کیا کشمیر کی نئی حکومت عوامی اعتماد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی؟

دفعہ 370کی بحالی اور جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنا سب سے بڑا چیلنج

0

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد۔ حیدرآباد

کیا مودی حکومت نیشنل کانفرنس حکومت کو دست تعاون دراز کرے گی؟
دس سال کے طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد کشمیریوں کو جمہوری عمل میں حصہ لینے کا موقعہ ملا۔2014کے بعد اب 2024میں جموں وکشمیر اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے۔ 90رکنی اسمبلی کے لیے نیشنل کانفرنس کے 42امیدوار کامیاب ہوئے۔ بی جے پی اپنی تمام تر سیاسی عیاریوں کے باوجود صرف 29 سیٹوں پر اپنی کامیابی درج کرا سکی جبکہ کانگریس کے چھ امیدوار ہی کا میاب ہو سکے۔ محبوبہ مفتی کی پارٹی پی ڈی پی کا مظاہرہ بھی کوئی خاص نہیں رہا۔ اسے صرف تین نشستیں مل سکیں۔ سی پی آئی (ایم) اور عام آدمی پارٹی کے ایک ایک امیدوار کا میاب ہوئے۔ سات آزاد امیدواروں نے بھی اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ انجینئر رشید جنہوں نے جیل میں رہتے ہوئے کشمیر کے سابق چیف منسٹر عمر عبداللہ کو شکست دے کر 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں کا میابی حاصل کرکے سارے سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا کر دی تھی لیکن اسمبلی الیکشن میں جیل سے باہر رہ کر خود انتخابی مہم چلانے کے باوجودوہ اپنی پارٹی عوامی اتحاد کے ایک بھی امیدوار کو کامیابی نہیں دلاسکے۔ جب کہ ان کی پارٹی کے 44 امیدوار انتخابی میدان میں تھے۔ ممنوعہ جماعت اسلامی کے بعض سابق ارکان نے بھی 1987کے الیکشن کے بعد پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے قسمت آزمائی کی لیکن وہ بھی ناکامی سے دوچار ہوئے۔ عوام نے شاید ووٹوں کی تقسیم کے خوف سے کسی تیسری پارٹی کو ووٹ نہیں دیا۔ کانگریس اور نیشنل کانفرنس پر سیکولر عوام نے بھروسا کرتے ہوئے ان کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ ہندتوادی ووٹ راست بی جے پی کے کھاتے میں گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بی جے پی نے جو 29سیٹیں جیتی ہیں وہ سب جموں کے علاقہ کی ہیں۔ وادی کشمیر میں بی جے پی کا ایک بھی امیدوار کا میاب نہیں ہوا۔ اس سے ظاہر ہو گیا کہ بی جے پی نے کشمیر کی ترقی کے تعلق سے جو دعوے کیے تھے اور دفعہ 370 کو ختم کرکے کشمیر میں امن کے قیام کی جو باتیں کی تھیں وہ محض پروپیگنڈا تھا۔ جموں و کشمیر میں اب عمر عبداللہ کی قیادت میں نئی حکومت تشکیل پا چکی ہے۔ عمر عبداللہ نے بدلے ہوئے حالات میں عنانِ حکومت سنبھالی ہے۔ اب جموں و کشمیر کی حیثیت ایک یونین ٹیریٹری (مرکزی زیر انتظام علاقہ) کی ہے۔ 5 اگست 2019 کو مرکز کی بی جے پی حکومت نے بیک جنبش قلم جموں و کشمیر کو خصوصی مراعات دینے والی دفعہ 370 کو برخواست کرکے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ مرکزی حکومت کے اس یکطرفہ فیصلہ کے خلاف کشمیر میں غم و غصہ کا لاوا پھٹ پڑا۔ مودی حکومت یہ دعوی کرتی رہی کہ دفعہ 370 جموں و کشمیر کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ رہا۔ اسی لیے اسے ختم کر دیا گیا۔ حکومت کی جانب سے یہ ادعا کیا گیا کہ اس دفعہ کی برخواستگی کے بعد وادی کشمیر میں خوشحالی کا دور آگیا ہے اور دہشت گردی پر مکمل قابو پالیا گیا ہے۔ انتخابی نتائج اس بات کا ثبوت ہیں کہ کشمیری رائے دہندوں نے مودی حکومت کے اقدامات کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اس لحاظ سے جموں و کشمیر اسمبلی الیکشن کے نتائج بی جے پی کے فیصلوں کے خلاف ریفرنڈم ہیں۔ بی جے پی قائدین کو یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ انہوں نے کشمیر کے معاملے میں تعصب اور جانب داری سے کام لیا اور کشمیریوں کے جائز حقوق کو ختم کرنے کی دانستہ کوشش کی ۔ اسی وجہ سے انہیں یہ سزا ملی ہے ۔
جموں و کشمیر کے عوام کی یہ بد قسمتی رہی کہ ہندوستان کی آزادی کے 77 سال مکمل ہونے کے بعد بھی کشمیریوں کی زندگی میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آسکی۔ وہ اپنی شناخت کے لیے اب بھی سرگرداں ہیں۔ مرکز میں یکے بعد دیگرے برسرِ اقتدار آنے والی حکومتوں نے کشمیریوں کے دل جیتنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ مرکز نے اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعہ کشمیریوں کا استحصال کیا۔ ان کے جائز مطالبات بھی نظر انداز کر دیے گئے۔
کانگریس نے اپنے طویل دور حکومت میں کشمیر کی ترقی کے بہت سارے دعوے کیے لیکن یہ سب دعوے سراب ثابت ہوئے۔ کشمیری عوام مختلف وجوہات کی بناء پر آزمائشوں کے دور سے گزرتے رہے۔ یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ ہندوستان کی حکومتوں نے کشمیر کو ملک کا اٹوٹ حصہ تو مانا لیکن کشمیریوں کے دکھ درد کو سمجھنے اور ان کے زخموں کو مندمل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ایک سیاسی مسئلہ کو بندوق کی گولی کے ذریعہ حل کرنے کے ناعاقبت اندیش اقدامات کیے گئے۔ عام کشمیری کی زندگی عسکریت پسندوں اور حکومت کے فوجی دستوں کے رحم و کرم پر منحصر ہو گئی۔پولیس اور نیم فوجی دستوں کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی کے بے شمار واقعات کشمیر میں ہوتے رہے۔ اسی لیے عوام کا بھی انتخابات پر سے اعتماد اٹھ گیا تھا۔ ایک طویل عرصہ تک وادی کشمیر امن کے لیے ترستی رہی۔ کشمیر کے عوام کے احساسات اور ان کے جذبات کو سمجھے بغیر دہلی کی حکومتیں من مانی فیصلے کرتی رہیں۔ اب جب کہ دس سال کے بعد کشمیر میں الیکشن ہوا ہے اور ایک مستحکم حکومت قائم ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مرکز کی مودی حکومت عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے کشمیر کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں ریاستی حکومت کا ساتھ دے گی؟ کانگریس اور نیشنل کانفرنس نے کشمیری عوام سے وعدہ کیا ہے کہ وہ دفعہ 370 کو بحال کریں گے۔ نیشنل کانفرنس نے اپنے طور پر یہ تک کہہ دیا کہ اس دفعہ کی بحالی کے لیے چاہے سو سال بھی لگ جائیں تو نیشنل کانفرنس اس جدو جہد کو جاری رکھے گی۔ اسی طرح اس نے وعدہ کیا کہ وہ جموں و کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی کے لیے کمر بستہ ہے۔ اس معاملے میں مرکز سے کوئی معاملت نہیں کی جائے گی۔ یہ دو ایشوز ایسے ہیں کہ نیشنل کانفرنس اور بی جے پی میں ٹکراؤ ہو گا۔ بی جے پی نے یہ طے کرلیا کہ کسی بھی صورت میں دفعہ 370 کو واپس نہیں لایا جا ئے گا اور نہ جموں و کشمیر کو پھر سے ریاست کا درجہ دیا جائے گا۔ حالات کے اس تناظر میں ریاستی حکومت کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ مرکز کی مودی حکومت کو اس بارے میں کیسے اعتماد میں لے سکے گی۔ بی جے پی نے دفعہ 370 کو اپنی انا کا مسئلہ بنالیا ہے۔ وہ شاید ہی اس معاملے میں سمجھوتہ کے لیے تیار ہو۔ مرکز اگر بضد رہے تو ریاستی حکومت کے لیے کشمیریوں کو مطمئن کرنا مشکل ہوجائے گا۔ کشمیری رائے دہندوں نے دفعہ 370کی بحالی اور کشمیر کے ریاستی درجہ کو بحال کرنے کے وعدہ پر ہی نیشنل کانفرنس کو اقتدار پر لایا ہے۔ رائے دہندوں کے اس دو ٹوک اور فیصلہ کن انداز میں اظہار کے بعد جموں و کشمیر کی حکومت کو عوام کے اس فیصلہ کے خلاف جانے کا کوئی دستوری یا اخلاقی حق نہیں ہے۔ حکومت اگر اس معاملے میں کوئی یو ٹرن لیتی ہے تو عوام اسے معاف نہیں کرے گی۔ اسی لیے یہ کہا جا رہاہے کہ نیشنل کانفرنس کی انتخابات میں کا میابی پارٹی کی کوئی غیر معمولی خدمات کا نتیجہ نہیں ہے۔ پارٹی کے قائدین نے کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا کہ کشمیری ووٹر ان سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی پارٹی کو ووٹ ڈال سکے۔ یہ تو حالات کی مجبوری ہے کہ کشمیری عوام ظلم سہتے سہتے تنگ آگئی اور ایک رد عمل کے طور پر نیشنل کانفرنس کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ اگر نیشنل کانفرنس کے قائدین نوشتہ دیوار کو پڑھ کر صحیح فیصلے کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر کشمیری عوام ان کو بھی معاف نہیں کرے گی۔
جموں و کشمیر میں اب جب کہ ایک منتخبہ حکومت قائم ہوچکی ہے اس حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کے سیاسی مسائل کے حل کے ساتھ وہاں دیگر مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک روڈ میاپ تیار کرے۔ گزشتہ دس سال کے دوران ریاست کی معاشی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع میسر نہیں رہے۔ اب حکومت کا یہ فرض منصبی ہے کہ وہ اپنے ترقیاتی کاموں کے ذریعہ عوام میں پائی جانے والی مایوسی اور اضطراب کو ختم کرے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے جہاں دفعہ 370 اور دفعہ 35-A کو منسوخ کر دیا ہے، وہیں جموں وکشمیر تنظیم جدید ایکٹ 2019 میں 12جولائی 2024 کو مختلف ترامیم کرتے ہوئے کشمیر کی نئی حکومت کو بے دست و پا کر دیا ہے۔ مودی حکومت نے ان ترامیم کے ذریعہ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کو غیر معمولی اختیارات عطا کر دیے جس طرح دہلی میں عام آدمی پارٹی حکومت سے اختیارات چھین کر دہلی کے ایل جی کو سارے اختیارات تفویض کر دیے گئے، یہ کھیل کشمیر میں بھی کھیلا گیا ہے۔ مذکورہ ایکٹ میں ترمیم کرکے جموں و کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر کو پولیس، آل انڈیا سروسز (جن میں آئی اے ایس، آئی پی ایس اور آئی ایف ایس کے علاوہ دیگر مرکزی حکومت کی خدمات شامل ہیں) کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ اور بھی دیگر اختیارات لیفٹننٹ کے حوالے کیے گئے ہیں۔ اس سے روزمرہ کے معاملات میں چیف منسٹر اور ایل جی کے درمیان ٹکراؤ ہوتا رہے گا۔ لیفٹننٹ گورنر، مرکز کا نمائندہ ہوتا ہے، اس لیے اس بات کے پورے امکانات ہیں کہ مرکزی حکومت جموں و کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کے ذریعہ جموں و کشمیر میں اپنی مرضی چلائے گی۔ تمام اہم فیصلوں میں ایل جی اثر انداز ہوں گے۔ اس لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ جموں و کشمیر کی ایک لنگڑی لولی حکومت ہوگی جو اپنے طور پر کوئی فیصلے نہیں کرسکے گی۔ مرکز کی جانب سے پھر ایک مرتبہ یکطرفہ اور جانب دارانہ اقدامات کیے جائیں گے۔ ایسی صورت حال میں عوام الیکشن ہونے اور ایک عوامی حکومت کے قیام کے باوجود اپنے جمہوری حقوق سے محروم رہیں گے۔ اسی لیے جموں و کشمیر کی عوام کا مطالبہ ہے کہ فوری دفعہ 370 کو بحال کیا جائے اور جموں وکشمیر کے ریاستی درجہ کو واپس لایا جائے۔ اس کے لیے کشمیری عوام کو ایک اور جدوجہد کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ بی جے پی لاکھ توڑ جوڑ کے باوجود اپنے سیاسی عزائم میں کا میاب نہیں ہوئی ہے اس لیے ممکن ہے کہ وہ جموں و کشمیر کی نئی حکومت کو ہر روز کسی نہ کسی مسئلہ میں الجھانے کی کوشش کرے گی۔ حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے کشمیری رائے دہندوں کو صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے مسائل کو سلجھانے کی تگ و دو کرنی ہوگی۔ حالات کو بگاڑنے اور وادی کشمیر میں نفرت کا بازار گرم کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے سیکولر پارٹیوں کے درمیان اتحاد کا ہونا لازمی ہے۔ نئی اسمبلی میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے ساتھ سی پی آ ئی(ایم) عام آدمی پارٹی اور پی ڈی پی موجود ہے۔ ان سب کی ذ مہ داری ہے کہ وہ کشمیری عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کریں۔ کشمیری عوام گزشتہ کئی دہوں سے ظلم، نا انصافی، استحصال اور احساس بیگانگی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ان میں اعتماد کی بحالی اور ان کے حقوق اور آزادیوں کا تحفظ حکومت کا فرض اولین ہے۔ اب کشمیر سے خوف اور دہشت کی فضاء ختم ہو اور کشمیری عوام اطمینان اور سکون کی زندگی گزارسکیں۔ کشمیر وہ خطہ ارضی ہے جہاں سے حضرت سید علی ہمدانیؒ نے اسلام کے پیغام کو عام کیا تھا اور تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلمانوں نے وادی کشمیر کو جنت نشان بنانے میں کلیدی رول ادا کیا۔ شہرہ آفاق شاعرحضرت امیر خسرو نے وادی کشمیر کی تعریف کرتے ہوئے کہا: گر فردوس بر روئے زمین است ہمیں است وہمیں است و ہمیں است

 

***

 بی جے پی لاکھ توڑ جوڑ کے باوجود اپنے سیاسی عزائم میں کا میاب نہیں ہوئی ہے اس لیے ممکن ہے کہ وہ جموں و کشمیر کی نئی حکومت کو ہر روز کسی نہ کسی مسئلہ میں الجھانے کی کوشش کرے گی۔ حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے کشمیری رائے دہندوں کو صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے مسائل کو سلجھانے کی تگ و دو کرنی ہوگی۔ حالات کو بگاڑنے اور وادی کشمیر میں نفرت کا بازار گرم کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ لہٰذا اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے سیکولر پارٹیوں کے درمیان اتحاد کا ہونا لازمی ہے۔ نئی اسمبلی میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے ساتھ سی پی آئی(ایم) عام آدمی پارٹی اور پی ڈی پی موجود ہے۔ ان سب کی ذ مہ داری ہے کہ وہ کشمیری عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کریں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024