لیبیا میں سیلاب: 5000 سے زائد ہلاک، 10000 سے زیادہ لاپتہ
نئی دہلی، ستمبر 13: سی این این کی رپورٹ کے مطابق لیبیا میں طوفانی بارشوں کے نتیجے میں دو ڈیم ٹوٹنے سے 5000 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور 10,000 سے زیادہ ابھی بھی لاپتہ ہیں۔
تباہ کن صورت حال اتوار کی رات اس وقت پیدا ہوئی جب بحیرہ روم کے طوفان ڈینیئل نے ملک کے ساحل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس سے درنہ کا کم از کم ایک چوتھائی حصہ تباہ ہو گیا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق المرج، سوسہ، شحات اور البیدہ کے شہروں میں بھی متعدد ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی ہیں اور کم از کم 20,000 افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
ریسکیو اور ریلیف کی کوششوں میں شامل اہلکار منگل کو ہی درنہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، کیوں کہ سیلاب سے ساحلی شہر کی سڑکوں کو سخت نقصان پہنچا ہے۔
امدادی کارروائیوں میں تاخیر کی وجہ لیبیا میں سیاسی تقسیم بھی بتائی جا رہی ہے۔ ملک 2014 میں طرابلس میں قائم بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت اور مشرق میں ایک علاحدہ زیر انتظام علاقے کے درمیان تقسیم ہو گیا تھا، جس میں درنہ بھی شامل ہے۔ یہ تقسیم ناکافی انفراسٹرکچر، اقتصادی عدم استحکام اور ماحولیاتی انحطاط کا باعث بنی ہے۔
لیبیا کے بندرگاہی شہر درنہ میں تصدیق شدہ ہلاکتوں کی تعداد 5,300 سے تجاوز کر گئی ہے۔
ہنگامی امداد دینے والے، بشمول سرکاری کارکن، رضاکار اور رہائشی، لاشوں کو نکالنے کے لیے ملبے کو کھود رہے تھے۔ کارکنوں نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ وہ پیر کی شام تک ایک قبرستان میں 200 سے زیادہ لاشیں دفن کر چکے ہیں۔
ایمرجنسی اور ایمبولینس سروس کے ترجمان اسامہ علی کے حوالے سے بتایا گیا کہ درنہ کے ہسپتال اب کام کے قابل نہیں ہیں۔ مردہ خانے بھرے ہونے کی وجہ سے لاشیں باہر فٹ پاتھوں پر چھوڑی جارہی ہیں۔
شہر میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے ڈاکٹر انس نے CNN کو بتایا کہ ’’یہاں کوئی ہنگامی خدمات نہیں ہیں۔ لوگ اس وقت بوسیدہ لاشوں کو اکٹھا کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘‘
دریں اثنا مصر، تیونس، الجزائر، ترکی اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں نے لیبیا میں امدادی سرگرمیوں میں مدد کے لیے انسانی امداد اور ٹیمیں بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹیرس نے کہا کہ ایجنسی مقامی، قومی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ ان لوگوں کی مدد کی جا سکے جنھیں فوری طور پر انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