لوہے کو لوہا کاٹتا ہے

قوم پرستی کی آگ پر حب الوطنی کا پانی

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

مرکزی حکومت کے خیموں میں تشویش کے آثار
حزب اختلاف کا متحدہ اجلاس ۔بھارت کے مستقبل کا اشاریہ
مثل مشہور ہے کہ’ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے‘ اس لیے حزب اختلاف نے یہ طے کیا ہے کہ قومی جمہوری محاذ (این ڈی اے)کی قوم پرستی کو حب الوطن جمہوری محاذ(پی ڈی اے) سے کاٹا جائے گا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ منفی قوم پرستانہ نظریہ کے مقابلے میں حب الوطنی ایک مثبت جذبہ ہے۔9؍ اگست 2022؍کو جب نتیش کمار نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر آر جے ڈی کے ساتھ حکومت سازی کی تھی تو کون کہہ سکتا تھا کہ 9؍ ماہ بعد وہ ایک ایسا کارنامہ کر گزریں گے جو اہل اقتدار کی نیند اڑا دے گا۔ اس وقت لوگ صرف یہ قیاس آرائی کررہے تھے کہ نتیش کمار ملک کا وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں اس لیے انہوں نے ’باہو بلی ‘ بی جے پی سے پنگا لیا ہے. یہ کارنامہ دراصل ان کی سو دنوں کی محنت کا ثمر ہے۔ 12؍ اپریل کو انہوں نے دلی میں نہ صرف ملک ارجن کھرگے اور راہل گاندھی سے ملاقات کی بلکہ کانگریس کے کٹرّ مخالف دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال سے بھی ملے اس طرح گویااپوزیشن اتحاد کی داغ بیل ڈال دی گئی۔ اس کے بعد 24؍ اپریل کو اکھلیش یادو کے ساتھ ممتا بنرجی سے ملاقات کرکے انہیں راضی کرنے کی کوشش کی۔ 7؍ مئی کو مغرب کا رخ کیا اور ممبئی آکر شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے سے مل کر انہیں اعتماد میں لیا۔ 9؍ مئی کو اڈیشہ کے وزیر اعلیٰ نوین پٹنائک اور جھارکھنڈ کے ہیمنت سورین سے مل کر ان کو سمجھانے بجھانے لگے ۔
نتیش کمار کی ان کوششوں کا نتیجہ 28؍ مئی کو ہونے والی ایوان پارلیمان کی نئی عمارت کے افتتاحی تقریب پر سامنے آیا جب کانگریس، عآپ، جے ڈی یو ، ترنمول کانگریس اور سماجوادی پارٹی سمیت 19؍ سیاسی جماعتوں نے اس کا بائیکاٹ کردیا۔ اس کے بعد ہی پٹنہ میں ایک کامیاب نشست کا انعقاد ممکن ہوسکا ۔ حزب اختلاف کے اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ وزیر اعظم کے امیدوار کی تھی اس لیے ممتا بنرجی اور اروند کیجریوال جیسے آرزومند رہنما کانگریس کے بغیر محاذ بنانا چاہتے تھے لیکن نتیش کمار نے اس رکاوٹ کو عبور کرکے کانگریس کو شامل کرلیا ۔ اس نشست کے اعلان پر اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ کانگریس اس میں شامل نہیں ہوگی اور اگر ہوئی بھی تو معمولی رہنما کو بھیج دیا جائے گا لیکن پارٹی کے صدر ملک ارجن کھرگے سمیت راہل گاندھی نے شرکت کرکے سارے شکوک و شبہات پر پانی پھیر دیا۔ میٹنگ تو بند کمرے میں ہوئی اس لیے اندر کیا ہوا یہ کوئی نہیں جانتالیکن بعد میں جو پریس کانفرنس ہوئی اس کے ذریعہ نشست کے موڈ کا پتہ چل گیا ۔
