!!لوک سبھا الیکشن2024اور ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں کے وعدے

اگلے پانچ سال تک کے لئے حکومت کو پیش کردہ منشور یاد دلاتے رہنا ہوگا

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

وعدہ برائے وعدہ نہ رہے بلکہ زمینی سطح پر نتائج بھی سامنے آئیں
بتاریخ 15؍ مارچ 2024 کو ہندوستان کے اخبارات اور میڈیا چینلز کی ایک اہم خبر یہ تھی کہ کل یعنی 16؍ مارچ 2024 الیکشن کمیشن آف انڈیا اٹھارویں لوک سبھا انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرے گا۔ اس خبر کے آتے ہی جو لوگ اس کنفیوژن میں تھے یا ان کو رکھا گیا تھا کہ آیا اٹھارواں لوک سبھا الیکشن ہندوستان میں ہوگا بھی یا نہیں، ان کا کنفیوژن دور تو ہوگیا اس کے باوجود ہندوستانی عوام بڑے پیمانے پر ان بیانات اور قیاس آرائیوں میں الجھے رہے جو دوران الیکشن ہندوستان کی ملک گیر اور ریاستی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کی جانب سے دوران انتخابی ریلیوں میں بیان کی گئیں۔یہاں تک کہ اب جبکہ لوک سبھا الیکشن کے نتائج آچکے ہیں اور یہ واضح ہوگیا ہے کہ اونٹ کس کرونٹ بیٹھے گا، اب بھی مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ اس کے باوجود یہ واضح ہوگیا ہے کہ حکومت کس اتحاد کی بن رہی ہے ۔یہاں ایک اتحاد سے وابستہ لوگ بظاہر خوش نظر آرہے ہیں تو دوسرے اتحاد کی حکومت بننے کی خواہش رکھنے والے غمگین ہیں۔لیکن معاملہ اب حکومت بننے یا نہ بننے کا نہیں بلکہ فاتح اتحاد کے کیے گئے وعدوں کی روشنی میں تبدیلی لانے کا ہے۔لہذا خوشی وغم اور مایوسی سے نجات پاتے ہوئے اہل ملک کو چاہیے کہ مستقل کی جانب متوجہ ہوں اور حکومت سے اپنے تقاضے پیش کرتے ہوئے اس کو اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ وعدوں کے نفاذ کو عمل میں لائیں، جن کا تذکرہ انہوں نے اپنے انتخابی منشور اور انتخابی ریلیوں میں کیا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں دو بڑے اتحاد یعنی این ڈی اے اور انڈیا اتحاد کی ان بڑی سیاسی پارٹیوں کے انتخابی منشور پر نظر ڈالنی چاہیے،جس کی روشنی میں انہوں نے اپنے انتخابی منشور کے تحت ملک اور اہل ملک کی ترقی کی بات کی ہے۔دوسرے الفاظ میں خوشی یا مایوسی کے نتیجہ میں انتخابی منشور میں کیے گئے وعدوں کو بھولنے کی ضرورت نہیں جو کہ عموماً ہندوستانی سیاست میں ووٹ کا حق ادا کرنے کے بعد عوام پس پشت ڈال دیتے ہیں اور اِس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں ملک میں وقتاً فوقتاً ہونے والے انتخابات میں عوام کو غیر ضروری باتوں میں الجھائے رکھتے ہیں۔ اور عوام کو وہ حقوق اور حصہ داری حاصل نہیں ہوتی جو ان کا حق ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک مرتبہ پھر سے بی جے پی اور کانگریس کے لوک سبھا انتخابی منشور میں درج وعدوں کو اجاگر کیا جائے۔
بی جے پی کا انتخابی منشور:
