
کیا بھارت کا الیکشن کمیشن غیرجانب دار ہے ؟
اگر امتحان گاہ میں کوئی طالب علم کسی لڑکے پر نقل کرنے کا الزام لگائے اور نقل کرنے والا لڑکا اس بات پر مصر ہو کہ الزام لگانے والا طالب علم یہی بات قسم کھا کر کہے تو یہ کچھ عجیب سی بات ہوگی۔ کچھ ایسا ہی غیر جانب دارانہ رویہ راہل گاندھی کی جانب سے مختلف الزامات لگائے جانے پر ہمارے الیکشن کمیشن کا ہے۔ اسکول کے امتحان میں تو اس طرح کے مسئلے کو نگران کار حضرات بخوبی حل کر لیتے ہیں مگر یہاں صورت حال مختلف ہے۔ امتحان کا نگران کار یعنی الیکشن کمیشن غیر جانب داری اپنانے کے بجائے نقل کرنے والے لڑکے کی سطح پر آ کر الزام لگانے والے سے جیسے کہہ رہا ہے "ہم پر الزام لگانے سے پہلے تم قسم کھاؤ۔” اس طرح کے رویے سے الیکشن کمیشن کی طرف سماج کے باشعور طبقے کی انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ راہل گاندھی کے سخت الزامات کے جواب میں ایک آئینی ادارے کا یہ رد عمل انتہائی شرم ناک ہے۔
اس طرح کے معاملات میں برسر اقتدار جماعت کے لیڈروں کا الیکشن کمیشن کی تائید میں آ کر ڈٹ جانا، اس آئینی ادارے کی خود مختار حیثیت پر سوال کھڑا کر دیتا ہے۔ جس وقت SEBI الزامات کے گھیرے میں تھی اس وقت بھی برسر اقتدار جماعت نے اس کی تائید کرنے میں دیر نہیں کی تھی۔ اسی طرح الیکشن کمیشن پر الزامات لگتے ہی برسر اقتدار طبقہ اس کی مدد کے لیے میدان میں کود پڑا۔ برسر اقتدار جماعت کے لیڈروں کا ان خود مختار آئینی اداروں کی تائید میں اس طرح بار بار آنا ان اداروں کی کارکردگی کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ لیکن افسوس کہ نہ تو اس کا احساس برسر اقتدار طبقے کو ہے اور نہ ہی یہ ادارے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دن رات رام کا نام لینے والے برسر اقتدار لیڈر اگر الیکشن کمیشن کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ’اگنی پریکشا‘ سے گزرنے کا مشورہ دیتے تو یہ ان کی بڑی رام بھکتی ہوتی۔ کیوں کہ آج الیکشن کمیشن کی غیر جانب داری پر صرف شک نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ اس پر راست الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود برسر اقتدار جماعت کے ’حق گو حضرات‘ اگر الیکشن کمیشن کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان پر بھی سوال اٹھنا لازمی ہے۔
یہ درست ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے الیکشن کمیشن مختلف الزامات کی زد میں ہے جو اس کے وقار میں کمی کی علامت ہے۔ اس وقت تو برسر اقتدار طبقہ بھی یہ کہنے کے موقف میں نہیں کہ موجودہ الیکشن کمیشن کی کارکردگی اس کے وقار کے مطابق چل رہی ہے۔ اس سے قبل سہ رکنی الیکشن کمیشن کے رکن کی تقرری میں جس طرح کی انتہائی دلچسپی دکھائی گئی تھی، اس پر سپریم کورٹ نے اسے ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اپنی غیر جانب داری ثابت کرنے کے اسے کئی مواقع ملے لیکن اس نے گنوا دیے۔
شیو سینا اور راشٹروادی کانگریس میں پڑی پھوٹ کے بعد باغیوں کے دھڑے کو اصل پارٹی قرار دینے میں الیکشن کمیشن نے جس جوش و خروش کا مظاہرہ کیا تھا اس سے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کس کے زیرِ اثر ہے۔ حالانکہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے قانون ساز جماعت اور پارٹی کا فرق واضح کر دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے وہی کیا جو برسر اقتدار جماعت کے مفاد میں تھا۔ چنانچہ لوک ستا نے بھی یہ اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ اپنی غلطی چھپانے کے لیے الیکشن کمیشن معصومانہ دلیل پیش کر سکتا ہے کہ: ’’ہمارا فیصلہ اور برسر اقتدار طبقے کا مفاد، یہ محض ایک اتفاق تھا‘‘، لیکن یہ بات درست نہیں۔
