لاقانونیت کا چرچا ،مستقبل کے لیے خطرہ

بھارت۔کناڈا تلخی میں ملک کی شبیہ داغ دار نہ ہونے پائے

شہاب فضل، لکھنؤ

خفیہ اور سلامتی ایجنسیوں کو پارلیمنٹ کے تئیں جواب دہ بنانے کی ضرورت
اندرون و بیرون ملک غنڈہ عناصر کی پشت پناہی، سنگین نتائج کی حامل ہو سکتی ہے
جیل میں قید ہونے کے باوجود جرائم پیشہ اور مافیا عناصر کی سرگرمی قانون و انصاف کے اداروں کے لیے خطرے کی گھنٹی
بھارت اور کناڈا کے تعلقات گزشتہ ایک برس سے زائد عرصہ سے تلخ و ترش ہیں جس کی شروعات 18 جون 2023 کو کناڈا میں خالصتانی انتہا پسند ہردیپ سنگھ نجر کے قتل سے ہوئی، جس کا الزام کناڈا نے بھارتی ایجنٹوں پر لگایا۔ کناڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور وہاں کی سلامتی ایجنسیوں کا الزام ہے کہ کناڈا کی سرزمین پر قتل اور قتل کی کوشش سمیت مجرمانہ حملوں، دھمکیوں اور تشدد کے واقعات میں ’بھارتی ایجنٹ‘ ملوث ہیں۔ بھارت نے ان الزامات کو یکسر مسترد کردیا ہے تاہم، نیویارک کی ایک عدالت میں گزشتہ 18 اکتوبر کو امریکہ کے محکمہ انصاف نے بھارت کے ایک سابق انٹلی جنس افسر وکاس یادو پر خالصتانی انتہاپسند، امریکی شہری اور ’سکھس فار جسٹس‘ کے سربراہ گرو پتنونت سنگھ پنو کے قتل کی سازش رچنے اور منی لانڈرنگ کا الزام لگاتے ہوئے اسے ایک مطلوب ملزم قرار دیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا سمجھا جارہا تھا اور امریکہ و کناڈا تک بھارت کی شبیہ مجروح ہو رہی ہے جسے بچانا ایک ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہا ہے۔
بھارت فی الحال امریکہ کے ساتھ گفت و شنید اور تعاون کرتے ہوئے ’انتظار کرو اور دیکھو‘ کی پالیسی پر گامزن ہے۔ بھارت کی نظر خاص طور سے اس بات پر ہے کہ کناڈا کے اگلے انتخابات میں جسٹن ٹروڈو کامیاب نہ ہونے پائیں جنہوں نے اس پورے قضیہ میں بھارت کے ساتھ کچھ زیادہ ہی سخت رخ اپنایا ہے۔ بھارت نے یہ کہا بھی ہے کہ ٹروڈو کے الزامات کے پیچھے سیاست کار فرما ہے۔ کناڈا کی مجموعی آبادی میں سکھ تقریباً دو فیصد ہیں جو وہاں کے انتخابات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ اور لارنس بشنوئی گروہ
کناڈا نے جب اس معاملہ میں بھارت کے ہائی کمشنر سنجے ورما اور دیگر سفیروں کو نجر کے قتل کی تفتیش میں شامل کرنے کا عندیہ ظاہر کیا تب سے تعلقات زیادہ بگڑے اور عوامی سطح پر بیانات اور بین الاقوامی میڈیا میں وسیع کوریج ملنے کے بعد کچھ بھی خفیہ نہیں رہ گیا ہے۔ کناڈا کا الزام ہے کہ بھارتی سفارت کار بھارتی نژاد چنندہ لوگوں کے سلسلہ میں معلومات جمع کرکے جرائم پیشہ گروہوں کو دے رہے تھے جو ان اطلاعات کو قتل اور جبریہ وصولی سمیت دیگر جرائم کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے کناڈا اور امریکہ کی سلامتی و خفیہ ایجنسیوں کے حوالہ سے لکھا کہ اس سازش میں ایک بھارتی گینگسٹر لارنس بشنوئی اور اس کے گرگے شامل ہیں۔ دوسری طرف 12 اکتوبر کو عین دسہرے کے دن ممبئی میں این سی پی کے ایم ایل اے بابا صدیقی کے سنسنی خیز قتل میں بھی لارنس بشنوئی گروہ کا نام سامنے آیا جس سے بھارت پوری دنیا میں مافیا اور بین الاقوامی خفیہ آپریشنز کے حوالہ سے سرخیوں میں ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں مودی حکومت کے ایک سینئر وزیر کا بھی نام لیا گیا ہے۔
