![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2025/02/20250216-20.jpg)
کیا بنگلہ دیش لاقانونیت کی طرف بڑھ رہا ہے؟
شیخ حسینہ کے ورچوئل خطاب کے بعد مجیب الرحمن کی رہائش کو بلڈوز کردیا گیا
دعوت نیوز بیورو
بھارت کے کردار پر شک! حکومت تیزی سے اصلاحات پر کام کررہی ہے مگر بے روزگاری قابو سے باہر!
بھارت میں بلڈوزر صرف محض ایک تعمیراتی مشین نہیں رہ گیا ہے بلکہ سیاسی طاقت اورماورائے عدالت طاقت واختیارات کے بے جا استعمال کی علامت کے ساتھ مسلم دشمنی کا استعارہ بھی بن گیا ہے۔’’بلڈوزر جسٹس‘‘ایک ایسے آلے طور پر بدنام ہوگیا ہے جسے حکومتیں گھروں اور کاروباروں کو مسمار کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اور اب اس کا استعمال اس ہفتے بنگلہ دیش میں بھی نظر آیا مگر بھارت کے برعکس بنگلہ دیش میں بلڈوزر کو ظلم و آمریت کی علامتوں کو مٹانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔گزشتہ سال5اگست کو حسینہ واجد کے ملک سے فرار ہونے کے بعد پہلی بار بڑے پیمانے پر بلڈوزر کا استعمال دیکھنے میں آیا جسے شیخ حسینہ مخالف تحریک کے علم برداروں نے حسینہ اور اس کے والد شیخ مجیب الرحمٰن کے مجسموں کو توڑنے کے لیے استعمال کیا۔اس ہفتے 6فروری کو بھارت میں پناہ گزیں شیخ حسینہ واجد کے ورچوئل خطاب کے بعد مظاہرین نے بڑی تعداد میں دارالحکومت ڈھاکہ کے دھان منڈی میں واقع دیش بندھو شیخ مجیب الرحمن کی آخری رہائش گاہ کو جہاں انہیں اور ان کے خاندان کے افراد کا قتل کردیا گیا تھا، اس پوری عمارت کو بلڈوزر کے ذریعہ منہدم کردیا۔ 6 اور7 فروری کو جو مناظر دیکھے گئے وہ بنگلہ دیش کی تاریخ میں ناقابل یقین لمحات کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمٰن کے خلاف اس قدر عوامی برہمی ناقابل یقین ہے۔ڈھاکہ میں حالیہ مظاہروں کا اختتام ایک ’’بلڈوزر مارچ‘‘ کے ذریعہ ہوا۔ اس مارچ کا مقصد بنگا بندھو شیخ مجیب الرحمان کی تاریخی رہائش گاہ کو مسمار کرنا تھا۔ ایک ایسی عمارت جو بنگلہ دیش کی آزادی اور قومی شناخت کی علامت تھی اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، مظاہرین عمارت کے بیشتر حصے اٹھا کر لے گئے۔حسینہ واجد کے زوال کے بعد 5اگست کو بھی اسی طرح کے مناظر دیکھنے میں آئے تھے۔حسینہ واجد کی رہائش گاہ کا تمام سامان مظاہرین اٹھاکر لے کر گئے تھے اور اب اس عمارت کو ہی منہدم کردیا گیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حسینہ نے اپنے 15سالہ دور اقتدار میں اپنی تمام تر انتقامی کارروائیاں شیخ مجیب الرحمن کی عظمت کی بحالی کے نام پر انجام دیں۔حسینہ واجد نے شیخ مجیب الرحمن کو ملک کے لیڈر اور رہنما سے زیادہ بنگلہ دیش کے عوام کے لیے دیوتا بنادیا تھا۔اس نے شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ ال کی شخصیت کے طرز پر مجیب الرحمن اور خود کو اسٹبلیشٹ کیا تھا۔حسینہ واجد کے دور اقتدار میں مجیب الرحمن کے کردار پر تنقید ایک جرم بن گیا تھا۔بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد مجیب الرحمٰن کے سیاسی کردار اور ان کے طرز حکم رانی میں خامی کی وجہ سے ہی بنگلہ دیش کی افواج ان کے خلاف ہوگئی تھی جو آخرکار ان کے قتل پر منتج ہوا۔