
نوراللہ جاوید، کولکاتا
زبان کے معاملے میں وفاقی تکثیریت کی ضرورت۔ ججوں کے اہم ریمارکس
اردو کا قومی منظرنامہ: مہاراشٹر، کرناٹک اور تلنگانہ میں بڑھتی ہوئی موجودگی۔ گوا میں اردو اسکولوں میں اضافہ، بہار اور اترپردیش میں کمی
اس ہفتے جب ملک بھر کی نگاہیں وقف قوانین کی سماعت پر مرکوز تھیں، اس دوران سپریم کورٹ کے جسٹس سدھانشو دھولیا اور کے ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے بمبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے سے انکار کر دیا، جس میں اردو کے استعمال کے خلاف مہاراشٹر لوکل اتھارٹیز (سرکاری زبانیں) ایکٹ 2022 کے تحت کوئی قانونی رکاوٹ نہیں پائی گئی تھی۔ جسٹس سدھانشو دھولیا نے اپنے فیصلے میں اردو سے متعلق جن حقائق اور تاریخی ورثے کی طرف توجہ دلائی ہے، اس سے نہ صرف اردو کے شیدائیوں اور اردو بولنے والوں کو خوشگوار احساس ہوا بلکہ اردو کے نام پر نفرت پھیلانے، انگریزی اور اردو کو غیر ملکی اور مسلمانوں کی زبان قرار دے کر مسلمانوں کو ہدفِ تنقید اور مجرم قرار دینے کی کوشش کرنے والوں کے منہ پر بھی زور دار طمانچہ لگا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ نفرت انگیزی، مسلمانوں کو ہدفِ ملامت بنانے اور اردو و ہندی کے نام پر نفرت کی سیاست کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے آئین کا حلف لیا ہے۔ جنہوں نے ملک کے عوام کے سامنے یہ عہد کیا تھا کہ وہ مذہبی، لسانی اور تہذیبی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق نہیں کریں گے۔ اسمبلی اور پارلیمنٹ جیسے جمہوریت کے عظیم اداروں میں بھی وہ لوگ اپنے دل کی باتیں چھپانے سے قاصر رہتے ہیں۔
اتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ے جو مسلم مخالف رویے کو اپنی شناخت کا حصہ مانتے ہیں، اسمبلی میں کھڑے ہوکر اردو کے خلاف نفرت انگیز اور اشتعال انگیز بیان دیا، جس کی کڑواہٹ آج بھی فضا میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ اردو سے متعلق یوگی آدتیہ ناتھ نے جو کچھ کہا، وہ دراصل اُن کی اپنی جہالت، ناواقفیت اور متکبرانہ مزاج کا اظہار تھا، حقیقت سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔
ہندی اور اردو کے درمیان تنازعہ اور اس کے نام پر نفرت انگیزی نوآبادیاتی دور کی باقیات ہے۔ یہ نفرت انگیزی ورثے میں ملی ہے، اور المیہ یہ ہے کہ اس نفرت انگیز ورثے کے وہ لوگ امین بنے بیٹھے ہیں جو دیسی اور استعمار مخالف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے عزت مآب جج صاحبان نے اردو سے متعلق جو کچھ کہا ہے، وہ کوئی تاریخ کا وہ باب نہیں جس پر گردوغبار کی دبیز چادر پڑ گئی ہو، بلکہ فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے ایک ایسے وقت میں حقیقت کا اظہار کیا ہے جب محبت کی زبان بولنا جرم قرار دیا جا چکا ہے۔ سیاست میں نفرت انگیز بیانات کی مقابلہ آرائی جاری ہے۔ جب آئین اور قانون کے مطابق تبصرہ اور فیصلے کرنے پر سپریم کورٹ نشانے پر آجائے اور ججوں کی کردار کشی کی جانے لگے تو اس ماحول میں جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن کا جرأت مندانہ حق گوئی کا عمل نہ صرف لسانی تنوع کے آئینی حق کی نشاندہی کرتا ہے، بلکہ ملک کے ہم آہنگ ثقافتی اور فکری ورثے میں اردو کے اٹوٹ کردار پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔
شناختی سیاست کا تنگ نظر ماحول اردو کو ایک ’اسلامی امپورٹ‘ سمجھتا ہے۔ اسی بنیاد پر رواں سال فروری میں اترپردیش قانون ساز اسمبلی کی کارروائی کے ترجمے کے لیے زبانوں کی فہرست سے اردو کو نکال دیا گیا، حالانکہ ملک میں اردو بولنے والوں کا چھٹا سب سے زیادہ تناسب اترپردیش میں ہے۔ 2021 میں، دائیں بازو کے ہندو گروپوں کے ردعمل کے بعد خوردہ کمپنی فیب انڈیا کو دیوالی سے متعلق ایک اشتہار ’’جشنِ ریاض‘‘ واپس لینا پڑا۔