امریکہ کی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کے ڈائرکٹر کرسٹوفر رے نے کہا ہے کہ ’’بھارت سرکار کے ملازم وکاس یادو نے اپنے اختیارات اور خفیہ جانکاری تک رسائی کا استعمال کرکے پچھلے برس گرمیوں میں امریکی سرزمین پر پنو کے قتل کی سازش رچی جو ایک امریکی شہری ہے‘‘۔ ایف بی آئی نے کہا کہ تشدد کی کارروائیاں ناقابل قبول ہیں۔ امریکہ میں رہنے والے لوگوں سے بدلہ لینے کی کوششیں برداشت نہیں کی جائیں گی اور امریکی شہریوں کے آئینی و قانونی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ وکاس یادو بھارتی خفیہ ایجنسی’ را ‘کے لیے کام کرتا تھا۔ بھارت نے امریکہ کو مطلع کیا ہے کہ وکاس یادو اب ’را‘ کے لیے کام نہیں کرتا اور وہ مفرور ہے۔ پنو کے قتل کی سازش رچنے میں وکاس یادو کے ساتھ نکھل گپتا نامی شخص شامل تھا جسے پچھلے برس چیکوسلوواکیہ میں گرفتار کیا گیا اور اب وہ امریکی جیل میں ہے۔
خفیہ ایجنسی کا مبینہ ایجنٹ وکاس یادو امریکی محکمہ انصاف کو مطلوب اس پورے قضیہ میں امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور یو کے، کناڈا کی مدد کر رہے ہیں۔ خفیہ اطلاعات کے تبادلہ کے لیے ان پانچوں ممالک کا ایک اتحاد قائم ہے جسے فائیو آئیز کہا جاتا ہے۔ فائیو آئیز کے ممالک کناڈا کے ساتھ کھڑے ہیں جس سے اسے تقویت مل رہی ہے اور بھارت بین الاقوامی سفارت کے محاذ پر ایک پیچیدہ صورت حال سے دوچار ہے۔
کناڈا میں اس قضیہ سے متعلق انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہوئے وزیر اعظم ٹروڈو نے کہا کہ بھارتی حکومت نے یہ سوچ کر خوفناک غلطی کی ہے کہ وہ اس حد تک جارحانہ مداخلت کرسکتے ہیں کہ کناڈا کی سلامتی اور خودمختاری کو چیلنج کریں۔
نیویارک کی ایک عدالت میں داخل کردہ امریکی محکمہ انصاف کی چارج شیٹ میں وکاس یادو کو بھارتی حکومت کا ایک ملازم قرار دیا گیا ہے، جب کہ اس سے ایک روز قبل ایک بھارتی جانچ ٹیم نے امریکی حکام سے مل کر انہیں بتایا کہ وکاس یادو اب بھارتی حکومت کا ملازم نہیں ہے۔ اس چارج شیٹ میں وکاس یادو کی ایک تصویر شامل ہے جس میں وہ بھارتی سی پی آر ایف کی ڈریس میں نظر آرہا ہے جہاں سے وہ ڈپوٹیشن پر کابینی سکریٹریٹ میں آیا جس کے تحت خفیہ ایجنسی ’را‘ کا دفتر قائم ہے۔ اس چارج شیٹ کے مطابق مئی 2023 یا اس کے آس پاس وکاس یادو نے ایک بھارتی شہری نکھل گپتا سے رابطہ کیا جو منشیات کے بین الاقوامی کاروبار اور اسلحہ کی اسمگلنگ میں شامل ہے۔یادو کے کہنے پر گپتا نے نیویارک میں پنو کے قتل کے لیے کسی شوٹر کی خدمات حاصل کرنے کے لیے ایک شخص سے رابطہ کیا جو کوئی جرائم پیشہ نہیں بلکہ امریکہ محکمہ انسداد منشیات سے وابستہ ایک اہلکار تھا۔ اس طرح یہ سازش بے نقاب ہوئی اور نکھل گپتا کو جون 2023 میں پکڑ لیا گیا۔
امریکی محکمہ انصاف کی چارج شیٹ میں جو بیان شامل ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ امریکہ، بھارت کے بہانے چین اور روس کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ اس کی سر زمین پر ان دونوں ملکوں کی حکومتوں سے برسر پیکار سرگرم کارکنوں کے ’سازشی قتل‘ کے خطرات سے امریکہ آگاہ اور مستعد ہے اور ایسی کسی کوشش کے سنگین منفی نتائج برآمد ہوں گے۔