مگر سوال یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمن جو ملک کے ہیرو تھے اور جنہیں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کی تحریک کا روح رواں ہونے کا اعزاز حاصل تھا ان کے خلاف اتنی جلدی ایسا ماحول کیوں بن گیا تھا؟ یہ ایک سیاسی موضوع ہے مگر شیخ حسینہ کے دور اقتدار میں شیخ مجیب الرحمٰن کے اس کردارپر بات کرنا ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ بہرحال 6فروری کے بعد دیش بندھو مجیب الرحمان کی عمارت کے انہدام کے بعد بنگلہ دیش کی میڈیا میں یہی موضوع اب زیر بحث ہے۔میڈیا کا حلقہ بلڈوزر مارچ کو آزادی کے نشان پر حملہ اور ملک بھر میں عوامی املاک پر ان حملوں کو تاریخی نشانات مٹانے اور نظریاتی نفاذ کی کوشش قرار دیتا ہے۔ لیکن بنگلہ دیشی عوام کے ایک بڑے طبقے کی رائے یہ ہے کہ اس حملے کے لیے خود شیخ حسینہ ذمہ دار ہیں۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ نے اپنے پندرہ برس کے دور اقتدار میں اس عمارت کو فاشزم اور آمریت کی علامت بنادیاتھا۔یہ دراصل مجیب ازم سے زیادہ حسینہ کی باقیات کے خلاف ناراضگی کا مظہر تھا۔
دہلی میں پناہ گزیں شیخ حسینہ کی اس تقریر کے بعد ایک بار پھر بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں۔ایک طرف جہاں بنگلہ دیش، بھارت کو اس بات کے لیے مورد الزام ٹھیرارہا ہے کہ اس وہ شیخ حسینہ کے ذریعہ بنگلہ دیش میں ماحول کشیدہ کرنے کی کوشش کررہا ہے تو دوسری طرف بھارت شیخ حسینہ کے خطاب میں اپنے کردار سے انکار کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش کا سوال یہ ہے کہ جب حسینہ بنگلہ دیش میں سیاسی پناہ گزیں ہے تو انہیں وہاں سے سیاست کرنے کی اجازت کیوں دی جارہی ہے۔شیخ بندھو کے مکان کے انہدام کے بعد بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کے بیان پر بھی بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے تنقید کی اور بھارت سے کہا کہ وہ بنگلہ دیش کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ شیخ مجیب الرحمن کے مکانات پر حملوں کے بعد بنگلہ دیش کے مختلف مقامات پر شیخ حسینہ کے رشتہ داروں اور ان کے حامیوں کے مکانات میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔ مجیب ازم کے حامی اور مخالفت کی بحث کے علاوہ یہ پوری کارروائی بنگلہ دیش میں امن و امان اور قانون کی حکم رانی کے انہدام کی طرف نشاندہی کرتی ہے اور بنگلہ دیش کے عبوری صدر محمد یونس کی قیادت والی حکومت کی ناکامی اور بنگلہ دیش کے اقتدار اعلیٰ پر کمزور گرفت کی عکاسی کرتی ہے۔ اگرچہ محمد یونس نے بنگلہ دیش کے عوام سے اپیل کی کہ وہ مکمل امن و امان بحال کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ شیخ حسینہ، ان کے خاندان اور عوامی لیگ سے وابستہ دیگر افراد یا کسی بھی شہری کی املاک پر مزید حملے نہ ہوں۔ بنگلہ دیشیوں کے تحفظ اور ملک کے استحکام کو مجروح نہ کریں۔ قانون کو نظر انداز کرنا شہریوں کی جان و مال کو خطرے میں ڈالتا ہے۔