نتیش کمار نے نامہ نگاروں سے شرکا کا تعارف کروانے کے بعد کھرگے کو ابتدا کرنے کی دعوت دی۔ وہ شاید اس کے لیے تیار نہیں تھے اس لیے کچھ رسمی باتیں کرکے آئندہ ماہ کے وسط میں شملہ میں آگے کی حکمت عملی بنانے کا اعلان کرنے پر اکتفا کیا۔ اس کے بعد راہل گاندھی کو موقع دیا گیا ۔ انہوں نے اسے نظریات کی جنگ قرار دیا اور آئینی اداروں کی بربادی کا دکھڑا سنایا ۔ راہل نے آپسی اختلافات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں لچک کے ساتھ حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے ممتا بنرجی نے ساتھ رہنے اور ساتھ لڑنے کا اعلان کیا اور گورنر ہاوس سے کی جانے والی مرکزی حکومت کی ریشہ دوانیاں بیان کیں ۔ انہوں نے دلی کے بجائے پٹنہ میں اجلاس کے اہتمام کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہاں سے آزادی سمیت کئی تحریکات اٹھی ہیں اور یہ بھی ایک عوامی تحریک ہوگی ۔
عمر عبداللہ نے آئین کے تحفظ اور حقوق انسانی کی پامالی کو اپنا موضوع بنایا ۔ کمیونسٹ پارٹی کے تینوں دھڑوں نے یکجہتی کا اعلان کرتے ہوئے مہنگائی اور بیروزگاری جیسے عوامی مسائل پر ملک گیر تحریک چلانے کی تجویز پیش کی ۔ جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے ملک کے اندر پائی جانے والی ’کثرت میں وحدت ‘ کے ماحول کو لاحق خطرات کا ذکر کیا اور دلت پسماندہ و اقلیت سماج کو درپیش مسائل بیان کرکے ان کی ترقی کے لیے کام کرنے کی بات کی۔ اکھلیش یادو نے ملک کو بچانے اور مل جل کر آگے بڑھانے کے عزم کا اعلان کیا اور پھر آخر میں لالو پرساد یادو نے ایک دل پذیر تقریر کرکے گزرے ہوئے زمانے کی یاد تازہ کردی ۔ لالو پرساد یادو کی بزلہ سنجی نے محفل کو لالہ زار کردیا ۔ حزب اختلاف کی میٹنگ کےاختتام پر منعقدہ پریس کانفرنس میں آر جے ڈی کے قومی صدر لالو یادوپرانے انداز میں کہا کہ علاج کے بعد اب وہ بالکل فِٹ ہوگئے ہیں اور بی جے پی کو فِٹ کردیں گے۔
بی جے پی اور وزیر اعظم کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا نریندر مودی اُڑ اُڑ کر صندل کی لکڑیاں بانٹتے پھر رہے ہیں جبکہ ملک ٹوٹنے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ مہنگائی کا ذکرکرنے کے بعد وہ بولے کہ اس ملک میں لوگ ہنومان جی کا نام لے کراور ہندو مسلم کا نعرہ لگا کر الیکشن لڑتے ہیں۔ کرناٹک میں ہنومان جی نے ان کی پیٹھ پر ایسے گدا مارا کہ راہل کی پارٹی جیت گئی۔ ہنومان جی ہمارے ساتھ شامل ہوگئے۔ ہم سب کو جمع کر رہے ہیں اس لیے اس بار طے ہے کہ بی جے پی والے گئے اور ان کا اقتدار ختم۔ راہل گاندھی کا تذکرہ کرتے ہوئے لالو پرساد یادو نے کہا کہ راہل گاندھی نے ہندوستان کا دورہ کیا، اچھا کام کیا۔ اڈانی کے معاملے میں بھی انہوں نے لوک سبھا میں اچھا کردار ادا کیا ۔ اس کے بعد اپنے روایتی ظریفانہ پرانے انداز میں وہ راہل گاندھی کو مخاطب کرکے بولے مہاتما جی شادی تو کیجیے ۔ داڑھی بڑھا کر کہاں گھوم رہے ہیں؟ ہماری بات مانیے، شادی کیجیے ۔ آپ کی ممی کہتی تھیں، میری بات نہیں مانتا ہے، اس لیے آپ لوگ شادی کر وائیے۔ابھی وقت نہیں گزراہے۔ شادی کیجیے ہم بارات میں آئیں گے۔ اس پر راہل نے کہا کہ آپ نے کہہ دیا اب ہوجائے گی ۔ لالو بولے پکا کرنا پڑے گا۔ آپ کی عمر کہاں بیتی ہے؟ داڑھی بڑھالیے ہیں، اب کٹوالیجیے۔ یہ نتیش جی کی بھی رائے ہے، داڑھی چھوٹی کروا لیجیے۔
