لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

وقف ترمیمی بل 2024: اگلا نمبر ہندو انڈومنٹ ایکٹ کا بھی ہوسکتا ہے

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

مرکز، وفاقی ڈھانچے کو ختم کرنے کے در پے۔ یہ فقط ترامیم نہیں بلکہ اوقاف کو سرے سے مدون کرنے کی کوشش ہے
جس وقت سے حکومت نے وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا ارادہ کیا اس وقت سے اس بل پر مختلف گوشوں سے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں، حقیقت یہ ہے اس بل میں اتنی ترامیم ہیں کہ اسے نئی تدوین قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ خاص طور پر مسلمانوں میں مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024 کی بڑے پیمانے پر مخالفت کی جا رہی ہے، مسلمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس بل سے حکومت وقف کی املاک کو ہڑپنا چاہتی ہے۔ مسلمانوں کا یہ خدشہ حکومت کے سابقہ رویوں کی بنیاد پر پیدا ہوا ہے، کیوں کہ جب سے بھاجپا نے حکومت سنبھالی ہے، مسلمانوں کے تئیں اس کا رویہ ظالمانہ ہی رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ بھاجپا یہ بل کیوں لائی ہے ؟ اس کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں جس میں سے ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اس کے ذریعے سے وقف کا نظم مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لینا چاہتی ہے، ریاستوں کو جو اختیارات حاصل ہیں اس کو ختم کردینا چاہتی ہے، کیوں کہ اس کا نعرہ تو یہی ہے کہ ریاستوں سے سارے اختیارات چھین لیے جائیں، جو کچھ ہو وہ مرکز کی جانب سے ہو۔ بھاجپا کی ہر ممکن کوشش رہی ہے کہ ملک کے وفاقی ڈھانچے کو کم زور کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ون نیشن ون الیکشن، ون یونی فارم، ون لینگویج وغیرہ نعرے منظر عام پر آتے رہے اور اب وقف کو بھی اس میں شامل کرلینے کی کوشش جاری ہے۔اسی طرح مسلمانوں کو مستقل کیسے اضطراب میں مبتلا کیا جائے، یہ بھاچپا کا مرغوب مشغلہ ہے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ بل مسلم مخالف ایجنڈے کا ایک حصہ ہے لیکن اس کے پس پردہ جو بات ہے وہ یہ ہے کہ وقف کا سارا انتظام و انصرام اپنے ہاتھ میں لے لیا جائے جو اب تک ریاستی حکومتوں کے پاس ہے۔ عجب بات ہے کہ ریاستی حکومتیں اس پر خاموش ہیں، اس بل کو ریاستی حکومتوں کے اختیارات میں کمی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے اس پہلو پر توجہ نہیں گئی ہے۔ اب وقف بل لایا جا رہا ہے، کل ہندو اوقاف کا بل بھی آ سکتا ہے جو ریاستوں کے اختیارات میں ہے، ان کی نگرانی اور انتظام بھی ریاستی حکومتیں کرتی ہیں۔ ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ جو ان کے کنٹرول سے باہر ہے اس کے ذریعے سے ان پر بھی اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتے ہیں، آرا یس ایس کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ ہندو مذہبی پیشواؤں پر اس کا مکمل کنٹرول قائم ہو جائے۔ جو مجوزہ ترامیم ہیں ان میں اوقاف کا ریکارڈ اور اس کے سارے اعداد و شمار، اس کے متعلق قوانین بنانے کا اختیار مرکزی حکومت کو حاصل ہو جائے گا۔ اب اگر اوقاف کا یہ مسئلہ مرکز کے حوالے ہوتا ہے تو ریاستی حکومتوں کا تقریباً مکمل اخراج ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر تلنگانہ میں، تلنگانہ چیریٹیبل اور ہندو مذہبی انڈومنٹ اور اوقاف ایکٹ 1987 موجود ہے لیکن اس ترمیم کے بعد یہ ختم ہو جائے گا اور اسی طرح دیگر ریاستوں کا معاملہ ہے، اس ترمیمی بل کے بعد ریاستوں کو مداخلت کا موقع نہیں رہے گا، اس بات پر ریاستی حکومتوں کوغور کرنا چاہیے۔
