ڈاکٹر سلیم خان
بھارت سے بڑھتی کشیدگی کے درمیان مالدیپ کی چین سے قربت۔ صدر محمد معیزو ’’انڈیا آوٹ‘‘ وعدے کو سچ ثابت کرنے کے لیے بضد
کیا ملک کا سربراہِ مملکت کسی سیاحتی مرکز کا برانڈ ایمبیسیڈر بن سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب ویسے تو نفی میں ہے لیکن ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ اس لیے کہ ان کی سیاست کا بنیادی اصول ’اقتدار کے لیے کچھ بھی کرے گا‘ ہے۔ بی جے پی کے ڈریم پروجکٹ یعنی رام مندر پر جب دو عدد شنکراچاریہ نے ہلہ بول دیا تو اس کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر وزیر اعظم نریندر مودی لکشدیپ پہنچ گئے اور وہاں سمندر کے اندر ڈبکی لگائی تاکہ سیاح مالدیپ کے بجائے لکشدیپ کی سیاحت کریں ۔ مودی جی کے ذریعہ اشتراک کی جانے والی تصاویر میں وہ خود بہت سارے حفاظتی آلات سے لیس ہوکر پانی میں جاتے ہوئے تو نظر آئے مگر اندر وہ خود تھے یا ان کا ڈوپلیکیٹ تھا یہ جاننا مشکل ہے کیونکہ فلموں میں تو ایسے کام اداکار خود نہیں کرتے ۔ مودی جی اگر ہمیشہ کی طرح اخبار نویسوں کو اپنے ساتھ لے جاتے اور ٹی وی چینلس والے ان کی براہِ راست ڈبکی نشر کرتے تو شکوک و شبہات کا امکان ہی نہیں ہوتا۔ ویسے کانگریس نے یہ پوچھ کرکے کہ منی پور کب آوگے؟ اس پوری مہم کی ہوا نکال دی۔
وزیر اعظم کی اس مہم کا مقصد لکشدیپ کو فائدہ پہنچانا کم اور مالدیپ کو نقصان پہنچانا زیادہ تھا تاکہ وہ ہندوستان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے ۔ اس کے علاوہ مالدیپ کو اسلامی ملک بتا کر ہندو مسلم کارڈ کھیلنا بھی ایک ثانوی ہدف تھا حالانکہ مسلم ملک تو بنگلہ دیش بھی ہے۔ وہاں کے متنازع انتخاب کو پر امن قرار دینے والے مودی بھگت بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی ایک مسلم ملک ہے اور وہاں کی ہندو آبادی لکشدیپ میں رہنے بسنے والے ہندووں سے زیادہ محفوظ ہے۔ویسے اس ہنگامے کا اصل مقصد لکشدیپ اور مالدیپ کےتنازع میں میڈیا کی مدد سے عوام کو الجھا کر شنکر اچاریہ کی مخالفت پر پردہ ڈالنا بھی تھا۔ یہی وجہ ہےکہ ذرائع ابلاغ میں اس لایعنی بحث کو اس قدر اچھالا گیا کہ اس کے شور شرابے میں رام مندر کے افتتاح سے متعلق ہونے والی مخالفت پوری طرح دب گئی ۔ اس مقصد میں تو خیر مودی سرکار کو جزوی کامیابی ملی حالانکہ کچھ صحافیوں کے سبب شنکراچاریہ کامعاملہ ابھر کرسامنے آہی گیا۔
سوال یہ ہے کہ مودی بھگتوں کی توقع کے مطابق وزیر اعظم مودی کے ذریعہ لکشدیپ کی تشہیر کے بعد کیا مالدیپ روتا گڑگڑاتا ہندوستان کے قدموں میں آگیا؟ اس سوال کا جواب نہیں میں ہے ۔ جی ہاں مودی جی اپنی ساری اٹھا پٹخ کے باوجود نہ تو مالدیپ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکے اور نہ شنکر اچاریہ کے اختلاف کو منظر عام پرآنے سے روکنے میں انہیں کامیابی ملی۔اس دوران ہندوستان اور مالدیپ کے درمیان تیزی سے بگڑتے ہوئے تعلقات کے سبب مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے حکومتِ ہند کو 15 مارچ تک اپنی فوجیں واپس بلانے کا حکم دے دیا ، محمد معیزو نےاس دھمکی سے قبل چین کا دورہ کیا۔ انتخاب میں کامیابی کے بعد یہ ان پہلا چینی سرکاری دورہ تھا جہاں انہوں نے شی جن پنگ سے ملاقات کی۔حکومتِ ہند کی جانب سے اگرمالدیپ کی خوب مخالفت نہیں ہوئی ہوتی تو شاید ان کا ایسا زبردست خیر مقدم نہیں ہوتا ۔ دورے سے لوٹنے کے بعد صدر کے دفتر میں پبلک پالیسی ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹری عبداللہ ناظم ابراہیم نے اعلان کیا کہ ہندوستانی فوجی اہلکار اب مالدیپ میں نہیں رہ سکتے۔ یہ صدر ڈاکٹر محمد معیزو اور ان کی سرکاری پالیسی ہے۔