بنگلہ دیش کی میڈیا میں یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ جب محمد یونس کو اقتدار سنبھالے ہوئے 6ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور قانون کی حکم رانی قائم رکھنا ان کی ذمہ داری ہے تو پھر وہ ناکام کیوں ثابت ہو رہے ہیں؟ میڈیا کے ایک حلقے میں اس اندیشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس طرح کی لاقانونیت عوامی انقلاب کی اہمیت کو ختم کرسکتی ہے۔ بنگلہ دیش کے مشہور انگریزی اخبار ڈیلی اسٹار نے لکھا ہے کہ ہم حیران ہیں کہ حکومت نے حملوں کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیوں نہیں کیے؟ جو کچھ ہم نے اپنی اسکرینوں پر دیکھا وہ پورے بنگلہ دیش میں املاک پر حملوں کا ایک منظم سلسلہ تھا، جس کا آغاز یقیناً دھان منڈی 32 سے ہوا۔ اس تشدد کا آغاز بلاشبہ شیخ حسینہ کی طرف سے اپنے حامیوں کو متحرک ہونے اور روڈ 32 کی طرف مارچ کرنے کی اپیل کے رد عمل میں ہوا ہے۔ شیخ حسینہ نے انتہائی نفرت انگیز تقریر کی جس کے نتیجے میں ہی توڑ پھوڑ اور آتش زنی کے واقعات پیش آئے۔
اگرچہ محمد یونس کی قیادت والی حکومت تیزی سے اصلاحات پر کام کررہی ہے مگر مہنگائی اور بے روزگاری کے بے قابو ہونے کی وجہ سے اس کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ دوسری جانب طلبہ تنظیمیں پی این بی اور دیگر، روایتی سیاسی جماعتوں کا حصہ بننے کے بجائے اپنی خود کی سیاسی جماعت کی تشکیل پر غور کر رہی ہیں۔ اس پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ طلبہ کی قیادت والی سیاسی جماعت اقتدار کے حصول کے لیے بنائی جا رہی ہے یا پھر وہ مکمل طور پر سیاسی انقلاب لانا چاہتی ہے۔بنگلہ دیش کے معروف مصنف و کالم نگار فرہاد مظہر، محمد یونس کی قیادت والی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عبوری حکومت کی ناکامی یقینی ہے۔ کیونکہ اس میں جولائی کی بغاوت کی روح نہیں ہے۔ یہ حکومت جو عوامی بغاوت سے ابھری ہے اس کا بھی ناکام ہونا مقدر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حکومت کے اندر بغاوت کا جذبہ موجود نہیں ہے، یہ تحریک کے جوہر پر قائم نہیں ہے۔اصلاحاتی کمیشنوں کے ارکان پر تنقید کرتے ہوئے فرہاد مظہر نے کہا کہ اگر آپ اشرافیہ اور مراعات یافتہ افراد کو لا کر کمیشن بناتے ہیں، جو پہلے عوامی لیگ کے دور حکومت میں یا بین الاقوامی میدان میں مستفید ہوتے تھے، تو آپ کیا حاصل کریں گے؟ بنگلہ دیش کو دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ صحیح اصطلاح ’ری اسٹرکچرنگ‘ ہے، اصلاح نہیں۔جولائی انقلاب کی قیادت کرنے والے طلبہ کے ذریعہ انتخابی مرکز پارٹی بنانے کے ارادہ پر فرہاد مظہر کہتے ہیں کہ وہ بھی ناکام ہوجائیں گے۔وہ کہتے ہیں کہ اب جب کہ آپ نے پارٹی بنانے کا عمل شروع کر دیا ہے، مجھے ضرور پوچھنا چاہیے کہ کیا آپ ایک اور بی این پی بنا رہے ہیں یا واقعی وہ انقلابی قوت بنا رہے ہیں جو عوامی بغاوت کو مکمل کرنے کے لیے درکار ہے جسے ہم ختم نہیں کر سکے؟ اگر آپ بغاوت کو مکمل کرنے کے لیے پوری تنظیمی قوت کے ساتھ دوبارہ اٹھنے کا ارادہ کر رہے ہیں تو آپ کا استقبال ہے۔لیکن اگر آپ محض ایک اور نام نہاد لبرل پارٹی بنا رہے ہیں جو صرف انتخابات کے لیے موجود رہے… اگر آپ کا مقصد صرف حکومت کی حفاظت کرنا یا انتخابات کے ذریعے ایک نئی حکومت بنانا ہے تو یہ ایک فریب کے سوا کچھ نہیں ہے‘۔
