لفظ ’جہاد‘ کا پروپیگنڈا اور اس کا حقیقی مفہوم

جہاد کا مطلب صرف قتال نہیں بلکہ قیام امن اور مذہبی آزادی بھی ہے

ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

’ جہاد‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جس کے اصل مفہوم اور اس کی بنیادی قدروں کو اپنے اصل ماخذ سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اس لفظ کو دہشت گردی، قتل و غارت گری، بے گناہوں کی جان سے کھیلنا، ناحق خون بہانا، فرد، قوم یا ملک کو تباہ کرنے کے لیے کوشش کرنا جہاد کا مطلب سمجھ لیا گیا ہے۔ اس منفی مفہوم کی تشہیر اسلام مخالف طاقتوں کی طرف سے عالمی سطح پر منصوبہ بند طریقے پر کی گئی ہے۔ خود ہمارے ملک میں اس لفظ کو ایسا بنا دیا گیا ہے کہ اسے سنتے ہی طبیعت پر ناگواری اور دل میں دہشت و نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس سلسلے میں مسلم طبقے کی طرف سے حقیقی تشریح کرنے کے بجائے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے جس سے اس منفی سوچ کی توثیق ہوتی ہے۔ اہل علم کی ذمہ داری تھی کہ وہ عوام کو ’ جہاد‘ کے حقیقی معانی و مطالب سے روشناس کرائیں اور بتائیں کہ ’جہاد‘ کا اصل مقصد کیا ہے لیکن انہوں نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا ہے ۔ ابھی ایک ترجمہ قرآن شائع ہوا ہے۔ اس میں قرآن کے اندر جہاں جہاں لفظ ’جہاد‘ یا اس قبیل کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ہر جگہ اس کے اصطلاحی معنی ترک کرکے اس کا لغوی ترجمہ یعنی ’انتہائی کوشش‘ کیا گیا ہے۔ حالانکہ قرآن میں 30 سے زیادہ مقامات پر ’جہد‘ مادہ کا استعمال ہوا ہے، جن میں کئی مقامات پر قتال (جنگ) کے معنی میں آیا ہے۔ اگر ہر جگہ سیاق و سباق سے منطبق معنی (قتال) سے ہٹ کر ’ انتہائی کوشش‘ کا معنی لیا جائے تو آیت کی مقصدیت ہی فوت ہوجائے گی۔
قرآن میں ’جہاد‘ کے لفظ کو مختلف مفاہیم کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں بیسویں صدی کے ربع اول میں مولانا مودودیؒ نے ایک معرکۃ آرا کتاب’ الجہاد فی الاسلام ‘ تصنیف کی تھی، اس میں اس پر بڑی تفصیلی بحث کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی کتابوں میں اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان کے مطالعہ سے جہاد کا حقیقی مفہوم بہت حد تک واضح ہو جاتا ہے۔ جہاد کا لفظ ’جہد‘ سے بنا ہے جس کے معنی ’’کوشش کرنا، مشقت اٹھانا، مقابلہ کرنا‘‘ ہے۔ یعنی کسی فرد کا محنت و مشقت کرنا ’جہاد ‘ کہلاتا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب معرکہ آرائی اور قتال بھی ہے۔
اب ذرا تاریخ اسلام پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں۔ اسلام میں مشرکین سے جنگ کا آغاز ہجرت مدینہ کے بعد ہوا۔ ہجرت کے دوسرے سال پہلی جنگ (غزوہ بدر) ہوئی۔ اس کے بعد تین ہجری میں غزوہ احد ہوا اور پھر اسلام مخالفین کے ساتھ کئی جنگیں ہوئیں۔ حالانکہ مکی زندگی میں مشرکین کی زیادتیوں کے باوجود کوئی جنگ نہیں ہوئی، مگر قرآن کی مکی سورتیں جو مکہ میں نازل ہوئیں، ان میں بھی جہاد کے الفاظ کا استعمال ہوا ہے، جیسے سورہ العنکبوت آیت نمبر 6 وغیرہ۔ چونکہ مکی دور میں کوئی معرکہ نہیں ہوا اور نہ مسلمان مشرکین کے ساتھ معرکہ کی پوزیشن میں تھے تو ان سورتوں میں ’جہاد‘ سے مراد ’اسلام کی سربلندی اور کوشش و مشقت‘ ہے۔ البتہ مدنی سورتوں میں دونوں طرح کے الفاظ آئے ہیں یعنی کہیں پر ’جہاد‘ اور کہیں پر ’قتال فی سبیل اللہ‘ کا استعمال ہوا ہے۔ مکی اور مدنی سورتوں میں ایک لطیف فرق یہ ہے کہ مدنی دور کی آیتوں میں جہاد کے ساتھ عموماً ’فی سبیل اللہ‘ کے الفاظ کا ذکر ہوا ہے۔ جبکہ مکی سورتوں میں جہاد کے ساتھ فی سبیل اللہ کے الفاظ نہیں ملتے ہیں۔ اس سے یہ فرق کیا جا سکتا ہے کہ جہاں پر ’جہاد‘ کے ساتھ ’فی سبیل اللہ‘ آیا ہے وہاں مراد قتال ہے، لیکن جہاں پر محض جہاد کہا گیا ہے، اس سے مراد ’جہاد نفس اور محنت و کوشش‘ ہے۔
جہاد کی اقسام :
جہاد کی کتنی قسمیں ہیں؟ اس سلسلے میں علماء نے لکھا ہے کہ ایک ہے ’جہاد بالنفس‘۔ یعنی اپنے نفس کے تقاضوں کے خلاف کوشش کرنا۔ بلکہ ایک حدیث میں نفسانی تقاضوں کے خلاف عمل کرنے کو جہاد اکبر کہا گیا ہے۔ لیکن اس سے جہاد اصغر یعنی وہ جہاد جس میں دشمنان اسلام سے قتال کیا جاتا ہے، اس کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ اسلام کی خاطر مشرکین سے قتال کو ایک حدیث میں اونٹ کے کوہان سے تعبیر کیا گیا ہے، اس سے اشارہ ملتا ہے کہ اسلام میں جہاد سب سے بلند اور برتر عمل ہے۔ جہاد کی ایک قسم ہے ’جہاد باللسان‘ یعنی اپنی زبان سے حق بات کہنا، قرآنی تعلیمات کو عام کرنا، حق کو دلائل سے ثابت اور باطل سے مقابلہ کرنا وغیرہ ۔ چنانچہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ’مومن اپنی تلوار اور زبان سے جہاد کرتا ہے‘۔ جہاد کی ایک قسم ’جہاد بالمال‘ ہے، یعنی اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جو لوگ میدان جنگ میں مقابلہ کر رہے ہیں ، ان کے لیے اسباب و ذرائع اور آلات حرب و ضرب کا بندوبست کرنا اور ان کی دیگر ضروریات پوری کرنا جہاد مالی ہے۔ بلکہ بعض علماء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ قرآن میں جہاں جہاں ’انفاق‘ کا لفظ آیا ہے، اس سے مراد فلاحی کام میں خرچ کرنا تو ہے ہی، ساتھ ہی یہ بھی مراد ہے کہ اللہ کے راستے میں قتال کرنے والوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خرچ کیا جائے۔ جہاد کی ان تمام قسموں میں سب سے اعلیٰ قسم ہے ’دشمنان اسلام سے ہتھیار کے ذریعے قتال کرنا‘۔ چنانچہ قرآن کی آیات اور احادیث میں اس جہاد کا تذکرہ خوب ملتا ہے۔ قرآن میں کہا گیا ’’و اعدوا لھم مااستطعتم، الخ‘‘ تم دشمنوں کے خلاف بھرپور طاقت و قوت کے ساتھ تیاری کرو۔ ایک حدیث میں کہا گیا ’’القوۃ الرمی‘‘۔ طاقت تیر اندازی کا نام ہے۔ غرض اسلحہ جات کا انتظام اللہ کے دشمنوں کو ڈرانے کے لیے کرنا بہترین جہاد ہے۔ اس عمل یعنی جہاد کی قرآن و حدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اس کی ترغیب متعدد طریقوں سے دی گئی ہے۔ ایک حدیث میں کہا گیا ہے کہ ’ایک صبح اللہ کے راستے میں نکلنا دنیا و مافیھا سے بہتر ہے‘۔
جہاد کے بارے میں جو پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، یہ مخالفین کی ایک چال ہے۔ جبکہ قرآن واحادیث میں اس کی بہت ہی مثبت، انسانی فطرت سے ہم آہنگ اور امن و آشتی پرمبنی مقصدیت طے کی گئی ہے۔ جہاد، لشکر کشی یا کسی قوم و ملک پر غلبہ حاصل کرنے یا رعب و دبدبہ قائم کرنے کا نام نہیں ہے۔ اس کی اولین شرط ہے کہ یہ عمل اللہ کے لیے کیا جا رہا ہو۔ ایک حدیث میں کہا گیا کہ ’جو شخص اس مقصد سے جنگ کرے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو تو اس کی جنگ اللہ کے راستے میں سمجھی جائے گی‘۔
