زعیم الدین احمد ،حیدرآباد
ایک سوال ہر شخص کے ذہن میں آتا رہتا ہے کہ آخر انسان اپنی زندگی کو کیسے خوبصورت، خوش حال، بھرپور اور با مقصد بنا سکتا ہے؟ آخر زندگی کا فلسفہ کیا ہے؟ کیا دنیا میں جن کے پاس دولت ہے یا جو صاحب ثروت ہیں وہ خوش حال ہیں؟ کیا انسانی زندگی میں خوش حالی کا معیار مال و زر ہے؟ یہ سوال ہمیشہ سے انسانوں کے ذہن میں آتا رہا ہے کہ آخر ایک انسان خوش حال زندگی کیسے گزارے؟ ان سوالات کے جواب میں ہم یہاں دس ایسے اصول پیش کریں گے جو انسانی زندگی میں خوش حالی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگ جن کے ہاں دولت کی ریل پیل ہے لیکن وہ بھی خوش حال زندگی سے محروم ہیں۔ ان کے دل میں کہیں نہ کہیں کسک باقی رہتی ہے کہ میری زندگی میں ہر قسم کی آسائشوں کے باوجود کسی چیز کی کمی ہے۔ جن کے پاس دولت ہے ان کے متعلق لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت خوش حال زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ خوش حال زندگی کے یہ ضروری ہے کہ انسان کی صحت اچھی ہو وغیرہ۔ تو آئیے چلتے ہیں ان اصولوں کی طرف جن پر چل کر زندگی کو خوش گوار بنایا جا سکتا ہے۔
پہلی چیز صحت ہے۔ خوش حال زندگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی صحت اچھی ہو، وہ صحت مند ہو۔ بیمار انسان خوش حال زندگی نہیں گزار سکتا۔ صحت انسان کو اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ صحت میں صرف جسمانی صحت ہی نہیں بلکہ اس کی روحانی و اخلاقی صحت بھی اہم چیز ہے۔ لوگ اکثر جسمانی صحت کو ہی اصل صحت سمجھتے ہیں، جبکہ انسان کی روحانی و اخلاقی صحت بھی بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ انسان کی اخلاقی صحت کی خرابی کا اثر اس کے جسمانی صحت پر بھی پڑتا ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے۔ ایک صحت اور دوسری فراغت (بخاری 6412)۔ اگر کسی کی دولت لٹ گئی تو کچھ نہیں لٹا، کیوں کہ دولت تو دوبارہ کمائی جاسکتی ہے اور موجودہ دولت سے کہیں بڑھ کر کمائی جا سکتی ہے۔ اگر کسی کی صحت خراب ہوئی تو اس کا تھوڑا نقصان ہوا، بڑا نقصان نہیں ہے کیوں کہ اس کا علاج ہو سکتا ہے، لیکن اگر کسی کے اخلاق خراب ہوجائیں تو سمجھو اس کا سب کچھ برباد ہو گیا کیوں کہ یہ ایسی دولت ہے جسے گنوا کر دوبارہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے جسمانی صحت کے ساتھ اخلاقی صحت بھی بے حد ضروری ہے۔ جسمانی صحت کی خرابی کے کئی اسباب ہیں ان کا پتہ لگا کر انہیں اپنی زندگی سے نکال دیا جائے تو خوش حال زندگی بسر ہوسکتی ہے، جیسے زیادہ کھانا یا زیادہ سونا، کم کھانا یا کم سونا، یا حد سے زیادہ فارغ رہنا، حد سے زیادہ غم کھانا اور ذہنی پریشانی کا شکار ہوجانا، موٹاپے کا شکار ہونا جس سے کوئی کام صحیح طریقے سے ادا نہ کر پانا، راتوں کا جاگنا اور دن میں سونا جانا، یہ سارے امور انسانی صحت کے لیے شدید نقصان دہ اور وبال جان ہوتے ہیں۔ اس طرح کے غیر معقول کاموں سے اجتناب کر کے اپنے آپ کو بیماریوں سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ سونے کے وقت سویا جائے، کھانے کے وقت کھایا جائے، کام کے وقت کام کیا جائے، جسمانی ورزش کی جائے، دھوپ لی جائے یہ سارے کام کیے جائیں تاکہ جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی صحت بھی برقرار رہے۔ ایک صحت مند، قوی وتوانا مومن، کمزور مومن کے مقابلہ میں زیادہ پسندیدہ ہے۔ ذہنی صحت کے اعتبار سے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے ذہن کو پراگندہ خیالات سے پاک رکھے۔ غصہ، حسد، کبر اور ذہنی تناو سے بچائے رکھے تاکہ دماغی صحت اچھی رہے۔ کیوں کہ ایک مضبوط دماغ ہی مضبوط جسم کا ضامن ہوتا ہے۔
