لاکھ حکیم سربجیب ایک کلیم سربکف

’’ہر مرض کی دوا ہے صل علی محمد‘‘

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

مولانا کلیم صدیقی کے قلم سے ایک ایمان افروز کتاب
رات کے اندھیرے میں شہاب ثاقب کا اگر کسی نے نظارہ کیا ہے تو اسے اندھیرے کا سینہ چیرتی ہوئی تیز روشنی کا تجربہ ہوا ہوگا کچھ ایسی ہی کیفیت کا تجریہ ہوتا ہے جب ایک انسان کومولانا کلیم صدیقی کی تحریروں کے مطالعہ کا موقعہ ملتا ہے۔ لفظ لفظ میں خوشبو ،عبارتیں روشن اور روحانیت سے معطر، اندھیروں کو کاٹتی ہوئی تنویر، دلوں کو معطر کرتی ہوئی مشک بار تحریر، ایمان آفریں اسلوب تقریر۔
مولانا کلیم صدیقی نے اس کتاب ’’ہر مرض کی دوا ہے صل علی محمد‘‘ میں جو باتیں کی ہیں وہ نئی نہیں ہیں۔ موضوع دعوت ہے یا روحانی اور اخلاقی تربیت ہے۔ تصوف کی کتابوں میں جو مضامین ملتے ہیں وہ اس کتاب میں مل جاتے ہیں۔ کتاب کی حیثیت عطر مجموعہ کی ہے اس سے قاری کی تربیت بھی ہوتی ہے اس کے علم میں اضافہ بھی ہوتا ہیے اور دعوت کے کام کے لیے شرح صدر بھی ہوتا ہے۔ واعظین شیوہ بیان ان باتوں کوعموماً بیان نہیں کرتے ہیں اس لیے کہ ان کاخود ان پر عمل نہیں ہوتا ہے لیکن مولانا کلیم صدیقی کے یہاں یہی باتیں عمل اور کردار کی زبان سے بھی رات دن دہرائی جاتی ہیں ان کا ان پر عمل ہے یہ ان کا اسوہ حیات ہے، اس لیے ہر لفظ میں تاثیر ہے اورقوت تسخیر ہے۔ یہ کتاب جس شخص کے گھر میں پڑھی اور سنائی جائے گی توقع ہے کہ وہ گھر اسلامی زندگی کا نمونہ بن جائے گا اس گھر سے اسلام کی خوشبو پھوٹے گی اور گھر سے محلہ میں اور محلہ سے شہر میں۔ جس طرح سے پھولوں کی عطربیز خوشبو پورے چمن میں پھیل جاتی ہے اور ہر شخص کے مشام جاں کو معطر کرتی ہے اسی طرح سے اس کتاب کی روحانی اور اخلاقی خوشبو دور در تک پھیلے گی۔ لیکن یہ اسی شکل میں ہوگا جب یہ کتاب پڑھی جائے ہر گھر میں سنی اور سنائی جائے اگر ایسا ہوا تو پھر یہ کتاب انقلاب بردوش بن جائے گی جس گھر میں یہ کتاب پڑھی اور سنی سنائی جائے گی اس گھر سے اسلامی انقلاب کی کرنیں پھوٹیں گی محلہ اور ماحول کو اسلام آشنا بنائیں گی۔ اس کتاب کا نام جو مصنف نے رکھا ہے میرے خیال میں اس کے بعدقوسین میں یہ بھی لکھا ہونا چاہئیے ’’ نور ہدایت کا خزینہ اور ایمان افروز واقعات کا گنجینہ‘‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کتاب نور ہدایت کا خزینہ ہے اور اس میں اسوہ رسول اور اسوہ صحابہ کے موثر واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ انہوں نے اسلامی دعوت کے قبول کرنے کے دلکش واقعات موثر انداز میں بیان کیے ہیں۔ ایک راجپوت عورت کے قبول اسلام کا واقعہ، کملا ثریا کے اسلام لانے کا واقعہ اور کئی واقعات دل کو چھو لیتے ہیں اس کتاب سے اسوہ رسول کی پیروی کا داعیہ دل میں پیدا ہوتا ہے ۔ہر مضمون کا اختتام ہر آغاز کا انجام اس بند پر ہوتا ہے
’’ ان کے نقش قدم پہ چلنے سے منزلیں ٹھوکروں میں رہتی ہیں‘‘
اس مفہوم کو اقبال نے اسی طرح سے ادا کیا ہے
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