مالدیپ کے اندر ہندوستان کو کوئی بہت بڑا دستہ نہیں ہے ۔ وہاں پر اس وقت تقریباً 88 ہندوستانی فوجی موجود ہیں اور ان کے واپس آجانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن اگر کسی معاملے کو وقار کا مسئلہ بنادیا جائے تو معمولی بات بھی بہت بڑی ہوجاتی ہے۔مالدیپ، ہندوستان اور چین کے بیچ یہ ایک انا کا مسئلہ بن گیا تھا ۔ اس معاملے کو ٹالنے کی خاطر مرکزی وزیر کرن رجیجو نے نومبر میں مالدیپ کا دورہ کرکے موجودہ صدر محمد معیزو سے ملاقات بھی کی تھی لیکن وہ نتیجہ خیز نہیں رہی تو دونوں فریقوں نے ہندوستانی فوجی پلیٹ فارم کے مسلسل استعمال کی بابت ’’عملی حل‘‘ پر اتفاق کرلیا یعنی مالدیپ کے صدر کی ’’انڈیا آؤٹ‘‘ مہم پر دو ماہ کے اندر عمل در آمد پر راضی ہوگئے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ فوجی انخلاء کو ٹالنے کی خاطر یعنی مالدیپ پر دباو بنانےکے لیے لکشدیپ کا ہنگامہ کیا گیا ہو جو بارآور نہیں ہوا۔
بی جے پی جس طرح کشمیر کی دفع 370 کے خاتمہ کو اپنے منشور سے جوڑ کر کہتی ہے کہ ہم نے یہ وعدہ کیا تھا اس لیے ہم اسے عملی جامہ پہنانے کے پابند ہیں اسی طرح مالدیپ کے موجودہ صدر محمد معیزو نے انتخابی مہم کے دوران ہندوستانی فوجیوں کے انخلاء کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ قوم کو ’’اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کی سرزمین پر غیر ملکی افواج کی موجودگی نہ ہو۔‘‘ اس اقدام کے ذریعہ وہ اپنی ’’انڈیا آؤٹ‘‘ مہم کے عہد کو پورا کررہے ہیں جس کے سبب وہ اقتدار میں آئے تھے۔ اس طرح ایک طرف مندر بنانے کے وعدے کی تکمیل ہو رہی ہے دوسری جانب فوجیوں کو واپس بھیجنے کاعہد پورا کیا جارہا ہے۔ اس مقصد کے تحت مالے میں وزارت خارجہ کے اندررام مندر کے افتتاح سے ایک ہفتہ قبل ہندوستان اور مالدیپ کے درمیان ہندوستانی فوجیوں کے انخلاء پر باضابطہ بات چیت کا آغاز ہوا جو بالآخر فوجیوں کے انخلاء پر منتج ہوگا اس لیے کہ حکومتِ ہند نے مالدیپ کو سمجھانے کے لیے جو سخت رویہ اختیار کیا اس سے فاصلے کم ہونے کے بجائے اور بھی بڑھ گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دھونس دھاندلی کی حکمت عملی ہر جگہ کارگر نہیں ہوتی ۔
کارگہہ ہستی میں تین طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ عزیمت کی ذہنیت کے حاملین انجام سے بے پروا ہوکر اپنے سے زیادہ طاقتور سے بھڑ جاتے ہیں اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار بھی ہوتے ہیں جیسے حماس نے اسرائیل سے لوہا لینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے برعکس رخصت والے اپنے برابر کو ڈھونڈتے ہیں ۔ یہ لوگ ہار اور جیت کے درمیان جھولتے رہتے ہیں جیسے امریکہ اور چین لیکن فسطائی سوچ کے مالک اپنے سےکمزور کو تلاش کرکے اس پر چڑھائی کردیتے ہیں جیسے روس اور یوکرین لیکن اس میں بھی انہیں مکمل کامیابی نہیں ملتی ۔ روس اور یوکرین میں فرق تو ہے لیکن اتنا بڑا بھی نہیں کیونکہ مؤخرالذکر کے ساتھ پورا یوروپ اور امریکہ ہے۔ مودی سرکار نے اپنے آپ کو جہاں پناہ ثابت کرنے کے لیے مالدیپ کو ڈھونڈا جو مضحکہ خیر ہے۔ مالدیپ دنیا کے سب سے چھوٹے ممالک میں سے ایک ہے اور ہندوستان ابھی حال میں دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک بن گیا ہے۔ مالدیپ کی حیثیت کا اندازہ لگانے کے لیے اس سے متعلق کچھ اعدادو شمار پر ایک اچٹتی نگاہ ڈال لینا کافی ہے۔
مالدیپ سمندر سے گھرا ایک ایسا ملک ہےجس کا صرف ایک فیصد زمینی باقی نناوے فیصد پانی ہے۔ اس کے 1192 چھوٹے چھوٹے جزائر میں سے تقریباً 200 جزیروں پر ہی انسانی آبادی موجود ہے۔ ۔ مالدیپ کا دار الحکومت مالے ہے جہاں پورے ملک کے 80 فیصدباشندے قیام پزیر ہیں اور اس کا رقبہ ۸؍ مربع کلومیٹر ہے جبکہ سبرامنیم سوامی کے مطابق چین نے ہندوستان کے4؍ ہزار کلومیٹر علاقہ پر قبضہ کرلیا ہے اور مودی جی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے مگر مالدیپ پر زور دکھاتے ہیں۔ ہندوستان کے بڑے شہروں میں ایک محلہ کا رقبہ اس سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس شہر کی کل آبادی 252,768 افراد پر مشتمل ہے۔پورے ملک کی جملہ آبادی صرف 515,132 ہے اور اس کا نمبر167 واں ہے۔ ہندوستان دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت اور بہت جلد تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا جبکہ مالدیپ بیچارہ 157 ویں مقام پر ہے۔مالدیپ ایک معاملے میں ہندوستان سے آگے ہے اور وہ فی فرد شرح پیداوار۔ اس معاملے میں مالدیپ 54ویں مقام پر ہے جبکہ ہندوستان کا139 واں نمبر ہے یعنی وہاں غریب اور امیر کا فرق وطن عزیز سے بہت کم ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کوئی امبانی اور اڈانی نہیں ہے اس لیے ایسے سرمایہ دار کے ساتھ حکومت کی سانٹھ گانٹھ بھی نہیں ہے۔ خیر اتنے چھوٹے سے ملک کو اگر ہندوستان کا شکتی مان وزیر اعظم زیر کر بھی لیتا تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں تھی مگر افسوس کہ مودی جی سے یہ بھی نہیں ہوسکا۔
وزیر اعظم نریندرمودی نے مالدیپ کو زیر کرنے کے لیے اس کی سیاحت کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ ملک ہندوستان سے اٹھارہ سال بعد1965میں آزاد ہوا اور دوسال بعد جمہوریہ بھی بن گیا مگر 1970 کی دہائی تک اس کو کوئی نہیں جانتا تھا ۔اب اس کے 189 جزیروں میں سیاحوں کا آنا جاناہے۔ اس میں شک نہیں کہ مالدیپ سیاحت کے لیے ساری دنیا میں مشہور ہے وہاں پر2019 ء میں17 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے سیاحت کی غرض سے سفر کیا تھا۔ ہندوستان کے جوبھگت یہ سوچتے ہیں کہ ان کے بائیکاٹ سے وہ ملک کٹورہ لے کر سڑک پر آجائے گا یہ خیال درست نہیں ہے۔ ایسے لوگ یہ نہیں جانتے کہ مالدیپ کی جملہ شرح پیداوار کا صرف 28% سیاحت سے آتا ہے ۔ مالدیپ جانے والے سیاحوں میں کل 16 ؍ فیصد ہندوستانی ہوتے ہیں یعنی اگر ہندوستان کے سیاح دیگر ممالک کے باشندوں کے برابر خرچ کریں تب بھی ساڑھے چار فیصد کی معیشت کو متاثر کریں گے اور اگر وہ کم خرچ کرتے ہیں جس کا قوی امکان ہے تو یہ تین فیصد بھی نہیں ہوگا۔ اس سے مالدیپ کی معیشت پر کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا ۔ مودی جی کے مشیر لازماً ان اعدادو شمار کو نہیں دیکھے ہوں گیں ورنہ وہ وزیر اعظم کو لکشدیپ کا برانڈ ایمبیسیڈر بننے کا مشورہ نہیں دیتے۔