دوسری چیز خوش حال زندگی کے ایک انسان کا دوسرے انسان سے اچھے تعلقات کا ہونا ضروری ہے۔ کرہ ارض پر جتنے جاندار پائے جاتے ہیں وہ بھی گروہ کی شکل میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ انسان کو سماجی حیوان کہا جاتا ہے۔ حیوان ناطق یعنی بولنے والا جاندار بھی کہا جاتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ پرندے جھنڈ کی شکل میں رہتے ہیں، ہاتھی غول بنا کر رہتے ہیں, چیونٹیاں بھی گروپ کی شکل میں رہتی ہیں۔ غرض ہر مخلوق اپنی فطرت کے مطابق گروپ کی شکل میں رہتی ہے۔ لیکن انسان فطرت کے خلاف کام کرتے ہوئے آپس میں مل جل کر نہیں رہتا۔ ان کے درمیان دوریوں کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ بھائی اور بھائی میں اختلاف پایا جاتا ہے، میاں بیوی کے درمیان کڑواہٹ پائی جاتی ہے، ماں باپ کے ساتھ اولاد کے تعلقات میں بگاڑ پایا جاتا ہے، بہنوں میں اچھے تعلقات نہیں ہیں، دوستوں کے تعلقات استوار نہیں ہیں، پڑوسیوں سے دوستانہ تعلقات قائم نہیں ہیں، آپسی محبت و اخوت ختم ہوتی جا رہی ہے، تعلقات میں بگاڑ گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ اگر آپسی تعلقات ہی خراب ہوں گے تو بھلا انسان کیسے خوش گوار زندگی گزار سکتا ہے؟ انسانوں کے درمیان آپسی تعلقات جس قدر اچھے ہوں گے اسی قدر زندگی خوش گوار ہوگی۔ خوش گوار زندگی کے لیے ضروری ہے کہ آپسی تعلقات اچھے ہوں، انسانی معاشرہ آپس کے باہم تعلقات سے استوار ہوتا ہے۔ قرآن مجید سے ہمیں اس بابت رہنمائی ملتی ہے۔ یہاں ہمیں حسنِ معاشرت کے رہنما اصول ملتے ہیں، ان اصولوں پر عمل کر کے ایک خوشگوار اور پرامن معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ آپس کے تعلقات کی نوعیت کیسی ہونی چاہیے اس پر قرآن میں سورہ حجرات آیت چھ میں کہا گیا کہ "کوئی بھی خبر سن کر اس کو پھیلانے سے پہلے تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ بات سچ نہ ہو اور اس سے کسی کو نقصان پہنچ جائے۔
آیت نو میں فرمایا گیا کہ دو گروہوں کے درمیان اگر جھگڑا ہو جائے تو انصاف کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کرو اور صلح کرادو کہ الله انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ آیت دس میں کہا گیا ہے کہ ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں، اگر دو بھائیوں کے درمیان اختلاف ہو جائے تو صلح کرا دو۔ آیت گیارہ میں کہا گیا ہے کہ کسی کا مذاق نہ مت اڑاؤ، ہو سکتا ہے کہ وہ الله کے نزدیک تم سے بہتر ہو۔ کسی کو بے عزّت مت کرو۔ لوگوں کو برے القابات، الٹے ناموں سے مت پکارو. بد گمانی کرنے سے بچو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو۔ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے اور اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔
یہ وہ اصول ہیں جنہیں اپنا کر ایک انسان خوش گوار زندگی گزار سکتا ہے۔
تیسری چیز ہے دنیوی زندگی اور ذاتی زندگی میں توازن برقرار رکھنا۔ لوگ اکثر اپنی نوکریوں اور اپنی تجارتی زندگیوں میں حیرت انگیز کارنامے انجام دیتے ہیں لیکن وہ اپنی ذاتی زندگی میں انصاف نہیں کرتے۔ ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے کہ لوگ اپنی نوکریوں سے اپنے تجارتی زندگی سے اکتا جاتے ہیں، انہیں اپنی زندگی بے مصرف نظر آنے لگتی ہے اور زندگی سے خوش گوار پہلو آہستہ آہستہ رفو چکر ہونے لگتا ہے، اسی لیے یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ اپنے فن میں ماہر ہونے اور آسوده حال ہونے باوجود خود کشیاں کرلیتے ہیں، کیوں کہ ان کی زندگی میں دینی پہلو نہیں پایا جاتا۔ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے لوگ جن کے دل دین اسلام سے منور ہوتے ہیں زیادہ خوش گوار زندگی گزارتے ہیں۔ جو لوگ اپنی زندگی میں قرآن اور پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی بتائی ہوئی تعلیمات پر حتیٰ المقدور عمل پیرا ہوتے ہیں ان کی زندگیاں خوش گوار پائی گئی ہیں بہ نسبت ان لوگوں کے جن کی زندگیاں صرف اور صرف مادہ پرستی پر مبنی ہیں۔ لیکن یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ مذہبی جنونیت کا عنصر اس میں شامل نہ ہو، جنونیت اس کے توازن کو بگاڑ دیتی ہے۔ اعتدال پسندی خوش گوار زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے۔