جیل سے بشنوئی کی سرگرمی پر سوال در سوال
اس میں کوئی شک نہیں کہ کناڈا کے ساتھ بھارت کی رسہ کشی کو امریکہ اپنے مفاد میں بھنانے کو بھرپور کوشش کرے گا، البتہ ملکی سطح پر بھارت میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ آخر لارنس بشنوئی 2014 سے جیل میں قید ہونے کے باوجود کس طرح اپنا مجرمانہ نیٹ ورک چلا رہا ہے؟ اس کے بھرپور طریقہ سے سرگرم ہونے سے اس خیال کو تقویت مل رہی ہے کہ کہیں اسے طاقتور سیاستدانوں کی سرپرستی تو حاصل نہیں ہے؟ بشنوئی کے کناڈا کے روابط بھی اسے یہاں فعال بنائے ہوئے ہیں۔ ممبئی پولیس کے لیے اس بات کا پتہ لگانا اور شواہد جمع کرنا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہوگا کہ بابا صدیقی کو قتل کرنے کی سازش گجرات کی سابرمتی جیل میں رچی گئی جہاں بشنوئی فی الوقت منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں بند ہے۔
اس سلسلہ میں یہ ابت قابل ذکر ہے کہ بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہیتا (بی این ایس ایس) کی دفعہ 303 سی آر پی سی کے سیکشن 268 (1) کے تحت وزارت داخلہ کا ایک حکم نامہ سامنے آیا ہے جس کے ذریعہ بشنوئی کو کسی دیگر جگہ تفتیش کے لیے لے جانے سے روک دیا گیا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ممبئی پولیس اسے اپنی تحویل میں نہیں لے سکتی اور تفتیش کے لیے ممبئی پولیس کو گجرات کی سابرمتی جیل میں جانا ہوگا۔ممبئی میں فلم اداکار سلمان خان کے گھر کے باہر شوٹنگ کے معاملہ میں بشنوئی ممبئی پولیس کو مطلوب تھا مگر تب بھی پولیس اسے اپنی تحویل میں نہیں لے سکی تھی۔
دراصل اگست 2023 میں وزارت داخلہ نے بشنوئی کے سلسلہ میں سی آر پی سی کی دفعہ 268 کے تحت ایک حکم جاری کر کے اسے کسی اور جگہ منتقل کرنے کی ایک سال کے لیے ممانعت کر دی۔ پھر سی آر پی سی کی جگہ لینے والے بی این ایس ایس کی دفعہ 303 کے تحت اگست 2024 میں اس میں مزید ایک سال کی توسیع کی گئی۔ قانون کی یہ ایسی شق ہے جو مرکزی یا ریاستی حکومت کو کسی قیدی کو ایک مخصوص جیل کے اندر محصور رکھنے کا اختیار دیتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں بشنوئی کو کسی عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت نہیں دی جاسکتی اور جیل کی حدود میں اس سے پوچھ گچھ کے لیے عدالت سے حکم حاصل کرنا ہوگا۔ جیل کے اندر پوچھ گچھ کے اپنے کچھ حدود و قیود ہیں، اہلکاروں کی زیادہ تعداد کو جیل کے اندر جانے کی اجازت نہیں مل سکتی اور ملزم کے دیگر ساتھیوں سے بھی اس کا سامنا نہیں کرایا جاسکتا۔ اس سے ان قیاس آرائیوں کو ہوا ملی ہے کہ گینگسٹر کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے، جس کی حقیقت گہری تفتیش سے ہی معلوم ہو سکتی ہے۔
’عظیم جمہوریت‘ کے سامنے مشکل سوالات
کناڈا کی سر زمین پر خالصتانی انتہا پسندوں کو ملنے والی ’آزادی‘ جگ ظاہر ہے ، لیکن ایک ’عظیم جمہوریت‘ کے دعویدار ہونے کی حیثیت سے یہ سوال ہمیں خود سے بھی کرنا ہوگا کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں آخر کس کو جواب دہ ہیں؟
