مسعود ابدالی
شام تنازعہ اور سنی شیعہ نفرت کی لہر۔اہل غزہ کہیں تنہا نہ رہ جائیں؟اسرائیل کا سب سے بڑا اخبار، انتقام کا شکار
گزشتہ منگل امریکی صدر بائیڈن نے اعلان کیا کہ اسرائیل اور لبنانی مزاحمت کار فائر بندی پر رضامند ہوگئے ہیں اور 26 نومبر کو مقامی وقت کے مطابق صبح چار بجے اس پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے۔ اپنی تقریر میں امریکی صدر نے جنگ شروع کرنے کی ذمہ داری لبنانی مزاحمت کاروں پر ڈال دی۔ اعلان میں Ceasefire کے بجائے Cessation of Hostilities یعنی ‘کشیدگی کے خاتمے’ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ یہ امن معاہدہ نہیں بلکہ پائیدار امن کے لیے راستہ ہموار کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس معاہدے کا دورانیہ ساٹھ دن ہے۔ اس عرصے میں فوجی انخلا اور سرحد پر لبنانی مسلح افواج کی تعیناتی کا عمل مکمل کر لیا جائے گا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ لبنانی مزاحمت کار نہر لیطانی یا Litani River کی دوسری جانب رہیں گے، یعنی سرحد سے انتیس کلومیٹر کے فاصلے پر۔ فائر بندی پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے نیتن یاہو نے جو بیان جاری کیا، اس کے ہر ایک لفظ سے رعونت ٹپک رہی تھی۔ انہوں نے صاف صاف کہا کہ مزاحمت کاروں کی جانب سے فائر بندی کی معمولی سی خلاف ورزی کا اسرائیل بھر پور جواب دے گا۔
نیتن یاہو کا فرعونی لہجہ اپنی جگہ لیکن تل ابیب نے 24 نومبر کو اشدود کے بحری اڈے پر راکٹ حملوں کے فوراً بعد ہی جنگ بندی پر رضا مندی کے اشارے دینے شروع کر دیے تھے۔ اس دن مزاحمت کاروں نے اشدود پر بیک وقت 340 راکٹ داغے۔ عین اسی وقت تل ابیب کے مضافاتی علاقوں سمیت اسرائیل کا بڑا حصہ راکٹ حملوں کی زد میں آگیا اور چالیس لاکھ اسرائیلیوں کو زیر زمین پناہ گاہوں کا رخ کرنا پڑا، گویا نصف کے قریب آبادی ان حملوں کا نشانہ بنی۔ مزاحمت کاروں نے اتنی بڑی تعداد میں ایک ساتھ راکٹ پھینکے کہ امریکی ساختہ آئرن ڈوم دفاعی نظام عملاً مفلوج ہوگیا۔ اشدود بندرگاہ کو نقصان پہنچنے سے اسرائیل کی بحری تجارت متاثر ہوئی ہے۔ چند روز قبل راکٹ حملے میں اشدود کے قریب واقع حیفہ بندرگاہ کے تیل ٹرمینل کو نقصان پہنچا تھا جس کی وجہ سے درآمدی خام تیل اب اشدود پر اتارا جا رہا ہے۔ جنوب میں خلیج عقبہ کی بندرگاہ ایلات، بحیرہ احمر سے گزرنے والے جہازوں پر حوثیوں کے حملوں کی وجہ سے پہلے ہی مفلوج ہے۔
دوسرے دن جب فوج کے سربراہ جنرل ہرزی حلوی جواب طلبی کے لیے وزیر اعظم کے روبرو پیش ہوئے تو اسرائیلی میڈیا کے مطابق انہوں نے نیتن یاہو کو مشورہ دیا کہ جتنی جلد ممکن ہو لبنانی مزاحمت کاروں سے امن معاہدہ کر لیں۔ ان کے راکٹ اور میزائل ہر گزرتے دن کے ساتھ مہلک اور تیر بہ ہدف ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارا فضائی دفاعی راکٹوں کی اس بارش کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسرائیلی جرنیل کا کہنا تھا کہ چودہ ماہ کے دوران جنوبی لبنان پر 12500 فضائی حملے کیے گئے اور زمینی کارروائی کی چودہ بریگیڈ فوج استعمال ہو رہی ہے۔ شدید ترین بمباری اور مزاحمت کار قیادت کو راستے سے ہٹادینے کے باوجود اسرائیل پر حملوں میں کوئی کمی نہیں آئی اور اب لبنانی راکٹ دارالحکومت تک پہنچ رہے ہیں۔ فوجی بریفنگ کے بعد شام کو جب وزیر اعظم نے عسکری قیادت کی رپورٹ کابینہ کے سامنے رکھی تو وزیر داخلہ سلامتی اتامربن گوئر کے سوا تمام وزرا نے جنگ بندی کی منظوری دے دی اور امریکہ میں اسرائیل کے سفیر نے امریکی صدر کو فائر بندی کے لیے اسرائیل کی رضا مندی سے صدر بائیڈن کو آگاہ کر دیا۔
اسی کے ساتھ اسرائیل کے عبرانی ٹی وی چینل-12 نے انکشاف کیا کہ چچا سام نے اسرائیل کو لبنانی مزاحمت کاروں کی جاسوسی جاری رکھنے کی تحریری یقین دہانی کروائی ہے۔ چینل-12 کے مطابق معاہدے کی اضافی دستاویز یا Side letter میں وعدہ کیا گیا ہے کہ لبنانی مزاحمت کاروں کو ایران سے ملنے والی امداد پر کڑی نظر رکھی جائے گی اور ان خفیہ معلومات تک اسرائیل کی رسائی کو یقینی بنایا جائے گا۔ لبنان امن کے لیے سہ رکنی معاہدہ کیا گیا ہے جس کا ایک فریق (ضامن) امریکہ ہے۔ سائیڈ لیٹر کی شکل میں ضمنی معاہدہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان ہے۔ جنگ بندی سے چند گھنٹے قبل اسرائیل نے جنوبی لبنان پر آتش و آہن کی خوف ناک بارش کی اور اوسطاً ہر دو منٹ میں بیس بم برسائے گئے۔ مزاحمت کاروں نے بھی اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیا اور ان کے راکٹوں نے کریات شمعونہ کے لاری اڈے کو تباہ کر دیا۔ فائر بندی نافذ ہوتے ہی اسرائیل کی جانب سے اس کی خلاف ورزی شروع ہو گئی اور گھر واپس آتے ہوئے لبنانیوں پر اسرائیلی فوج نے فائرنگ کی۔ اس کارروائی کی متکبرانہ منطق پیش کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ‘ہم نے اب تک اسرائیلی متاثرین کو اپنے گھروں کو واپسی کی اجازت نہیں دی، لہٰذا لبنانیوں کی واپسی بھی برداشت نہیں کی جا سکتی’۔ اسی دوران جنوبی لبنان کو یہ کہہ کر ڈرونوں کا نشانہ بنایا گیا کہ دہشت گرد دوبارہ صف بندی کر رہے تھے۔ لبنانی مزاحمت کاروں کی جانب سے فائر بندی کے احترام کے باوجود اسرائیل کے سرحدی علاقوں میں خوف کی فضا قائم ہے۔ اسکول تا حکم ثانی بند ہیں اور اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے پارلیمان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سرحدی علاقے کے رہائشیوں کو فی الحال گھر واپس جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بندی اس اعتبار سے خوش آئند ہے کہ اس کے نتیجے میں جنوبی لبنان کے ان لاکھوں افراد کو کچھ راحت نصیب ہو گی جو گزشتہ چودہ ماہ سے بم باری کا عذاب سہہ رہے ہیں۔ غزہ کے مزاحمت کاروں نے بھی لبنان اسرائیل فائر بندی کا خیر مقدم کیا ہے لیکن فلسطینی عوام اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ خیال ہے کہ لبنان سے فارغ ہونے والی چار ڈویژن فوج غزہ کا رخ کرے گی اور نیتن یاہو لبنان میں شکست کا بدلہ اہل غزہ سے لے گا۔ لبنانی راکٹوں کی وجہ سے غزہ کے لوگوں کو بالواسطہ مدد مل رہی تھی جو اب ختم ہو چکی ہے۔ غزہ میں قحط کی صورت حال مزید سنگین ہو گئی ہے۔ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی ایجنسی World Food Program (WFP) نے انکشاف کیا کہ غزہ کے لوگوں کو دن میں صرف ایک وقت کھانا میسر ہے اور وہ بھی نان اور شوربہ یا چند کھجور۔ زیر زمین پانی میں نمکیات کا تناسب اتنا بڑھ گیا ہے کہ یہ کھارا پانی آب نوشی کے قابل نہیں، اہل غزہ کو فی کس صرف تین لیٹر پانی یومیہ مل رہا ہے۔ دوسری طرف شامی صدر بشار الاسد اور ان کے مخالفین کے درمیان لڑائی میں شدت آ جانے سے سنی شیعہ کشیدگی بھی عروج پر ہے۔ یہاں فروری 1982 میں بشار الاسد کے والد حافظ الاسد نے اخوان المسلمون کے خلاف ایک خونی آپریشن کیا تھا جس کے نتیجے میں شہر حماہ ملبے کا ڈھیر بن گیا اور خواتین و بچوں سمیت ایک لاکھ سے زیادہ اخوانی قتل ہوئے۔ جب 17 دسمبر 2010 کو تیونس سے آزادی جمہور کی تحریک شروع ہوئی جسے ربیع العربی یا Arab Spring کا نام دیا گیا تو شام بھی اس کی لپیٹ میں آیا اور اردن کی سرحد پر واقع شہر، درعا سے طلبہ نے تحریک شروع کی۔ صدر بشار الاسد نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسے کچلنے کے لیے طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا اور اسے سنی شیعہ رنگ دے دیا۔ چنانچہ ایران بشار کی پشت پر کھڑا ہو گیا اور لبنان سے حزب اللہ نے حکومت مخالف مظاہرین کو کچلنے میں بشار فوج کی بھرپور مدد کی۔ حافظ الاسد کے دور میں حماہ کی شامت آئی، اس بار حکومتی مخالفین نے اس کے شمال میں ترکیہ کی سرحد پر حلب (Aleppo) اور ادلب کو اپنا مرکز بنایا۔ جنوری 2012 سے شامی افواج اور حزب اللہ نے مخالفین کے خلاف خوف ناک آپریشن کا آغاز کیا اور روسی فضائیہ نے بمباری کر کے دونوں شہر کو کھنڈر بنا دیا۔ ایک اندازے کے مطابق حلب اور ادلب میں تین لاکھ سے زیادہ افراد مارے گئے اور 2016 تک مزاحمت کاروں نے حلب خالی کر دیا۔ مارچ 2020 میں معاہدہ کر کے حکومتی مخالفین ادلب سے بھی نکل گئے۔ اس جنگ میں بھاری جانی اور مالی نقصان کے ساتھ شیعہ سنی کشیدگی بلکہ نفرت اتنی سخت ہو گئی کہ شامی مزاحمت کاروں کی عسکری تنظیم هيئة تحرير الشام یا HTS کے کچھ عناصر نے حماس کو اپنا دشمن کہنا شروع کر دیا کہ ایران اور حزب اللہ حماس کے حامی تھے۔
عجیب اتفاق کہ اسرائیل لبنان فائر بندی کے دوسرے روز HTS نے حلب پر زبردست حملہ کر دیا۔ شامی فوج اس اچانک کارروائی کے لیے تیار نہ تھی اور صرف چار دن میں HTS نے حلب اور ادلب پر قبضہ کر لیا۔ قبضہ چھڑانے کے لیے روسی فضائیہ ان دونوں شہروں پر شدید بمباری کر رہی ہے اور خبروں کے مطابق اسرائیل سے لڑنے والے لبنانی مزاحمت کاروں نے بشارالاسد کی نصرت کے لیے اب حلب اور ادلب کا رخ کر لیا ہے۔ شیعہ سنی نفرت کا یہ عالم ہے کہ شامی حزب اختلاف کے رہنما فہد المصری نے اسرائیلی چینل-12 سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ‘ہم اسرائیلی قیادت سے درخواست کرتے ہیں کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شام میں ایرانی اور لبنان کے ایران نواز عناصر کو نشانہ بنایا جائے’ یہ صورتحال اہل غزہ کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ ان کی نظریاتی وابستگی بشارالاسد کے ظلم کا نشانہ بننے والے شام کے اخوانیوں سے ہے اور وہ پرزور و عملی حمایت پر لبنانی مزاحمت کاروں کے بھی مشکور ہیں، جبکہ شیعہ سنی کے نام سے ہونے والی نئی صف بندی نے ایران اور لبنانی مزاحمت کاروں کو اخوان دشمن بشارالاسد کی پشت پر لا کھڑا کیا ہے۔ شام کی صورتحال پر مزید گفتگو کسی دوسری نشست میں۔ نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ برسر اقتدار آ کر امریکی جامعات میں اسرائیل مخالف مظاہروں پر پابندی لگا دیں گے۔ اس سے شہہ پا کر انتہا پسند عناصر نے ابھی سے سختی شروع کر دی ہے۔ اسناد کے اجرا میں تعطل، امتحان دینے پر پابندی، خفیہ ایجنسیوں سے تحقیقات کی دھمکی سمیت تمام اوچھے ہتھکنڈے استعمال ہو رہے ہیں۔ تہوار شکرانہ (Thanksgiving) کی پریڈ کے سامنے غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرے پر پولیس جھپٹ پڑی اور بینر چھین کر کئی کارکن گرفتار کر لیے گئے۔ امریکہ کے پڑوسی ملک کینیڈا کے وزیر اعظم ٹروڈو، مونٹریال میں مظاہرے کے دوران نیتن یاہو کا پتلا نذر آتش کیے جانے پر سخت برہم ہیں اور انہوں نے اس کے ذمے داروں کے خلاف سام دشمنی یا Antisemitism کا پرچہ کٹوانے کا عندیہ دیا ہے۔