بی جے پی، این ڈی اے اتحاد کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے جس نے گزشتہ دس سال ہندوستان پر حکومت کی ہے۔اس حوالے سے ضروری ہے کہ ایک نظر ان کے انتخابی منشور 2019 اور 2024 پر ڈالی جائے اور اس بات کا اندازہ لگایا جائے کہ انہوں نے ملک اور اہل ملک کی ترقی و بہبود کے لیے کون کون سے وعدے کیے تھے، چونکہ وہ حکومت کرتے رہے اس لحاظ سے یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ کیے گئے وعدوں کو انہوں نے کس حد تک پورا کیا؟ 2024 کے انتخابی منشور میں ایکشن ٹیکن رپورٹ یعنی عمل درآمد کے تعلق سے کیا دعوے کیے گئے اور ساتھ ہی 2024 کے انتخابی منشور کے اہم نکات’مودی کی گارنٹی ‘کے نام سے کیا ہیں؟ تو سب سے پہلے 2014 اور 2019 کے انتخابی منشور میں جو وعدے کیے گئے تھے ان میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ (i) ہر سال دو کروڑ نوکریاں نوجوانوں کو فراہم کی جائیں گی۔ (ii) 8 فروری 2016 کو وزیر اعظم نے وعدہ کیا تھا کہ وہ 2022 تک کسانوں کی آمدنی کو دوگنی کر دیں گے۔(iii) بلیک منی واپس لا کر ہر ہندوستانی کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپے جمع کرائے جائیں گے۔ (iv) مودی وزیر اعظم بنتے ہیں تو چین کو ‘لال آنکھیں’ دکھائیں گے۔(v) مودی نے دعویٰ کیا کہ جب تک وہ اقتدار میں ہیں کوئی بھی ریزرویشن کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ (vi) ‘میک ان انڈیا’ سے 2020 تک ملک میں 10 کروڑ نوکریاں پیدا ہوں گی اور ملک کی جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کا حصہ 25 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ (vii) ‘نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا‘ کی پالیسی پر عمل پیرا رہوں گا۔ (viii) ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘۔(ix) سال 2014 سے مسلسل یہ وعدہ کیا جارہا ہے کہ 2019 تک دریائے گنگا کو صاف کر دیں گے۔ اپنے 2014 کے منشور میں بی جے پی نے ‘صفائی، پاکیزگی اور دریائے گنگا کے بلا تعطل بہاؤ کے لیے پرعزم’ رہنے کا وعدہ کیا تھا اور (x) جون 2014 میں وعدہ کیا تھا کہ سو اسمارٹ شہر بنائیں گے۔ یہ وہ اہم ترین وعدے تھے جو ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود سے تعلق رکھتے تھے لیکن اپوزیشن پارٹیوں اور سرکردہ حضرات نے جو ان وعدوں پر مبنی جائزے پیش کیے اور خود ملک کے عوام کی جو فی الوقت حالت ہے اس سے واضح ہو رہا ہے کہ وعدے برائے وعدے ہی تھے، وفا نہیں کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ 15 لاکھ روپے جو عوام کے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانفسرکرنے اور ملک کی’ کالی دولت‘ کو لانے کی بات کی تھی اس کو جملے میں تبدیل کر دیا گیا۔ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کے تحت ملک میں بیٹوں کے ساتھ ناروا سلوک اور بدترین اخلاقی مظاہرے وقتاً فوقتاً سامنے آئے اور ملک کی بیٹیوں کی عفت و عصمت تارتار ہوئی۔ دریائے گنگا کی صفائی کا وعدہ بھی پورا نہیں ہوا۔ دریائے گنگا فی الوقت تاریخی طور پر گندی ہے ہر روز اس میں 600 کروڑ لیٹر سیوریج کا گندہ پانی گرتا ہے۔ اتر پردیش میں 900 اَن ٹریٹڈ نالے دریائے گنگا میں ملتے ہیں۔ ملک کے 71 فیصد آلودگی کی نگرانی کرنے والے مراکز کا کہنا ہے کہ گنگا کے پانی میں گندگی بے حد خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ یہاں تک کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے بھی کہا کہ ’نمامی گنگے پروجکٹ‘ پر ہزاروں کروڑ کے خرچ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ وہیں ہر سال دس کروڑ نوکریاں پیدا نہیں ہوئیں بلکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ’انیائے کال‘ میں ملک میں بے روزگاری کی شرح 45 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ 2014 کے بعد سے ملک میں بے روزگاروں کی تعداد ایک کروڑ سے بڑھ کر چار کروڑ ہو گئی۔ اس کے باوجود لوک سبھا الیکشن 2024 کے انتخابی منشور ‘سنکلپ پتر’ جسے”مودی کی گارنٹی”کا نام دیا گیا، اس میں سب سے پہلی جو بات بیان کی گئی ہے وہ یہ تھی کہ 2020میں پی ایم غریب کلیان اناج یوجنا کے ذریعے 80 کروڑ شہری مفت راشن حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے معنی کیا ہیں؟ یعنی ملک میں غربت کا اضافہ ہوا ہے اور 80 کروڑ سے زائد شہری معاشی تنگیوں کے نتیجہ میں مجبور ہیں کہ وہ مفت راشن حاصل کریں؟ درحقیقت یہ صورتحال کسی بھی ملک کی بدترین تو ہوسکتی ہے خوش حالی کی عکاس نہیں ہوسکتی ۔اس کے باوجود مودی کی گارنٹی میں بڑے فخر کے ساتھ اس کو بیان کیا گیا ہے۔
نریندر مودی متنازع بیانات اور سنکلپ پتر:
دوسری جانب دوران انتخابات وزیر اعظم نریندر مودی نے ریاست تلنگانہ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جب تک زندہ ہیں، کسی بھی قیمت پر دلتوں، قبائلیوں اور پسماندہ ذاتوں کے لیے انڈین آئین کے تحت دیے جانے والے کوٹے کو مسلمانوں میں تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’کانگریس پارٹی اور اس کے شہزادے (راہل گاندھی) اپنے ووٹ بینک کی سیاست کے لیے پچھلے دروازے سے مسلمانوں کے لیے کوٹہ لا کر پسماندہ طبقات کے حقوق چھین کر انڈین آئین کو پامال کر رہے ہیں۔‘ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’یہ وہ لوگ ہیں جو پارلیمنٹ چلنے نہیں دینا چاہتے، یہ وہ لوگ ہیں جو الیکش کمیشن پر سوال اٹھاتے ہیں اور اب اپنے ووٹ بینک کے لیے آئین کو بدنام کرنے کے لیے نکلے ہیں۔‘وہیں پرینکا گاندھی نے ایک تقریر میں کہا کہ نریندر مودی کہتے ہیں کہ کانگریس عوام کے زیورات-منگل سوتر اور بھینس چُرالے گی۔ یہ باتیں تب ہی کی جاتی ہیں جبکہ آپ کے پاس اپنے دس سالہ کام گنانے کے لیے عوام کے درمیان کچھ نہ ہو۔ ایک موقع پر مودی نے کانگریس پارٹی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر یہ پارٹی اقتدار میں آتی ہے، تو ملک کی دولت ”در اندازوں” اور ”جن کے زیادہ بچے ہیں” ان میں تقسیم کر دی جائے گی۔ کانگریس کے سابق رہنما اور راجیہ سبھا کے رکن کپل سبل نے پی ایم مودی کے ریمارک پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ”میں اپنے ملک کے لیے دکھی ہوں”۔ ترنمول کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ ساکیت گوکھلے نے مودی کے بیان کو مسلم اقلیت کے خلاف ’نفرت انگیز اور تفرقہ انگیز‘ قرار دیا۔ دیگر سیاسی مبصرین نے بھی کہا کہ بظاہر دکھتی ناکامی کا عکس ہے اور لوگوں کو الجھانے اور مسائل سے بھٹکانے کی یہ سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔
دوسری جانب بی جے پی کے 2024 کے انتخابی منشور’ سنکلپ پتر ‘وکست بھارت کے چار مضبوط ستونوں یووا شکتی، ناری شکتی، غریب اور کسان ان سبھی کو بااختیار بنانے کی بات کرتا ہے۔ ساتھ ہی غریبوں کے لیے مفت کھانے کی اسکیم مزید پانچ سال تک جاری رہے گی تاکہ وہ کسی وجہ سے دوبارہ غربت کی دلدل میں نہ پھنس جائیں۔ سنکلپ پتر کی تقریب میں کہا گیا کہ بی جے پی غریبوں، نوجوانوں، کسانوں اور خواتین کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے اور 2047 تک ایک وکست بھارت کی تعمیر کا عہد لے رہی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ اس سنکلپ پتر کو تیار کرنے کے لیے وکست بھارت سنکلپ رتھ یاترا کے دوران موصول ہونے والی تجاویز، مختلف تنظیموں اور افراد سے موصول ہونے والے مشورے اور نمو ایپ اور آن لائن میڈیم کے ذریعے موصول ہونے والی تقریباً 15 لاکھ تجاویز کو یکجا کیا گیا ہے۔ منتخب تجاویز کو یکجا کرکے 24 موضوعات میں درجہ بند کیا گیا۔ ایک بار پھر ان میں سے دس موضوعات کو غریبوں کی فلاح و بہبود اور سماجی ترقی کے زمرے میں رکھا گیا ہے اور 14 موضوعات کو ترقی یافتہ بھارت کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔
انڈین نیشنل کانگریس کا ‘نیائے پتر’:
کانگریس نے لوک سبھا انتخابات کے پیشِ نظر اپنا انتخابی منشور جاری کرتے ہوئے منشور کو’نیائے پتر‘ (انصاف کا کاغذ) کا نام دیا ۔ اس میں خواتین، نوجوانوں، کسانوں، غریبوں و محنت کشوں غرض کہ تمام طبقات کے ساتھ انصاف پر زور دیا گیا ہے۔48 صفحات پر مشتمل ’نیائے پتر‘ تمام طبقات اور علاقوں کے لیے ’نیائے‘ کے 5 ستونوں کو مضبوط بناتا ہے۔ یہ منشور راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ کے دوران ’نیائے‘ کے 5 ستونوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس کی وضاحت کرتا ہے۔ پانچ ستون اس طرح ہیں– ’یووا نیائے’، ’کسان نیائے‘، ’ناری نیائے‘، ’شرمک نیائے‘ اور ’حصے داری نیائے‘۔ ان سبھی ’نیائے‘ میں 5-5 گارنٹیوں کو شامل کیا گیا ہے، یعنی مجموعی طور پر یہ 25 ضمانتیں ہیں اور ان تمام کو انتخابی منشور میں شامل کیا گیا ہے۔ اس انتخابی منشور میں نئے ہندوستان کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے جس میں بظاہر ملک کی ترقی کا بھی خیال رکھا گیا ہے اور عوام کی خوشحالی کا بھی۔اس انتخابی منشور کو اگر طبقاتی لحاظ سے دیکھا جائے کہ کس طبقے کے لیے اس میں کیا ہے تو 7نکات کی شکل میں یہاں باتیں درج کی گئی ہیں۔ (i) ملک گیر معاشی و سماجی صورت حال کی بنیاد پر ذات پر مبنی مردم شماری۔(ii) درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل، دیگر پسماندہ طبقات اور غریب و عام زمرہ کے لیے ریزرویشن پر 50 فیصد کی حد کو ہٹا یا جائے گا۔(iii) تعلیم اور ملازمتوں میں معاشی طور پر کمزور طبقے (ای ڈبلیو ایس) کے لیے دس فیصد ریزرویشن تمام ذاتوں اور برادریوں کے لوگوں کے لیے بغیر کسی امتیاز کے نافذ کیا جائے گا۔ (iv) درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور پسماندہ طبقات کے لیے محفوظ تمام خالی اسامیاں ایک سال کے اندر پُر کی جائیں گی۔ (v) سرکاری اور پبلک سیکٹر کے اداروں میں کنٹریکٹ بھرتی کو ریگولر بھرتی سے بدل دیا جائے گا اور موجودہ کنٹریکٹ ورکرز کو ریگولر کیا جائے گا۔ (vi) جن کے پاس زمین نہیں ہے، انہیں زمین دی جائے گی۔اور (vii) ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے جوڑوں کے درمیان سیول یونین کو تسلیم کرنے کے لیے ایک قانون لایا جائے گا۔ اگر 5 انصاف کے تحت بات کی جائے تو اس میں بہت تفصیل کے ساتھ ان حقوق کی ادائیگی کی بات کی گئی ہے جو نوجوانوں سے متعلق ہیں جیسے ان کی ملازمت کی گارنٹی۔ خواتین کے تعلق سے ہرغریب ہندوستانی خاندان کو غیر مشروط نقد رقم کی منتقلی کے طور پر ہر سال ایک لاکھ روپے فراہم کرنے کے لیے ’مہالکشمی‘ اسکیم اور مرکزی حکومت کی 50 فیصد ملازمتیں 2025 سے خواتین کے لیے مختص کی جائیں گی۔کسانوں کے لیے سوامی ناتھن کمیشن کی سفارش کے مطابق حکومت کی طرف سے اعلان کردہ کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی قانونی گارنٹی ۔