہ گئے اور BJP کے پردیپ کمار سنگھ نے ان کو شکست دی۔ جب کہ دوسرے امیدوار منجھے ہوئے سیاست داں علی اشرف فاطمی صاحب مدھوبنی لوک سبھا سے الیکشن لڑ رہے تھے جن کو BJP کے اشوک کمار یادو نے 151945 ووٹوں سے ہرایا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی نے 20.52 فیصد ووٹ لاکر کل 12سیٹیں حاصل کی ہیں جب کہ جدیو اس سے بھی کم 18.52فیصد ووٹ لا کر 12 سیٹیں حاصل کی ہیں۔ جب کہ راجد کو سب سے زیادہ 22.14 فیصد ووٹ ملا ہے لیکن سیٹ صرف 4 آئی ہے، اس سے بھی زیادہ قابل توجہ یہ ہے کہ لوجپا نے صرف 6.47 فیصد ووٹ لیے ہیں اور اس کو پانچ سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ دیکھنے کی اصل بات یہی ہے کہ رائے دہندگان نے آخر کس کو کتنے ووٹ دیے، اس طرح مینڈیٹ کس کے حق میں جاتا ہے۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ اٹھارہ اور بیس فیصد ووٹ لا کر بی جے پی اور جدیو کو بارہ بارہ سیٹیں آئی ہیں تو راجد کو بائیس فیصد ووٹ ملنے پر بارہ یا تیرہ سیٹیں کیوں نہیں آئیں؟ اسی طرح لوجپا کو چھ فیصد ووٹ ملنے پر پانچ سیٹ آئی ہے تو کانگریس کو نو فیصد ووٹ آنے پر پانچ یا چھ سیٹیں کیوں نہیں آئیں۔ اگر ووٹ سیٹ میں تبدیل ہوتے تو سترہ اٹھارہ سیٹیں تو کسی طرح انڈیا الائنس کے حق میں آتیں۔ ایسا کیوں نہیں ہوا؟ اس کے ذمہ دار کون ہیں ووٹر یا لیڈر؟ اسے فنی نقص کہا جائے گا یا سوشل انجنیرنگ کی کمی۔
بہار کی سر زمین فرقہ پرستی کے لیے کبھی بھی موزوں نہیں رہی ہے لہٰذا یہاں فرقہ پرستی اور فرقہ پرست پارٹیوں کو ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے البتہ کاسٹ ازم کی جڑیں کافی مضبوط ہیں۔ کاسٹ کی سیاست یہاں کامیاب ہی نہیں ہمیشہ ثمر بار ہوتی رہی ہے۔ نتیش کمار کا بار بار پلٹنا بھی اسی کاسٹ ازم کی تلاش وجستجو کا حصہ ہے، اپنے اسی سیاسی مفاد کے تحت آئندہ بھی پلٹ سکتے ہیں، یہ کوئی انہونی بات نہیں۔خود ان کے حریف بھی بار بار اس کا اعادہ کر رہے ہیں ‘۔”نہیں جائیں گے”،”نہیں شامل کریں گے” ان جملوں کا حشر عوام دیکھ چکی ہے۔ مرجائیں گے، مٹی میں مل جائیں گے لیکن ان کے ساتھ جانا قبول نہیں ہے۔ ہمیشہ ہمیش کے لیے ان کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ جب اتنے بڑے بڑے جملے رکاوٹ نہیں بن سکے تو اور کون سی بات ہے جو الٹ پلٹ کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ یقینا عوام اس الٹ پلٹ کو عیب سمجھتی ہے لیکن وہ اس کو حکمت عملی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ بی جے پی کو اب تک بہار میں کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی۔ اس کی بھی وجہ کاسٹ ازم ہے۔ چونکہ بی جے پی فرقہ پرستی کی سیاست کرتی ہے اس سے دوسری ریاستوں میں فائدہ ہوتا ہے لیکن بہار میں اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ انتخابی مہم کے لیے وزیر اعظم نے بہار میں کل 9 دورے کیے جب کہ وزیر داخلہ نے 8 دورے کیے۔ مسلمانوں کے تعلق سے کمیونل بیانات دیے لیکن اس کا ووٹروں پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ بی جے پی اپنی حلیف پارٹیوں کے سہارے ہی کچھ کامیابی حاصل کر پاتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بہار میں بی جے پی اپنی حلیف پارٹیوں بالخصوص جدیو کے کندھے پر سوار ہو کر ہی یہاں تک پہنچی ہے۔ بہار میں کمیونل سیاست کی کچھ بھی گنجائش ہوتی تو کشن گنج میں ایک سیٹ AIMIM کی نکل ہی جاتی۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ انڈیا بلاک کو ووٹ زیادہ آئے ہیں لہٰذا ووٹروں نے اپنی ذمہ داری ادا کی ہے۔ سیول سوسائٹی کی کوششیں کامیاب ہوئی ہیں۔ ووٹ سیٹ میں تبدیل نہیں ہوسکے، یہ ایک فنی مسئلہ ہے جس کی ذمہ داری پارٹی لیڈروں کے سر جاتی ہے۔ سوشل انجینئرنگ کی ذمہ داری بھی پارٹی قائدین کی تھی نہ کہ عوام یا سیول سوسائٹی کی؟ انڈیا الائنس کے خیمہ میں کوئی دلت لیڈر نظر نہیں آیا، جب کہ NDA الائنس میں مانجھی اور چراغ پاسوان دو بڑے چہرے شامل تھے۔ اگرچہ تیجسوی نے MY (مسلم یادو) کے ساتھ اس بار راجد کو ”باپ” کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ یعنی بہوجن اگڑا، آدھی آبادی اور غریب لیکن پارٹی میں بہوجن، غریب لیڈرشپ نظر نہیں آئی۔ بلکہ MY سمی کرن کو ثابت کرنے لیے ان کے پاس کوئی نمایاں مسلم چہرہ بھی نہیں تھا۔ AIMIM کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پھوڑا جاتا ہے جو کسی طرح درست نہیں ہے کیوں کہ ارریہ میں تو میم نہیں تھی پھر وہاں کیوں شکست ہوئی؟ پاٹلی پترا میں میم تھی اس کے باوجود وہاں راجد کی جیت ہوئی ہے۔ کشن گنج میں میم کے بینر تلے نمایاں لیڈرشپ ہونے کے باوجود مسلمانوں نے ووٹ نہیں دیے۔
بہرحال اب تو ہار جیت ہوچکی ہے۔ ہار اور جیت کے فیصلے منجانب اللہ ہوتے ہیں۔ انسان کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جو اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے ”اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ نہ چاہے”(مرسلات 30) اس وقت ہندوستانی سماج بالخصوص امت مسلمہ کو حضرت موسی علیہ السلام کی نصیحت یاد رکھنی چاہیے ”موسی نے اپنی قوم سے کہا اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔آخر کامیابی انہی کے لیے ہے جواس سے ڈرتے ہوئے کام کرتے ہیں ”(سورہ اعراف۔128)
کہا جاتا ہے کہ اس الیکشن میں عام شہریوں کا رول غیر معمولی رہا ہے بلکہ سیول سوسائٹی کو اس کا ہیرو قرار دیا گیا۔ اس مرتبہ شرح پولنگ میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی، اس پر بعض بڑے صحافیوں کا تجزیہ آیا کہ اگر مسلمانوں کی دلچسپی نہ ہوتی تو یہ تناسب اور کم ہوتا۔ اب تو یہ بھی تجزیہ سامنے آرہا ہے کہ مسلم ووٹوں نے پھر سے اپنی طاقت منوائی ہے۔ جمہوریت میں ووٹ ڈال کر مطمئن نہیں رہنا چاہیے بلکہ جمہوریت میں عوام کو کرکٹ کھلاڑیوں کی طرح نہیں فٹبال کھلاڑیوں کی طرح سب کو یکساں اور ہر آن متحرک، بیدار رہنے کی ضرورت ہے، تبھی سب کو حقوق بھی ملتے ہیں، حکومت بھی اور حکم راں بھی اپنی اپنی ذمہ داری کماحقہ ادا کرتے ہیں۔
***

 

***

 اس الیکشن میں عام شہریوں کا رول غیر معمولی رہا ہے بلکہ سیول سوسائٹی کو اس کا ہیرو قرار دیا گیا۔ اس مرتبہ شرح پولنگ میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی، اس پر بعض بڑے صحافیوں کا تجزیہ آیا کہ اگر مسلمانوں کی دلچسپی نہ ہوتی تو یہ تناسب اور کم ہوتا۔ اب تو یہ بھی تجزیہ سامنے آرہا ہے کہ مسلم ووٹوں نے پھر سے اپنی طاقت منوائی ہے۔ جمہوریت میں ووٹ ڈال کر مطمئن نہیں رہنا چاہیے بلکہ جمہوریت میں عوام کو کرکٹ کھلاڑیوں کی طرح نہیں فٹبال کھلاڑیوں کی طرح سب کو یکساں اور ہر آن متحرک، بیدار رہنے کی ضرورت ہے، تبھی سب کو حقوق بھی ملتے ہیں، حکومت بھی اور حکم راں بھی اپنی اپنی ذمہ داری کماحقہ ادا کرتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جون تا 06 جولائی 2024