پریس کانفرنس کے اختتامی خطاب میں لالو یادو نے راہل کو اس مجلس کا دولہا اور باقی لوگوں کو باراتی بنا کرایک لطیف سیاسی اشارہ کردیا یعنی انتخاب کے بعد اگر بی جے پی اقتدار سے بے دخل ہوگئی تونوشہ راہل اور دیگر جماعتیں باراتی ہوں گی۔ پہلے زمانے میں دولہا ناچتا گاتا نہیں تھا لیکن آج کل وہ سب بھی ہونے لگا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ لالو کا نامزد کردہ ’دولہا راجہ بی جے پی کا باجا بجائے گا‘۔ پریس کانفرنس کے آخر میں اخبارنویسوں کا راہل سے سوال کرنے پر اصرار بھی یہ بتارہا تھا کہ اس محفل کے دولہے راجہ وہی تھے لیکن گوں ناگوں وجوہات کی بنا پر کسی کو سوال کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔راہل کی اس حیثیت کا اعتراف دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں نے بھی کرنا شروع کردیا۔ اس نشست سے ایک دن قبل چھتیس گڑھ کے شہر درگ میں بی جے پی کے اقتدار کے نوسالہ تقریبات میں شرکت کرنے والے وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی راہل گاندھی کو نریندر مودی کے مقابلے میں وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنا دیا۔
امیت شاہ نے کہا کہ کانگریس راہل گاندھی کو 2024 میں وزیر اعظم بنانے کی کوشش کررہی ہے ۔ ویسے اس میں کیا غلط ہے؟ بی جے پی اگر نریندر مودی کو74سال کی کبر سنی میں تیسری بار وزیر اعظم بنانے کی کوشش کر سکتی ہے تو کانگریس کو بھی حق ہے کہ ان سے بیس سال چھوٹے راہل کو وزیر اعظم کا امیدوار بنائے حالانکہ گوں ناگوں وجوہات کی بنیاد پر ابھی تک یہ اعلان نہیں کیا گیا مگر امیت شاہ نے اس کا اعتراف کرلیا۔ انہوں نے خودکہا کہ لوگوں کو اب نریندر مودی اور راہل گاندھی کے درمیان کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ اس کے بعد وہاں موجود لوگوں سے پوچھا کہ 2024 میں وزیر اعظم کون ہوگا ، راہل بابا یا نریندر مودی ؟ ظاہر ہے بی جے پی کے پیسے سے لائی گئی بھیڑ راہل گاندھی کا نام تو لینے سے رہی ۔ وہ نریندر مودی کے نعرے لگانے لگی۔ وطن عزیز میں سیاسی رہنما نمک حرام ضرورہیں لیکن عوام حتی الامکان حق نمک ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کم از کم اس برتن میں سوراخ کرنے کی کوشش نہیں کرتی جس میں کھایا ہوا کھانا ابھی ہضم بھی نہیں ہوا ہو۔ ایسا تو صرف سیاستداں ہی کرسکتا ہے۔