بنگلہ دیش کی یہی سب سے بڑی بد نصیبی ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں تک وہاں دو سیاسی پارٹیوں کا غلبہ رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عوام جہاں عوامی لیگ کے غیر جمہوری اور فاششٹ مزاج سے تنگ آچکی ہے وہیں خالدہ ضیا کی قیادت والی بی این بی کے اقتدار کے تلخ تجربات کو بھی فراموش نہیں کیا ہے۔اس وقت بنگلہ دیش میں متبادل سیاسی قوت کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے۔جماعت اسلامی جو شیخ حسینہ کے دور اقتدار میں پابندی کی زد میں تھی اس میں متبادل بننے کی بھر پور صلاحیت ہے مگر اس کے لیے چیلنجز کم نہیں ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں بنگلہ دیش کی لبرل اور شدت پسند سیکولر مزاج میں اسلامی پس منظر رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے تئیں حالات کو ناموافق بنادیا ہے۔ شیخ حسینہ کے دور اقتدار میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے خلاف بڑے پیمانے پر پروپیگنڈے کیے گئے۔بی این پی اور جماعت اسلامی، بنگلہ دیش میں ایک عرصے تک ایک دوسرے کی حلیف رہی ہیں مگر حالیہ دنوں میں رپورٹ آئی ہے کہ دونوں کے درمیان دوریاں بڑھتی جارہی ہیں اور دونوں کے ورکروں کے درمیان تشدد کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔تاہم بنگلہ دیش کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ اگرچہ اس وقت شیخ حسینہ عوامی عتاب کاسامنا کررہی ہے مگر مجیب ازم اور ان کی سیکولر و لبرل نظریات کی جڑیں بنگلہ دیش میں اب بھی گہری ہیں اور اس کے بالمقابل جماعت اسلامی بنگلہ دیش بھی نظریاتی و فکری طور پر کافی اثرورسوخ رکھتی ہے۔ شیخ حسینہ کی فاشسٹ سوچ کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی بھی جماعت یا حکومت جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو نظرانداز نہیں کرسکتی ہے۔یہ صورت حال جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے لیے ساز گار ہے مگر اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس کے متعلق بنگلہ دیش اور بیرون دنیا میں جو بیانیہ گھڑا گیا ہے اس کو ختم کرنا ہے۔
***
بنگلہ دیش کی یہی سب سے بڑی بد نصیبی ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں تک وہاں دو سیاسی پارٹیوں کا غلبہ رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عوام جہاں عوامی لیگ کے غیر جمہوری اور فاششٹ مزاج سے تنگ آچکی ہے وہیں خالدہ ضیا کی قیادت والی بی این بی کے اقتدار کے تلخ تجربات کو بھی فراموش نہیں کیا ہے۔اس وقت بنگلہ دیش میں متبادل سیاسی قوت کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے۔جماعت اسلامی جو شیخ حسینہ کے دور اقتدار میں پابندی کی زد میں تھی اس میں متبادل بننے کی بھر پور صلاحیت ہے مگر اس کے لیے چیلنجز کم نہیں ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں بنگلہ دیش کی لبرل اور شدت پسند سیکولر مزاج میں اسلامی پس منظر رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے تئیں حالات کو ناموافق بنادیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025