جہاد کا دوسرا مقصد ہے زمین سے فتنے کا خاتمہ اور بنی نوع انسان کو مذہبی آزادی فراہم کرنا۔ فتنہ کی الگ الگ تشریح کی گئی ہے۔ کسی نے اسے کفرو شرک کا خاتمہ کہا تو کسی نے کچھ اور، لیکن علمائے محققین کا کہنا ہے کہ فتنے کے خاتمہ سے مراد ہے ’شہریوں کی آزادی کو سلب ہونے سے محفوظ رکھنا‘۔ کیونکہ انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کو سلب کرنا ایک فتنہ ہے جس کے خلاف لڑنا جہاد کہلاتا ہے۔ ابتدائے اسلام میں مشرکین مکہ ایمان لانے والے کمزوروں اور بے بسوں کو جبراً کفر کی طرف لوٹنے پر مجبور کرتے تھے۔ ان کا مطالبہ پورا نہ کرنے پر ان کو اذیت دی جاتی تھی۔ اس ظلم کے خلاف مقابلہ کرنا جہاد ہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ اسلام میں جہاد کا مقصد کفر کا خاتمہ اور اسلامی نظام کا قیام نہیں ہے بلکہ اسلامی ملک کے ہر شہری کو چاہے وہ کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو، اسے مذہبی آزادی دینا لازمی سمجھتا ہے۔ البتہ اسلامی تعلیمات کا پیغام ہر فرد تک پہنچایا جائے۔ اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو اچھا ورنہ وہ اپنے مذہب پر امن و آشتی کے ساتھ قائم رہ سکتے ہیں، انہیں مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ چنانچہ اسلامی حکومتوں میں بھی غیر مسلم مکمل شہری حقوق کے ساتھ رہتے رہے ہیں، ان پر اسلام میں داخل ہونے کے لیے قطعی جبر نہیں کیا گیا۔ کیونکہ اسلام میں جبر کا تصور نہیں ہے۔ جہاد کی ایک شکل یہ ہے کہ جب کسی جگہ پر کسی پر ظلم کیا جا رہا ہو، چاہے یہ ظلم فرد، جماعت اور گروہ پر ہو رہا ہو یا قوم و ریاست پر، مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ مظلوم کی مدد کے لیے کھڑے ہوں۔ اگر ضرورت پیش آئے تو ان کی مدد کے لیے ہتھیار بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ سورہ النساء میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ البتہ جہاد کی فرضیت حالات و مواقع کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے۔ عام حالات میں یہ فرض کفایہ ہے۔ کچھ لوگ فتنے کے خاتمے کی غرض سے جہاد کریں تو پوری قوم سے ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے لیکن حالات سنگین ہوں اور سب کی شرکت کا تقاضا ہو، جیسے کسی مسلم بستی پر دشمن نے حملہ کر کے غلبہ حاصل کرلیا ہو، حالات ایسے بن گئے کہ حکومت کی فوج قابضوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو تو اس حالت میں جہاد فرض عین بن جاتا ہے اور قتال میں ہر فرد کی شرکت لازمی ہوجاتی ہے۔ مگر ہر مجاہد کے لیے لازمی ہے کہ وہ یہ جہاد اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کرے، کسی دنیاوی فائدے کے لیے نہیں۔ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کرنے والا اگر شہید ہوجائے تو اس کا نیک عمل قیامت تک جاری رہتا ہے اور وہ قبر کے فتنوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اللہ نے اس کے لیے بے شمار انعامات و اکرامات کا وعدہ کیا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 3 فروری 2024