لچک دار رویہ:21ویں صدی کی ایک اہم مطلوبہ صلاحیت

مضبوط دلیل سامنے آجانے کے بعد اپنی رائے پر بضد نہ رہیں

0

سید تنویر احمد
سکریٹری مرکزی تعلیمی بورڈ

اصولی موقف پر سمجھوتے کے بغیر رویے میں لچک اسلامی مزاج کی خاصیت
آج دنیا عالم گیر ہو گئی ہے۔ دنیا کی عالم گیریت نے انسانوں کو "عالم گیر شہری” (Global Citizen) بنا دیا ہے۔ یہ محض مضامین میں استعمال ہونے والی کوئی اصطلاح نہیں ہے بلکہ یہ نئی نسل میں ایسی صفات پیدا کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے جو بین الاقوامی شہری بننے کے لیے ضروری ہیں۔ ان صفات میں سب سے اہم "لچک دار رویہ” ہے۔
لچک دار رویہ انسان کو نہ صرف مختلف حالات سے مطابقت پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے بلکہ یہ زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیابی کے دروازے بھی کھولتا ہے۔ آج کے دور میں ہر انسان کو کئی ذمہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں جن میں اپنے خاندان کا خیال رکھنا، مہنگائی کے دور میں اخراجات کو پورا کرنا اور زندگی کے مختلف چیلنجوں سے نمٹنا شامل ہے۔ اسی لیے لچک دار رویہ ایک بنیادی ضرورت بن گیا ہے۔
اکیسویں صدی کے طلبہ ایک گلوبل دنیا کا حصہ ہیں، جہاں مختلف رنگ و نسل، تہذیب و ثقافت، مذاہب و عقائد کے ماننے والے افراد بستے ہیں۔ ان کے زندگی گزارنے کے طریقے بھی مختلف ہیں، لذتیں حاصل کرنے کا فلسفہ جدا ہے، کھانے پینے کی عادات مختلف ہیں، جمالیات کے معیار الگ ہیں، لب و لہجہ، نشست و برخاست اور تعظیم و تکریم کے انداز بھی جدا ہیں۔ سماج میں یہ تبدیلی نہ صرف ممالک کے درمیان ہے بلکہ ہر ملک کے اندر بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت میں ہر سو کلو میٹر کے فاصلے پر زبان کا لب و لہجہ اور کلچر تبدیل ہو جاتا ہے۔
ایک جانب انسانی رویوں میں تبدیلی ہے تو دوسری جانب نئی نسل کو اپنے قول سے باہر نکل کر مختلف معاملات طے کرنے ہوں گے۔ معاملات ایک ہی انداز کے نہیں ہیں بلکہ مختلف اقسام کے ہیں۔
21ویں صدی میں عالم گیر دنیا نے ایک اور قدم آگے بڑھا کر "ڈیجیٹل دنیا” (Digital World) کی شکل اختیار کر لی ہے جہاں سوشل میڈیا کے ذریعے انسان کے خیالات و تصورات، پسند و ناپسند اور زندگی کے دیگر پہلو ترتیب پا رہے ہیں۔ آج کا انسان اپنی آبائی تہذیب و تمدن کی بندشوں کو توڑ کر آزادی کی فضا میں بے خوف و خطر اپنے خیالات کو پروان چڑھا رہا ہے۔ انہی خیالات سے متاثر ہو کر وہ زندگی کے دیگر شعبوں کی تزئین کاری کر رہا ہے۔
ایسے حالات میں نئی نسل کو لچک دار رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور یہ سوال کہ کتنا لچک دار ہونا چاہیے اور کس دائرے میں لچک ہونی چاہیے؟ اس کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے مزید غور و فکر کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔
لچک دار رویہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر آج جاپان کا ایک انجینئر افریقہ کے کسی دور دراز ملک میں جائے تو وہاں کی تہذیب، ثقافت، رہن سہن، کھانے پینے کے انداز اور لب و لہجے سے ہم آہنگی پیدا کر سکے۔ یہ عالمی سطح پر ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لیے لازمی ہے۔