سارے ملک میں لوک سبھا انتخابات سات مرحلوں میں ہوئے، لیکن صرف چار مہینوں کے بعد الیکشن کمیشن میں اتنی خود اعتمادی کہاں سے آگئی کہ اس نے مہاراشٹرا کی 288 اسمبلی سیٹوں پر ایک ہی وقت میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا؟ مہاراشٹرا اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات میں اپنی مرضی کے مطابق وقفہ رکھنا، الیکشن کمیشن کی غیر جانب داری کی ایک مثال ہے۔
لوک سبھا انتخابات سات مرحلوں میں کروانے کے پس پردہ ’400 کے پار‘ کا نعرہ لگانے والوں کو ملک بھر میں انتخابی تشہیر کا موقع فراہم کرنا بھی کیا اتفاق تھا؟ جب کہ مرحلہ وار لوک سبھا انتخابات کے پیچھے حفاظتی نظام پر پڑنے والا دباؤ تو اتفاق نہیں تھا۔ جب یہ بات ذہنوں میں آئی کہ مختلف مراحل میں انتخابات کروانے سے برسر اقتدار پارٹی کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو مہاراشٹرا کی 288 اسمبلی نشستوں کے لیے ایک ہی مرحلے میں انتخابات کروائے گئے۔ کیا اسے بھی اتفاق ہی کہیں گے؟
ایک مرتبہ شیو سینا کے بانی بالا صاحب ٹھاکرے کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کر دینے اور شیو سینا کے امیدوار ڈاکٹر رمیش پربھو کے انتخاب کو رد کر دینے کا جرأت مندانہ اقدام اس وقت کے الیکشن کمیشن نے کیا تھا۔ واضح رہے کہ اس الیکشن کی تشہیری مہم میں شیو سینا چیف نے مذہب کا سہارا لیا تھا۔ لیکن یہاں اس کا تذکرہ بے معنی ہے۔ بعد میں بھی کئی سیاسی لیڈروں نے انتخابی جلسوں میں بیانات دیے لیکن الیکشن کمیشن خاطیوں پر کارروائی کرنے کے بجائے گاندھی جی کے اس مشہور علامتی بندر کی طرح اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے بالکل خاموش بیٹھا رہا۔ البتہ برسر اقتدار سیاست دانوں نے جب بھی اپوزیشن کے خلاف شکایت کی تو الیکشن کمیشن فوری حرکت میں آ گیا لیکن حزب اختلاف کی شکایتوں کو اس نے کبھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے دوران کانگریس صدر ملکارجن کھرگے اور راہل گاندھی کی تقریروں پر 19 اپریل کو شکایت درج کروائی گئی تھی۔ تقریباً ایک ہفتے بعد کانگریس نے وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریروں کے خلاف شکایت درج کرائی لیکن ان دونوں شکایتوں کا نوٹس ایک ہی دن یعنی 25 اپریل کو لیا گیا۔ اس طرح کے کئی ثبوت پیش کیے جا سکتے ہیں۔ راہل گاندھی کے لگائے ہوئے الزامات اس کے علاوہ ہیں۔
راہل گاندھی کے عائد کردہ الزامات میں چاہے اتنی صداقت نہ ہو، یا وہ بے بنیاد بھی ہوں یا پھر انہوں نے اپنے موقف کی تائید میں ناکافی ثبوت پیش کیے ہوں۔ ان ساری باتوں کے خلاصے کے لیے الیکشن کمیشن کو سامنے آنا چاہیے، مگر اس میں اتنی جرأت نہیں ہے۔ اس لیے وہ امتحان گاہ میں نقل کرنے والے طالب علم کی طرح مصر ہے کہ الزامات لگانے سے پہلے راہل گاندھی قسم کھائیں، جب کہ الیکشن کمیشن کو ان تمام الزامات کی غیر جانب دارانہ انکوائری کرانی چاہیے۔
(اداریہ روزنامہ لوک ستا، مورخہ 11 اگست 2025)
ترجمہ: ڈاکٹر ضیاءالحسن، ناندیڑ
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 اگست تا 30 اگست 2025