
کیا اسلام میں غیر مسلموں کو قتل کرنے کی اجازت ہے؟
قرآن نے قتل، ظلم، زیادتی اور جبر کی ہر شکل کی مذمت کی ہے
ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
سورہ التوبہ کی آیت نمبر ۵ کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنا اسلام کے مخالفین اور مرتدین (Ex-Muslims) کا ایک محبوب مشغلہ رہا ہے، جس کا مقصد اسلام کو نعوذ باللہ دہشت گرد مذہب کے طور پر پیش کرنا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ذیل میں اس اعتراض کا مدلل جواب دیا گیا ہے اور اسلام کے اصل مزاج — یعنی عدل، رحم، امن اور رواداری کو واضح کیا گیا ہے۔
سورہ توبہ کی آیت ۵ کا پس منظر: اسلام، امن، عدل، رواداری اور انسانیت کی حفاظت کا دین ہے۔ اس کا ہر اصول خیر، انصاف اور اصلاح پر مبنی ہے۔ لیکن کچھ مستشرقین اور اسلام دشمن عناصر سورہ توبہ کی آیت نمبر ۵ کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا اور وہ غیر مسلموں کے قتل کا حکم دیتا ہے۔ جبکہ اس آیت کو تاریخی، اخلاقی اور سیاقی تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مخصوص گروہ سے متعلق ہے اور اس سے عام حکم اخذ کرنا علمی خیانت ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّكَاةَ فَخَلُّواْ سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (سورہ التوبہ: ۵) ’’پس جب حرام مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاو اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں تو انہیں چھوڑ دو۔اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ اس آیت کا صحیح مفہوم جاننے کے لیے درج ذیل نکات کو سمجھنا ضروری ہے:
۱۔ یہ آیت عام مشرکین کے بارے میں نہیں بلکہ ان مشرکینِ مکہ سے متعلق ہے جنہوں نے معاہدہ کو توڑا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نےنبی کریم ﷺ اور اہل ایمان کو مکہ سے نکالا تھا۔ مدینہ کی ریاست پر حملے کیے (بدر، احد، خندق وغیرہ)۔صلح حدیبیہ کے جنگ بندی کے معاہدہ کو توڑا اور سازشوں اور غداریوں میں ملوث رہے اور تقریباً ۲۰ سال تک مسلمانوں کے جانی دشمن بنے رہے۔ مسلم اور اسلام دشمنی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو چار ماہ کی مہلت دی کہ چاہیں تو وہ اسلام قبول کر لیں یا مکہ چھوڑ کر چلے جائیں یا کوئی نیا معاہدہ کر لیں۔ قطعی طور پر یہ حکم عام غیر مسلموں کے لیے نہیں ہے۔ یہ حکم صرف ایسے مشرکین کے لیے ہے جو جنگی مجرم ہیں نہ کہ ان لوگوں کے لیے جو پُرامن طریقے سے رہ رہے ہیں؟ ان کے ساتھ مزید رعایت کی گئی جس کا ذکر اگلی ہی آیت نمبر ۶ میں پیش کیا گیا ہے: ’’اور اگر کوئی مشرک پناہ مانگے تو اسے پناہ دو تاکہ وہ اللہ کا کلام سن لے، پھر اسے اس کے امن والے مقام تک پہنچا دو۔‘‘ یعنی اگر کوئی واجب القتل دشمن مشرک پکڑا جائے اور عین اس وقت وہ اپنی جان کی امان مانگے تاکہ وہ اپنی پوزیشن پر غور کرے تو اس وقت اس کو قتل کرنے کے بجائے موقع دیا جائے کہ وہ قرآن سن لے اور اپنی پوزیشن پر غور کرے اور کچھ وقت لے۔ یہاں تک کہ اس کو محفوظ مقام پر پہنچانے کی بھی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالی گئی ہے۔ اس سے زیادہ انسانیت نواز بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ یہ اللہ ہی کا کلام ہوسکتا ہے جس میں وہ اپنے بندوں کو بار بار راہِ راست پر آنے کا موقع دیتا ہے۔
