لبنان-اسرائیل جنگ بندی۔۔۔

حزب اللہ کا مستقبل۔ سیاسی اور عسکری بقا کا چیلنج

اسد مرزا

ایران کا کردار: حزب اللہ کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے والی حکمت عملی
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پوری دنیا اور مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر لبنان کے باشندوں نے اس وقت سکون کی سانس لی جب گزشتہ ہفتے حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نازک جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔تاہم بنیادی تشویش یہ تھی کہ کیا یہ جنگ بندی برقرار رہ سکتی ہے؟ جیسا کہ پہلے چوبیس گھنٹوں میں دونوں فریقوں کی طرف سے حملوں اور دراندازیوں کے دعوے اور جوابی دعوے کی رپورٹس سامنے آئی تھیں۔ لیکن اب تک دونوں فریقین کی جانب سے جنگ بندی جاری رکھی گئی ہے۔
اب جب لبنان میں لڑائی ختم ہوسکتی ہے یا کم از کم توقف ممکن ہے تو اب توجہ لبنان اور حزب اللہ کو درپیش ایک اور چیلنج کی طرف مبذول ہو گئی ہے، وہ ہے حزب اللہ کا اندرونی احتساب۔ مزید برآں، ایران کے پاس ایسا کون سا ترپ کا پتہ ہے جس کی بنا پر اس نے اپنے پراکسی (حزب اللہ) کو لبنان میں جنگ بندی پر رضامندی کا حکم دیا ہے۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا حزب اللہ لبنان میں ایک سیاسی اور عسکری گروپ کے طور پر اس جنگ بندی کو برقرار رکھ سکے گی یا نہیں۔جب کہ لبنانی آبادی کے کچھ طبقات اور حزب اللہ کے حامی، جنگ بندی کو پارٹی کی فتح کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن حزب اللہ کے مخالفین نے اس جنگ کی وجہ سے ہونے والی خونریزی اور تباہی کو مسترد کیا ہے۔
حزب اللہ نے 8 اکتوبر 2023 کو غزہ کی پٹی میں حملہ کرنے والے حماس اور فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف ایک محدود محاذ کھولا تھا۔ یہ تنازعہ گزشتہ سال اس وقت شروع ہوا جب حزب اللہ نے 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد شمالی اسرائیل پر راکٹ داغنا شروع کیے تھے۔
ایک سال سے زیادہ عرصے تک یہ تنازعہ زیادہ تر لبنان اور اسرائیل کے درمیان سرحدی علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں تک محدود رہا۔ تاہم، ستمبر میں تصویر اس وقت بدل گئی جب اسرائیل نے پورے لبنان میں وسیع پیمانے پر بمباری کی مہم شروع کرنے سے پہلے حزب اللہ کے ارکان کے زیر استعمال ہزاروں پیجرز کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے بعد زمینی حملہ کیا گیا۔ اس جنگ میں اب تک 3900 سے زیادہ افراد ہلاک اور ایک ملین سے زیادہ بے گھر ہوگئے ہیں۔جب کہ لبنانیوں نے بڑی حد تک اسرائیل کے ہاتھوں بے گھر ہونے اور مارے جانے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے اور اسرائیلی افواج کے مقابلے میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ کھڑے ہیں، تاہم اس تنازعہ نے گھریلو سیاسی حرکیات کو کس طرح تبدیل کیا ہے اس کا اندازہ آنے والے برسوں میں لبنان کی قسمت کا تعین کر سکتا ہے۔
