لیلۃ القدر کی تلاش :کیوں اور کیسے ؟

قدردانی کا تقاضہ ہے کہ شبِ قدر کا کوئی لمحہ ضائع نہ ہو

مجتبیٰ فاروق، ریسرچ اسکالر ، حیدرآباد

شبِ قدر عظیم راتوں میں سے ایک مُقدس رات ہے جس کا اندازہ ہم قرآن پاک کی اس آیت کریمہ سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرً مِّنْ اَلْفِ شَھَر یعنی یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔عرب میں لوگ جب کسی سے ایک بڑی تعداد کا تذکرہ کرتے ہیں تو وہ اس کے لیے ہزار کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ قرآن پاک نے اسی اسلوب کو مدِ نظر رکھ کر شبِ قدر کی فضیلت و اہمیت واضح کرنے کے لیے ہزار کا لفظ استعمال کیا ہے۔ شبِ قدر کی اہمیت اور فضیلت قرآن مجید سے وابستہ ہے کیونکہ قرآن مجید اسی رات میں نازل کیا گیا ہے جو انسانوں کے لیے رہتی دنیا تک رشد و ہدایت کی کتاب ہے۔ شبِ قدر کی اتنی فضیلت و اہمیت صرف اس اعتبار سے نہیں ہے کہ اس میں عبادت و ریاضت کا ثواب باقی تمام راتوں سے زیادہ ملتا ہے بلکہِ اس لیے ہے کہ یہ نزول قرآن کی رات ہے اور اس کی تمام تر فضیلت و اہمیت قرآن مجید ہی سے وابستہ ہے۔ بقول مولانا ابوکلام آزاد ’’پھر آہ! تمہاری غفلت کیسی شدید اور تمہاری گمراہی کیسی ماتم انگیز ہے کہ تم لیلۃ القدر کو ڈھونڈتے ہو لیکن اس کو نہیں ڈھونڈتے جو لیلتہ القدر میں اتارا گیا ہے جس کے ورد سے اس رات کی قدر و منزلت بڑھی۔ تم اگر اس کو پالو تو تمہارے لیے ہر رات لیلتہ القدر ہے‘‘۔ اس عظیم نعمت پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر ایک بہت بڑا احسان بھی ہے کہ اس کو نازل کر نے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انتہائی با برکت مہینہ کا انتخاب کیا۔
بارہ مہینوں میں سے فضیلت اور اہمیت کے اعتبار سے ماہِ رمضان کو تفوق حاصل ہے۔ ماہ رمضان تین عشروں پر مشتمل ہے جن میں تیسرے عشرے کو برتری حاصل ہے کیونکہ اسی میں شبِ قدر بھی واقع ہے۔اسی شبِ قدر کو تلاش کر نے کے لیے اللہ کے رسول ﷺ ہر سال پابندی سے اعتکاف کرتے تھے۔ رمضان کا تیسرا عشرہ جونہی آتا اللہ کے رسول ﷺ عبادت وریاضت کے لیے کمر کس لیتے تھے یعنی انتہائی چاق و چوبند اور اہتمام کے ساتھ پہلے دو عشروں سے زیادہ عبادت کرتے تھے۔ اس کی بہترین عکاسی حضرتِ عائشہ صدیقہ ؓ اس طرح کرتی ہیں کہ جب رمضان آخری عشرہ میں داخل ہوتا تو اللہ کے رسول ﷺ رات بھر جاگتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی جگاتے۔ انتہائی مشقت فرماتے اور عبادت کے لیے کمر باندھ لیتے تھے۔ لیلتہ القدر کو تلاش کرنے کے سلسلے میں اللہ کے رسول نے نہ صرف خود اہتمام فرمایا بلکہ اُمت کو بھی اس کا حکم فرمایا: شبِ قدر کو ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کر کیونکہ شبِ قدر آخری عشرے کے طاق راتوں میں ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی ۲۹ ،۲۷ اور ۲۸ تاریخ میں تلاش کرو۔
