لاپرواہی امریکی بینکوں کو لے ڈوبی
امریکی بینکنگ سسٹم کی حالیہ مشکلات سے بھارتی اسٹارٹ اپ اور بینکوں پرمنفی اثرات کے اندیشے
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
مصیبتیں جیسی بھی ہوں ان کی وجوہات میں اختلاف ممکن ہے۔ مگر سبھوں کے پس پشت ایک وجہ اکثر مشترک رہتی ہے اور وہ ہے لالچ، خوف، بے چینی، کام کرنے والے گروپ کی نفسیات ، جانچ کرنے والے کارندوں کا ڈھیلاپن اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی یا ان سب کا مخلوط ہونا ۔ ان میں زیادہ تر معاملات میں سیاسی اثرات کار فرما ہوتے ہیں۔ فاربس نامی میگزین نے بینک ڈوبنے سے پہلے سیلیکون ویلی بینک (ایس وی بی) کو امریکہ کے 100بہترین اور مستحکم بینکوں میں رکھا تھا۔ اس کے علاوہ ایک مشہور ریٹنگ ایجنسی کے پی ایم جی نے اس بینک کو امریکہ کے بہترین بینکوں میں رکھا تھا اور اسے ایک صحتمند بینک بتایا تھا ۔ اس بینک کے پاس تقریباً 200ارب ڈالر سے زائد جمع تھے۔ جن میں سے 93فیصد کا فیڈرل ڈپازٹ انشورنس کارپوریشن سے کسی طرح کا بیمہ نہیں ہوا تھا اور نہ ہی جمع رقم میں سے زیادہ تر قرض کی شکل میں دیا گیا تھا بلکہ انہیں حکومت میں یا دیگر محفوظ بانڈس میں مشغول کیا گیا تھا۔ ملک میں افراط زر کو قابو میں کرنے کے لیے شرح سود میں مسلسل اضافہ بھی کیا جاتارہا۔ اب یہ شرح سود پانچ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر بینک اپنے بانڈس کو اونے پونے قیمتوں میں فروخت کرتا ہے تو وہ رقم ایک چوتھائی سے بھی کم ہوگی۔ اگر رقم جمع کرنے والے اپنی رقم بینک سے نکالنے آتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بینک میں ان کی رقم ہی نہیں رہی۔ آخر بینک ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ذریعہ اس طرح کی آنے والی آفت کا پیشگی اندازہ کیوں نہیں لگا پایا۔ فیڈرل ریزرو کی جانچ کرنے والوں نے بینک کو قبل از وقت آگاہ کیوں نہیں کیا؟ جبکہ فیڈرل ڈپازٹ انشورنس کارپوریشن کے بینک کے ٹوٹ جانے کے خطرے کی وجہ سے ہی اسے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
موجودہ مالی مصیبت اگرچہ 2008سےقدرے کم ہے جو بینک کے انتظامیہ کی بنیادی کمزوری اور بد نظمی کو ظاہر کرتی ہے۔ بینک دراصل جمع کرنے والے لوگوں سے پیسے لے کر قرض دیتے ہیں اور اس طرح معاشی ترقی میں ان کی معاونت ہوتی ہے۔ مگر قرض سے حاصل شدہ رقم ایک طرح کا جامد اثاثہ ہوتا ہے جسے فوراً نقد میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا جبکہ رقم جمع کرنے والے اپنی رقم کا حسب ضرورت کبھی بھی مطالبہ کرسکتے ہیں۔ یہ سب معاملہ محض باہمی تیقن پر قائم ہوتا ہے کیونکہ بینکنگ سسٹم کی بنیاد محض بھروسے پر رہتی ہے اور پیسہ جمع کرنے والوں کو یقین ہوتا ہے کہ ان کا جمع شدہ اثاثہ محفوظ ہے اور انہیں امید رہتی ہے کہ ملک بہت زیادہ خطرہ مول لے کر قرض کو جیسے تیسے تقسیم نہیں کرے گا اور ان کو یہ بھی یقین رہتا ہے کہ ایسے لوگ لالچ کے زیر اثر نہیں آئیں گے اور بینک کے کارندے بینکنگ سسٹم کے اصولوں پر کاربند رہیں گے۔ ساتھ ہی انہیں توقع ہوتی ہے کہ حساب کتاب رکھنے والے(Auditors) ضرور ہی چاق و چوبند ہوں گے مگر جب خوف اور گھبراہٹ دل میں سمانے لگتی ہے تو پورے سسٹم سے بھروسہ اٹھنے لگتا ہے۔ اس طرح رقم جمع کرنے والوں کے اندر خوف کا پیدا ہونا فطری ہے جس سے بعد میں بھگدڑ کا ماحول بننے لگتا ہے اور صحت مند بینک بھی بینکنگ سسٹم کی خامیوں کی وجہ سے اور کارندوں کی لاپرواہی سے مصیبت کے بھنور میں پھنس جاتے ہیں ۔ بد قسمتی سے عوام الناس اور ٹیکس دہندگان کو اکثر ہر طرح کے نقصانات کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ فائدہ تو نجی ہوتا ہے اورخسارہ سماجی ہوتا ہے جو آج کل اکثر سامنے آتا رہتا ہے۔
امریکی بینکنگ سسٹم کی حالیہ مشکلات سے بھارتی اسٹارٹ اپ اور بینکوں پر اس کے اثرات کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ ایس وی بی خصوصاً اسٹارٹ اپ گاہکوں کی جانب سے رقوم جمع کرنے کے ساتھ ساتھ اسٹارٹ اپ کمپنیوں، سرمایہ داروں، صنعت کاروں ، کارخانہ داروں کو قرض فراہم کراتا ہے۔ جبکہ سگنیچر بینک جمع لینے کے علاوہ خصوصی طور پر رئیل اسٹیٹ کے شعبہ میں قرض دیتا تھا۔ سگنیچر بینک کے پاس کرپٹو کرنسی کا زیادہ ہی اسٹاک تھا۔ جس کی وجہ سے خطرات کے اندیشے زیادہ بڑھ گئے تھے۔ ان خطرات کے امکانات زائد نہ ہوجائیں اس اندیشے سے اسے بندکردیا گیا ۔ سال 1983کے اوائل میں ایس وی بی سے 2021 تک 50 فیصد امریکی صنعت کاراس کے حمایت یافتہ اسٹارٹ اپس سے منسلک تھے۔ اس نے VOX جیسی میڈیا کمپنیوں کو بھی خدمات دی تھی۔ کئی کرپٹو کرنسی کمپنیوں کی رقوم بھی اسی بینک جمع کی جاتی تھیں۔ اس بینک کے ڈوبنے کی اہم وجوہات میں ٹیک کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتوں میں بہت زیادہ کمی کا ہونا اور مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے فیڈرل ریزرو بینک کے ذریعہ انفلیشن کو قابو میں کرنے کے لیے بار بار اضافہ کرنا ہے۔ ایس وی بی کے بڑے ٹیک گاہکوں کے شیئرز میں گراوٹ آئی تو انہیں کا روبار کرنے کے لیے زیادہ نقدی کی ضرورت ہوگئی۔ جس کی تلافی کے لیے وہ بینک میں جمع اپنی پونجی بھی نکالنے لگے۔ اس کے علاوہ خسارہ میں ڈوبی کمپنیوں کو دوسری جگہ سے قرض ملنا بند ہوگیا ۔ اسی وجہ سے لوگ اپے کاروبار کو چلانے کے لیے اپنی جمع پونجی بھی نکالنے لگے۔ ایس وی بی سے جب زیادہ پیسے نکالے جانے لگے تو بینک کو گراہکوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنی جمع پونجی کو فروخت کرنا پڑا۔ ایس وی بی نے بڑے پیمانہ پر بانڈس جیسے محفوظ متبادلات میں سستے میں سرمایہ کاری کی تھی۔ اب اسے بھی نقصان اٹھا کر فروخت کرنا پڑا۔ 2008میں مندی کے بعد امریکہ میں شروح سود بہت ہی نیچے کردی گئی تھیں۔ بینک نے اس طول مدت کے لیے قرض کم شرح سود پر دے رکھا تھا۔ مگر اب زیادہ شرح سود کے زمانے میں بینکوں کو مہنگے شرح سود پر پونجی لانا پڑا جس سے بینک کا منافع کم ہونے لگا۔ ایس وی بی نے 8مارچ کو رقیقیت (liquidity)کو یقینی بنانے کے لیے 1.8ارب ڈالر کے خسارہ پر 121ارب ڈالر کے جمع اثاثے کو فروخت کیا اور 2.2ارب ڈالر مالیت کے شیئرز بھی فروخت کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے۔
دونوں امریکی بینکوں کے دیوالیہ ہوجانے کے بعد فیڈرل ڈپازٹ انشورنس کارپوریشن (ایف ڈی آئی سی) کو ان کا ریسیور نامزد کیا گیا ہے تاکہ رقم جمع کرنے والوں کے دل میں خوف اور ڈر نہ رہے۔ وہ اپنی رقم کو حاصل کرسکیں گے۔ ایف ڈی آئی سی نے 2,50000ڈالر کا بیمہ رکھا ہے۔ اس لیے اس رقم تک یا اس سے کم جمع کرنے والے گراہکوں کو واپس مل جائے گا چونکہ دونوں بینکوں کے گراہک بڑے کاروباری ہیں اس لیے اکثر گراہکوں نقصان پرداشت کرنا پڑسکتا ہے۔ ساتھ ہی وقت پر رقم نہ ملنے پر اسٹارٹ اپ کمپنیوں کو اپنے ملازمین کو رخصت بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق دونوں امریکی بینکوں کے ڈوبنے سے ایک لاکھ سے زائد لوگوں کی ملازمت جاسکتی ہے۔ اب تو سیاسی دباو کی وجہ سے امریکی صدر نے اعلان کیا ہے کہ سبھی پیسہ جمع کرنے والوں کو ان کا پیسہ ضرور ملے گا۔ صدر امریکہ نے اسے بیل آوٹ ماننے سے انکار کردیا۔ مگر یہ تو بیل آوٹ ہی ہے جس میں عوامی اثاثے کو استعمال کیا جارہا ہے۔ فیڈرل ریزرو اب بینکوں کو بغیر ضمانت کے سستا قرض فراہم کرے گا تاکہ جع کرنے والوں کے پیسے لوٹائے جاسکیں۔ عالمی بینکوں میں سوئٹزرلینڈ کا سب سے بڑا بینک کریڈٹ سوئس بھی مصائب سے دوچار ہے جسے معمولی قیمت پر دوسرے بینک کو فروخت کرکے بچانے کی کوشش ہورہی ہے۔ بڑے بینکوں کی تباہی جسے قابو میں رکھنے کی کوشش ہے یہ سب مندی (Recession) کے علامات ہیں۔ اس بار فیڈرل ریزرو کے ساتھ مرکزی بینکوں نے فوری طور پر شرح سود میں کٹوتی نہیں کی ہے۔ اس کے باوجود افراط زر اونچائی پر براجمان ہے۔ ایس وی بی یا سگنیچر بینکوں کے ڈوبنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ نبھانے سے قاصر رہتی ہے۔ یہ ایک طرح سے امریکی اسٹینڈرڈ فیڈرل ریزرو بینک کی ناکامی کی بھی دلیل ہے۔ جہاں تک بھارتی بینکوں کا تعلق ہے تو امریکی بینکوں کے ڈوبنے سے اس کا جزوی اثر پڑسکتا ہے کیونکہ بھارتی اسٹارٹ اپس نے وہاں سے قرض لیا اور پیسے بھی جمع کیے۔
***
عالمی بینکوں میں سوئٹزرلینڈ کا سب سے بڑا بینک کریڈٹ سوئس بھی مصائب سے دوچار ہے جسے معمولی قیمت پر دوسرے بینک کو فروخت کرکے بچانے کی کوشش ہورہی ہے۔ بڑے بینکوں کی تباہی جسے قابو میں رکھنے کی کوشش ہے یہ سب مندی (Recession) کے علامات ہیں۔ اس بار فیڈرل ریزرو کے ساتھ مرکزی بینکوں نے فوری طور پر شرح سود میں کٹوتی نہیں کی ہے۔ اس کے باوجود افراط زر اونچائی پر براجمان ہے۔ ایس وی بی یا سگنیچر بینکوں کے ڈوبنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ نبھانے سے قاصر رہتی ہے۔ یہ ایک طرح سے امریکی اسٹینڈرڈ فیڈرل ریزرو بینک کی ناکامی کی بھی دلیل ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 اپریل تا 15 اپریل 2023