بل میں جو ترامیم کی جا رہی ہیں وہ قابل اعتراض تو ہیں ہی، دستور سے بھی ٹکرا رہی ہیں۔ جو زمین بطور وقف دی جاتی ہے وہ کوئی پوشیدہ یا خفیہ طور پر نہیں دی جاتی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ وقف میں دی جانے والی زمین خفیہ نہیں دی جاسکتی، زمین وہی وقف کرسکتا ہے جو اس زمین کا مالک ہو اور اسے اپنی زمین کے کاغذات، دستاویزات وقف بورڈ میں جمع کروانے ہوتے ہیں، اسے اخبارات میں اس کا اعلان بھی کرنا ہوگا، اگر کسی کو اس پر اعتراض ہوگا تو وہ ایک سال کے اندر وقف ٹریبونل میں شکایت کرسکتا ہے، وقف میں درج ہونے سے پہلے اس زمین کی جانچ ہوتی ہے، سروے کمشنر کو مقرر کیا جاتا ہے جو زمینوں کا معائنہ کرتا ہے اور مقامی تحقیقات کے بعد اس کو وقف میں درج کرتے ہوئے اسے ریاستی گزٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔ ایک جھوٹا بیانیہ چلایا جا رہا ہے کہ زمینوں پر قبضہ کر کے انہیں اوقاف میں درج کیا جا رہا ہے، اس لیے حکومت اس میں ترمیم کرنا چاہتی ہے، اس مجوزہ ترمیم میں وقف انتظامیہ کو ضلع کلکٹر کے تحت کرنے کی بات کہی گئی ہے، یہی نہیں ضلع کلکٹر کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ پرانی اوقاف شدہ زمینوں کے معاملات کی دوبارہ جانچ کر سکتا ہے، وہ یہ تعین کرے گا کہ آیا یہ زمین سرکاری زمین تو نہیں ہے؟ کلکٹر کی منظوری کے بغیر وقف میں کوئی نیا رجسٹریشن نہیں ہو سکتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندو اوقاف میں کلکٹر کو کسی بھی قسم کی مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔
دوسرا اعتراض سروے کمشنر کے کردار پر ہوتا ہے۔ وقف املاک کا سروے کرنے کے لیے ریاستی حکومت سروے کمشنر مقرر کرتی ہے، اسے تنخواہ دیتی ہے۔ سروے کمشنر کی تقرری آئین کے آرٹیکل 27 کی خلاف ورزی ہے جو عوامی فنڈز کو مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے روکتا ہے۔ ہندو اوقاف میں سروے کمشنر نہیں ہوتا ہے۔ بات تو صحیح ہے، ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں، کیوں سروے کمشنر کا تقرر ہو، کیوں کلکٹر اس کا نگران ہو، یہ تو پبلک سرونٹس ہیں، عوامی پیسوں کو اوقاف کے کاموں کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ ہم کہہ رہے ہیں کہ سروے کمشنر کی تقرری مسلمانوں یا وقف کے حق میں نہیں ہے۔ درحقیقت یہ جانچ کی ایک اضافی سطح ہے۔ مسلم اوقاف کی جانچ کے دو درجے ہیں اور اب مجوزہ ترامیم کے بعد تین سطحوں کی جانچ کی جائے گی۔
پہلی سطح: رجسٹریشن کے وقت وقف بورڈ اخبارات میں اعلان کرتا ہے اور اس پر کوئی اعتراضات ہوتو اسے نمٹایا جاتا ہے۔
دوسری سطح: سروے کمشنر سائٹ پر جاتا ہے اور عوام سے انکوائری حاصل کرتا ہے اور پھر اعتراضات طلب کرتا ہے۔
