
’’لال قلعہ نہیں صرف بہادرشاہ ظفر کا گھر مانگا تھا‘‘
’مغل شہزادی‘ سپریم کورٹ میں فریاد مسترد ہونے پر رو پڑی
نئی دلی: ( دعوت نیوز ڈیسک)
جب سلطنتِ مغلیہ کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی مبینہ پوتی بہو سلطانہ بیگم نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنی آخری امید بھی ٹوٹتی دیکھی تو ان کی آنکھوں سے بے بسی کے آنسو بہنے لگے۔ ’’میں نے کبھی لال قلعہ کا مطالبہ نہیں کیا، صرف بہادر شاہ ظفر کی رہائش گاہ مانگی تھی… ظفر محل ہو یا کوئی اور جگہ، یہ حکومت جانے… لیکن انصاف کی امید لے کر عدالت آئی تھی، وہ بھی ٹوٹ گئی۔‘‘
سپریم کورٹ نے ان کی عرضی کو "مکمل طور پر بے بنیاد” قرار دے کر مسترد کر دیا۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار پر مشتمل بنچ نے سوال اٹھایا: ’’صرف لال قلعہ ہی کیوں، فتح پور سیکری کیوں نہیں؟‘‘ عدالت نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد تقریباً ڈیڑھ صدی کے وقفے کو بنیاد بناتے ہوئے سلطانہ بیگم کی عرضی کو ناقابلِ سماعت قرار دے دیا۔
عدالتی دروازے بند ہونے کے بعد سلطانہ بیگم نے جذباتی انداز میں کہا:
’’جنہوں نے ملک سے غداری کی وہ آج عیش کر رہے ہیں اور جس نے وفا کی اس کے خاندان کو دربدر کر دیا گیا۔‘‘
یاد رہے کہ سلطانہ بیگم مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے مبینہ پڑ پوتے مرزا محمد بیدار بخت کی بیوہ ہیں، جنہیں 1960 میں پنڈت نہرو کی حکومت نے سرکاری طور پر تسلیم کرتے ہوئے پنشن دی تھی۔ سلطانہ بیگم نے 1965 میں ان سے شادی کی اور ان کی وفات کے بعد 1980 تک پنشن وصول کرتی رہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے شوہر شاہی خون کے آخری نمائندوں میں سے تھے اور اسی نسبت سے وہ ’’بادشاہی مکان‘‘ کی حق دار ہیں۔
1857 کی جنگِ آزادی کے بعد انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو برما (موجودہ میانمار) جلاوطن کر دیا تھا، ان کی جائیدادیں ضبط ہو گئیں اور لال قلعہ پر برطانوی حکومت قابض ہو گئی۔ سلطانہ بیگم کا موقف ہے کہ حکومت ہند آج بھی غیر قانونی طور پر ان کے آبا کی جائیداد پر قابض ہے اور یا تو انہیں اس کا قبضہ واپس دلایا جائے یا 1857 سے آج تک کا مالی معاوضہ دیا جائے۔
جب دہلی ہائی کورٹ نے 2021 اور 2024 میں ان کی عرضی کو "ناقابلِ قبول تاخیر” کی بنیاد پر مسترد کیا تو انہوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ مگر اب جب وہاں سے بھی مایوسی ہاتھ لگی تو وہ عوام سے رجوع کرنے پر مجبور ہو گئیں۔
’’میں نے غیر ملکیوں کی مدد قبول کرنے سے انکار کیا کیونکہ مجھے اپنے ملک کی عدالت پر بھروسا تھا… اب جب سب دروازےبند ہو گئے تو کیا بھیک مانگوں؟
سلطانہ بیگم کی یہ فریاد بلاشبہ تاریخی جذبات لیے ہوئے ہے، لیکن موجودہ نظام میں کسی مغل شہزادی کے دعوے کو لے کر عدالتوں سے انصاف کی امید کرنا کچھ ویسا ہی ہے جیسے دہلی میں پرانی دلی کے پتھروں سے کسی راجہ کا تخت نکل آئے۔ جذبات اپنی جگہ مگر قانون تو اپنے اصولوں کا پابند ہوتا ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ جو بات اب تک تاریخ کی کتابوں میں تھی وہ آج پھر خبروں کی زینت بنی — اور شاید کل پھر ماضی کا حصہ بن جائے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025