کیا قانون سب کے لیے برابر ہے؟

راجستھان میں دلت اور قبائلی گروہ برہم۔ حکومتی کارروائی سوالات کے گھیرے میں

0

زعیم الدین احمد ،حیدرآباد

ملک بھر میں پسماندہ طبقات کے حقوق کی حفاظت اور ایک منصفانہ سماجی نظام کی اشد ضرورت
یکم مارچ کو راجستھان کے ڈونگر پور میں ضلع کلکٹر کے دفتر سے ایک حکم نامہ جاری ہوتا ہے جس میں ڈپارٹمنٹل انکوائری شروع کیے جانے کی اطلاع دی جاتی ہے اور ساتھ ہی اس میں یہ بھی حکم تحریر کیا ہوا ہوتا ہے کہ کھیرا کچواسا گاؤں کے ایک سرکاری اسکول کی دلت لیکچرر سنیتا کماری کو معطل کر دیا گیا ہے۔
اسی دن ڈونگر پور کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے دفتر کی طرف سے ہیڈ کانسٹیبل شیو لال کے خلاف بھی اسی طرح کا حکم نامہ جاری کیا گیا۔ شیو لال جو کہ ایک قبائلی ہے اور مینا برادری سے تعلق رکھنے والا پولیس سپاہی ہے، اس کے خلاف انتظامی انکوائری شروع کردی گئی اور اسے انکوائری کی مدت تک کے لیے پولیس لائنز میں بھیج دیا گیا۔ یہ دونوں واقعات راجستھان کے ہیں جن کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے ان کا تعلق پسماندہ طبقات سے ہے۔
کتنا عجیب اتفاق ہے کہ ان دونوں واقعات میں برہمن گروپوں نے الزام لگایا ہے کہ سنیتا کماری اور شیو لال نے 27 اور 28 فروری کو منعقد ہونے والے راجستھان اہلیت امتحان برائے اساتذہ یعنی آر ای ای ٹی کے امتحانی مرکز میں جانے والے طلبہ سے جن کا تعلق برہمن طبقے سے تھا، ان کو اپنا ’جَنیئُو‘ (جسے برہمن اپنے لیے مقدس سمجھتے ہیں) کو نکالنے کا حکم دیا تھا۔
دراصل معاملہ سوشل میڈیا پر ایک وائرل ویڈیو کی بنیاد پر شروع ہوا، اس ویڈیو میں دکھایا گیا کہ کچھ طلبہ اپنا جنیو اتار رہے ہیں، بس پھر کیا تھا! خود ساختہ اعلیٰ ذاتوں کے لیڈروں میں کھلبلی مچ گئی، ویڈیو کو لے کر وپرا فاؤنڈیشن (جو برہمنوں کے حقوق کی وکالت کرنے والی ایک تنظیم ہے) حرکت میں آتی ہے، اس تنظیم نے کلکٹر کو میمورنڈم پیش کیا، اور مستعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب فوری حرکت میں آ گئے اور اس معاملے پر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر، ڈونگرپور کو تفصیلی انکوائری کرنے کا حکم بھی جاری کر دیا۔
اس واقعے کے نتیجے میں دلت اور قبائلی گروہوں نے راجستھان کی بی جے پی حکومت کو پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین پر مبینہ متعصبانہ کارروائی کرنے اور انہیں سزا دینے پر سخت تنقید کی اور مطالبہ کیا کہ دونوں کے خلاف کی گئی کارروائی کو فوری واپس لیا جائے۔
سنیتا کماری کے شوہر وکاس کمار جو خود بھی ایک سرکاری ٹیچر ہیں، انہوں نے دی وائر سے کہا کہ میری بیوی کی ڈیوٹی امتحانی مرکز کے اندر تھی اور آنے والے طلبہ کے شناختی کارڈ چیک کرنا تھا۔ میری بیوی ایک خاتون ٹیچر ہے وہ مرد طالب علموں کو کیسے چیک کر سکتی ہے؟ وہاں اور بھی دیگر اہلکار تھے جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ طلبہ کی جانچ کریں۔ یہ نہ اس کی ذمہ داری تھی اور نہ ہی اس نے کسی سے ان کا جنیو نکالنے کے لیے کہا تھا۔ سنیتا کماری کے شوہر کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ وہاں پیش ہی نہیں آیا۔ یہ ویڈیو امتحانی مرکز کا ہے ہی نہیں۔
جب یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وائرل ویڈیو امتحانی مرکز کا ہے ہی نہیں تو مجسٹریٹ صاحب کو اس ویڈیو کی حقیقت کا جائزہ لینا چاہیے تھا، پہلے اس ویڈیو کی صداقت کی جانچ ہونی چاہیے تھی، اگر ویڈیو صحیح ثابت ہوتا تو اس کے بعد ڈپارٹمنٹل انکوائری شروع کی جاتی، لیکن شاید مجسٹریٹ صاحب کا مقصد اعلیٰ ذات والوں کو خوش کرنا تھا ہوگا یا پھر وہ کسی سیاسی دباؤ میں ہوں گے، جو بھی ہو لیکن سنیتا کماری کو تو فوری اثر کے ساتھ معطل کر دیا گیا۔
دوسرا واقعہ بھی جان لیجیے، ہیڈ کانسٹیبل شیو لال کو دیگر پولیس اہلکاروں کے ساتھ پنالی گاؤں کے ایک کالج میں امتحانی مرکز پر تعینات کیا گیا تھا۔ ان پر بھی وہی الزام لگایا گیا کہ انہوں نے برہمن طلبہ کو اپنا جنیو اتارنے کے لیے کہا تھا، لیکن شیو لال کا کہنا ہے کہ ہمیں احکامات دیے گئے تھے کہ امتحانی ہال کے اندر موبائل فون اور زیورات جیسی اشیاء لے جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ لیکن ہم نے کسی سے ان کا جنیو اتارنے کے لیے نہیں کہا۔ امتحانی مرکز میں موجود عملے کے ارکان پہلے ہی تحریری طور پر کہہ چکے ہیں کہ ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ مجسٹریٹ صاحب کو خود اپنے پولیس محکمہ پر بھروسا نہیں ہے، وہاں موجود دیگر پولیس اہلکار کہہ رہے ہیں کہ ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا تو پھر شیو لال کو معطل کرنے ضرورت کیا تھی؟