ایک اور موقع پر اللہ کے رسول نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ خود طاق ہے اور طاق راتوں کو پسند فرماتا ہے‘‘ ہم میں سے اکثر لوگ صرف ۲۷ویں شب کو ہی لیلۃ القدر تلاش کرتے ہیں، یہ طرز عمل صحیح نہیں ہے۔ ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں زیادہ سے زیادہ اپنے آپ کو رب کریم کے سپرد کرنا چاہیے تاکہ ماہ رمضان سے بھرپور فیض حاصل ہو اور آئندہ گیارہ مہینوں کے لیے یہ ہمارے لیے زادِ راہ ثابت ہو۔ شبِ قدر کو تلاش کرنے کا یہ بھی مقصد ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بندگی و اطاعت زیادہ سے زیادہ کریں۔ اسی لیے اللہ کے رسول نے شب قدر کی تاریخ کو متعین نہیں کیا۔ شب قدر کے تاریخ کا علم اس لیے مخفی رکھا گیا کہ اُمت رمضان کے آخری عشرہ میں انتہائی محنت و جستجو کے ساتھ اللہ کی عبادت میں یکسو ہو جائے اس لیے شب قدر کی تخصیص یا تعین کرنا صحیح نہیں ہے اور یہ آخری عشرہ کی پانچ طاق راتوں میں سے کوئی بھی رات ہو سکتی ہے۔
پس چہ باید کرد؟
آج کل مساجد میں لوگ جمع ہو کر وعظ و تبلیغ سننے کا بڑا اہتمام کرتے ہیں۔ ہر مسجد میں دو دو تین تین مقررین رات رات بھر تقریریں کرتے ہیں۔ نماز تراویح کے بعد تھوڑی دیر کے لیے قرآن و سنت کا تذکرہ کرنا تو اچھی بات ہے لیکن رات رات بھر تقریریں کرنا اور سننا مستحسن عمل نہیں ہے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ کسی طرح سے رات کٹ جائے اور وہ مقررین حضرات سے یہ کام بھی لیتے ہیں کہ وہ ان کو رات بھر بیدار رکھیں۔ حالانکہ شب قدر ایک ایسی عظیم رات ہے جس کا ایک لمحہ بھی غیر ضروری کام میں ضائع نہ کرنا چاہیے۔ اس شب میں مندرجہ ذیل باتوں کا خاص خیال رکھا جائے:
۱۔ ایمان و احتساب:
شب قدر میں جو بھی نیک عمل کریں ایمان و احتساب اور خلوصِ نیت کے ساتھ کریں۔ شب قدر میں قیام اللیل کا معاملہ ہو یا قرآن پڑھنے یا سننے کا، نوافِل پڑھنے کا معاملہ ہو یا ذِکر و اذکار کا، توبہ و استغفار کا معاملہ ہو یا دعاوں کا اہتمام، غرض کوئی بھی عمل ایمان و احتساب کے پہلو سے خالی نہ ہو۔ ہر عمل کرتے وقت یہ بات ذہن میں مستحضر رکھیں کہ میں جو بھی عمل کروں خالص اللہ ہی کے لیے کروں نہ کہ کسی اور کو دکھانے کے لئے؟ اللہ کے رسول کا ارشاد ہے: جو بھی شب قدر میں ایمان اور اجروثواب کی نیت سے قیام کرے گا اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔ اس حدیث کے تناظر میں شب قدر میں ہر نیک عمل کرتے وقت اسی بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ اس کے پیچھے اللہ کی رضا اور خوش نودی کی طلب ہو۔
۲۔ قیامِ لیل:
شب قدر قیامِ لیل کی رات ہے اس میں بنسبتِ رمضان کے باقی ایام سے قیام طویل ہوتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ قرآنِ مُقدس کو سنا جائے۔ شب قدر قرآن مجید کی سال گِرہ بھی ہے اس لحاظ سے بھی اس کا حق بنتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ قرآنِ مجید کو ترتیل سے پڑھنے اور سننے کا حکم ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ورتِّلَ القُرآن ترتیلاہً۔(مزمل : ۳) اور قرآن کو کھول کھول کر پڑھو۔ یعنی قرآنِ مجید کو اس طرح صاف صاف پڑھو کہ اس کا ہر حرف سمجھ میں آئے۔ قرآن مجید کا صرف پڑھنا اور سننا ہی مطلوب نہیں بلکہ فہم و تدبر بھی مطلوب ہے۔
۳۔ نوافِل کا اہتمام :