ہندوستان کے موجودہ دورمیں جب کہ مسلمان اقلیت میں ہیں اور انہیں اکثر یت کے جبر واستیداد کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور جب کہ انہیں کوئی راہ نظر نہیں آرہی ہے اس کتاب میں مسلمانوں کو راہ نجات نظر آئے گی۔ یہ کتاب وہ لائف بوٹ بن سکتی ہے جو امت مسلمہ کو طوفان سے بچا لے گی۔ یہ کتاب مسلمانوں کو ایک ایمانی اور روحانی تجربہ سے گزار سکتی ہے اور بیاباں کی شب تاریک میں ایک قندیل رہبانی بن سکتی ہے۔ یہ کتاب ایک فرد کو بدل سکتی ہے اور ایک پورے خاندان کو بدل سکتی ہے اور اس کے بعد پورے معاشرہ کو بدل سکتی ہے، شرط یہ ہے کہ یہ کتاب پڑھی جائے اور گھر میں اور مسجدوں میں پڑھ کر سنائی جاے۔
یہ کتاب ایک داعی اسلام کے قلم سے ہے، ایک ایسے داعی اسلام کے قلم سے جس نے سنت یوسفی تازہ کر دی ہے جو اس وقت جیل میں ہے جسے دعوت اسلام کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے۔ اس نے شعب بن ابی طالب کی طرح زندگی کے کٖچھ ماہ وسال حبس بے جا میں گزارے ہیں لیکن وہاں بھی وہ دعوت کے کام سے باز نہیں آیا۔ جب لوگوں نے شعلہ دعوت کو بجھانا چاہا تو شعلے اور بھی ہوا دینے لگے، جیل کی سلاخوں کے پیچھے دعوت کا آوازہ اس طرح بلند ہوا جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے بلند کیا تھا یا صاحبی السجن ارباب متفرقون خیر ام اللہ الواحد القہار ( یوسف) یعنی اے جیل کے ساتھیو، بہت سے متفرق معبود کاعقیدہ زیادہ بہتر ہے یا ایک خدئے واحد وقہار کا عقیدہ؟ قیدیوں کے درمیان دین کی دعوت کا کام جناب کلیم صدیقی کے ذریعہ جاری رہا، شمیم دعوت وہاں بھی ایسی پھیلی جیسے بوے گل چمن میں پھیل جاتی ہے، کئی قیدیوں نے اسلام قبول کیا۔ جیل کے ذمہ داریہ دیکھ کر بریشان ہوگئے اور کلیم صدیقی کی بیرک بدلنے پر مجبور ہوئے۔ شاعر نے یہ نغمہ کسی اور موقعہ و محل کے لیے کہا ہوگا لیکن مولانا کلیم صدیقی کی زبان سے بھی بر محل محسوس ہوگا
جرم الفت پہ ہمیں لوگ سزا دیتے ہیں
کیسے نادان ہیں شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
جیل کے واقعات کی تفصیلات تو لوگوں کو اس وقت معلوم ہوں گی جب مبلغ اسلام جناب کلیم صدیقی اپنی کوئی خود نوشت سوانح حیات جیل سے باہر آنے کے بعد ترتیب دیں گے۔
آئیے ہم سب مل کر داعی اسلام جناب کلیم صدیقی کی اس کتاب کا استقبال کریں ۔ اس کتاب کا استقبال دعوت اسلام کا استقبال ہے یہ دعوت اسلام کی نرسری ہے اور اس نرسری سے لے کر دعوت اسلام کا پودا اپنے اپنے شہراور اپنے مستقر میں لگانا ہے اور ہندوستان کی فضا کو بہار آشنا بنانا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اس کتاب کو خود پڑھیں اور اپنے معاشرہ میں لوگوں سے پڑھوائیں اپنے خاندان میں لوگوں کو اس کے پڑھنے کی ترغیب دیں۔ہندوستان میں مسلمان اپنی تاریخ کے تاریک ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ دور ابتلا بہت سخت ہے۔ہندوستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مسلمانوں کو حق کی ناصحانہ دعوت دینے سے روکا گیا لیکن آج روکا جارہا ہے اور زبردستی تبدیلی مذہب کا الزام لگایا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی عظمت واقبال کا چاندظلم استبداد کے بادلوں میں چھپ گیا ہے۔ اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ ان کی عزت واقبال کا چاند بادلوں سے باہر نکل آئے اور اس کی چاندنی سے راتوں میں اجالا ہوجائے تودعوت کے کام کو جگانا ہوگا وہ کام جوصدیوں سے اس ملک میں خوابیدہ پڑا ہوا ہے ۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 14 جنوری 2023