لکشدیپ کو اچانک مالدیپ کے برابر کھڑا کرنے والے مودی جی بھول گئے کہ سیاح وہیں جاتے ہیں جہاں آرام کی سہولیات ہوتی ہیں۔ مالدیپ نے پچھلے پچاس سالوں میں سیاحت کے فروغ کی خاطر جو محنت کی ہے وہ وزیراعظم کے ایک دورے سے فراہم نہیں ہوجائے گی ۔ ان سہولتوں کو بننے میں وقت لگتا ہے۔ اس لیے کہ ساحل سمندر پر سیر وتفریح کے بعد سیاح کو آرام دہ بستر درکار ہوتا ہے ۔ دو جنوری کوجب وزیر اعظم نریندر مودی نے لکشدیپ کا دورہ کرنے کے بعد وہاں کی اپنی تصویریں ایکس پر شیئر کیں تو ان کے بھگتوں نے مالدیپ کی موت کا جشن منانا شروع کردیا ۔ اس کے رد عمل میں مالدیپ حکومت کے اندر ایک نائب وزیر نے مودی پر نازیبا تنقید کرتے ہوئے انہیں ’’مسخرہ‘‘ ’’دہشت گرد‘‘ اور ’’اسرائیل کا کٹھ پتلی‘‘ جیسے القاب سے نواز دیا۔ آگے چل کر اس پوسٹ کو حذف کر دیا گیا نیز مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے تحقیقات کا حکم دےکر نتائج آنے تک نائب وزراء کو معطل کر دیا۔اس تنازع پر مالدیپ کے وزیر خارجہ موسی ضمیر نے کہا تھا غیر ملکی رہنماؤں کے خلاف اس طرح کے ریمارکس ’’ناقابل قبول‘‘ ہیں اور یہ مالدیپ حکومت کے سرکاری موقف کی عکاسی نہیں کرتے۔انہوں نے وضاحت کی کہ مالدیپ اپنے تمام شراکت داروں بالخصوص پڑوسیوں کے ساتھ ’مثبت اور تعمیری بات چیت‘ کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔ہم سایہ ممالک کے ساتھ ہمارے رشتے، باہمی احترام اور افہام و تفہیم پر مبنی ہیں۔
مودی بھگتوں نے اس خیرسگالی کا مطلب یہ لیا محمد معیزو ڈر گئے ہیں اور ہندوستانی سرکار کے سامنے گڑ گڑا رہے ہیں۔ اپنے مخاطب کی شرافت کو اس کی کمزوری سمجھنا اور اس پر خیالی پلاو بناکر خوش ہونا مودی بھگتوں کا شعار بن گیا۔ یہ لوگ ہر طرح سے پریشان حال ہیں مگر اس طرح کی جذباتی باتوں سے آسودگی کا سامان کرتے ہیں اور دشمنوں کو دوست بنانے کے بجائے دوستوں کو دشمن بنادیتے ہیں ۔ پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے حکومتِ ہند سے بہت اچھے تعلقات تھے اور یہ بات بھی مشہور ہے کہ خالصتان تحریک کو کچلنے میں خفیہ معلومات فراہم کرکےانہوں نے نرسمہاراو کی خاصی مدد کی تھی۔اتفاق سے آج کل بلاول بھٹو وزیر خارجہ ہیں مگر حکومت ہند نے ان سے تعلقات اتنا خراب کردئیے کہ بلاول نے سرزمین امریکہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کو نہ صرف گجرات کا قصائی بلکہ گوڈسے کا ہمنوا اور سنگھ کا سیوک کہہ ڈالا۔ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کی جانے والی بدسلوکی سے بھگت تو خوش ہوتے ہیں مگر ملک کے لیے یہ نقصان دہ ہے۔ محمد معیزو نے بھی اپنے چین کے دورےسےبھگتوں کی ساری خوش فہمی دور کردی۔
