ابو محمد
ماحولیات کی تباہی ایک سنگین مسئلہ ہونے کے باوجود انتخابی مسئلہ کیوں نہیں ہے؟
یوم بین الاقوامی مادر کرہ ارض کے موقع پر اپنی زندگی کو میسر خوش نصیبی کے لیے کرہ ارض کے تئیں تشکر کا اظہار کرتے ہوئے ہمیں یہ تصور کرنا ہو گا کہ ہماری یہ زمین جس پر ہم بستے ہیں وہیں سے ہم غذا، ہوا ،پانی ، روشنی اور دیگر زندگی کے لوازمات حاصل کرتے ہیں۔ مگر یہی زمین جن جن مصیبتوں سے دوچار ہے اس کا ذمہ دار حضرت انسان ہی ہے اور اسی نے اپنی ہاتھ کی کمائی سے خشکی اور تری میں فساد برپا کر دیا ہے۔ اب ضروری ہوگیا ہے کہ مصیبت زدہ زمین کو مصائب سے نکالنے کے لیے ہمیں کو اس کا حل ڈھونڈنا ہوگا ۔ 22؍ اپریل 1970میں اقوام متحدہ کے ذریعہ یوم کرہ ارض منانے کا مقصد یہی ہے کہ زمین کو قابل رہائش بنانے کے مقصد سے ماحولیاتی تحفظ کے لیے عوام الناس کو بیدار کیا جائے۔ 2009میں اس دن کو یوم بین الاقوامی مادر کرہ ارض کا نام دیا گیا ہے۔ یقیناً انسانوں کے ساتھ ساتھ دیگر حیوانات اور نباتات کے لیے زمین تو ماں ہی کی طرح ہے کیونکہ اسی سے خالق کائنات نے ہماری آرائش اور آسائش کا سامان کیا ہے۔ کائنات میں زمین ہی وہ واحد جگہ ہے جہاں زندگی ہے۔ آج کل اس کے سامنے تین طرح کے سخت چیلنجز ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی، قدرتی اور زندگی کے متفرقات میں کمی، آلودگی اور کچرا۔ اس کی وجہ سے دس لاکھ سے زائد حیوانات، نباتات اور پیڑ پودے و دیگر جاندار غائب ہو سکتے ہیں۔ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ انسانوں، درختوں، حیوانات و جمادات اور دریاوں و سمندروں کے جانداروں کے لیے خطرہ پیدا کر رہا ہے۔ اگرچہ درجہ حرارت کم کرنے، اخراج میں کمی اور شفاف توانائی کے استعمال کو بڑھانے پر لوگ کار بند ہیں مگر اس سمت میں کی جانے والی کوششیں تشفی بخش ہرگز نہیں ہیں۔ قدرتی آفات اور مصائب جیسے حالات کے مد نظر بسرعت اور حسب ضرورت فعالیت کی ضرورت ہے۔ محض اسی اکیسویں صدی میں قحط کی تعداد میں 29 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے قدرتی آفات روز بروز بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ گزشتہ سال ہی ہمارے ملک کے کسی نہ کسی حصہ میں ایک نہ ایک قدرتی آفت سے لوگوں کو سابقہ پیش آیا ہے۔ ایسے حالات میں انسانوں اور حیوانوں کے غذائی اجناس میں مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے۔ مٹی اور پانی کا زیادہ سے زیادہ استحصال اور کیمییکلس کے بے تحاشا استعمال سے دنیا بھر میں دو ارب ہیکٹرس زمین بنجر ہوچکی ہے۔ جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے اس کی وسعت دن بدن کم سے کمتر ہورہی ہے جس کی وجہ سے ندیوں، تالابوں اور زیر زمین پانی کی کمی درج کی گئی ہے۔ ہر سال 43 کروڑ ٹن پلاسٹک کی پیداوار کے ساتھ اس کا استعمال ہو رہا ہے جس کا دو تہائی کچرے میں چلا جاتا ہے۔ اب تو حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ یہی کچرا ہمارے خوردو نوش کی اشیا میں زہریلے مادے کے طور پر خاموشی سے شامل ہو رہا ہے۔ پانی ہوا اور زمینی آلودگی کی وجہ سے ہماری صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ دنیا بھر میں ۹۹ فیصد سے زیادہ افراد غیر محفوظ ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ مصائب کی فہرست اور بھی بڑی ہے لیکن حکومتوں، صنعت کاروں اور مختلف اداروں کے ساتھ ساتھ ہماری پور ی شراکت سے ہی ان کا حل ممکن ہوسکے گا۔ پلاسٹک اور حیاتیاتی ایندھن (fossil fuels) پر ہم انحصار کو کم کرسکتے ہیں۔ موٹے موٹے اناجوں کے استعمال ہے اور درختوں کو بڑے پیمانے پر لگا کر ہم یہ ذمہ داری ادا کر سکتے ہیں۔ کرہ ارض کے تحفظ کے لے ہمیں ہوشیار اور فعال ہونے کی شدید ضرورت ہے ساتھ ہی سماج اور معاشرے میں بڑے پیمانے پر بیداری کی بھی ۔