شیو لال کے ساتھ امتحانی مرکز میں تعینات ایک اور کانسٹیبل راکیش کٹارا نے ضلع کلکٹر کو ایک خط لکھا جس میں اس نے کہا کہ امتحانی مرکز میں تعینات پولیس اہلکاروں سے کہا گیا تھا کہ وہ چیک کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ موبائل فون، بلوٹوتھ سمارٹ گھڑیاں وغیرہ اندر نہ لے جائے جائیں اور پولیس کو جوتے، موزے اور کیپ پہننے والے امیدواروں کو مستعدی سے تلاش کرنے کے لیے کہا گیا۔ امتحان کے بعد سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں برہمن امیدواروں کو ان کا جنیو اتارنے کے لیے کہا گیا، لیکن ہم نے امتحانی مرکز میں کسی برہمن امیدوار کو اپنا جنیو اتارنے کے لیے نہیں کہا۔ سوشل میڈیا پر آنے والی ویڈیوز میں کوئی بھی پولیس اہلکار جنیو کو ہٹاتے ہوئے نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض بدمعاش امتحانی مرکز سے چلے گئے ہوں اور سوشل میڈیا پر وائرل کرنے سے پہلے جنیو کو ہٹانے کا ویڈیو بنایا ہو” کٹارا نے یہ ساری باتیں تحریری طور پر مجسٹریٹ کو پیش کیں۔
وپرا فاؤنڈیشن کے نریندر پالیوال نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ڈونگر پور کے امتحانی مرکز میں برہمن امیدواروں کے ساتھ ہونے والی بدتمیزی برہمن برادری اور سناتن دھرم کی توہین ہے، قواعد میں کہیں ذکر نہیں ہے کہ جنیو کو نکالا جائے۔ یہ برہمن برادری اور سناتن دھرم کی توہین کے لیے کیا گیا عمل ہے۔ انہوں نے کلکٹر اور وزیر اعلیٰ سے مطالبہ کیا ہے کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہونے کو یقینی بنانے کے لیے رہنما خطوط جاری کیے جائیں۔
بہتی گنگا میں کانگریس بھی ہاتھ دھو رہی ہے، واقعہ کی حال حقیقت جانے بغیر ویڈیو پر پورا اعتماد کرلیا اور خاطیوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کر دیا۔ دلت اور دیگر پسماندہ طبقات کو آئے دن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اعلیٰ ذاتوں کی طرف سے ان کے ساتھ عدم مساوات کا رویہ روا رکھا جاتا ہے، ان کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں، ان پر ظلم کیا جاتا ہے۔ اس وقت تو ان خود ساختہ اعلیٰ ذات والوں کی زبان نہیں کھلتی، ہونٹ سِل جاتے ہیں۔ یہی وہ ریاست ہے جہاں پانچ دلت بھائیوں کو گاڑی سے باندھ کر گھسیٹا گیا تھا لیکن اس وقت نہ کانگریس اور نہ بھاچپا نے آواز اٹھائی اور نہ ہی مجسٹریٹ نے اتنی مستعدی دکھائی۔
دلت اور قبائلی گروپوں نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے اور ریاستی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ سنیتا کماری اور شیو لال کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ اس واقعے پر بھارت آدیواسی پارٹی بی اے پی نے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ کسی نے بھی امیدواروں سے اپنا جنیو اتارنے کے لیے نہیں کہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ویپرا فاؤنڈیشن جیسی تنظیموں کے ذریعے آر ای ای ٹی کے خواہشمندوں کو ایسی ویڈیوز بنانے کی ترغیب دے کر اس طرح کا پروپیگنڈہ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔ ملازمین کو بدنیتی کی وجہ سے غیر منصفانہ نشانہ بنایا گیا ہے۔
امبیڈکر میموریل ویلفیئر سوسائٹی راجستھان کے جنرل سکریٹری جی ایل ورما نے کہا کہ "سنیتا کماری شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والی ایک مخلص سرکاری ملازمہ ہے، ان کی معطلی سے راجستھان میں درج فہرست ذات کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ ہماری درخواست ہے کہ ضلع کلکٹر ڈونگر پور کا حکم واپس لیا جائے اور سنیتا کماری کی معطلی کو فوری طور پر منسوخ کر دیا جائے،”
اب وقت آچکا ہے کہ سارے پسماندہ طبقات اور مسلم برادری متحدہ طور پر ان خود ساختہ اعلیٰ ذات کے نظام کو مٹا دیں اور ایک ایسا سماجی نظام قائم ہو جس میں سارے انسان برابر ہوں، ذاتوں کے نام پر تفریق نہ کی جاتی ہو، ایک منصفانہ نظام، جس میں سبھی لوگوں کے حقوق محفوظ ہوں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2025