محمد معیزو کا یہ پہلا چینی سرکاری دورہ تھا ۔ اس پر انہوں نےخوشی کا اظہار کیا کہ وہ نئے سال میں چین کے لیے پہلے غیر ملکی سیاسی مہمان ہیں۔مالدیپ کے صدارتی دفتر نے ٹویٹر پر لکھا، ’’آج دونوں صدور کی موجودگی میں حکومت مالدیپ اور چین کی حکومت کے درمیان 20 بڑے معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔‘‘ان معاہدوں میں سیاحتی تعاون کے علاوہ بلیو اکانومی، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ڈیجیٹل اکانومی میں سرمایہ کاری کو مضبوط بنانا شامل ہے۔ اس طرح مالدیپ کا سیاحت کی صنعت پر انحصار کم ہوگا۔ چین نے مالدیپ کو مزید امداد فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے تاہم اس کی رقم ہنوز صیغۂ راز میں ہے۔ مالدیپ میں چین سڑکوں کے تعمیراتی کاموں کو تیز کرنا چاہتا ہے نیز مکانوں کی تعمیر اور ماہی گیری کی مصنوعات کی فیکٹریاں بھی لگانا چاہتا ہے تاکہ مالدیپ پوری طرح در آمدات پر منحصر رہنے کے بجائے خود کفالت کی جانب قدم بڑھائے۔ہندوستان کے قدیم حلیف کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے چینی صدر شی جن پنگ نے اس بات پر زور دیا کہ چین مالدیپ کا احترام اور حمایت کرتا ہے اور اس کے قومی مفاد میں کئے جانے والے ترقیاتی ایجنڈے میں تعاون کرے گا۔
ہندوستان کے زخموں پر نمک پاشی کے لیے چینی صدر نے کہا کہ ان کا ملک قومی خودمختاری، آزادی، علاقائی سالمیت اور قومی وقار کے تحفظ میں مالدیپ کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے۔چین نہ صرف فوجی بلکہ معاشی لحاظ سے بھی ہندوستان سے بڑی طاقت ہے اس کے باوجود وہ اپنے حلیف ممالک کے ساتھ برادرانہ سلوک کرکے ان کو اپنا ہمنوا بنائے رکھتا ہے۔ اس کے برعکس مودی سرکار کی رعونت آمیز خارجہ پالیسی نے ہم سایہ ممالک کو نالاں کررکھا ہے ۔ ان میں سابق ہندو راشٹر نیپال سے لے کر اسلامی جمہوریہ پاکستان تک سبھی شامل ہیں ۔ بنگلہ دیش، نیپال، میانمار اور سری لنکا بھی ہندوستان کے مقابلے چین سے زیادہ قریب ہیں۔ مالدیپ کے ہندوستان سے قریبی تعلقات تھے مگر وہ بھی اب چین کے ساتھ چلا گیا۔ پچھلے ہفتہ ہندوستان اورمالدیپ کے درمیان جاری سفارتی کشیدگی کے سبب چینی صدر شی جن پنگ نے صدر محمد معیزو کا سرخ قالین پر خیر مقدم کیا اور انہیں توپوں کی سلامی دی گئی۔ اس کے لیے انہیں مودی سرکار کا شکر گزار ہونا چاہیے اس لیے کہ اگر دونوں ممالک کے اچھے تعلقات ہوتے تو محمد معیزو کی چین میں ایسی آو بھگت نہیں ہوتی۔ خیرمودی جی نادانستہ طور پراپنے دشمنوں کا اس طرح بھلا کرتے رہتے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے لداخ میں کوئی نہیں آیا کہہ کر چین کا بھلا کردیا تھا ۔ بھگتوں کا یہ نعرہ درست ہے’مودی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے‘۔
***
***
مالدیپ کے ہندوستان سے قریبی تعلقات تھے مگر وہ بھی اب چین کے ساتھ چلا گیا۔ پچھلے ہفتہ ہندوستان اورمالدیپ کے درمیان جاری سفارتی کشیدگی کے سبب چینی صدر شی جن پنگ نے صدر محمد معیزو کا سرخ قالین پر خیر مقدم کیا اور انہیں توپوں کی سلامی دی گئی۔ اس کے لیے انہیں مودی سرکار کا شکر گزار ہونا چاہیے اس لیے کہ اگر دونوں ممالک کے اچھے تعلقات ہوتے تو محمد معیزو کی چین میں ایسی آو بھگت نہیں ہوتی۔ خیرمودی جی نادانستہ طور پراپنے دشمنوں کا اس طرح بھلا کرتے رہتے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے لداخ میں کوئی نہیں آیا کہہ کر چین کا بھلا کردیا تھا ۔ بھگتوں کا یہ نعرہ درست ہے’مودی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے‘۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جنوری تا 27 جنوری 2024