لبنانی امریکن یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کے سیاست کے ماہر عماد سلامی نے برطانوی ویب سائٹ مڈل ایسٹ آئی کو بتایا کہ حزب اللہ کی فتح کے دعوے کو اس کے بنیادی حلقوں سے زیادہ حمایت ملی ہے۔ یہ جنگ لبنانی عوام میں زیادہ مقبول نہیں تھی، جن میں سے اکثر کی توجہ تنازعات کے دوران ہونے والے تباہ کن معاشی نقصانات پر مرکوز رہی۔
درحقیقت حزب اللہ اور اس کے عسکری بازو کی موجودگی لبنانی سیاست میں کئی دہائیوں سے تنازعات کا باعث بنی رہی ہے۔ سلامی کا کہنا ہے کہ حزب اللہ ممکنہ طور پر لبنان کے اندر بڑھتی ہوئی مخالفت کے بارے میں فکر مند ہے، جس سے دو پولرائزڈ کیمپ بن سکتے ہیں، ایک حزب اللہ کی حمایت کر رہا ہے اور دوسرا تخفیف اسلحہ پر زور دے رہا ہے اور اس میں حزب اللہ کی مخالفت بھی شامل ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ‘‘اختلافات کو دبانے اور کنٹرول کو برقرار رکھنے کے لیے، حزب اللہ اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کو بے اثر کرنے یا مختلف کارروائیوں کے ذریعے ان کی سرگرمیوں کو روکنے کی سمت لبنان میں مدافعاتی اقدام کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔’’
اس کے برعکس قاسم قیصر، جنہیں حزب اللہ کا قریبی مانا جاتا ہے، انہوں نے MEE کو بتایا کہ حزب اللہ لبنان میں اپنی داخلی سیاسی پوزیشن کے بارے میں پُر اعتماد ہے۔ قیصر کے مطابق، گروپ فی الحال اپنے تازہ ترین اقدامات کا جائزہ لے رہا ہے اوراپنے مستقبل کے وژن کی جلد ہی وضاحت کرے گا اور اس بات کا یقین دلائے گا کہ جنگ کے نتائج اس کے حق میں تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ کے مخالفین اب تک حزب اللہ کے خلاف جنگ اور اس کے نتائج سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔امریکی ثالثی میں جنگ بندی کے معاہدے کا مقصد حزب اللہ کی جنوبی لبنان کے اپنے گڑھ میں آزادانہ طور پر کام کرنے کی صلاحیت کو ختم کرنا ہے، جس سے گروپ کو دریائے لیتانی کے جنوب میں فوجی موجودگی سے روکنا ہے۔
حزب اللہ کی ٹینک شکن میزائلوں اور ڈرونز سمیت اسرائیل میں بڑی دوری تک بھاری پراجیکٹائل بیراجوں کو فائر کرنے کی صلاحیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کے پاس اب بھی طاقتور فوجی صلاحیت ہے۔ اس گروپ کے قریبی لوگ اسرائیل کو اندرونِ لبنان دور کے مقامات تک پیش قدمی سے روکنے کی اس کی صلاحیت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں، جس میں اس کی صلاحیت کے ثبوت کے طور پر تقریباً 50 اسرائیلی فوجی اب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔
2006 کے برعکس جب حزب اللہ نے اسی طرح کے معاہدے کو نظر انداز کر دیا تھا جس نے اس سال جنگ ختم کر دی تھی، اس گروپ کو اب یہ ظاہر کرنا ہو گا کہ وہ جنگ بندی کی شرائط کی فعال طور پر تعمیل کر رہا ہے۔ کمزور لبنانی ریاست جو پہلے ہی سے جاری اس تنازعے اور معاشی بحران کی وجہ سے تھک چکی ہے، اگر ایسا نہیں کرتی ہے تو اسے اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔اس سے حزب اللہ کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والے مخالفین کے لیے دروازہ کھل سکتا ہے۔ یاد رہے کہ حزب اللہ ملک کے شیعوں کا ایک طاقتور نمائندہ ہے، جو اس کی سب سے بڑی حمایت اور طاقت ہے اور ساتھ ہی جس کی ریاست میں وسیع سطح تک رسائی بھی ہے۔لیکن بڑے پیمانے پر تباہی اور بے گھر ہونے کی صورت میں بڑے پیمانے پر تعمیر نو، معاوضے اور سماجی بہبود کی بحالی کے بغیر حزب اللہ کی حمایت کمزور ہوسکتی ہے۔
