کیا تحقیق و ترقی کے بغیر ’وشو گرو‘ بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے؟

ملک عالمی جدت کی دوڑ میں پیچھے کیوں ہے؟ کم لاگت سے چین کے Deepseek AI کی کامیابی بھارت کے لیے لمحہ فکر یہ

0

محمد مجیب الاعلیٰ

چین کی کمپنی Deepseek AI نے کم لاگت میں جدید ترین مصنوعی ذہانت کے حل متعارف کروا کر دنیا بھر میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کامیابی نے عالمی سطح پر ایک نیا رجحان پیدا کیا ہے۔جہاں نئی ٹیکنالوجیوں اور اختراعات کی تخلیق میں بالادستی کے لیے مختلف ممالک اپنی تحقیق و ترقی (R&D) کے بجٹ میں اضافہ کر رہے ہیں، وہیں بھارت میں تحقیق و ترقی کے شعبے کے مصارف میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے جس سے ملک کی عالمی سطح پر مسابقتی پوزیشن متاثر ہو رہی ہے۔ Deepseek AI کی کامیابی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں اس نوعیت کی جدت کیوں نہیں ہو رہی ہے؟ ملک کی موجودہ تحقیق و ترقی کی صورتحال کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عالمی سطح پر ترقی پذیر ممالک جدید ٹیکنالوجیوں پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں لیکن ہمارے یہاں تحقیق اور ترقی کے بجٹ میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ یہ صورت حال ہمارے مستقبل کی اقتصادی اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک خاص طور پر چین، امریکہ اور جنوبی کوریا جیسے ممالک تحقیق و ترقی کے شعبے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں تاکہ وہ عالمی سطح پر نئی اختراعات کے میدان میں سبقت حاصل کر سکیں۔ ان ممالک کا مقصد نہ صرف اپنی معیشتوں کو مضبوط بنانا ہے بلکہ عالمی مارکیٹ میں اپنی ٹیکنالوجیوں کے ذریعے فوقیت بھی حاصل کرنا ہے۔ لیکن ملک میں تحقیق و ترقی کے شعبے میں بجٹ کی کمی ملک کی سائنسی اور تکنیکی ترقی کی رفتار کو سست کر رہی ہے۔ 2021 میں بھارت کا تحقیق و ترقی پر خرچ $64.7 بلین رہا جبکہ چین اور امریکہ اس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ بھارت عالمی سطح پر جدت اور اختراعات کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔
ترقی یافتہ اقوام کی کامیابی کا راز تحقیق و ترقی میں مستقل سرمایہ کاری میں پوشیدہ ہے۔ امریکہ اپنی جی ڈی پی کا تقریباً 3.5فیصد اور چین 2.65فیصد تحقیق و ترقی پر خرچ کر رہے ہیں، اور یہ اخراجات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے درمیان سائنسی برتری حاصل کرنے کی ایک نہ ختم ہونے والی مسابقت جاری ہے، جو انہیں نئی ایجادات، ٹیکنالوجی کی جدت اور صنعتی انقلاب کی راہ پر گامزن رکھتی ہے۔ اس کے برعکس، بھارت، جو 2010 میں اپنی جی ڈی پی کافیصد0.85 تحقیق و ترقی پر صرف کر رہا تھا، اب محضفیصد0.64خرچ کر رہا ہے، جو ایک تشویشناک رجحان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی قومیں ترقی کی دوڑ میں آگے نکلتی ہیں جو تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنی اولین ترجیح بناتی ہیں۔ جو معاشرے ان شعبوں کو نظرانداز کرتے ہیں، وہ محض دوسروں کی ایجادات اور ترقی کا مشاہدہ کرنے پر مجبور رہ جاتے ہیں۔
اگر بھارت کو عالمی سطح پر اختراعات کے میدان میں آگے بڑھنا ہے تو اسے تحقیق اور ترقی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے حکومت کو نہ صرف اپنے بجٹ کو بڑھانا ہوگا بلکہ خصوصی تحقیقی منصوبوں اور نئی ٹیکنالوجیوں کے لیے بھی فنڈز مختص کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ ملک میں تحقیقی اداروں اور یونیورسٹیوں کو تحقیق کے جدید ذرائع فراہم کرنا ضروری ہوگا تاکہ نوجوان محققین اور سائنس داں عالمی معیار کی ٹیکنالوجیوں کی تخلیق میں حصہ لے سکیں۔
اگر بھارت نے فوری طور پر تحقیق و ترقی کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے اقدامات نہیں کیے تو اندیشہ ہے کہ وہ جدت و اختراعات کی عالمی دوڑ میں مزید پیچھے رہ جائے گا۔ اس کا اثر نہ صرف ملک کی معیشت پر پڑے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی سائنسی اور تکنیکی قوت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
درج ذیل اعداد و شمار پر غور کریں:
تحقیق کی موجودہ صورتِ حال
ملک میں ہر دس لاکھ افراد میں محض 263 محققین ہیں جبکہ برازیل میں 888، جنوبی افریقہ میں 484 اور میکسیکو میں 349 ہیں۔
2020 میں عالمی سطح پر شائع ہونے والے تحقیقی مقالوں میں بھارت کا حصہ صرف 5 فیصد تھا جبکہ چین 23 فیصد اور امریکہ 15.5 فیصد کے ساتھ نمایاں رہے۔
ملک میں خواتین محققین کی شمولیت کا فیصد 18 ہے جب کہ عالمی اوسط 33 فیصد ہے
تحقیقی ادارے اور یونیورسٹیاں 40 ہزار ہیں جبکہ ان کی فعالیت کی شرح ایک فیصد ہے
2021 میں بھارت میں 61,573 پیٹنٹ فائل کیے گئے جبکہ چین نے 16 لاکھ اور امریکہ نے 6 لاکھ پیٹنٹ درج کروائے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 فروری تا 15 فروری 2025