یہ پہلا موقع نہیں جب عدالت نے کسی سرکاری مقصد کے لیے اردو زبان کے استعمال کی قانونی استطاعت کو چیلنج کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہو۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کی ایک آئینی بنچ (ہندی ساہتیہ سمیلن بمقابلہ یوپی ریاست، 2014) اترپردیش میں اردو کو دوسری زبان قرار دینے کے خلاف اپیل کو مسترد کر چکی ہے۔
زیرِ تبصرہ کیس میں جسٹس سدھانشو دھولیا کا فیصلہ قابلِ مطالعہ اور ان عناصر کے لیے چشم کشا ہے جو ایک کثیر لسانی ریاست کی ضروریات سے متعلق آئینی دفعات کے باوجود تعصب کے شکار ہو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے اس فیصلے کی ابتدا ایک الجزائری اسکالر کے اس قول سے کی:
’’جب آپ کوئی زبان سیکھتے ہیں، تو آپ صرف ایک نئی زبان بولنا اور لکھنا نہیں سیکھتے، بلکہ آپ کھلے ذہن، آزاد خیال، روادار، مہربان اور تمام بنی نوع انسان کا خیال رکھنا بھی سیکھتے ہیں۔‘‘
جسٹس دھولیا نے لکھا کہ اردو کے خلاف تعصب اس غلط فہمی سے جنم لیتا ہے کہ اردو بھارت کے لیے اجنبی ہے۔ ان کے بقول، ’’یہ سراسر غلط ہے، کیونکہ اردو بھی مراٹھی اور ہندی کی طرح ایک ہند-آریائی زبان ہے۔ اردو نے اسی سرزمین پر جنم لیا، بھارت میں پروان چڑھی، اور مختلف ثقافتوں کے باہمی تبادلے کے نتیجے میں نکھری۔ صدیوں کے سفر میں اس نے تطہیر پائی اور شاعروں کی پسندیدہ زبان بن گئی۔‘‘
فاضل جج نے سابق چیف جسٹس اور قومی انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین ایم این وینکٹا چالیا کے شاندار خراجِ تحسین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا:
’’اردو زبان صوفیانہ اور روحانی عظمت سے لے کر رومانویت اور روزمرہ کی زمین سے جڑے جذبات و خیالات تک کو اپنے دامن میں سمیٹتی ہے۔ اس میں دوستی کی خوشبو ہے اور انسانی زندگی و موسیقی سے ایک گہرا رشتہ ہے۔ اردو کا ادب اور علم زندگی کے اسرار و رموز پر مبنی عظیم خیالات کا خزانہ ہے۔‘‘
اردو کی تعریف میں جسٹس دھولیا نے مزید کہا:
’’اردو، گنگا جمنی تہذیب یا بھارتئی تہذیب (ہندوستانی ثقافت) کی ایک درخشندہ مثال ہے، جو شمالی و وسطی ہندوستان کے میدانی علاقوں کی جامع ثقافتی اقدار پر مبنی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ زبان خیالات کے تبادلے کا وسیلہ ہے، جو مختلف نظریات اور عقائد رکھنے والے انسانوں کو قریب لاتی ہے۔ یہ تفرقے کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ ’’آئیے اردو اور ہر زبان سے دوستی کریں۔ اردو ہندوستان کے لیے اجنبی نہیں ہے۔ یہ یہاں پیدا ہوئی اور یہیں پروان چڑھی۔‘‘
عدالت نے مزید کہا:
’’جب ہم اردو پر تنقید کرتے ہیں، تو ہم بالواسطہ ہندی پر بھی تنقید کر رہے ہوتے ہیں، کیونکہ ماہرینِ لسانیات اور ادبی اسکالرز کے مطابق، اردو اور ہندی دو الگ زبانیں نہیں بلکہ ایک ہی زبان ہیں۔ بنیاد پرستوں نے ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندی سنسکرت زدہ اور اردو فارسی زدہ ہو گئی ہے۔‘‘
عدالت نے اس حقیقت کی نشان دہی بھی کی کہ عوام کی روزمرہ زبان میں اردو کے الفاظ موجود ہیں، چاہے لوگ اسے محسوس کریں یا نہ کریں۔ ’’ہندی میں روزمرہ کی گفتگو اردو کے الفاظ کے بغیر ممکن نہیں۔ خود ‘ہندی’ لفظ بھی فارسی کے ‘ہندوی’ سے ماخوذ ہے۔‘‘ عدالت نے مزید کہا کہ الفاظ کا لین دین دو طرفہ ہوتا ہے، اردو نے بھی سنسکرت سمیت دیگر بھارتی زبانوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
’’زبان مذہب نہیں ہے۔ زبان مذہب کی نمائندگی نہیں کرتی۔ زبان کسی مذہب کی نہیں بلکہ کسی قوم، علاقے اور تہذیب کی نمائندہ ہوتی ہے۔ زبان ثقافت ہے اور کسی کمیونٹی کے تہذیبی سفر کا پیمانہ۔‘‘
عدالت نے یہ بھی کہا کہ نوآبادیاتی طاقتوں نے اس تقسیم کا فائدہ اٹھایا اور زبانوں کو مذہب کی بنیاد پر بانٹ دیا اور یوں ہندی کو ہندوؤں اور اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے دیا گیا، حالانکہ یہ اصل میں تنوع میں اتحاد اور عالمی بھائی چارے کے خلاف سازش تھی۔
جسٹس دھولیا نے فیصلے میں کہا کہ میونسپل کونسل کا کام مقامی لوگوں کی روزمرہ ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ اگر علاقے کے رہنے والے اردو سے واقف ہیں تو کم از کم سائن بورڈ پر اردو کا استعمال کوئی جرم نہیں۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ جہاں ان لوگوں کے لیے تازیانہ ہے جو مذہب کی بنیاد پر اردو کو نشانہ بناتے ہیں، وہیں اہلِ اردو کے لیے بھی یہ لمحۂ احتساب ہے۔ کیا ہم نے اردو کے ساتھ انصاف کیا؟ جب قانون ہمیں یہ حق دیتا ہے کہ ہم اپنے دکانوں اور مکانات کے باہر اردو میں بورڈ لگا سکتے ہیں، تو کتنے اردو بولنے والے تاجروں نے ایسا کیا ہے؟ کتنے لوگ روزمرہ کی زندگی میں اردو کا استعمال کرتے ہیں؟
سپریم کورٹ کے فیصلے میں جن حقائق کا ذکر ہے، ان کی روشنی میں ہندی اور علاقائی زبانوں کی بالادستی سے مرعوب ہو کر اردو سے کنارہ کشی اختیار کرنے والوں سے بھی سوالات بنتے ہیں۔ حالات کے جبر یا متعصبانہ ذہنیت کا بہانہ بنا کر اردو کے ساتھ ناانصافی کے تماشائی بننے والوں کے لیے بھی اس فیصلے میں بہت کچھ عبرت کا سامان ہے۔
جہاں جہاں اردو نے عروج حاصل کیا وہاں آج اس کی صورتِ حال کیا ہے؟ اردو پڑھانے والے ادارے کیوں بند ہو رہے ہیں؟ اردو صحافت آخری سانسیں کیوں لے رہی ہے؟ اردو اخبارات و رسائل کیوں اپنے قارئین کے منتظر ہیں؟
تعلیمی نظام کے سہ لسانی فارمولے میں اردو کے لیے گنجائش رکھی گئی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کتنے والدین نے اپنے بچوں کے لیے تیسری زبان کے طور پر اردو کا انتخاب کیا ہے؟
یوں شروع کریں:
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اردو زبان شمالی ہندوستان میں بولی جاتی ہے، لیکن 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار نے حقیقت میں اس زبان کے ملک کے مختلف حصوں اور کمیونٹیوں کے ساتھ گہرے تعلقات کو اجاگر کیا۔ مہاراشٹر، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور کرناٹک جیسے علاقوں میں اردو بولنے والوں کی نمایاں موجودگی سامنے آئی۔ مردم شماری کے مطابق، مہاراشٹر میں اردو بولنے والوں کی تعداد 75.4 لاکھ ہے، جب کہ کرناٹک میں یہ تعداد 66.18 لاکھ ہے۔ کرناٹک میں اردو بولنے والوں کا تناسب 10.83 فیصد ہے، جو کہ ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ ان ریاستوں میں اردو اسکولوں کی حالت بھی نسبتاً بہتر ہے، جبکہ گوا جیسے ریاست میں اردو پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے برعکس، بہار اور اترپردیش میں اردو کی حالت بدتر ہے اور بنگال میں بھی اردو آخری سانسیں لے رہی ہے۔
آزاد بھارت کے آئین کی تشکیل کے وقت ہندی اور اردو کی زبانوں پر بحث نے تلخی اختیار کر لی تھی۔ 1950 میں اختیار کیے گئے اس شاندار چارٹر آف گورننس کے عظیم معماروں نے لسانی تنازعے کو ہمیشہ کے لیے سرد خانے میں ڈال دیا ہے۔ آئین کے حصہ III کے تحت شہریوں کے ناقابلِ تنسیخ بنیادی حقوق کا اعلان کیا گیا ہے کہ ہندوستان کے کسی بھی حصے میں رہنے والے شہریوں کو اپنی زبان اور رسم الخط رکھنے کا حق حاصل ہے (آرٹیکل 29)۔ اس کے بعد، آئین کے حصہ VIII میں ان تمام ممکنہ مسائل کے جوابات دیے گئے ہیں جو کسی منتخب زبان کو "سرکاری زبان” کے طور پر استعمال کرنے کے سلسلے میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس میں ہندی اور انگریزی کو یونین کی سرکاری زبانیں تسلیم کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر ریاست اپنے سرکاری زبانوں کی تعداد کا انتخاب کر سکتی ہے۔ ایک علیحدہ شق کے تحت، مرکز کو کسی بھی ریاست میں اقلیتی زبانوں کی شناخت کو یقینی بنانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ آئین کے شیڈول VIII میں مختلف زبانوں کے نام دیے گئے ہیں جنہیں ریاستوں کے ذریعے تسلیم کیا جانا ضروری ہے اور اردو شروع سے ہی اس میں شامل تھی۔
جب بھی ملک میں کسی ایک زبان کو جبراً مسلط کرنے کی کوشش کی گئی، حالات خراب ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اے آر لکشمن نے کہا تھا کہ زبان کسی قوم کے شہریوں کے لیے ایک انتہائی جذباتی مسئلہ ہے اور یہ قومی یکجہتی کے لیے ایک طاقتور ذریعہ بن سکتی ہے۔ کسی بھی زبان کو لوگوں پر ان کی مرضی کے خلاف مسلط نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے بغاوت کا خطرہ ہوتا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس کرشنا ائیر نے 216ویں رپورٹ کے سلسلے میں قانون کمیشن کے سامنے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ "میں ذاتی طور پر ہندی کے حق میں ہوں، مگر میں ہندی کو جبراً مسلط کرنے کے خلاف ہوں… لسانی عسکریت پسندی ملک کو الگ کرے گی، لیکن وفاقی تکثیریت جمہوری حساسیت ہے۔”
آرٹیکل 351 مرکزی حکومت پر ہندی زبان کے فروغ کا فرض عائد کرتا ہے، مگر الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے 1982 کے فیصلے میں کہا کہ "اگرچہ ہندی بھارت کی قومی زبان ہے اور آرٹیکل 351 کے تحت حکومت پر ہندی زبان کو فروغ دینے کا فرض عائد کیا گیا ہے تاکہ یہ بھارت کی ثقافت کے تمام پہلوؤں کا اظہار کرے، لیکن کسی بھی شہری پر کوئی زبان تھوپنے کا حق نہیں ہے۔” آئین کے آرٹیکل 29(1) میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ہر طبقے کو اپنی زبان، رسم الخط، یا ثقافت کے تحفظ کا بنیادی حق حاصل ہے، چاہے وہ اکثریت ہو یا اقلیت۔ عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ دیا کہ کوئی بھی زبان صرف قانونی حق سے نہیں پروان چڑھتی، بلکہ اس کے بولنے والوں کی وفاداری سے یہ زبان مضبوط ہوتی ہے۔
اردو کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ایک طرف جہاں اسے سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر تعصب کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہیں اپنے ہی لوگوں نے بھی اردو کے ساتھ کم ظلم و زیادتی نہیں کی ہے۔
***
***
آئین میں اردو سمیت مختلف زبانوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، اور ہندی کو سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، مگر اقلیتی زبانوں کے تحفظ کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ زبان کو کسی پر مسلط نہیں کیا جانا چاہیے، کیونکہ یہ قومی یکجہتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اردو کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسے سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر تعصب کا سامنا ہے اور اس کے اپنے حلقوں نے بھی اسے کم ہی تکریم دی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اپریل تا 03 مئی 2025