کیا خالصتان کا مسئلہ ایک اور پلوامہ بننے جا رہا ہے؟

2024کے انتخابات کے لئے نئے موضوع کی تلاش

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

2019 کے عام انتخابات میں سروے بتا رہے تھے کہ شاید اس بار بی جے پی کے لیے کامیابی کی راہ آسان نہیں ہوگی، انتخابات میں اکثریت حاصل کرنا اس کے لیے بہت مشکل نظر آ رہا تھا کہ اچانک پلوامہ کا حادثہ پیش آ گیا، پھر ہندوستانی قومیت کی وہ لہر چلی کہ اس میں سارا حزب اختلاف ہوا ہوائی ہو گیا۔ پلوامہ حادثے کا موضوع بی جے پی نے انتخابات میں خوب استعمال کیا اور اس سے بھرپور فائدہ بھی اٹھایا۔ اس حادثہ کے محرکات کیا تھے کس نے اسے سر انجام دیا کہاں کوتاہی ہوئی؟ ان تمام باتوں کی آج تک تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں۔
پھر ملک میں آئندہ سال عام انتخابات ہونے والے ہیں، اور اس سال کے آخر میں پانچ ریاستوں میں اسمبلی کے انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ مختلف سروے بتا رہے ہیں کہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کا جیتنا مشکل ہے، تقریباً تمام ہی سروے بی جے پی کے ہارنے کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں، کیوں کہ عوام بد حال ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ مودی حکومت معاشی محاذ پر بری طرح سے ناکام ہوچکی ہے، مہنگائی سے عوام کا حال غیر ہو چکا ہے، بے روزگاری اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے، روپے کی قدر مسلسل روبہ زوال ہے، افراطِ زر کا یہ حال ہے کہ غریب کا جینا دوبھر ہو گیا ہے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریاں نہیں ہیں، زندگی گزارنے کے لیے سو جتن کرنے پڑ رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے عوام کا جینا حرام ہوگیا ہے۔ کوئی قابلِ فخر کارنامہ ہوتو بیان کرتے اور جسے لے کر انتخابات میں جاتے، لیکن مودی کے پاس سوائے ہندوتوا کے نعرے کے کچھ اور باقی نہ رہا۔ انہوں نے عوام کے لیے کام کیا ہوتا تو گنواتے، انہوں نے تو صرف گوتم اڈانی، امبانی کی جیبیں بھرنے کا کام کیا ہے۔ لیکن اب عوام ان کے جھوٹ کو جان چکے ہیں، اب وہ ان کے جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں۔
چنانچہ معاملے کو بگڑتا ہوا دیکھ کر خالصتان تحریک کا ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا گیاہے، اب گودی میڈیا کہاں پیچھے رہتا، اس نے طرح طرح کی جھوٹی سچی خبریں پیش کرنا شروع کردیں۔ انتخابات سر پر ہیں، بی جے پی کو یقین ہے کہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اسے ووٹ ملنے والے نہیں ہیں، اسے ایک حساس موضوع کی ضرورت تھی، اور اسے خالصتان کا موضوع ہاتھ لگ گیا ہے۔ اب وہ اسے خوب بھنائے گی، جس طرح سابق میں اس نے پلوامہ کا معاملہ عین انتخابات سے قبل بھنایا تھا، اور یکایک انتخابات کا رخ تبدیل کردیا تھا۔ اب لگتا ہے کہ یہ خالصتان کا موضوع بھی اسی طرح اچھالا جائے گا، خوب بھنایا جائے گا، پھر ایک بار عوام کو بے وقوف بنانے کی بھر پور کوشش کی جائے گی۔ ماہ جون میں کینیڈا میں ایک ہندوستانی نژاد کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل ہونے کے بعد خالصتان کا موضوع اچانک منظر عام پر آیا، قتل کا یہ واقعہ اتنا طول پکڑا کہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے، دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفیروں کو نکال باہر کیا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ہندوستان پر کینیڈائی باشندے ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کا الزام لگایا، اس پر تحقیقات جاری ہیں لیکن دونوں ممالک میں کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ وہ پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ نجر کے قتل میں بھارتی ایجنٹ شامل ہیں، اور بھارت کو قتل کے معاملے کو حل کرنے میں ہمارا ساتھ دینا چاہیے۔ ہندوستان نے اس طرح کے کسی بھی الزام کو مسترد کردیا اور بے بنیاد قرار دیا۔ کہی جا رہا ہے کہ جسٹن ٹروڈو کی مقبولیت میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے اور کینیڈا میں ایک بڑی تعداد میں سکھ آباد ہیں جنہیں وہ کسی صورت میں کھونا نہیں چاہتے، وہ اپنے معاملے کو بہتر بنانے اور اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے سکھوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے ملک میں ہمارے شہری کو قتل کرنا گویا کہ ہمارے ملک کی خودمختاری کو چیلنج کرنا ہے، جو ہمیں کسی بھی صورت میں برداشت نہیں ہے۔ بات تو سو فیصد درست ہے، کوئی بھی ملک اس طرح کی کارروائی کو قبول نہیں کرے گا۔ اے کاش کہ یہی معیار ہر جگہ اپنایا جاتا لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ اس معیار پر آپ دوسروں کو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن خود اس سے کوسوں دور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اس قتل کو پوری طرح دہشت گردانہ کارروائی سمجھتا ہوں، اس کی مکمل تحقیقات ہوگی اور قاتل کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ کاش کہ جسٹن ٹروڈو افغانستان و عراق میں بھی یہی معیار اپناتے، وہاں تو انہوں نے نہتے عوام پر بے دریغ بم برسائے۔ کیا ان کا یہ عمل اس ملک کی خود مختاری کو چیلنج کرنا نہیں تھا؟ کیا وہ دوسرے ممالک کی سالمیت کو ختم نہیں کر رہے تھے؟ یقینی طور پر انہوں نے اس طرح کا جارحانہ رویہ دوسرے کسی معاملے میں نہیں اپنایا ہے جس طرح یہاں اپنا رہے ہیں، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ کینیڈا میں سکھوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے، وہ انہیں ناراض کرنا نہیں چاہتے، ووٹ بینک کی حیثیت
سے یہ ان کا بڑا سرمایہ ہے۔ جسٹن ٹروڈو جب یہ کہتے ہیں کہ ان ملک میں ان کے شہری کو کوئی دوسرا ملک آ کر قتل کرے کو وہ اپنی خودمختاری پر حملہ متصور کریں گے، تو گویا وہ عوام میں قوم پرستی کے جذبات کو ابھار رہے ہیں، انہیں قوم پرستی کا نشہ پلا رہے ہیں تاکہ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت بحال کر سکیں۔جب عوام میں قوم پرستی کے جذبات ابھارا جائے گا تو لازمی ہے کہ حزب اختلاف کو بھی ان کا ساتھ دینا پڑے گا کیوں کہ انہیں بھی ووٹ چاہیے، اگر وہ ان کی مخالفت کرتے ہیں تو عوام انہیں ملک مخالف سمجھے گی۔ یہی طریقہ یہاں ہمارے ملک میں بی جے پی اپناتی رہی ہے۔
اگر ہم دنیا کے ممالک کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بہت سے ممالک اسی قومیت کے نشے میں مبتلا ہو چکے ہیں اور سیاست داں اپنی حقیر سیاسی مقصد براری کے لیے عوام کو قومیت کے نشے میں مبتلا کر رہے ہیں۔ فرانس میں بھی یہی کیفیت ہے۔ سفید فام والوں نے وہاں نقل مکانی کر کے انے والے لوگوں کے خلاف الٹرا نیشنلسٹ مہم چلا رکھی ہے۔ امریکہ میں بھی سفید فاموں میں یہی قومیت کا جنون سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ سیاست داں بھی اپنی سیاست چمکانے کے لیے اس موضوع کو خوب استعمال کرنے لگے ہیں۔ یہ ساری چیزیں ایک ہی ہیں، یعنی قوم پرستی، نیشنلزم یا الٹرا نیشنلزم۔ ہمارا ملک بھی اس سے بچا ہوا نہیں ہے، یہاں ہندو نیشنلزم کا زور چل رہا ہے۔ ہندو، ہندی، ہندوستان، ملک ہندوؤں کا ہے، جو ہندو نہیں وہ اس ملک کا نہیں، یہی ہندو قوم پرستی کا نشہ اب ہمارے ملک میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ نشہ انتخابات میں اپنے شباب پر ہوتا ہے۔
ملک میں انتخابات کے تیوہار کی آمد آمد ہے۔ تیاریاں زور و شور سے چل رہی ہیں، ریلیاں اور جلسے جلوس شروع ہوچکے ہیں۔ ان میں عوامی مسائل کے کوئی تذکرے نہیں، عوام کو ان کے حقیقی مسائل سے بہکائے جانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ بی جے پی کے پاس اب بڑے بڑے نعرے ختم ہوچکے ہیں، اسے کسی نئے نعرے کی تلاش ہے، سروے بتا رہے ہیں کہ مودی کی ’’کرشماتی شخصیت‘‘ اب ماند پڑنے لگی ہے، ان کے چہرے پر عوام کو اب بھروسہ نہیں رہا ہے، عوام میں مودی کے خلاف پھر وہی کیفیت ہے جو 2019 انتخابات میں تھی۔ عوام ان کے معاشی منصوبوں سے ناراض ہیں، معاشی محاذ پر ناکامی سے پریشان ہیں، بے روزگاری، افراطِ زر، مہنگائی جیسے مسائل کے حل میں ناکامی سے عوام ان سے مایوس و بدظن ہوچکے ہیں، چین کو لال آنکھ دکھانے والے آج اس کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں، ان کی چین کے تئیں پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ کسان ان کی پالیسیوں سے پریشان ہیں، اس بار بھی سروے بتا رہے ہیں کہ معاملہ گڑبڑایا ہوا ہے۔ اب انہیں ایک نئے موضوع کی تلاش ہے۔ اب آئندہ عام انتخابات میں اور آئندہ چند ماہ میں ہونے والے ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں خالصتان کا موضوع چھایا رہے گا۔
***

