کیا بنگلہ دیش مجیب ازم سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا؟

نظریاتی کشمکش کے ماحول میں سب کے لیے قابلِ قبول آئین کی تشکیل ایک بڑا چیلنج

0

ڈھاکہ (دعوت انٹرنیشنل نیوز بیورو)

قانون سازی کے لیے انسانی اقدار، مساوات، سماجی انصاف، اظہار رائے کی آزادی اور مذہبی رواداری نہایت اہم
بھارت کے پڑوسی ممالک ان دنوں سیاسی کشمکش کے دور سے گزر رہے ہیں۔ سری لنکا دیوالیہ پن سے ابھرنے اور نئے انتخابات کے سیاسی استحکام کی کوششوں کے دور سے گزر رہا ہے تو میانمار میں باغی گروپ حاوی اور فوجی جنتا کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ نیپال میں اگرچہ سیاسی استحکام ہے مگر بہت وہ بہت ہی تیزی سے چین کی سرپرستی کو قبول کر رہا ہے۔ پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، وہاں غیر اعلانیہ فوجی حکومت قائم ہے۔ بنگلہ دیش حسینہ واجد کے زوال کے بعد سیاسی و سماجی تقسیم سے دوچار ہے۔عوامی امنگوں اور نوجوانوں کے انقلاب کے نتیجے میں شیخ حسینہ واجد ملک چھوڑنے پر مجبور ہونے کے بعد 85 سالہ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت نے اقتدار سنبھالنے سے سیاسی خلا تو پر ہوگیا ہے مگر عبوری حکومت کو اس وقت کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔حسینہ واجد کے ذریعہ اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کے ذریعہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کو حقائق سے کہیں زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا۔ عبوری حکومت کو اس کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ یونس کو جس طریقے سے بھارت سے تنقیدو ں کا سامنا کرنا پڑا ہے اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں بلکہ ان کی معیشت بھی متاثر ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش میں ضروری اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے عام شہریوں میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ بے روزگاری اور افراط زر میں بے تحاشا اور میانمار کے صوبے راکھین میں عدم استحکام نے بنگلہ دیش کے سامنے کئی چیلنجوں کو کھڑا کر دیا ہے۔تاہم اس وقت بنگلہ دیش کے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ مجیب ازم سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ اس وقت بنگلہ دیش جس طریقے سے سماجی طور پر منقسم ہے ان حالا ت میں قومی اتفاق رائے کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔عبوری حکومت جو گزشتہ پانچ مہینوں سے کام کر رہی ہے اس کے آئینی وجود پر بھی بحث چل رہی ہے کیوں کہ حسینہ واجد نے اپنے دور میں آئینی ترمیم کے ذریعہ عبوری حکومت کے انتظامات کو ختم کر دیا تھا اور وزارت عظمیٰ کو ہی طاقت کا محور بنا دیا تھا۔ صدر، عدلیہ، الیکشن کمیشن اور فوج سب طاقت ور وزیر اعظم کے ماتحت تھے۔ چیک اینڈ بیلنس کے تمام طریقے کار ختم کردیے گئے۔ عدم شفاف انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ بھی وزیر اعظم کی امنگوں و خواہشات کی تکمیل کا ایک ادارہ بن کر رہ گیا تھا اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ گئی تھی۔ ان حالات میں بڑا سوال یہ ہے کہ اگر عبوری حکومت آئینی ترمیمی کرتی ہے تو اس کی قانونی اور آئینی حیثیت کیا ہوگی۔ کیوں کہ اس وقت پارلیمنٹ وجود میں نہیں ہے۔ صدر کے پاس بھی آئینی اختیارات نہیں ہیں۔ دوسرا سوال جو سب سے زیاد ہ اہم ہے کہ آئین کس نظریے کی بنیاد پر تشکیل دیا جانا چاہیے۔ کیا لبرل ازم، سیکولرازم اور سوشلزم کی بنیاد پر یا پھر اسلامی نظریات کی بنیاد پر؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمن اور حسینہ واجد کے دور اقتدار میں جو آئین بنایا گیا تھا اس کی بنیاد کیا تھی اور اس میں اب تبدیلی ناگز یر کیوں ہے؟ کیا موجودہ آئین کی بنیاد پر بنگلہ دیش میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی استحکام قائم نہیں ہوسکتا ہے؟
یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو ان دنوں بنگلہ دیش میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ سیاسی جماعتیں جلد از جلد انتخابات چاہتی ہیں، شیخ حسینہ واجد کے فرزند جو امریکہ میں مقیم ہیں، انہوں نے اشارہ دیا ہے کہ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ان کی والدہ ملک واپس لوٹ جائیں گی اور انتخابات میں حصہ لیں گی۔ مگر حالات بتاتے ہیں حسینہ واجد کی واپسی اس قدر آسان نہیں ہے کیوں کہ ان پر طلبہ اور نوجوان کی تحریک کے دوران 1500 سے زائد افراد کے قتل کا الزام ہے۔ حسینہ نے نوجوانوں اور طلبہ کی تحریک کو کچلنے کے لیے بے دریغ طلبہ و نوجوانوں کا خون بہایا۔ حسینہ واجد کا 15 سالہ دورِ اقتدار ظلم و ناانصافی اور عدالتی جبر سے عبارت بن گیا ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین بالخصوص اسلام پسندوں کو نہ صرف پس زنداں کیا بلکہ کئی سینئر سیاست داں اور مذہبی رہنماؤں کو تختہ دار پر بھی چڑھا دیا یا پھر عدالتی قتل پر مجبور کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اگر وہ نہیں ہوتے تو شاید بنگلہ دیش کا قیام اس قدر جلد نہیں ہوتا لیکن بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد شیخ مجیب الرحمن آئین کی تشکیل کے لیے قومی اتفاق رائے، رائے عامہ ہموار کرنے اور تمام نظریات کے حاملین کی گنجائش پیدا کرنے کے بجائے انہوں نے یک قطبی نظام کو قائم کرنے کی کوشش کی۔طاقت کے تمام سوتوں کو اپنی ذات میں مرکوز کرنے کی کوشش کی۔ بنگلہ دیش کا آئین نہ سوشلزم کا آئینہ دار تھا اور نہ سرمایہ کاروں کے لیے گنجائش تھی۔ پولیس اور فوج کے ساتھ اپنی ایک الگ سینا بھی تھی جس کو مکتی باہنی کی توسیع بھی کہا جا سکتا ہے۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ دو قومی نظریہ، علیحدہ شناخت کی آواز سب سے پہلے مشرقی پاکستان سے اٹھی تھی اسی بنیاد پر 1905 میں ہی مذہبی شناخت کی بنیاد پر بنگال دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ اگرچہ بعد میں انضمام ہوگیا مگر بنگال میں مذہبی بنیادوں پر تقسیم کی لکیریں کافی گہری ہیں۔ سوال یہ ہے کہ 1947 میں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد آخر بنگلہ دیش کی تحریک کیوں شروع ہوئی؟ اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دراصل قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان کے باشندوں کو احساس ہوا کہ انہیں برابری، انسانی وقار اور سماجی انصاف سے محروم کیا جا رہا ہے۔بنگلہ دیش کے وجود کو لسانی تحریک کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ متحدہ پاکستان کے حکم راں و اشرافیہ طبقے نے مشرقی پاکستان کے شہریوں کو سماجی اور معاشرتی حصہ داری دینے سے انکار کر دیا تھا۔ محرومی کے احساسات کو لسانی تحریک نے آواز دی اور پھر بنگلہ دیش کا وجود عمل میں آیا۔ تاہم لسانی تحریک کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ملک میں دو قومی نظریہ کی سوچ و فکر اور ذہنیت کبھی بھی ختم نہیں ہوئی۔ بنگلہ دیش کے سماجی و معاشرتی پیچیدگیوں کی عدم واقفیت کے نتیجے میں ہی یہ دعویٰ کر دیا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش کا وجود اسلام مخالف سوچ کی مرہون منت ہے، جب کہ حقیقت یہ تھی کہ بنگلہ دیش اس لیے معرض وجود میں آیا کہ مسلم امت کے دعویداروں نے زمین داری، سرمایہ دارانہ نظام کے سایے میں جاکر ظلم و جبر کا سہارا لے کر برابری اور سماجی انصاف فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ وہ نظریاتی کشمکش ہے جس کو سمجھنے میں لوگ ناکام رہے ہیں۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے نظریہ اور فکر پر پی ایچ ڈی مقالہ تصنیف کرنے والے پروفیسر معیدالاسلام بنگلہ دیش میں نظریاتی کشمکش پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں بنگلہ دیش میں دو نظریات ہمیشہ سے موجود رہے ہیں ایک اسلام پسندوں کا نظریہ ہے تو دوسرا سیکولر اور لبرل ازم کا رویہ ہے اور دونوں ہی نظریات کے حاملین انتہا پسندی تک پہنچ جاتے ہیں اور یہی بنگلہ دیش کی محرومی رہی ہے۔ شیخ حسینہ واجد اپنے 15 سالہ دور اقتدار میں اسی کوشش میں سرگرداں رہیں کہ کس طرح اسلامی فکر کے حاملین کو کچل دیا جائے۔ وہ اس مہم میں اس قدر مگن ہوئیں کہ انہوں نے آئین و قانون اور انصاف کے تمام تقاضوں کو پامال کر دیا۔ پروفیسر معیدالاسلام بتاتے ہیں کہ پندرہ سال قبل جب حسینہ واجد اقتدار میں آئیں تھیں تو اس وقت انہوں نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا اور جماعت اسلامی کے سینئر لیڈروں سے ملاقات کی تھی۔معید الاسلام، جماعت اسلامی کے شہید لیڈر مطیع الرحمان نظامی (جنہیں 2016 میں حسینہ واجد کے دور اقتدار میں جنگی جرائم کے تحت شہید کر دیا گیا تھا) سے ہونے والی ملاقات کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حسینہ واجد کے اقتدار میں آنے کے بعد ہی جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو احساس ہوگیا تھا کہ ان کے خلاف سختی کا دور شروع ہونے والا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ حسینہ واجد حکومت کے تحت ہم میں سے کئی لیڈروں کو پھانسی دی جائے گی اور ہم اس کے لیے تیار بھی ہیں مگر ہم چونکہ بنگلہ دیش کی جڑوں میں موجود ہیں لہٰذا ہم کبھی ختم ہونے والے نہیں ہیں اور ہمارے ہی لوگ حسینہ واجد کے زوال میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔اگر معیدالاسلام کی ان باتوں کو 5 اگست 2024 کے نوجوانوں کے لائے ہوئے انقلاب کے تحت کا تجزیہ کریں تو یہ بات سچ ثابت ہو جاتی ہے کہ جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم چھاتر شبیر کے تعاون کے بغیر اس انقلاب کی امید نہیں کی جاسکتی تھی۔ معید الاسلام یہ بھی کہتے ہیں کہ عوامی لیگ کی جماعت بھی سیکولر اور لبرل نظریات کی حامل ہے۔ چنانچہ حسینہ واجد کے زوال کے بعد بھی عوامی لیگ کے خاتمہ سے متعلق کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔
معیدالاسلام کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے گزشتہ 15 برسوں کے جبر سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ بنگلہ دیش کی تحریک آزادی سے علیحدگی پر اس نے کھلے عام معذرت اور اس پر عوام سے معافی بھی مانگی ہے اور بنگلہ دیش کے عوامی مزاج سے خود کو ہم آہنگ کرنے کے لیے اس نے اپنی تنظیم کے نام میں بھی ترکیبی تبدیلی کی ہے اور اس نے سماج کے مختلف طبقات کے ساتھ ہم آہنگی قائم کرنے اور لوگوں سے مکالمہ کرنے کا ہنر بھی سیکھا ہے۔ اگر جماعت اسلامی، بنگلہ دیشی سیاست میں اہم کردار ادا کرنا چاہتی ہے تو اس کو اپنی سوچ و فکر میں لچک دارانہ رویہ پیدا کرنا ہوگا۔ معیدالاسلام مزید کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کو بنگلہ دیش کو جغرافیائی تناظر میں سمجھنا ہوگا اور اس کے لیے اپنے اوپر لگنے والے بھارت مخالف جماعت کے لیبل کو ہٹانے کی کوشش کرنی ہوگی۔کیوں کہ بھارت سے ٹکراؤ بنگلہ دیش کے معاشی مفاد میں نہیں ہو گا۔
بنگلہ دیش برابری، انسانی وقار اور سماجی انصاف پر مبنی ایک قوم کی تعمیر کے خواب کے ساتھ معرض وجود میں آیا تھا مگر قومی ہیرو کے طور پر ابھرنے والے شیخ مجیب الرحمن نے خود کو غیر مفتوح اور سوالات سے بالا تر شخصیت بنانے کے خواب میں ان امنگوں پر پہلے پانی پھیرا اس کے بعد فوجی آمروں نے اس خواب کو چکنا چور کر دیا اور اس کے بعد دو خواتین کی مقابلہ آرائی نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ بنگلہ دیش کے عوام کو سماجی انصاف اور برابری کے مواقع ملنے کے بجائے وہاں سرمایہ دارانہ نظام کے پروردوں کا غلبہ ہوگیا اور تمام نظام پر مخصوص اشرافیہ حاوی ہوگئی اور رہی سہی کسر حسینہ واجد کے 15 سالہ دور اقتدار نے پوری کر دی۔ گزشتہ 15 سالوں کے دوران بنگلہ دیشی عوام فاشزم کی گرفت میں آ کر ان نظریات سے بالکل دور ہوگئے۔ جمہوری اداروں کو منظم طریقے سے ختم کر کے آمرانہ حکم رانی کی راہ ہموار کر دی گئی ہے۔ بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کو پامال کیا گیا اور وہ خواہشات جو کبھی لوگوں کو آزادی کے لیے لڑنے پر مجبور کرتی تھیں ان کی جگہ خاندانی اور جابرانہ نظام نے لے لی ہے۔
بنگلہ دیش کے کئی سیاسی تجزیہ نگار اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے موجودہ آئین میں ایسے عناصر موجود ہیں جو نہ تو ملک کی آزادی کی جنگ کی روح کی عکاسی کرتے ہیں اور نہ ہی فاشزم کے عروج کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس کے بجائے اس نے اقتدار میں آمریت کو سہل بنا دیا ہے۔ اگرچہ آئین میں ترمیم کرنے یا مکمل طور پر دوبارہ لکھنے کے بارے میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن اس بات میں بہت کم اختلاف ہے کہ موجودہ آئین مستقبل کے کسی بھی جمہوری عمل میں اہم رکاوٹیں کھڑی کر سکتا ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے اصول میں درج مساوات، انسانی وقار اور سماجی انصاف کے اصولوں سے سمجھوتہ کیا گیا ہے۔ اس آئین نے غیر چیک شدہ طاقت کو وزیر اعظم کے ہاتھوں میں مرکوز کرنے کے قابل بنایا ہے۔ پے در پے ترامیم کے ذریعے، آئین نے بنیادی طور پر اختیارات کو مرکزی بنایا ہے جو اقتدار میں رہنے والوں کے مفادات کو پورا کرتا ہے۔
بنگلہ دیش کے کئی سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے مختلف ہے کہ نیا دستور نظریات کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے یا پھر انسانی اقدار کی بنیادوں پر استوار کیا جائے؟ بنگلہ دیش میں 90 فیصد آبادی مسلم ہے۔ تاہم، مسلم سماج بھی کئی نظریات میں منقسم ہے اگر اس کو یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ بنگلہ دیشی معاشرہ متنوع عقائد کا حامل ملک ہے۔ ایک شخص اسلامی نظام حکومت کی حمایت کر سکتا ہے، جبکہ دوسرا سیکولرازم کا حامی ہے۔ ایک فرد بنگالی قوم پرستی کا حامی ہو سکتا ہے جبکہ دوسرا بنگلہ دیشی قوم پرستی کا حامی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ دشوار کن عمل ہے اور اس کا احساس بنگلہ دیش کی سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں کو بھی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی سیاسی قیادت اس تنوع کو کن بنیادوں پر حل کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ زندہ قوم وہ ہوتی ہے جو اپنے آئین کو انسانی اقدار، مساوات، سماجی انصاف، اظہار رائے کی آزادی اور رواداری کی بنیادوں پر تشکیل دیتی ہے۔ یک رخی اور جبر کے ذریعہ وجود میں آنے والا سماج کبھی بھی استحکام حاصل نہیں کر سکتا ہے۔
***

 

***

 بنگلہ دیش کے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ مجیب ازم سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ اس وقت بنگلہ دیش جس طریقے سے سماجی طور پر منقسم ہے ان حالا ت میں قومی اتفاق رائے کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔عبوری حکومت جو گزشتہ پانچ مہینوں سے کام کر رہی ہے اس کے آئینی وجود پر بھی بحث چل رہی ہے کیوں کہ حسینہ واجد نے اپنے دور میں آئینی ترمیم کے ذریعہ عبوری حکومت کے انتظامات کو ختم کر دیا تھا اور وزارت عظمیٰ کو ہی طاقت کا محور بنا دیا تھا۔ صدر، عدلیہ، الیکشن کمیشن اور فوج سب طاقت ور وزیر اعظم کے ماتحت تھے۔ چیک اینڈ بیلنس کے تمام طریقے کار ختم کردیے گئے۔ عدم شفاف انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ بھی وزیر اعظم کی امنگوں و خواہشات کی تکمیل کا ایک ادارہ بن کر رہ گیا تھا اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ گئی تھی۔ ان حالات میں بڑا سوال یہ ہے کہ اگر عبوری حکومت آئینی ترمیمی کرتی ہے تو اس کی قانونی اور آئینی حیثیت کیا ہوگی۔ کیوں کہ اس وقت پارلیمنٹ وجود میں نہیں ہے۔ صدر کے پاس بھی آئینی اختیارات نہیں ہیں


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 جنوری تا 18 جنوری 2024