یہ رویہ محض دو بر اعظموں یا دو ممالک کے درمیان افراد میں ایک مطلوبہ صفت نہیں ہے بلکہ ایک فرد کو اپنی زندگی بہتر بنانے، اپنی ازدواجی زندگی خوش گوار رکھنے اور اپنے خاندان کو خوش حال رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے۔
لچک دار رویہ کیا ہوتا ہے؟ یہ وہ صفت ہے جو انسان کو حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ یہ زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے اور انسان کو نہ صرف اپنی زندگی بلکہ اپنے اردگرد کی دنیا کو بھی بہتر بنانے کے قابل بناتا ہے۔
لچک دار رویہ کیا ہے؟
لچک دار رویہ وہ طرز عمل ہے جس میں ایک فرد اپنی فکر، رائے، فیصلے، عمل یا رد عمل کو حالات کے مطابق تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ رویہ دلیل، امکانی نتائج اور دوسرے افراد کے جذبات و حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنایا جاتا ہے۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں:
-1 دلیل کی بنیاد پر رائے میں تبدیلی:
اگر کوئی فرد کسی بات کو دلیل کے ساتھ پیش کرے اور وہ قائل ہو کر اپنی فکر یا رائے میں تبدیلی لے آئے تو یہ لچک دار رویہ کہلائے گا۔
-2 امکانی نتائج کی بنیاد پر عمل میں تبدیلی:
جب کوئی فرد کسی عمل یا رد عمل کے امکانی نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی یا رویے میں تبدیلی کرتا ہے، تو یہ بھی لچک دار رویہ کہلاتا ہے۔
اگر کوئی فرد اپنے تعلقات میں گنجائش رکھتا ہو اور اختلافات کے باوجود دوسروں کے ساتھ اجتماعیت میں کام کرے تو یہ رویہ لچک دار کہلائے گا۔
جب ایک فرد دوسرے فرد کی کم زوریوں کو سمجھ کر اپنے رویے کو ان کے مطابق ڈھالتا ہے تو یہ بھی لچک دار رویے کی مثال ہے۔
-5 مشورے کے بعد فیصلہ کرنا:
لچک دار رویے میں فرد پہلے فیصلہ کرنے کے بجائے مشورے کے بعد کوئی حتمی فیصلہ کرتا ہے۔
لچک دار رویے میں فرد اپنی انا کے بجائے دوسروں کی رائے کو اہمیت دیتا ہے۔
لچک دار رویہ اپنانے والا شخص دوسروں کے جذبات اور مجبوریوں کو سمجھتا ہے اور ان کے مطابق اپنا رویہ ترتیب دیتا ہے۔
مذہبی و دینی معاملات میں بھی لچک دار رویے کی بڑی اہمیت ہے۔ بعض افراد وہ ہیں جو صرف لفظوں اور متن پر توجہ کرتے ہیں، ان کے پس منظر اور تشریحات پر کم غور کرتے ہیں۔ تدبر و تفکر سے کام لینے کے بجائے صرف جملوں پر ان کی توجہ ہوتی ہے۔
لچک دار رویے کی اہمیت
لچک دار رویہ اجتماعی زندگی میں چاہے وہ افراد کے درمیان ہو یا گروہی سطح پر، تعلقات کو مضبوط بنانے اور اجتماعیت کو فروغ دینے کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر لچک نہ ہو تو تعلقات کم زور ہو جاتے ہیں اور نتیجتاً اجتماعیت متاثر ہوتی ہے۔ ٹیم اسپرٹ کم زور پڑ جاتی ہے۔ گروپ ڈائنمکس متاثر ہو جاتے ہیں۔ کارپوریٹ دنیا میں اس کا اثر پیداوار، اقدامات، فروختگی اور منافع پر پڑتا ہے۔
لچک دار رویہ اختیار نہ کرنے کے نقصانات
اگر کوئی فرد، گروہ یا اجتماعیت سخت رویہ اختیار کرتی ہے تو اس کے کئی نقصانات ہو سکتے ہیں:
-1 باہمی تعلقات میں کم زوری:
سخت رویہ باہمی تعلقات کو متاثر کرتا ہے، جس سے گروپ، اجتماعیت یا بزنس ہاؤس میں نا اتفاقی بڑھتی ہے اور اجتماعی مقصد کی طرف پیش رفت کم زور پڑ جاتی ہے۔
-2 فیصلوں میں عدم اعتدال:
سخت رویے کی وجہ سے فرد اپنے فیصلوں میں اعتدال کھو دیتا ہے، جس کے نتیجے میں اسے ذاتی اور اجتماعی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
-3 ازدواجی زندگی میں نا خوش گواریاں:
سخت رویہ ازدواجی زندگی کو نا خوش گوار بنا دیتا ہے اور باہمی افہام و تفہیم میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔
-4 بین الاقوامی سطح پر ناکامی:
سخت رویہ رکھنے والے افراد یا اجتماعیت بین الاقوامی منڈی یا سماجی زندگی میں زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتے۔اس لیے کہ بین الاقوامی سطح پر مختلف خیالات، تمدن، زبان، کلچر، پسند و ناپسند کے مختلف معیارات رکھنے والے افراد سے ایک دوسرے کا سابقہ پیش آتا ہے۔
-5 مسائل حل کرنے کی صلاحیت میں کمی:
سخت رویے کی وجہ سے فرد مختلف متبادلات پر غور نہیں کرتا، جس سے مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت (Problem-Solving Skills) کم زور ہو جاتی ہے۔
لچک دار رویہ اور سختی: ایک تجزیہ
نوجوانوں اور طلبہ میں سخت رویے کے اثرات
نوجوانوں اور طلبہ میں سخت گیر رویہ انہیں انتہا پسندی کی طرف لے جاتا ہے، جو سماج میں منفی عمل اور رویے کو جنم دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اجتماعی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے اور معاشرتی تعلقات میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔
طلبہ میں لچک دار رویہ کیسے پیدا کیا جائے؟
کم عمر سے ہی رویوں میں لچک پیدا کرنے کی تعلیم آج دنیا بھر کے تعلیمی نصاب میں شامل کی جا رہی ہے۔ یہ ایک اہم سماجی ضرورت بن کر ابھر گئی ہے۔ اس رویے کو پیدا کرنے کے لیے پری پرائمری سطح پر "مونٹیسری میتھڈ” (Montessori Method) اختیار کیا جا رہا ہے۔ اس طریقہ کار میں طلبہ کو ایک کام کو مختلف انداز میں انجام دینے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔
مونٹیسری میتھڈ اور لچک پیدا کرنے کی تربیت:
-1 بچوں کو کام شروع کرنے سے پہلے سوچنے اور غور کرنے کی عادت ڈالی جاتی ہے۔
-2 بچوں کو نظم و ضبط سکھایا جاتا ہے۔
-3 بچوں کو کیرنگ (Caring: خیال رکھنے) اور شیئرنگ (Sharing: بانٹنے) کی تربیت دی جاتی ہے، یعنی ساتھیوں کی مدد کرنے اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کی عادت پیدا کی جاتی ہے۔ یہ دونوں سماجی صفات بچوں میں لچک پیدا کرتی ہیں۔
(جاری)

 

***

 ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ طلبہ جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان میں لچک دار رویہ پیدا کرنے کے لیے سماجی علوم، بالخصوص بنیادی نفسیات اور عمرانیات (سوشیولوجی) کی تعلیم ضروری ہے۔ بھارت کی تعلیمی پالیسی 2020 نے بھی اس قسم کی رائے پیش کی ہے۔ کئی یورپی ممالک میں گریجویشن کی سطح پر نصاب میں اس طرح کے مضامین شامل کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025