۲۔ ان غیر مسلموں کے بارے میں جو مسلمانوں سے حالتِ جنگ میں نہیں ہیں اور جنہوں نے معاہدہ نہیں توڑا اور نہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے ان کے لیے یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ ’’اللہ تمہیں ان لوگوں سے حسن سلوک اور انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا‘‘ (سورہ الممتحنہ: ۸) قرآن کا عام اصول یہ ہےکہ چاہے وہ مسلم ہو یا مشرک یا کافر، کسی کو بھی ناحق قتل کرنا حرام قرار دیا گیا ہے۔ ’’جس نے کسی انسان کو بغیر کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد کیے بغیر قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانیت کو قتل کر دیا۔‘‘(سورہ المائدہ: ۳۲)۔
۳۔ قرآن کا یہ بنیادی اور سنہرا اصول یہ ہے کہ دین میں جبر واکراہ نہیں ہے: ’’دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔‘‘(سورہ البقرہ: ۲۵۶) زبردستی بزور سے اسلام میں داخل کروانا اسلام کے خلاف ہے، البتہ اسلام کی طرف دعوت دی جانی چاہیے اور اسلام قبول کرنا یا نہ کرنا عین فرد کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
۴۔ اسلامی ریاست میں غیر مسلم عبادت گاہوں کا تحفظ اسلامی مملکت کی ذمہ داری ہے۔ قرآن میں مساجد، گرجے، معبد اور دیگر عبادت گاہوں کو تحفظ دیا گیا ہے: ’’…اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہتا تو خانقاہ، گرجے، معبد اور مسجدیں، جہاں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے، گرا دی جاتیں… ‘‘(سورہ الحج: ۴۰)
۵۔ عدل و انصاف کا حکم اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ، وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا، اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ، وَاتَّقُوا اللَّهَ، إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (سورۃ المائدۃ :۸) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈرکر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘ یعنی عدل صرف دوستوں کے ساتھ نہیں بلکہ دشمنوں کے ساتھ بھی لازم ہے۔ دشمنی، تعصب اور نفرت کی بنیاد پر کسی پر ظلم کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ تقویٰ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان مشتعل ہو کر جذبات کی رو میں بہہ کر کوئی اقدام نہ کرے بلکہ انصاف پر عمل کرے۔ مزید ایک آیت عدل کے بارے میں قرآن میں نازل ہوئی ہے جو ہر جمعہ کے خطبے پڑھی جاتی ہے تاکہ مسلمانوں کے ذہنوں میں عدل واحسان کی اہمیت یاد اور تازہ ہوتی رہے: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ( سورہ النحل: ۹۰) ’’بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔
اسلامی تاریخ کی روشن مثالیں:
میثاقِ مدینہ: نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں مسلمانوں، یہودیوں اور مشرکین کے درمیان ایک معاہدہ کیا جس میں سب کے مذہبی حقوق کا تحفظ کیا گیا۔
فتح مکہ: جب مکہ فتح ہوا تو ان دشمنوں کو بھی عام معافی دی گئی جنہوں نے نبی ﷺ پر ظلم کیے تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں، تم سب آزاد ہو!‘‘
حضرت عمرؓ کا دور: غیر مسلم رعایا کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی۔ غیر مسلموں کے لیے بیت المال سے وظائف مقرر تھے اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جاتی تھی۔ حضرت عمرؓ بن خطاب کو ایک مجوسی (آتش پرست) غلام ابو لؤلؤ فیروز نے شہید کیا تھا۔ یہ شخص غیر مسلم تھا اور اصل میں ایران سے تعلق رکھتا تھا۔ اسے حضرت عمرؓ سے علانیہ بغض رکھنے اور قتل کا عندیہ دینے کے باوجود اس کو قید نہیں کیا گیا ۔
قیدیوں کے ساتھ سلوک: اسلام نے قیدیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دی۔ قرآن میں ہے ’’اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں‘‘(سورۃ الدہر: ۸) نبی کریم ﷺ نے بدر کے قیدیوں کو حسن سلوک کے ساتھ رکھا، یہاں تک کہ بعض صحابہ نے انہیں خود سے بہتر کھانا کھلایا۔
غیر مسلم پڑوسیوں کے حقوق: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو اپنے پڑوسی کو ایذا دے وہ مومن نہیں‘‘ (بخاری) یہ حکم عمومی ہے، چاہے پڑوسی مسلمان ہو یا غیر مسلم۔
نبی کریم ﷺ کی عملی مثال: یہودی شخص کا مقدمہ: ایک مرتبہ ایک مسلمان اور یہودی کا مقدمہ نبی ﷺ کی خدمت میں آیا۔ تحقیق کے بعد آپ نے فیصلہ یہودی کے حق میں دیا، کیونکہ وہی حق پر تھا۔ فتح مکہ کے وقت نبی ﷺ نے عام معافی کا اعلان فرمایا، باوجود اس کے کہ قریش نے آپ کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا، ظلم کیا اور آپ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔
خلاصا یہ ہے کہ سورہ توبہ کی آیت ۵ ایک مخصوص جنگی سیاق میں نازل ہوئی اور عام حکم نہیں ہے۔ اسلام، انصاف، امن اور بین المذاہب رواداری کا دین ہے۔اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ عدل و رحم کا برتاؤ کیا۔ قرآن نے قتل، ظلم، زیادتی اور جبر کی ہر شکل کی مذمت کی ہے۔ قرآن مجید کا پیغام عدل و انصاف پر مبنی ہے اور یہ انصاف صرف دوستوں یا اپنے گروہ تک محدود نہیں بلکہ دشمنوں اور مخالفین کے ساتھ بھی انصاف پر زور دیا گیا ہے۔نبی ﷺ نے فرمایا ’’اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم‘‘۔صحابہؓ نے عرض کیا ’’مظلوم کی تو مدد سمجھ آتی ہے، ظالم کی کیسے مدد کریں؟‘‘ آپ نے فرمایا ’’ظالم کو ظلم سے روکو، یہی اس کی مدد ہے‘‘(صحیح بخاری)۔
یہ ہے اسلام کی صحیح تصویر۔ جب کہ غزہ و اسرائیل جنگ کا جب سے آغاز ہوا ہے اسرائیل غزہ میں حماس کے نام پر معصوم بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور بے گناہ لوگوں پر بم برسا رہا ہے۔ غزہ کی تقریباً ساری ہی عمارتوں کو، یہاں تک کہ دواخانوں، اسکولوں اور مساجد کو اڑا دیا گیا ہے۔ حماس کے مجاہدین نے جن کو اغوا کیا ہے ان کے ساتھ انہوں نے بہترین سلوک کیا ہے اور ان کے اغوا کیے جانے کا ایک ہی مقصد تھا وہ یہ ہے کہ اسرائیل کی جیلوں میں جو حریت پسند فلسطینی برسوں سے قید ہیں ان کو ان کے بدلے آزاد کرایا جائے۔ حماس کے اس بات کو بہانہ بناکر اسرائیل، غزہ اور فلسطین کے اصل باشندوں کا قتلِ عام کرکے فلسطین کا نام ونشان مٹانا چاہتا ہے۔ لاکھوں فلسطینیوں کو شہید کرنے کے بعد بھی اسرائیل اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا نہ ہی وہ حماس کی مزاحمت کو ختم کرسکا اور نہ ہی وہ اپنے اغوا شدہ لوگوں کو حماس سے قبضے سے چھڑا سکا۔ اسرائیل کی بربریت کا یہ عالم ہے کہ وہ اہلِ غزہ کو بھوک وپیاس میں مبتلا کر کے ان کی ہمت کو توڑنا چاہتا ہے تاکہ وہ غزہ کو چھوڑنے پر راضی ہو جائیں۔ نہتے بھوکے اور پیاسے لوگوں کو جو امداد اور کھانا حاصل کرنے کے لیے امدادی مراکز پر جاتے ہیں ان پر گولیاں برسا کر ہلاک اور زخمی کیا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ امریکہ نے ویٹو پاور کا استعمال کرکے جنگ بندی کو رکوادیا ہے۔ حقوقِ انسانی کی اس بدترین صورتحال پر نام نہاد مہذب دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے۔
***
سورہ توبہ کی آیت ۵ ایک مخصوص جنگی سیاق میں نازل ہوئی اور یہ عام حکم نہیں ہے۔ اسلام، انصاف، امن اور بین المذاہب رواداری کا دین ہے۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ بھی عدل و رحم کا برتاؤ کیا ہے۔قرآن نے قتل، ظلم، زیادتی اور جبر کی ہر شکل کی مذمت کی ہے۔ قرآن مجید کا پیغام عدل و انصاف پر مبنی ہے اور یہ انصاف صرف دوستوں یا اپنے گروہ تک محدود نہیں بلکہ دشمنوں اور مخالفین کے ساتھ بھی انصاف پر زور دیا گیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025