تیسری سطح : جو اضافی ہوئی ہے وہ ہے، ریونیو ریکارڈ میں وقف ادارے کے نام کی تبدیلی کے لیے دوبارہ کلکٹر اعتراضات طلب کریں گے اور پھر میوٹیشن کے معاملے کا فیصلہ کریں گے۔
اس کا موازنہ اگر ہندو اوقاف کے رجسٹریشن سے کریں تو وہاں کوئی دوسری اور تیسری سطح کی انکوائری نہیں ہوتی ہے۔
مجوزہ ترامیم میں سروے کمشنر کے عہدے کو ختم کردیا گیا ہے، لیکن اس کی ذمہ داری کلکٹر کو دے دی گئی ہے۔ سروے کمشنر کے عہدے کو ختم کرنے پر تو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن کلکٹر کی شکل میں جانچ کے دوسری اور تیسری سطح کو کیوں برقرار رکھا گیا ہے؟ کیوں نہ وقف بورڈ کو اس ایکٹ کے تحت اختیارات دے دیے گئے جیسا کہ ہندو اوقاف کے معاملے میں اسسٹنٹ کمشنر کر رہے ہیں؟ یہاں بھی ویسا ہی طریقہ کار اختیار کرنے دیا جائے، وقف بورڈ کوئی غیر دستوری ادارہ تو نہیں ہے، اس کا "چیئرمین جوڈیشل افسر ہوتا ہے یا وہ ہوتا ہے جو ڈسٹرکٹ جج کے درجے سے نیچے نہ ہو، اور ممبر ایسا شخص ہو گا جو اوقاف کے ایڈیشنل کمشنر کے درجے سے نیچے نہ ہو یا اس عہدے پر فائز ہو۔ یہ اوقاف کی قانونی حیثیت ہے۔ اس کی قانونی حیثیت پر سوال نہ اٹھائیں، ہندو انڈومنٹ میں تو ایسا کچھ نہیں ہے، یہاں اوقاف میں تو وقف ٹریبونل ہے، وقف ٹربیونل باقاعدہ سِول عدالتیں ہوتی ہیں جن میں ایک برسرخدمت ڈسٹرکٹ جج پریسائیڈنگ آفیسر ہوتا ہے، جو وقف کے تنازعات کا فیصلہ کرتے ہیں، یہ اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح عام سِول عدالتیں کرتی ہیں، ان پر انگلی اٹھانا اسی طرح ہے جیسے کسی جج پر انگلی اٹھانا ہے۔ مجوزہ ترامیم وقف ٹربیونل کی افادیت کو کم کر رہی ہیں، وقف ٹریبونل کے فیصلوں کی حتمی حیثیت کو ختم کر دیتی ہیں۔ اور بھی بہت سارے اعتراضات ہیں، فہرست کافی لمبی ہے، میرا خیال یہ ہے کہ اس سلسلے میں پوری امت کو متحد ہو کر اوقاف کے تحفظ کے لیے کام کرنا چاہیے۔ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو اپنی رائے ارسال کرنے کے ساتھ ساتھ اوقاف کے سلسلے میں غیر مسلموں کے اندر پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیے، اور ایک کام یہ بھی کرنا چاہیے کہ حکومت کی حلیف جماعتوں کے ذمہ داروں سے ملاقات کر کے ان پر پریشر بنایا جائے اور اس بل کے نقصان سے واقف کرایا جائے اور یہ بتایا جائے کہ اس اقدام کے ذریعے مرکز،ریاست کے حقوق پر قبضہ کرنا چاہتی ہے جو کہ ملک کے وفاقی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ترامیم نہیں ہیں بلکہ اوقاف کو نئے سرے سے مدون کرنے کی بات ہو رہی ہے، ایک غلط فہمی عام ہے کہ اوقاف کی زمینیں سب سے زیادہ ہیں، سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں محض چھ لاکھ ایکڑ اوقافی زمین ہے، اس کے برعکس محض تمل ناڈو میں تقریباً پانچ لاکھ ایکڑ زمین ہندو انڈومنٹ کے تحت ہے، اسی طرح سے آندھراپردیش اور مہاراشٹر میں بھی کئی لاکھ ایکڑ زمین ہندو انڈومنٹ کے تحت ہے، دیگر ریاستوں میں بھی ہندو انڈومنٹ کی لاکھوں ایکڑ اراضی موجود ہے، لیکن صرف مسلم اوقاف پر ہی بل پیش کرنے کا مقصد نہ صرف اوقافی جائیدادوں کو ہڑپنا بلکہ اس کے ذریعے مسلم امت کو مسلسل اضطراب اور کشمکش میں رکھنا معلوم ہوتا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 ستمبر تا 28 ستمبر 2024