چوتھا: انسان اپنی مصروفیات میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ وہ اپنے عزیز واقارب کو اپنے رشتے داروں کو، اپنے پڑوسیوں کو بھول جاتا ہے، وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس پر معاشرے کا بھی حق ہے جبکہ لوگوں کی خوشیوں میں شریک ہونا، ان کے غموں میں ان کے ساتھ کھڑے ہونا اس کا فرض ہے۔ حدیث میں ہے کہ پڑوسی کا بھی حق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خوشی بانٹنے سے دوبالا ہوجاتی ہے جبکہ غم بانٹنے سے ہلکا ہوجاتا ہے۔ جب کسی انسان کے معاشرے میں تعلقات ہی نہ ہوں گے یا ہوں گے بھی تو خراب ہوں گے تو وہ کیسے اپنی خوشی دوبالا کرسکتا ہے اور کیسے وہ اپنا غم ہلکا کرسکتا ہے؟ اگر وہ اپنے اوقات میں سے اپنے رشتے داروں کے لیے، اپنے عزیزوں کے لیے، پڑوسیوں کے لیے وقت نہیں نکالے گا تو کیسے اچھے تعلقات قائم کر سکے گا؟ خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے چاہیے کہ اپنے اوقات کی تنظیم کرے، اس میں توازن برقرار رکھے، اپنی اتھاہ مصروفیات کے باوجود اسے چاہیے کہ دوست احباب کے لیے وقت نکالے، اپنے گھر والوں کے لیے وقت کو فارغ کرے۔
پانچویں چیز ہے اپنے عادات و اطوار، اپنی طرزِ زندگی: ہر شخص کی اپنی الگ طرز زندگی ہوتی ہے، اسے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں اس کا یہ طرز زندگی اس کی جسمانی و ذہنی صحت میں خلل تو نہیں ڈال رہا ہے؟ اگر نفس مسئلہ یہی ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی عادات و اطوار کو تبدیل کرے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو رات دیر سے سونے کی عادت ہے، بے مصرف وہ رات کو جاگتا رہتا ہے تو یہ عادت اس کی زندگی میں خوش گواری نہیں لاسکتی بلکہ یہ عادت اس کی ہر چیز کی خرابی کا باعث بنتی ہے۔ اس عادت سے اس کی جسمانی و ذہنی صحت تو خراب ہوگی ہی مزید اس کے مضر اثرات اس کے تعلقات پر بھی مرتب ہوں گے۔ قرآن میں آیا ہے کہ "اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے لباس اور نیند کو سکون موت اور دن کو جی اٹھنے کا وقت بنایا” (سورۃ الفرقان آیت 47) نیند اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اس سے دماغ کو سکون ملتا ہے اور انسان نیند کی بدولت تازہ دم ہو جاتا ہے۔ نیند صحت کو برقرار رکھنے کے لیے اشد ضروری بھی ہے۔ اچھے عادات اچھی اور خوش گوار زندگی کی ضامن ہیں۔
چھٹی چیز یہ کہ انسان اور معاشرہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، وہ ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہوئے ہیں کہ ان کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ معاشرے کی ابتدا ماں باپ سے ہوتی ہے، پھر خاندان وجود میں آتا ہے اور یہی خاندان جب پھیلتا ہے تو معاشرہ کہلاتا ہے، کائنات میں معاشرتی زندگی کا حامل انسان ہی ہے۔ آپ نے غور کیا ہوگا کہ ہر جاندار کی اپنی الگ بولی ہوتی ہے، بعض کو ہمارے کان سکتے ہیں اور بعض کو نہیں سن سکتے۔ اسی طرح انسانوں کی بھی بولی ہے۔ اللہ نے انسان کو ہی بیان کی قوت دی ہے جس کے لیے اس نے زبان کی شکل دی۔ ثفاف میں ڈھالا۔ بہت سے جاندار جھنڈ کی شکل میں زندگی گزارتے ہیں، لیکن انسان کو مل جل کر رہنے کے لیے ایک معاشرت اور ایک تہذیب کی شکل دی ہے۔ انسان ایک سماجی حیوان ہے، سماج کے بغیر انسانی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اسی لیے سماج میں اسے اپنا کردار بھی ادا کرنا ہوگا۔ سماج میں اچھائی کے لیے اس کو بھرپور کردار ادا کرنا اس کی اپنی بھی ضرورت ہے۔ اگر سماج میں برائیوں کا غلبہ ہوگا تو وہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا، اس کی اپنی خوش گوار زندگی کے لیے یہ ضروری ہے کہ سماج میں اچھائیوں کو پروان چڑھائے اور برائیوں سے روکے، یہ ہر انسان کی سماجی ذمہ داری ہے، ورنہ وہ پورا سماج تباہ و برباد ہوجاتا ہے جہاں اچھائی کا حکم اور برائیوں سے روکا نہیں جاتا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ "جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ (سورۃ المائدہ 2) اس ضابطے سے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سماج کو اچھا رکھنے میں تعاون کرے۔ سماج میں جھوٹ، بے حیائی، شراب، رشوت، زنا، حرام خوری عام ہے اور بندہ مومن کے مراقبے، تسبیحات، نوافل بھی جاری ہیں۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں تو ان سب سے بچا ہوا ہوں مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں تو یہ اس کی خام خیالی ہوگی۔ جو شخص ان سماجی برائیوں کے تدارک کے لیے کام نہیں کرتا اس کی زندگی کبھی خوش گوار نہیں ہوسکتی۔ دیکھا گیا ہے کہ جس نے سماجی برائیوں کے تدارک کے لیے کام کیا وہ کبھی ذہنی تناو کا شکار نہیں ہوتا۔
ساتویں چیز: خوش گوار زندگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے اندر غور و فکر اور تدبر کی عادت ہو۔ وہ خدا کی بنائی ہوئی کائنات میں غور کرے، اس کے اسرار و رموز میں کھو جائے، کائنات کی ایک ایک چیز اسے خوشیاں فراہم کرتی چلی جاتی ہے۔ دنیا گھوم پھر کر دیکھے کہ اللہ تعالیٰ نے کتنی عظیم الشان بنائی ہے اور یہ تصور بھی ہو کہ اللہ نے یہ دنیا اسی کے لیے بنائی ہے۔ پہاڑوں کو دیکھے، سمندروں کی گہرائیوں کو دیکھے، مختلف النوع اشجار پر نظر دوڑائے، فطری خوبصورتی سے اس کا دل باغ باغ ہو جائے گا۔ اگر انسان کے اندر غور وفکر کی عادت نہیں ہوگی تو اس کی زندگی روکھی پھیکی ہوگی، کسی نہ کسی حیثیت میں وہ غور و فکر اور تدبر کرتا رہے گا تو اس کی زندگی خوش گوار ہوگی۔
آٹھویں چیز: جو کام بھی کرے وہ منفرد انداز میں، عمدگی کے ساتھ کرے، پورے حسن و جمال کے ساتھ انجام دے، جو کام کیا جارہا ہے اس میں انفرادیت ہو، خوبصورتی کے ساتھ ہو، ایک ہی طریقے سے انجام پانے والے کام سے انسان اکتا جاتا ہے۔ ہم ہر روز ایک ہی طریقہ کا کھانا نہیں کھاتے، انواع و اقسام کے پکوان ہوتے ہیں، دور جدید میں ایک اصطلاح "قوس قزح” یعنی ریمبو ڈائٹ کا عام ہو چلی ہے، یعنی انواع و اقسام کے کھانے جس سے جسمانی فوائد تو ہیں ہی اس کے علاوہ دلی خوشی بھی حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح روز ایک ہی طریقے کے کام سے بوریت محسوس ہوگی، ہر دن ایک نیا دن ہے اسی لیے اپنے کام میں بھی نیا پن ہونا چاہیے۔ منفرد انداز ہونا چاہیے، یہ بھی خوش گوار زندگی کے ضروری ہے۔
نویں چیز خود احتسابی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو انسان کو اپنے اعمال کو درست رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ روزانہ رات کو جب بھی آپ بستر پر سونے کے لیے جاتے ہیں اس وقت یا ہفتے میں ایک بار آپ اپنا احتساب کریں کہ دن میں نے کس طرح گزارا، کیا کوتاہیاں ہوئیں، کیا اچھائیاں کیں۔ خود احتسابی ہر وقت انسان کو صحیح سمت کی طرف لے جاتی ہے، کوئی دوسرے آپ کی غلطیوں کی نشاندہی کریں یا نہ کریں آپ اپنا احتساب کرنے سے دل صاف ہوگا کردار میں نکھار پیدا ہوگا۔ خود احتسابی کی عادت انسان کو بہت فائدہ دیتی ہے، یہ کامیابی کا پہلا زینہ ہے، اس کے ذریعے سے ہم اپنے اندر پیدا ہونے والے مثبت یا منفی رجحانات کا پتا لگا سکتے ہیں، اپنی خوبیوں اور خامیوں پر نگاہ رکھ سکتے ہیں، اپنے اخلاق و کردار کو سنوار سکتے ہیں۔ خود احتسابی سے محروم شخص ترقی نہیں کر سکتا، کیوں کہ اسے اپنی کمیوں، کوتاہیوں کا علم ہی نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور وہ سابقہ غلطیوں سے سبق نہیں سیکھ سکتا۔ خود احتسابی دنیا کا مشکل ترین کام ہے، کیوں کہ یہ عمل انسان کو اس کی حقیقی اور سچی تصویر دکھاتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اپنے اہداف و مقاصد طے کر کے خود احتسابی کرتاہے، کامیابیاں اس کے قدم چومتی ہیں۔ اسلام خود احتسابی کا درس دیتا ہے۔ اپنے اعمال پر نظر رکھنے کی ترغیب دیتا ہے، ہر آن محاسبہ کرنے کی تاکید کرتا ہے کہ کہیں ہم اپنے خالق کی مرضی کے خلاف تو نہیں جا رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو فوراً توبہ کر کے اس کی طرف رجوع ہونا چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ عقل مند وہ آدمی ہے جو اپنے نفس کا خیال رکھے۔ امام ترمذیؒ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جو شخص قیامت سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کر لے وہ عقل مند انسان ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حساب لیے جانے سے پہلے پہلے اپنا حساب کر لو، کیوں کہ جس شخص نے دنیا میں اپنا محاسبہ کر لیا، روزِ قیامت اس کا حساب آسان لیا جائے گا۔
شاعر مشرق نے کیا خوب کہا:
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سُراغِ زندگی
تو اگر میرا نہ بنتا نہ بن اپنا تو بن
خود احتسابی سے اپنی غلطیوں کی اصلاح ہوگی اور اس کا اعادہ نہیں ہوگا، جب غلطیوں کا صدور نہیں ہوگا تو اچھائیاں پروان چڑھتی ہیں، یہی اچھائیاں انسان کو خوش گوار زندگی فراہم کرتی ہیں۔
دسویں چیز ہے وقت کی قدر اور منصوبہ بندی۔ دنیا کی مہنگی ترین شئے وقت ہے۔ اللہ نے انسان کو وقت کی قید میں رکھ دیا ہے، دنیا میں نہ بکنے والی چیز وقت ہے۔ دنیا کا امیر ترین انسان بھی وقت کو خرید نہیں سکتا، کیا ورن بفیٹ اپنی زندگی میں گزرے ہوئے ماہ وآپس لاسکتا ہے؟ کیا کارلوس سلیم اپنے بچپن میں دوبارہ جاسکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جن چیزوں کی قسمیں کھائی ہیں ان میں ایک وقت بھی ہے۔
وَالْعَصْرِ اِنَّ ا لْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ”(العصر:3،2) قسم ہے زمانہ کی، انسان درحقیقت خسارے میں ہے۔
ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ انمول اور قیمتی ہے، وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عظیم نعمتوں میں سے ایک گراں قدر نعمت ہے اور وقت جتنا قیمتی ہے اتنا ہی پگھلتی ہوئی برف کی طرح گزر جاتا ہے کہ بس
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
اسلام وقت کی پابندی کا درس دیتا ہے۔ نماز وقت پر ادا کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے، یہ ضروری ہے کہ ہم وقت کی قدر کریں کیونکہ یہی کامیابی کی کنجی ہے۔
یہ دس اصول ہیں جنہیں اپنا کر ہم اپنی زندگی کو خوش گوار بنا سکتے ہیں۔
***
***
ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ انمول اور قیمتی ہے، وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عظیم نعمتوں میں سے ایک گراں قدر نعمت ہے اور وقت جتنا قیمتی ہے اتنا ہی پگھلتی ہوئی برف کی طرح گزر جاتا ہے ۔
اسلام وقت کی پابندی کا درس دیتا ہے۔ نماز وقت پر ادا کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے، یہ ضروری ہے کہ ہم وقت کی قدر کریں کیونکہ یہی کامیابی کی کنجی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 فروری تا 18 فروری 2023