اختتام پر اسرائیل میں صحافت کی حالت زار کا ذکر۔ الجزیرہ پر پابندی کے بعد حکومت نے اسرائیل کے سب سے بڑے اور قدیم اخبار الارض (Haaretz) کا مزاج درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ الارض عبرانی اور انگریزی دونوں میں شائع ہوتا ہے۔ حکومتی فیصلے کے مطابق سرکاری دفاتر کے لیے اب یہ پرچہ نہیں خریدا جائے گا۔ حکومتی اشتہارات کی بندش ہوگی۔ سرکاری تقریبات میں ان کے نمائندوں کو مدعو کیا جائے گا اور نہ حکومتی اعلامیوں کی نقول الارض کو بھیجی جائیں گی، پارلیمانی گیلری میں ان کے نمائندوں کا داخلہ منع ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ نزلہ گرنے کی وجہ یہ ہے کہ اخبار کے طابع اور ممتاز صحافی اموس شوکن (Amos Schocken) نے گزشتہ ماہ ایک مرکزِ دانش Berl Katznelson Foundation کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘نیتن یاہو حکومت ان علاقوں میں غیر قانونی آبادکاری کو جاری اور تیز کرنا چاہتی ہے جو فلسطینی ریاست کے لیے بنائے گئے تھے۔ فلسطینی آبادی پر ظالمانہ نسل پرست حکومت مسلط ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت کو ہتھیائی اراضی کے تحفظ اور فلسطینی مجاہدین آزادی سے لڑائی دونوں کا خرچہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے‘ اسرائیلی حکومت کے خیال میں مزاحمت کاروں کو مجاہدین آزادی کہہ کر شوکن صاحب دہشت گردوں کی پشت پناہی، اعانت اور سہولت کاری کے مرتکب ہوئے ہیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
الجزیرہ پر پابندی کے بعد حکومت نے اسرائیل کے سب سے بڑے اور قدیم اخبار الارض (Haaretz) کا مزاج درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ الارض عبرانی اور انگریزی دونوں میں شائع ہوتا ہے۔ حکومتی فیصلے کے مطابق سرکاری دفاتر کے لیے اب یہ پرچہ نہیں خریدا جائے گا۔ حکومتی اشتہارات کی بندش ہوگی۔ سرکاری تقریبات میں ان کے نمائندوں کو مدعو کیا جائے گا اور نہ حکومتی اعلامیوں کی نقول الارض کو بھیجی جائیں گی، پارلیمانی گیلری میں ان کے نمائندوں کا داخلہ منع ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ نزلہ گرنے کی وجہ یہ ہے کہ اخبار کے طابع اور ممتاز صحافی اموس شوکن (Amos Schocken) نے گزشتہ ماہ ایک مرکزِ دانش Berl Katznelson Foundation کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘نیتن یاہو حکومت ان علاقوں میں غیر قانونی آبادکاری کو جاری اور تیز کرنا چاہتی ہے جو فلسطینی ریاست کے لیے بنائے گئے تھے۔ فلسطینی آبادی پر ظالمانہ نسل پرست حکومت مسلط ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت کو ہتھیائی اراضی کے تحفظ اور فلسطینی مجاہدین آزادی سے لڑائی دونوں کا خرچہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے‘ اسرائیلی حکومت کے خیال میں مزاحمت کاروں کو مجاہدین آزادی کہہ کر شوکن صاحب دہشت گردوں کی پشت پناہی، اعانت اور سہولت کاری کے مرتکب ہوئے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 دسمبر تا 14 دسمبر 2024