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے وکیل مینش تیواری کا کہنا ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیوں کو پارلیمنٹ کی نگرانی میں ہونا چاہیے اور انہیں پارلیمنٹ کے تئیں جواب دہ بنانا چاہیے۔انہوں نے اس سلسلہ میں پارلیمنٹ میں ایک آزاد بل پیش کرنے کی بھی تجویز دی ہے۔
ایجنسیوں کو جواب دہ بنانے کا خیال ایسا ہے جس سے ملک کے لیے کسی بھی پہلو سے نقصان دہ اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ان کی شمولیت پر نکیل کسی جاسکے گی۔ منیش تیواری نے بھارت-کناڈا تلخی کے پس منظر میں یہ بات کہی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں انہوں نے آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے لیے تحریر کردہ اپنے ایک مضمون کو بھی منسلک کیا ہے جس میں انہوں نے اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور خفیہ، سلامتی و تفتیشی ایجنسیوں بشمول سی بی آئی، سیریس فراڈ انوسٹی گیشن آفس (ایس ایف آئی او) انٹلیجنس بیورو اور ریسرچ اینڈ انالیسز ونگ (را) کو مغربی ممالک کی طرز پر پارلیمنٹ کی نگرانی میں رکھے جانے کی وکالت کی ہے۔ فی الحال ان ایجنسیوں کی الگ الگ نوعیت ہے اور کچھ کے طریقہ کار میں ابہام ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات ان کے غلط اور سیاسی استعمال کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی منظم جرائم پیشہ گروہوں کو پنپنے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے فوجداری نظام انصاف کو مضبوط بنایا جائے ورنہ لا قانونیت کا راج ہوگا اور شہریوں کی امن و سلامتی کو ہمہ وقت خطرہ لاحق رہے گا۔
امریکہ کے کناڈا کے ساتھ قضیہ میں پڑنے کے بعد یہ پہلو بھی ہمارے سامنے ہونا چاہیے کہ اندرون و بیرون ملک غنڈہ ذہنیت کو رواج دینا اور کمزور نظام انصاف کی آڑ میں اس کی پشت پناہی کرنے کے نہایت سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ یہ کناڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو سے براہ راست ٹکراؤ کا معاملہ نہیں بلکہ ہمیں اپنے کے مفادات، بیرون ملک مقیم ہند نژاد شہریوں کے مفادات اور کناڈا میں مقیم سکھوں کے سامنے درپیش مشکلات کے تناظر میں بھی اس مسئلہ کو دیکھنا چاہیے۔ کناڈا میں ہند نژاد بھارتیوں کی کثیر تعداد رہتی ہے۔ پنجاب کے بعد یہاں سکھ سب سے زیادہ آباد ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے تقریباً تین لاکھ طلبہ کناڈا میں زیر تعلیم ہیں۔ کناڈا کے ساتھ بھارت کے خراب تعلقات ان پر بھی منفی اثرات مرتب کریں گے۔
ایک ذمہ دار جمہوری ملک کے طور پر بھارت کو ان تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھنا ہوگا اور ایک زیادہ متوازن، سلجھا ہوا اور سنجیدہ و دیرپا موقف اپنانا ہوگا جو عالمی قوانین اور جمہوریت و انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو اور عالمی سطح پر ہماری شناخت، قوانین کی پاسداری کرنے والے ملک کی بنے۔ اس پورے معاملے میں اگر ہم صاف و شفاف ابھر کر سامنے نہ آسکے تو عالمی سطح پر یہ خسارے کا معاملہ ثابت ہو سکتا ہے۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اکتوبر تا 2 نومبر 2024