 

***

 بی جے پی کے پاس اب بڑے بڑے نعرے ختم ہوچکے ہیں، اسے کسی نئے نعرے کی تلاش ہے، سروے بتا رہے ہیں کہ مودی کی ’’کرشماتی شخصیت‘‘ اب ماند پڑنے لگی ہے، ان کے چہرے پر عوام کو اب بھروسہ نہیں رہا ہے، عوام میں مودی کے خلاف پھر وہی کیفیت ہے جو 2019 انتخابات میں تھی۔ عوام ان کے معاشی منصوبوں سے ناراض ہیں، معاشی محاذ پر ناکامی سے پریشان ہیں، بے روزگاری، افراطِ زر، مہنگائی جیسے مسائل کے حل میں ناکامی سے عوام ان سے مایوس و بدظن ہوچکے ہیں، چین کو لال آنکھ دکھانے والے آج اس کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں، ان کی چین کے تئیں پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ کسان ان کی پالیسیوں سے پریشان ہیں، اس بار بھی سروے بتا رہے ہیں کہ معاملہ گڑبڑایا ہوا ہے۔ اب انہیں ایک نئے موضوع کی تلاش ہے۔ اب آئندہ عام انتخابات میں اور آئندہ چند ماہ میں ہونے والے ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں خالصتان کا موضوع چھایا رہے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 اکتوبر تا 14 اکتوبر 2023