تعلیم کے لیے سرکاری اسکولوں میں اوّل سے 12ویں درجہ تک تعلیم کو مفت اور لازمی بنانے کے لیے حق تعلیم (آر ٹی ای) ایکٹ میں ترمیم۔ آئین کے تحفظ کا وعدہ اور ’ون نیشن، ون الیکشن‘ کے تصور کا استرداد۔ ای وی ایم کی کارکردگی اور بیلٹ پیپر کی شفافیت کو یکجا کرنے کے لیے انتخابی قوانین میں ترمیم ۔ ووٹنگ ای وی ایم کے ذریعے ہوگی لیکن ووٹ دہندگان مشین سے تیار کردہ ووٹنگ سلپس کو وی وی پی اے ٹی یونٹ میں رکھ سکیں گے۔ الیکٹرانک ووٹ کی تعداد کو VVPAT پرچی کے ساتھ ملایا جائے گا۔ہندوستان کے کسی بھی حصے میں خوراک اور لباس عاشقی اور شادی نیز ملک کے کسی بھی حصے میں سفر اور رہائش کی ذاتی پسند میں کوئی مداخلت نہیں ہونے دی جائے گی۔ تمام قوانین اور اصول جو غیرمناسب طریقے سے مداخلت کرتے ہیں انہیں منسوخ کیا جائے گا۔پلاننگ کمیشن کو بحال کرنے کا وعدہ وغیرہ۔
گزشتہ 17 لوک سبھا انتخابات اور برسر اقتدار سیاسی پارٹیوں کی حصہ داری:
سنہ 1951-52 میں ہندوستان میں پہلی مرتبہ لوک سبھا انتخابات عمل میں آئے تھے اور اس میں 489 سیٹوں میں سے 364 لوک سبھا کی سیٹوں پر انڈین نیشنل کانگریس کو کامیابی ملی تھی اور پنڈٹ جواہر لال نہرو ملک کے پہلے وزیر اعظم بنے تھے۔ اس طرح ہندوستان میں اب تک کل 17 لوک سبھا انتخابات میں سے 10لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے حکومت کی ہے۔ برخلاف اس کے 5 لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی حکومت رہی ہے۔ وہیں1977میں ایک مرتبہ جنتا پارٹی کی حکومت اور 1989 میں ایک مرتبہ جنتا دل کی حکومت رہی ہے۔ ووٹر ٹرن آوٹ کی نظر سے دیکھا جائے تو اب تک سولہ لوک سبھا انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹر ٹرن آوٹ 67.40 فیصد گزشتہ 2019کے لوک سبھا انتخابات میں رہا ہے نتیجہ میں 543 لوک سبھا کی سیٹوں میں سے 303 سیٹوں پر بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی۔ برخلاف اس کے 44.87 فیصد ووٹر ٹرن آوٹ پر پہلی لوک سبھا الیکشن میں 489 میں سے 364 لوک سبھا سیٹوں پر کانگریس کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اگر معلوم کیا جائے کہ اب تک لوک سبھا انتخابات میں سب سے زیادہ سیٹیں کس حکومت کو حاصل ہوئی ہیں تو وہ کانگریس کی حکومت تھی جسے 1984 میں آٹھویں لوک سبھا الیکشن میں 541 میں سے 414 سیٹیں حاصل ہوئی تھی،اس وقت جبکہ اندرا گاندھی کا قتل کر دیا گیا تھا اور راجیو گاندھی ملک کے وزیر اعظم بنے تھے۔
اس کے باوجود اٹھارویں لوک سبھا الیکشن 2024میں این ڈی اے نے 293نشستیں حاصل ہوئی ہیں جبکہ انڈیا الائنس کو232نشستیں مل رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انتخابی منشور میں جو وعدے کیے گئے تھے اور جس پر عوام نے اعتماد کیا تھا وہ کس طرح، کتنی جلدی اور کب پورے ہوتے ہیں۔ اور یہ وعدے پورے اسی وقت ممکن ہیں جبکہ ایک جانب سیاسی پارٹیاں اور ان کی اتحادی پارٹیاں ملک کی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں ہوں تو دوسری جانب عوام بھی گزشتہ کی طرح اس مرتبہ بھی صرف نتائج سے متاثر ہوکے نہ رہ جائیں بلکہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے برسر اقتدار پارٹی اور اس کے نمائندوں کو مسائل کے حل میں شامل رکھیں۔یعنی یہ دو طرفہ ترقی اور فلاح و بہبود کا عمل ہے جہاں ڈر اور خوف کی سیاست سے نجات پانے کی ضرورت ہے!!