ورلڈ بینک کا تخمینہ ہے کہ جنگ نے 8.5 بلین ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے جو کہ لبنان کے جی ڈی پی کے ایک تہائی سے زیادہ ہے۔ حزب اللہ کا اصرار ہے کہ تعمیر نو کے لیے رقم کوئی مسئلہ نہیں ہو گی، لیکن اس بات کے پیش نظر کہ اس کے اپنے اہم حمایتی ایران کی اپنی معاشی پریشانیاں ہیں اور مشرق وسطیٰ کی دیگر حکومتوں کے ساتھ حزب اللہ کی غیر مقبولیت کی وجہ سے یہ واضح نہیں ہے کہ تعمیر نو کے لیے کون فنڈز دے سکتا ہے اور کن شرائط کے ساتھ۔
جہاں حزب اللہ لبنان کے شیعوں کا ایک طاقتور نمائندہ ہے، وہیں اس کے دیگر سیاسی حریف ہمیشہ اس دعوے سے فائدہ اٹھانے کا موقع ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ یہ گروپ پورے ملک کے لیے مصیبت کے سوا کچھ نہیں لاتا۔ان حریفوں میں وہ عیسائی رہنما بھی شامل ہیں جو لبنان کے فرقہ وارانہ اقتدار کی تقسیم کے نظام میں طاقت کے لیور کو اپنے حق میں منتقل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ لبنان کے ماضی کی طرح یہ خطرہ لاحق ہے کہ اقتدار کے لیے اس طرح کے چیلنجز کا خاتمہ فرقہ وارانہ تشدد میں تبدیل نہ ہو جائے۔
جنا قادری اور طلا علیلی نے المیادین ویب سائٹ پر اپنی تحریر میں کہا ہے کہ کرۂ ارض کی تکنیکی طور پر جدید ترین فوج میں سے ایک کو برداشت کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی حزب اللہ کی ثابت قدمی نے اس کی قوت برداشت کو نمایاں کیا ہے۔
ہیرالڈ اخبار کے فارن ایڈیٹر ڈیوڈ پریٹ نے اس کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ثابت قدمی سے فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرتے ہوئے اور بیرونی تسلط کی مخالفت کرتے ہوئے حزب اللہ نے لبنان کی سرحدوں سے باہر اپنا اثر و رسوخ بڑھایاہے۔ یہ ظلم کی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کا ایک مینار بن گیا ہے، انصاف کے حصول میں متحد ہونے والی متنوع برادریوں میں یکجہتی کو قائم کرنے والا۔
سید نصر اللہ کے کردار نے اس وراثت کو تقویت بخشی اور غیر ملکی تسلط کے خلاف وقار اور خودمختاری کے مشترکہ وژن کو بھی تقویت بخشی۔ پریٹ نے مزید لکھا ہے کہ اپنے اعمال اور بیانیہ کے ذریعے حزب اللہ نے نہ صرف ایک علاقائی طاقت کے طور پر بلکہ استعمار اور سامراج کے خلاف عالمی مزاحمت کے علم بردار کے طور پر اپنی پوزیشن مستحکم کی ہے۔
شاید جنگ بندی کے بعد کے سیاسی منظر نامے کو ملک کے جنوب میں زیادہ آزمایا جائے گا، کیونکہ لبنان کی زیادہ تر شیعہ آبادی اور حزب اللہ کے روایتی حامی یہیں آباد ہیں۔
***

 

***

 ’’لبنان میں جنگ بندی مشکلات میں گھرے ہوئے لبنانیوں کو مہلت دینے کے علاوہ حزب اللہ کے لیے ایک بڑی آزمائش بھی ہوگی کہ آیا وہ لبنان میں سیاسی اور عسکری تنظیم کے طور پر قائم رہ سکتی ہے یا نہیں۔‘‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 دسمبر تا 21 دسمبر 2024