کیا عالمی کمپنیاں بھارت کے تئیں اپنا رویہ بدل رہی ہیں؟

ٹرانس امریکہ اور ٹی سی ایس کے درمیان معاہدے کی منسوخی کے آئی ٹی شعبے پر منفی اثرات!

زعیم الدین احمد حیدرآباد

ہمارے ملک میں بہت سے شعبہ جات ایسے ہیں جو ملک کی معاشی ترقی اور استحکام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ان ہی شعبوں میں ایک آئی ٹی کا شعبہ بھی ہے، اس شعبے نے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور عالمی سطح پر ملک کی تصویر کو تبدیل کیا ہے، اس وقت یہ شعبہ زندگی کے ہر میدان میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہے، ملک کے نوجوان طبقے کو روزگار فراہم کر رہا ہے، اس شعبے کے حجم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ تقریباً بیس بلین یعنی بیس ہزار کروڑ ڈالر کی صنعت بن چکا ہے، لیکن بد قسمتی سے ملک کی آئی ٹی کمپنیاں چند مسائل کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ ایک معیاری ملازمت، ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے نوجوان کی امنگوں کو پورا کرنے والی ملازمت، اس صنعت کو مجموعی طور پر نوجوانوں کی امیدوں کی کرن تصور کیا جاتا ہے، دیگر شعبوں کی ملازمت کے مقابلے میں آج کا نوجوان اس شعبے کی جانب ہی اپنی نظریں جمائے ہوئے ہے، کیونکہ دیگر صنعتوں کے مقابلے میں اس صنعت میں ان کو زیادہ تنخواہیں ملتی ہیں، عزت و احترام ملتا ہے، ملازمت کا تحفظ پایا جاتا ہے، عالمی شہرت دلانے والے شعبے کے طور پر بھی اس کو دیکھا جاتا ہے، لہٰذا اس شعبے پر مرتب ہونے والے اثرات ملک کے متوسط طبقے پر بھی مرتب ہوتے ہیں، کیوں کہ اس شعبے سے ملک کی معیشت بھی جڑی ہوئی ہے، نوجوانوں کا روزگار جڑا ہوا ہے، اسی طرح عالمی تعلقات بھی جڑے ہوئے ہیں، چنانچہ جب بھی اس شعبے پر اثرات مرتب ہوں گے، عام شہریوں پر بھی اس کے اثرات کا مرتب ہونا لازمی ہے۔
آج جب ہم اس صنعت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں واضح طور پر ایک مشکل صورتحال نظر آتی ہے۔ حال ہی میں ٹی سی ایس اور ٹرانس امریکہ کے درمیان جو تجارتی معاہدے تھے وہ بیچ میں ہی ختم کر دیے گئے۔ ٹرانس امریکہ اور ٹی سی ایس کے درمیان 2018 میں معاہدے ہوئے تھے، معاہدے کے مطابق اگلے دس سالوں میں ٹرانس امریکہ میں رہنے والے ایک کروڑ افراد کا انشورینس ڈیٹا کو ایک ہی پلاٹ فام پر لایا جانا تھا، یعنی ایک کروڑ افراد کو انشورینس ڈیٹا سنگل انٹیگریٹڈ پلاٹ فام پر لانا، جو اب ختم ہوچکا ہے، معاہدے کے ٹوٹنے کی کیا وجوہات بنیں؟ اس کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹرانس امریکہ کے مطابق میکرو اکنامک انورانمنٹ کی صورت حال صحیح نہیں ہے، عالمی معاشی صورتحال ابتر حالت میں ہے اس لیے ہم یہ معاہدہ منسوخ کر رہے ہیں۔ گو کہ اس معاہدے کی منسوخی کی وجہ فوری طور پر ٹی سی ایس کو کوئی نقصان کا اندیشہ نہیں ہے، کیوں کہ ٹی سی ایس ایک بہت بڑی کمپنی ہے، 2022-2023 کے مالی سال میں اس کی آمدنی کا تخمینہ تقریباً 27.9 بلین ڈالرز بتایا جاتا ہے، تو محض اس ایک معاہدے کی منسوخی سے یہ کمپنی خسارے میں چلی جائے گی ایسی بات نہیں ہے، لیکن کچھ منفی اثرات تو ضرور مرتب ہوں گے۔ اس معاہدے کی منسوخی کے نہ صرف ٹی سی ایس پر منفی اثرات پڑیں گے بلکہ آئی ٹی شعبے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس معاہدے کی منسوخی کی وجہ سے آئی ٹی اسٹاک نیچے جا رہا ہے، اسٹاکس پر منفی رحجانات دیکھے گئے ہیں۔ آئی ٹی شعبے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ شعبہ ملک کو ڈالرز کما کر دیتا ہے، یہ شعبہ ڈالرز کی کمائی کا ذریعہ ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ روپے کے مقابلے میں ڈالر مزید مضبوط ہوتا جا رہا ہے، اسی لیے ہمارے ملک کی وزیر خزانہ کہہ رہی تھیں کہ روپیہ کمزور نہیں ہو رہا ہے بلکہ ڈالر مضبوط ہو رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب ڈالر کی قدر بڑھ رہی ہے اور وہ روپے کے مقابلے میں مضبوط ہو رہا ہے تو آئی ٹی شعبے کی آمدنی میں اضافہ ہونا چاہیے تھا؟ آئی ٹی کے اسٹاکس بڑھنے چاہیے تھے؟ کیوں کہ آئی ٹی شعبہ تو ڈالرز کمانے والا شعبہ ہے، اس لیے کہ ہمارے ملک کی آئی ٹی کمپنیاں بنیادی طور پر اپنی خدمات ہوں یا اس سے ملحق کام ہوں، وہ برآمد کرتی ہیں، جب چیزیں برآمد ہوتی ہیں تو ان کی آمدنی بھی ڈالرز میں ہوتی ہے، تو پھر ان کے اسٹاکس کیوں کر نیچے آتے جا رہے ہیں؟ کیوں ان کی صورت حال خراب ہوتی جا رہی ہے؟ پچھلے کچھ عرصے سے اسٹاک مارکیٹ میں ان کی خراب کارکردگی نوٹ کی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے سال ‘نفٹی’ نیشنل اسٹاک ایکسچینج کا سب سے اہم انڈیکس ہے، اس میں دیگر شعبوں کے شئیرز میں بائیس فیصد کا اضافہ ہوا تو وہیں نفٹی آئی ٹی انڈیکس کا محض سات فیصد اضافہ درج کیا گیا۔ ان اعداد وشمار سے دیگر شعبوں کے مقابلے میں آئی ٹی شعبے کی صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جبکہ ڈالر روپے کے مقابلے میں مضبوط ہو رہا ہے، اس کے باوجود آئی ٹی شعبے کی کارکردگی انتہائی دگرگوں ہے۔
آئی ٹی کی کارکردگی جانچنے کے لیے ایک اور پیمانہ بھی ہے، وہ ہے پرائز ٹو آرنگ ریشو، یہ پیمانہ کسی بھی کمپنی کی اسٹاک مارکیٹ میں کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کلیدی پیمانہ ہے۔ کمپنی نے کتنی کمائی کی نقصان کتنا ہوا وغیرہ اس پیمانے پر کمپنی کے اسٹاک کی قدر طے ہوتی ہے۔ پچھلے سال اس کی شرح تقریباً چھبیس پوائنٹس تھی جو اب گر کر پچیس پوائنٹس رہ گئی ہے۔
تین پیمانے یہاں درج کیے گئے ہیں، پہلا اسٹاک مارکیٹ میں آئی ٹی کمپنیوں کی شرح قدر میں کمی، دوسرا قیمتِ قدر میں کمی اور تیسرا ٹرانس امریکہ جیسی کمپنیوں کی اپنے معاہدوں کی منسوخی، یہ تین پیمانوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئی ٹی شعبے کی خراب صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس طرح ناقص کارکردگی کی کیا وجوہات ہیں؟ آئی ٹی کمپنیوں کا کہنا یہ ہے کہ دیگر شعبے کی کمپنیوں نے غیر ضروری اخراجات کو ختم کیا ہے، یعنی آئی ٹی شعبے کو اسی وقت شامل کیا جا رہا ہے جب کہ وہ ناگزیر ہو، ایسے اخراجات کو ختم یا کم سے کم کر دیا گیا ہے جو ضرورت کے زمرے میں نہیں آتے، وہی کام کیا جا رہا ہے جس سے فوری طور پر یا تو خرچ میں کمی ہوتی ہو یا پھر فوری طور پر آمدنی میں اضافہ ہوتا ہو۔ مستقل کو پیش نظر رکھتے ہوئے، دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے آئی ٹی شعبے کو نہیں لیا جا رہا ہے۔ بہت سی کمپنیاں یہی رویہ اختیار کی ہوئی ہیں، نئے کام متعارف نہیں کروائے جا رہے ہیں، ڈیجیٹلائیزیش کا کام نہیں کیا جا رہا ہے، بہت سی بلکہ ساری ہی کمپنیاں بچت کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں جس کی وجہ سے آئی ٹی شعبے میں سرگرمیاں نظر نہیں آ رہی ہیں۔ یہ عمومی بات ہے کہ جب کمپنیوں کو منافع نہیں ہوتا تو وہ کاسٹ کنٹگ کا کام کرتی ہیں، وہ غیر ضروری کاموں پر خرچ نہیں کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور بات جو آئی ٹی کو پریشان کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر آئی ٹی شعبے کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے، ‘اسٹرکچرل چینج’ پہلے عالمی آئی ٹی شعبے کی کمپنیاں اپنے کام کاج ہندوستان کی آئی ٹی شعبے کی کمپنیوں کو دیا کرتی تھیں، یعنی آؤٹ سورسنگ کیا کرتی تھیں، کئی دہائیوں تک انفارمیشن ٹیکنالوجی سے ملحق خدمات کو ہمارے ملک کی آئی ٹی کمپنیوں کو دیا جاتا رہا، کیونکہ وہاں کے مقابلے میں یہاں کام کرنے والے کم تنخواہوں پر دستیاب ہوجاتے ہیں۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہوگئی ہے، اب آؤٹ سورسنگ ختم ہوتی جارہی ہے اس لیے ملازمتیں بھی ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آؤٹ سورسنگ کا کام کیوں ختم ہوتا جا رہا ہے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کے علاوہ دیگر کئی ممالک بھی آؤٹ سورسنگ کے میدان میں قدم رکھ چکے ہیں، وہاں ہندوستان سے زیادہ سستے میں ملازم ملتے ہیں، دیگر ممالک کی کئی کمپنیاں ہندوستانی کمپنیوں کو اس میدان میں پچھاڑ رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہندوستانی کمپنیوں کے کام کا معیار دیگر ممالک سے اچھا ہوتا ہے، اسی لیے وہ اب تک ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہیں، لیکن اس بابت ایک اور تبدیلی ہورہی ہے، وہ یہ کہ بڑی بڑی عالمی کمپنیاں جنہیں فارچون کمپنیاں کہا جاتا ہے وہ اپنی آئی ٹی کی ضروریات کو خود ہی پورا کر رہی ہیں، اپنی صلاحیتوں کو بڑھا رہی ہیں جس کو گلوبل کیپاسٹی سنٹرز کہا جاتا ہے، یہ کمپنیاں اپنے پاس ہی آئی ٹی مسائل کو حل کرنے کے لیے ماہرین کو رکھ رہی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ آئی ٹی خدمات کو آؤٹ سورسنگ کرنے کے نتیجے میں اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ان کمپنیوں کی آئی ٹی کی مخصوص ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہی ملازم رکھا جاسکتا ہے، بجائے ایک عام آئی ٹی کمپنی کو یہ کام سونپے جانے کے، مخصوص کام خصوصیت کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، دوسروں پر انحصار ختم ہو رہا ہے، اسی لیے گلوبل کیپاسٹی سنٹرز قائم کرنے کا نیا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے اور اس رجحان کو بھانپ کر ہندوستان کے آئی ٹی شعبے کی کمپنیوں کے رہنما ادارہ ’’ناس کام‘‘ نیشنل اسوسی ایشن فار سافٹ ویئر کمپنیز نے عالمی آئی ٹی کمپنیوں سے گزارش کی ہے کہ وہ اپنے اپنے گلوبل کیپاسٹی سنٹرز ہندوستان میں قائم کریں۔ ایک بڑی بین الاقوامی کمپنی اپنی ان ہاؤز آئی ٹی خدمات کے لیے ہندوستان میں ہی ایک سنٹر قائم کرے، یہی خدمات اس سے قبل انفوسیس یا ٹی سی ایس یا ویپرو وغیرہ دیا کرتے تھے۔ ناس کام کی پیشکش کا عالمی کمپنیوں نے مثبت جواب دیا ہے۔ ناس کام کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے پینتالیس گلوبل کیپاسٹی سنٹرز ہندوستان میں قائم ہوئے ہیں، بزنس اسٹینڈرڈ کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں ان سنٹرز کی تعداد پانچ سو سے بڑھ کر سترہ سو ہو گئی ہے، ان میں پندرہ لاکھ ملازمین برسر خدمت ہیں۔ آپ کے ذہن میں یہ بات آ رہی ہوگی کہ یہ تو بڑی اچھی بات ہے کہ ہندوستان میں گلوبل کیپاسٹی سنٹرز قائم ہوئے ہیں اور ان میں تقریباً پندرہ لاکھ ملازمین برسرِ خدمت ہیں۔ ہمارے ملک کی آئی ٹی کمپنیوں کو راست طور پر کام نہیں مل رہا ہے تو کیا ہوا یہاں کہ نوجوانوں کو تو کام مل رہا ہے اگر ملازمین کسی ہندوستانی کمپنی میں بالواسطہ خدمات دینے کے بجائے راست طور پر اسی عالمی کمپنی کو اپنی خدمات دے رہے ہیں تو اس میں خرابی کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خرابی تو کچھ نہیں ہے بلکہ اس سے ہندوستان میں سرمایہ کاری ہوگی، یہاں کے نوجوانوں کو روزگار بھی ملے گا، لیکن دولت ہندوستان میں پیدا نہیں ہوگی، کیونکہ یہ عالمی کمپنیاں یہاں ہونے والی آمدنی سیدھا اپنے ملک لے کر چلی جائیں گی، جبکہ یہی کام ہمارے ملک کی کوئی کمپنی کرے تو نوجوانوں کو روزگار بھی ملے گا اور دولت بھی پیدا ہوگی اور وہ دولت یہاں ملک میں گردش کرےگی ۔ یہی وجہ ہے کہ گلوبل کیپاسٹی سنٹرز ہمارے ملک کے آئی ٹی شعبے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں، اگر ہمارے ملک کی آئی ٹی کمپنیاں ان گلوبل کیپاسٹی سنٹرز کا مقابلے کرنے کے لیے کوئی راستہ تلاش نہیں کریں گی تو مستقبل قریب میں ان کمپنیوں کو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 

یہ بھی پڑھیں

***

 گلوبل کیپاسٹی سنٹرز ہمارے ملک کے آئی ٹی شعبے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں، اگر ہمارے ملک کی آئی ٹی کمپنیاں ان گلوبل کیپاسٹی سنٹرز کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی راستہ تلاش نہیں کریں گی تو مستقبل قریب میں ان کمپنیوں کو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جولائی تا 22 جولائی 2023