***

 

***

 ایک منشور ایس آئی او کا بھی۔۔
تعلیم کے یکساں مواقع، سماجی انصاف اور انسداد بے روزگاری پر زور
طلباء اور نوجوان اس ملک کا سب سے بڑا ووٹر گروپ ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کے منشور میں اس بڑے ووٹر گروپ کے مسائل کو کم ہی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) نے عام انتخابات کے موقع پر طلباء برادری اور ملک کے مجموعی مفاد پر مبنی ایک منشور جاری کیا تھا جس کے ذریعہ سیاسی پارٹیوں کی توجہ کو اہم مسائل کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایس آئی او کے قومی صدر رمیز ای کے نے تنظیم کے قومی سکریٹریز عبداللہ فیض اور ڈاکٹر روشن محی الدین کے ہمراہ میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے تعلیمی منظر نامے میں تشویش ناک رجحانات کی طرف نشان دہی کرتے ہوئے کہا 74.04 فیصد کی مجموعی شرح خواندگی کے باوجود، جو عالمی اوسط 86.3 فیصد سے بے حد کم ہے، بہت سی ریاستیں بمشکل قومی سطح کو عبور کرنے میں کامیاب ہیں۔ انہوں نے مذہبی اقلیتوں کے لیے کلیدی تعلیمی اسکیموں کو بند کرنے، اقلیتی وزارت کے تحت پروگراموں پر اخراجات کو کم کرنے اور تعلیمی بجٹ کے حصہ کو جی ڈی پی کے 2.9 فیصد تک کم کرنے پر بھی بے چینی کا اظہار کیا، جو قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے ذریعہ مختص کردہ چھ فیصد سے بہت کم ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ خود کشی 15 سے 30 سال کی عمر کے لوگوں میں موت کی سب سے بڑی وجہ ہے، ہر 42 منٹ میں اوسطاً 34 طالب علم اپنی جان لے لیتے ہیں۔
اسی طرح مسلم طلباء میں ڈراپ آؤٹ کی شرح بھی تشویش ناک ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نے ڈراپ آؤٹ کی شرح 23.1 فیصد بتائی ہے جو قومی اوسط 18.96 فیصد سے زیادہ ہے۔ تعلیمی سال 2020-21 میں مسلم طلباء کے اندراج کی شرح 2019-20 میں 5.5 فیصد سے گھٹ کر 4.6 فیصد رہ گئی۔
ایس آئی او نے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور DOTO ڈیٹا بیس کا حوالہ دیتے ہوئے نفرت انگیز جرائم میں تیزی سے اضافے کی طرف اشارہ کیا اور زندگی کی حفاظت اور مذہبی امتیاز کو برداشت کرنے پر فوری توجہ دینے پر زور دیا۔ اس منشور میں سیاسی جماعتوں سے کہا گیا کہ وہ ملک کے مستقبل میں سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دیں۔
ایس آئی او نے طلباء و نوجوانوں کے لیے ایک ایسے ٹھوس انتخابی منشور کا مطالبہ کیا جو قابل رسائی اور معیاری تعلیم، روزگار، امن اور محفوظ ماحول کی ضمانت دیتا ہو۔ طلباء کے اس منشور میں درج ذیل نکات کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی:
سب کے لیے مساوی مواقع کو یقینی بنانے کے لیے ایک منصفانہ، مساوی اور معقول ریزرویشن سسٹم کا اہتمام کیا جائے۔
سماجی و اقتصادی طور پر پسماندہ اضلاع پر خصوصی توجہ دی جائے اور متوازن ترقی کے لیے پسماندہ علاقوں کی ترقی پر توجہ دی جائے۔
روہت ایکٹ کو لاگو کیا جائے اور طلباء کے لیے تعلیمی اداروں میں انصاف اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کو بحال کیا جائے اور اقلیتوں کے وظائف میں اضافہ کیا جائے۔ تعلیم تک مساوی رسائی کے لیے اقلیتی طلباء کی مالی مدد کی جائے۔
انسداد امتیازی قانون بنایا جائے تاکہ معاشرہ تعصب اور تعصب سے پاک ہو۔
لوگوں کی راز داری اور ڈیٹا کے تحفظ کے لیے سخت ذاتی ڈیٹا کے تحفظ کے قوانین اور پرائیویسی چارٹر کو نافذ کیا جائے۔
ماحولیاتی اسکیموں اور پائیدار ترقی سے متعلق سرگرمیوں کے لیے ایک ہزار کروڑ روپے کا فنڈ دیا جائے۔
نوجوانوں کی مجموعی ترقی کو ترجیح دیتے ہوئے پورے ہندوستان میں صحت اور ذہنی تندرستی کے مراکز قائم کیے جائیں۔
سب کے لیے قابل رسائی تعلیم کے عزم کو برقرار رکھتے ہوئے پرائمری سے یونیورسٹی کی سطح تک مفت اور لازمی تعلیم کو یقینی بنایا جائے۔
روزگار کی ضمانت ایکٹ لایا جائے تاکہ ملک کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے تحفظ اور مواقع کی راہ ہموار ہو سکے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 جون تا 15 جون 2024