ماہِ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں کثرت سے نوافِل پڑھنے کا بہترین موقع ملتا ہے۔ لہٰذا اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔ نوافِل نہ صرف فرائض کی کوتاہیوں کی بھرپائی کرتی ہیں بلکہ قربِ الہٰی کو حاصل کرنے کا بھی بہترین ذریعہ ہیں۔ اس لیے شب قدر میں کثرت سے نوافِل کو پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
۴۔ ذِکر و اذکار کا اہتمام:
شب قدر میں کچھ لمحات ذِکر و اذکار کے لیے بھی مختص رکھیں۔ اللہ تعالیٰ کی یاد ہمیشہ دل و دماغ میں مستحضر رکھنا ہی ذِکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یاد سے انسان ایک لمحہ کے لیے بھی غافِل نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اس بات کی بار بار تاکید کی ہے: یَا ایُّھالذِّینَ اٰمنوا اذکُرواللہ ذِکرًا کثیرًا اے ایمان والو!تم کثرت سے اللہ کا ذکر کیا کرو۔ فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُم پس تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ قرآنِ مجید کی تلاوت اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ لہٰذا قرآن مجید ہی کو حرزِ جاں بنانا چاہیے۔
۵۔ توبہ و استغفار :
اپنے سابقہ گناہوں پر نادِم و پشیمان ہونا اور بقیہ زندگی میں اپنے آپ کو راہ حق پر ثابت قدم رکھنے کے لیے ہبہ کرنا توبہ کہلاتا ہے۔ توبہ و استغفار سے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ہر قسم کے غم اور مشکلات سے نجات دلاتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جو شخص استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لے اللہ تعالیٰ اس کے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ نکال دیتا ہے اور ہر غم و پریشانی سے اسے نجات دلاتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق بہم پہچاتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ شب قدر میں اگر دل سے گناہوں سے توبہ کی جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور شرف قبولیت بخشے گا۔
۶۔ دعاوں کا اہتمام :
شب قدر میں کثرت سے رب کائنات سے اپنی حاجتوں کے لیے ہاتھ پھیلائے جائیں۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں دعا کرنے کے لیے یوں ابھارتا ہے :وَقاَلَ ربّکُمْ ادَعُوْنِیْ استَجِب لَکُم تمہارا رب کہتا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ہی اصل عبادت ہے۔ حدیث پاک میں دعا کو عبادت کا مغز قرار دیا گیا۔اللہ سے جب کوئی بندہ دعا کرتا ہے تو وہ اس بندے پر بے حد خوش ہوتا ہے اور اگر کوئی اس سے دعا نہیں کرتا تو وہ نہ صرف ناراض ہوتا ہے بلکہ غضبناک بھی ہو جاتا ہے۔ شب قدر میں جس دعا کو سب سے زیادہ دہرانا چاہیے وہ یہ ہے۔ الَّلھُمَّ اِنَّکَ عفو تحب العفو فاعف عنّیِ۔ اے اللہ، مجھے معاف فرما کہ تو معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس تو مجھے معاف فرما دے۔
حرفِ آخر:
شب قدر ہر اعتبار سے تقدیر ساز رات ہے۔لہٰذا اس شب کے جو تقاضے ہیں وہ بھر پور طریقے سے ادا کریں اور کسی بھی لمحے کو ضایع ہونے نہ دیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ ہمارے لیے باعث خیر و فلاح ثابت ہو اور کہیں ایسا نہ ہو کہ شبِ حیات میں آفتاب بدست کچھ ایسے بھی ہیں جو قندیل تک نہ جلا سکے۔
***

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اپریل تا 22 اپریل 2023