بھارتی شادیوں میں اب بھی نوشہ سے زیادہ اہمیت اس کے والد اورپھر ناراض پھوپھا کی ہوتی ہے۔ اس نشست کے حوالے سے والدکے مقام پر نتیش کمارفائز تھے لیکن ان سے قبل ناراض پھوپھا یعنی اروند کیجریوال کا ذکر ضروری ہے۔ ناراض پھوپھا اپنی اہمیت بڑھانے اور باراتیوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کے لیے ہر شادی کی تقریب کے اندر رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہی کام دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کیا۔ میٹنگ میں ان کی شرکت کا مقصد اتحاد کو مضبوط کرنا نہیں بلکہ اپنے ایجنڈے کو سب پر تھوپنا تھا۔ اس نشست کے اہتمام کی غرض و غایت قومی سطح پر بی جے پی کو ہرانا تھی اس لیے کانگریس سمیت ساری علاقائی جماعتوں نے اپنے مسائل کو بالائے طاق رکھ دیا لیکن عام آدمی پارٹی ایسا نہیں کرسکی ۔ اس کے لیے سپریم کو رٹ کی تنبیہ کے باوجود مرکزی حکومت کےوضع کردہ فرمان کو قانون بننے سے روکنا اہم ترین سوال تھا کیونکہ اس کے ذریعہ دلی حکومت کے اختیارات کو کم کردیا گیا تھا۔
اس معاملے میں کانگریس کا موقف یہ ہے کہ جب قانون سازی کے لیے مسودہ ایوان میں لایا جائے گا تو اس وقت فیصلہ سارے لوگوں کے مشورے سے ہوگا۔ یہی پارلیمانی روایت ہے کہ ایوان کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے عام آدمی پارٹی سمیت کانگریس تمام حزب اختلاف کی جماعتوں کو بلاتی ہے اور سارے لوگوں کے مشورے سے فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اروند کیجریوال اس روایت سے انحراف کرکے اتحاد کی کوشش کو اس سے مشروط کرنا چاہتے ہیں۔ عام زبان میں انہوں نے کانگریس کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ اس معاملے میں جب انہوں نے دیکھا کہ دباو کا طریقہ کارگر نہیں ہورہا ہے تو کانگریس کو اکسانے کے لیے یہاں تک کہہ دیا کہ کانگریس نے بی جے پی سے سانٹھ گانٹھ کرلی ہے۔ ہاتھ اور کمل کی یہ مجبوری ہے کہ چاہ کر بھی وہ ساتھ نہیں آسکتے اس کے باوجود عام آدمی پارٹی نے یہ الزام لگایا تاکہ کانگریس کسی ردعمل کا اظہار کرے اور انہیں غیر حاضر رہنے کا بہانہ مل جائےلیکن ایسا نہیں ہوسکا۔
کانگریس نے خود کو قابو میں رکھا اور اروند کیجریوال کو کوئی موقع نہیں دیا۔ اس لیے دلی کے وزیر اعلیٰ نشست میں تو شریک رہے مگر گودی میڈیا کو نشست کی ناکامی کا ڈھول پکڑا کر پریس کانفرنس سے غائب ہوگئے ۔ سچ تو یہ ہے کہ کیجریوال نے اپنی اس حرکت سے اپوزیشن اتحاد کو غیر حاضر رہنے والے کے سی آر ، نوین پٹنائک اور جگن موہن ریڈی سے بڑا نقصان پہنچایا ہے ۔اروند کیجریوال کی بات مان کر اگر علاقائی مسائل کو کھول دیا جاتا تو دہلی سے بہت بڑا مسئلہ جموں وکشمیر کا تھا ۔ وہاں سے دو سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نشست میں موجود تھے۔ جموں وکشمیر میں مرکزی حکومت نے جو کچھ کیا اس کا موازنہ دلی سے تو کیا ہی نہیں جاسکتا۔ دلی میں سرکاری افسران کے تبادلہ کا حق وزیر اعلیٰ کے بجائے لیفٹننٹ گورنر کو سونپ دیا گیا مگر دلی کا ریاستی درجہ اور وزیر اعلیٰ کا عہدہ اب بھی محفوظ ہے۔ اس کے برعکس جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے لیے آئین کی دفع 370کو ہی کالعدم کر دیا گیا۔ ایک ریاست کو عوام کی مرضی کے خلاف دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا یعنی لداخ کو الگ یونین ٹریٹری بنادیا گیا۔ وہاں کے باشندوں کو حاصل مراعات پر یکلخت بلڈوزر چلا دیا گیا۔ منتخب ریاستی حکومت کو برخواست کرکے وزیر اعلیٰ سمیت بے شمار رہنماوں کو نظر بند کردیا گیا ۔ ریاست میں دفع 144نافذ کردی گئی عرصہ دراز تک انٹرنیٹ بند رہا اور ہنوز انتخابات نہیں ہوئے ۔
سوال یہ ہے کہ مرکز کی بی جے پی حکومت جب یہ دھاندلی کررہی تھی تو اس وقت عام آدمی پارٹی کو ملک وفاقی ڈھانچے کے تحفظ کا خیال کیوں نہیں آیا؟ اس نے بی جے پی کی مخالفت کیوں نہیں کی؟ وہ اس معاملے میں غیر جانبدار بھی نہیں تھی بلکہ زور و شور سے مرکزی حکومت کی تائید کررہی تھی۔ اس موقع پر بغلیں بجاتے ہوئے اروند کیجریوال نے ٹویٹ کیا تھا کہ ’’ہم جموں و کشمیر پر حکومت کے فیصلوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس سے ریاست میں امن قائم ہوگا اور ترقی ہوگی۔‘‘وہ امن و ترقی کہاں ہے جس کی اروند کیجریوال نے چار سال قبل امید ظاہر کی تھی؟ عآپ نے اس شام ایک اخباری بیان جاری کرکے مرکزی حکومت کی عوامی مفاد میں تائید کو جائز ٹھہرایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر عآپ کو حمایت و مخالفت کا حق ہے تو دوسروں کو کیوں نہیں؟ یہ تو نریندر مودی والی بات ہے کہ جو چیز ہمارے لیے درست ہے وہ دوسروں کے لیے نہیں ہوسکتی ایسے میں اگر اروند کیجریوال پر بی جے پی کا چھوٹے ریچارج ہونے کا جو الزام لگتا ہےوہ درست ہے کیونکہ دونوں کا مزاج مشابہ ہے۔
اروند کیجریوال یہ بات بھول گئے ہوں گے مگر عمر عبداللہ اور پورے ملک کو یاد ہے کہ ایوان پارلیمان میں عآپ کے رکن پارلیمان سشیل گپتا نے سینہ ٹھونک کر کہا تھا کہ اب آرٹیکل 370 ختم ہونے سے ملک بھر کے تاجر ریاست میں سرمایہ کاری کر سکیں گے۔گپتا جی بتائیں کہ کتنے سرمایہ کاروں نے یہ جرأت کی بلکہ جو سرمایہ دار دلی میں شراب بیچنے کے لیے آئےتھے وہ اپنے میزبانوں کے ساتھ جیل کی چکی پیس رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا "یہ قومی مفاد کا معاملہ ہے۔ ہم نے ہمیشہ دہشت گردی یا علیحدگی پسندی کی مخالفت کی ہے۔ اسی لیے عام آدمی پارٹی اس بل کی حمایت کرتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اب جموں و کشمیر میں امن قائم ہوگا اور حکومت وہاں ترقیاتی کام کرے گی۔ ہم ہمیشہ مکمل ریاست کے حق میں کھڑے رہے ہیں لیکن قوم کے اتحاد اور دہشت گردی کے انسداد کے لیے ہم اس بل کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔
آپ اگر مخصوص حالات میں کچھ شرائط کے ساتھ اپنے اصولوں سے انحراف کرسکتی ہے تو دوسرے ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی یہ شرط لگاتے کہ جہاں اروند کیجریوال ہوں گے وہاں وہ نہیں آئیں گے مگر یہاں تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹ رہا ہے۔ اروند کیجریوال اگر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھتے تو ایسی غلطی نہیں کرتے لیکن یہ نرم اور گرم ہندو رہنماوں کے بس میں نہیں ہے۔ اپنے ہندوتوا نواز رائے دہندگان کو خوش کرنے کی خاطر اروند کیجریوال نے جو داغ اپنے دامن پر لگایا ہے وہ آسانی سے نہیں دھلے گا۔ فی الحال اپنی اس سعی جمیل سے نتیش کمار نے جئے پرکاش نارائن کی یاد دلا دی جنہوں نے پٹنہ میں ایمرجنسی کے خلاف مکمل انقلاب کا نعرہ بلند کرتے ہوئے کہا تھا ’’سنگھاسن(تخت) کو خالی کرو اب جنتا(عوام) آئی ہے‘ اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اتحاد کی طاقت سے کانگریس پارٹی کے ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔ بی جے پی اپنے پچھلے اوتار یعنی جن سنگھ کے طورپر اس اتحاد میں شامل تھی اس لیے اسے اس کی قوت کا علم ہے اور بجا طور پراس آنچ کو محسوس کرکے اپنے آپ کو ردعمل سے روک نہیں پارہی ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے(جن کو اقتدار کے جاتے ہی جیل جانے کا سب سے زیادہ ڈر ہے) اس نشست سے پہلے ہی درگ اپنی تشویش کا اظہار میں کردیا تھا۔ اس حوالے سے جموں میں انہوں نے کہاکہ ’’ یہ صرف فوٹو سیشن تھا‘‘ ۔ مودی اور ان کے شاگردوں کو چونکہ دن رات فوٹو سیشن کرنے کی عادت ہوگئی ہے اس لیے ان کو دوسروں کی حرکات میں بھی یہی عکس نظر آتا ہے۔ اس کے بعد شاہ جی بولے ’’ اپوزیشن کے تمام لیڈران چاہے جتنا زور لگالیں لیکن وہ مودی جی کے مقابلے میں کسی کو بھی کھڑا نہیں کرسکتے ۔‘‘ امیت شاہ نے جموں میں مزید کہا کہ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ اپوزیشن جو ملک کے مفاد میں کبھی ایک نہیں ہوتا مودی جی اور بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اپنے آپ کو متحد کررہا ہے‘‘۔ حزب اختلاف کی بابت یہ تبصرہ اس ذہنیت کا غماز ہے جس میں سنگھ پریوار خود کو سب سے بڑا قوم پرست اور اپنے ہر مخالف کو ملک دشمن سمجھتا ہے۔ اس منطق کے مطابق کیا غیر بی جے پی صوبائی حکومتوں مثلاً مغربی بنگال وغیرہ میں زعفرانیوں کی سرگرمیاں ریاست مخالف بن جاتی ہیں۔مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے بھی ان اتحادی کوششوں کے تعلق سے کہا کہ بھارت نشانے پر ہے۔ حالانکہ ان سے ملک کو نہیں مودی کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہے۔ایرانی اور شاہ کو پتہ ہونا چاہیے کہ مودی بذاتِ خود ملک نہیں بلکہ صرف وزیر اعظم ہیں اس لیے ان کی مخالفت کو قوم دشمنی قرار نہ دیا جائے ۔ ان سے پہلے کئی وزرائے اعظم آئے اور گزرگئے اور آگے بھی آتے جاتے رہیں گے۔ بقول راحت اندوری؎
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرایہ دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جولائی تا 08 جولائی 2023