یہ کڑوی حقیقت ہے کہ آج ہوا، پانی اور مٹی جس سے ہماری زندگی کی گاڑی چلتی ہے ان کو جوڑنے والے جنگلات کی حالت بہتر نہیں ہے۔ ریاست بہار میں محض سات آٹھ فیصد جنگلات محفوظ رہ گئے ہیں۔ ان جنگلات کو بدل کر چاروں طرف کنکریٹ کے جنگل کا جال بچھایا جارہا ہے۔ مغربی بنگال میں جنگلات 13،14 فیصد باقی ہیں جبکہ اسے 33 فیصد ہونا چاہیے۔ ایسا کیوں ہے کہ انسان زندگی سے جڑے اتنے حساس اور اہم مسئلہ پر تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈر غیر حساس ہیں اور اس معاملہ پر خاموشی اختیار کیے ہوئے رہتے ہیں؟ اگر ہم سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کے انتخابی وعدوں اور دعووں کو دیکھیں تو سب کے سب لوگوں کی بھلائی اور ترقی کی باتیں ہی کرتے ہیں۔ جب ملک کے عوام کی اولیت اور ترجیحات ترقی پر مرکوز ہوگی تو یقیناً سیاسی لیڈر اپنی تقریروں میں ترقی کو ہی اولیت دیتے نظر آئیں گے۔ مگر افسوس کہ ہمارے ملک میں انتخابات کے دوران قدرت (نیچر) ماحولیات اور موسمی حالات پر کسی طرح کا چرچا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہمارے ملک میں ماحولیات (Enviroment) کو مسئلہ بناکر کوئی انتخاب لڑا جاتا ہے۔ جبکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جو سب سے زیادہ اہم ہے، اس سے انسانی زندگی جڑی ہوئی ہے اور فطرت کے چہار طرف گردش کرتی ہے۔ جنگل، مٹی اور پانی سے سبھی جڑے ہوئے ہیں، اس لیے اب ضروری ہوگیا ہے کہ سبھی پارٹیوں کے ایجنڈوں میں پانی، ندی اور جنگلات کی چند جھلکیاں تو نظر آئیں تب ہی پانچ سالوں کے بعد سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں سے ماحولیات (Enviroment) پر بھی بات کرسکیں گے۔ اس تعلق سے ہم خود بھی گنہگار ہیں کہ ہم ماحولیات کو ووٹ کے نقطہ نظر سے ایشو بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں جنگلات، ندیاں،پانی اور مٹی کم ہوتے جارہے ہیں جبکہ یہ مسائل سبھی گاوں میں چھا جانے چاہئیں۔ اب ضرورت ہے کہ اس مسئلہ کو الیکشن کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے تاکہ ہم پانچ برسوں تک محفوظ اور مامون رہ سکیں۔ آج انتخابات جن مسائل پر لڑے جاتے ہیں اسے تو ہم ہی طے کرتے ہیں، اس لیے محض اپنی زندگی نہیں بلکہ آئندہ نسل کو بہتر ماحولیات دے کر بہتر زندگی گزارنے کا موقع دیں۔
ہمارے ملک کی ماحولیاتی رپورٹ بہتر تو ہرگز نہیں ہے۔ دلی دنیا کا سب سے زیادہ آلودگی والا شہر ہے۔ بنگلورو میں پانی کی شدید قلت بڑے مسائل پیدا کررہی ہیں۔ جنوبی افریقہ کے طرز پر بنگلورو بھی بھارت کا کیپ ٹاون بننے جارہا ہے کیوں کہ وہاں پانی کی راشننگ ہوتی ہے۔ اب تو کرناٹک میں پانی کا ذخیرہ محض 36فیصد ہی بچا ہے۔ موجودہ گرمی کرناٹک کے لیے مزید تکلیف دہ ہوسکتی ہے۔ مہاراشٹر کا بھی وہی حال ہے۔ گزشتہ دس دنوں سے بنگال جھلس رہا ہے۔ درجہ حرارت 40 تا 45 سنٹی گریڈ تک ہے۔ کہیں کہیں اس سے بھی زیادہ ہے۔ بہار، راجستھان، یو پی فطرتاً خشک علاقے ہیں۔ ہمالیہ کی خبر ہے کہ وہاں کی بڑھتی ہوئی گرمی کی وجہ سے گلیشرز (برفانی تودے) جھیلوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ ہماچل پردیش اور اتر اکھنