کیا ہمارے ملک میں مذہبی آزادی ہنوز برقرار ہے؟

آئین ہند میں حق موجود مگر عاملہ و دیگر ادارے حق تلفی کے درپے

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

دستور میں لفظ ‘پروپیگیٹ’ پر دستور ساز اسمبلی کے اراکین کا موقف
کیا ہمیں اپنے ملک میں مذہب کی آزادی حاصل ہے، یعنی کیا ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ دوسروں کو اپنے عقیدے کی دعوت دیں؟ کیا کوئی بھی آسانی کے ساتھ اپنا مذہب، اپنا عقیدہ چھوڑ کر کوئی دوسرا عقیدہ، مذہب اختیار کرنے کا حق رکھتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آئین کی رو سے کسی بھی شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کوئی بھی مذہب اختیار کر سکتا ہے، نہ صرف یہ بلکہ وہ اس مذہب و عقیدے کی تبلیغ بھی کرسکتا ہے۔ لیکن اس وقت جو قوانین رائج ہیں ان کے مطابق ہم مذہب کی تبلیغ نہیں کر سکتے ہیں۔
ہمارا ملک بھی ایک نرالا ملک ہے، جہاں ایک ساتھ یہ کیفیات پائی جاتی ہیں، یعنی دستور کی رو سے شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کوئی بھی مذہب اپنا سکتے ہیں اور اس کی تبلیغ بھی کر سکتے ہیں، دستور کے اعتبار سے یہ ان کا بنیادی حق ہے، لیکن قانون کے اعتبار سے مذہب کی تبلیغ کرنا ایک جرم بھی ہے، یعنی بہ یک وقت بنیادی حق بھی ہے اور جرم بھی۔
بنیادی حق کی تعریف یہ ہے کہ اسے ریاست کی جانب سے کیے جانے والے کسی بھی تجاوز سے اس حق کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن آئین کے آرٹیکل 25 جو کہ (آزادانہ طور پر مذہب کا اعلان کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق دیتا ہے) اس دفعہ کو وہ تحفظ حاصل نہیں ہے۔ درحقیقت، آئین ہمیں یہ حق دیتا ہے کہ ہم اپنے عقیدے کی تبلیغ کرنے کے لیے آزاد ہیں، لیکن جب ہم اپنے عقیدے کی تبلیغ کرتے ہیں تو پولیس ہمیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتی اور ہمیں قانون کی گرفت میں لے لیا جاتا ہے۔ اس بات کو حالیہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ 11 جولائی کو الہ آباد ہائی کورٹ نے سرینواس راو نائک نامی ایک شخص کی ضمانت یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی کہ "آئین ہر فرد کو اپنے مذہب کا اعلان کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا بنیادی حق دیتا ہے۔ تاہم، مذہب کی آزادی کے انفرادی حق کو تبدیلیِ مذہب کے اجتماعی حق پر محمول نہیں جا سکتا۔”
6 دسمبر 1948 کو آئین ساز اسمبلی میں مذہبی آزادی پر بحث ہوئی تھی۔ آئین ساز اسمبلی کا یہ اجلاس اقلیتی کمیٹی اور بنیادی حقوق کی کمیٹی کے اجلاسوں کے بعد ہوا تھا۔ آئین ساز اسمبلی میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث ہوئی تھی کہ مذہبی آزادی کیا ہے اور اس کے خد و خال کیا ہوں گے وغیرہ۔ اس کے بعد اس کی ڈرافٹنگ تیار کی گئی، اس ڈرافٹ کو ہی آرٹیکل 25 کہا جاتا ہے۔ اس ڈرافٹ میں لکھا ہے کہ: ” مذہب کی آزادی کا حق: امن عامہ، اخلاقیات اور اس کی صحت اور اس کے دیگر دفعات، تمام افراد پر یکساں لاگو ہوں گے اور وہ اپنے مذہب کا اظہار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔” اس ڈرافٹ میں سب سے اہم لفظ "پروپیگیٹ” ہے، جس کی لغوی معنی پھیلانے، فروغ دینے اور اپنی بات کو پروان چڑھانے کے طور پر بیان کیے جاتے ہیں۔ آئین ساز اسمبلی نے جس سیاق و سباق میں اس لفظ پر بحث کی تھی وہ تبدیلیوں کے تناظر میں ہی تھی، خاص طور پر عیسائی مذہب کے ماننے والوں نے اسی تناظر میں اس لفظ پر گفتگو کی۔
قانون ساز اسمبلی کے ایک اہم رکن کے ایم منشی جو کہ مذہبی اعتبار سے ہندو قدامت پسند تھے اور جن کا تعلق گجرات سے تھا، ڈرافٹنگ کے دوران لفظ "پروپیگیٹ” پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "میں جانتا ہوں کہ اس لفظ پر عیسائی برادری نے سب سے زیادہ زور دیا ہے، وہ اس لفظ پر زور اس لیے نہیں دے رہے ہیں کیوں کہ وہ بالجبر مذہب تبدیل کروانا چاہتے ہیں، بلکہ وہ اس لیے کہ لفظ ‘پروپیگیٹ’ پر زور دے رہے ہیں کیوں کہ یہ ان کے اصول کا بنیادی حصہ ہے اور جب تک مذہب بطور مذہب ہے، اس کے آزادانہ استعمال سے تبدیلی کو تسلیم کیا جانا چاہیے”۔ ہمیں تبلیغ کے حق کے خیال سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جو بھی مذہب تبدیل کرتا ہے وہ صرف اور صرف قائل کرنے کے نتیجے میں ہی اپنا عقیدہ تبدیل کرتا ہے، وہ کسی مادی فوائد کی وجہ سے اپنا عقیدہ تبدیل نہیں کرتا”۔ یہاں یہ بات نوٹ کریں کہ تبدیلی کی وجہ ہمیشہ تبلیغ کو ہی قرار دیا گیا ہے اور اسے قبول بھی کیا گیا۔
یکم مئی 1947 کو بنیادی حقوق سے متعلق عبوری رپورٹ میں فرینک انتھونی نے کمیٹی کے سامنے یہ بات کہی کہ: "میری برادری (وہ اینگلو انڈین تھے اور ملک بھر میں اسکولوں کا جال پھیلانے کے لیے مشہور تھے) مذہب کو پروپیگیٹ نہیں کرتی ہے، مذہب کی تبلیغ نہیں کرتی ہے اور نہ ہی ہماری برادری کسی دوسرے مذہب کو قبول کرتی ہے۔ لیکن میں اس بات کی قدر کرتا ہوں کہ لاکھوں عیسائی بڑے جذبے کے ساتھ اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں، اکثریتی طبقہ بھی قابل قدر ہے کہ "لفظ کے متنازعہ کردار کے باوجود” اسے بنیادی حق قبول کرنا لائقِ تحسین ہے۔
ٹی ٹی کرشنماچاری نے کہا تھا کہ دلت اس وجہ سے عیسائیت قبول کر رہے ہیں کیوں کہ ان کو سماجی برابری مل رہی ہے، وہاں انہیں اونچ نیچ کا سامنا نہیں ہے، اگر ہندو اس طرح کے ریفارمس لاتے ہیں، اپنے مذہب میں اصلاحات لاتے ہیں تو اس طرح کی تبدیلیوں کو روکا جاسکتا ہے پھر دوسری بات یہ ہے کہ تبلیغ کا حق ہندوؤں اور آریہ سماج کو بھی حاصل ہے، اس حق کے ذریعے وہ بھی اپنے مذہب کی تبلیغ انجام دے سکتے ہیں، اور وہ مذہب کی تبدیلی کا عمل کرتے بھی رہے ہیں، جسے وہ "شدھی” کہتے ہیں۔
یہاں نکتہ یہ ہے کہ لفظ "پروپیگیٹ” کے معنی منشی کے الفاظ میں یہ ہیں کہ، "لوگوں کو اپنے عقیدے کی طرف بلانا، انہیں اپنے عقیدے میں شامل کرنے پر آمادہ کرنا ہے، جو کہ ایک بنیادی حق ہے” یعنی مذہب تبدیل کرنے کا حق۔ سب نے اس لفظ کے یہی معنی لیے ہیں اور یہی سمجھا بھی ہے۔ لیکن اس وقت ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے، ہمارے اطراف کیا ہو رہا ہے وہ ہم دیکھ رہے ہیں، اپنے مذہب کی تبلیغ کے بنیادی حق میں حکومتی سطح پر نہ صرف دخل اندازی ہو رہی ہے بلکہ فرد کے مذہبی آزادی یعنی اپنا مذہب تبدیل کرنے کا حق بھی چھین لیا جا رہا ہے۔
آئین ساز اسمبلی میں اس لفظ کی مخالفت کرنے والے واحد شخص اڈیشہ کے 26 سالہ رنگناتھ مشرا تھے، ان کا مطالبہ تھا کہ لفظ "پروپیگیٹ” کو ہٹایا جانا چاہیے۔ یہ لوک ناتھ مشرا چیف جسٹس آف انڈیا کے بھائی تھے اور دیپک مشرا کے چچا بھی تھے جو بعد میں چیف جسٹس بنے۔ لوک ناتھ مشرا نے کہا کہ انہیں مذہب کی تبلیغ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ "اگر لوگ اپنے مذہب کا پرچار کریں تو انہیں ایسا کرنے دیا جانا چاہیے لیکن میں چاہتا ہوں اس لفظ پروپیگیٹ کو آئین میں بنیادی حق کے زمرے میں نہیں ڈالا جانا چاہیے اور تبدیلی مذہب کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے”۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کی تبلیغ کا حق مذہب تبدیل کرنے کے حق کے مترادف ہے۔
وی پی بھارتیہ 1977 میں جرنل آف انڈین لاء انسٹیٹیوٹ میں لکھتی ہیں کہ آئین ساز اسمبلی کی مباحثوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لفظ پروپیگیٹ کو شامل کرنے سے اس میں یہ خصوصیت پیدا ہوجاتی ہے کہ "مذہب تبدیل کرنے کا بنیادی حق بھی اس میں شامل ہے”۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اس آئین ساز اسمبلی میں موجود تھے جب یہ بحث ہو رہی تھی لیکن انہوں نے اس کی مخالفت میں کچھ نہیں کہا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس پروپیگیٹ لفظ کے حق کے دفاع میں دوسروں کی باتوں میں اضافہ کرنے کے لیے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہے، یعنی ساری باتیں آ گئی ہیں۔ ایک بات واضح رہنی چاہیے کہ امبیڈکر کے اصل مسودے میں جو دستور ساز اسمبلی کی کمیٹیوں کو پیش کیا گیا تھا اس مسودہ میں عوامی اخلاقیات کے حدود میں رہتے ہوئے مذہب کی تبلیغ، مذہب تبدیل کرنے کا حق جیسے الفاظ موجود تھے۔ وہ اس بات پر مطمئن تھے کہ تبلیغ کا مطلب بھی یہی ہے۔ کیوں کہ انہوں نے خود 14 اکتوبر 1956 کو ناگپور میں تین لاکھ سے زائد دلتوں کے ساتھ ہندو مذہب کو چھوڑ کر بدھ مت اختیار کر لیا تھا ۔
آج جو صورت حال ہم دیکھ رہے ہیں اس کی ابتدا 1970کی دہائی کے آغاز سے ہی شروع ہوگئی تھی، ہندوستان کی عدلیہ اور پولیس نے جو طرز عمل اس وقت شروع کیا تھا اس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ آئین کا بنیادی حق رہنے کے باوجود مختلف ریاستوں میں تبدیلی مذہب مخالف قوانین بنائے گئے ہیں، مذہب کی تبلیغ کی پاداش میں لوگوں پر مقدمات چلائے جا رہے ہیں انہیں جیلوں میں بند کیا جارہا ہے۔ ہم ایک ایسی قوم بن چکے ہیں جس کا آئین شہریوں کو مذہب کی آزادی تو دیتا ہے لیکن اس آئین کو نافذ کرنے والے ادارے اور دستور کی دفعات کو قائم کرنے والے اس کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، فوجداری قوانین کے اندھا دھند استعمال کے ذریعے مذہبی آزادی کو سلب کیا جا رہا ہے، فوجداری قوانین کے ذریعے عقیدے کی تبلیغ کے بنیادی حق کو کچلا جا رہا ہے۔ اس پر غور کرنے اور قانونی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔
***

 

***

 آئین کا بنیادی حق رہنے کے باوجود مختلف ریاستوں میں تبدیلی مذہب مخالف قوانین بنائے گئے ہیں، مذہب کی تبلیغ کی پاداش میں لوگوں پر مقدمات چلائے جا رہے ہیں انہیں جیلوں میں بند کیا جارہا ہے۔ ہم ایک ایسی قوم بن چکے ہیں جس کا آئین شہریوں کو مذہب کی آزادی تو دیتا ہے لیکن اس آئین کو نافذ کرنے والے ادارے اور دستور کی دفعات کو قائم کرنے والے اس کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، فوجداری قوانین کے اندھا دھند استعمال کے ذریعے مذہبی آزادی کو سلب کیا جا رہا ہے، فوجداری قوانین کے ذریعے عقیدے کی تبلیغ کے بنیادی حق کو کچلا جا رہا ہے۔ اس پر غور کرنے اور قانونی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 اگست تا 17 اگست 2024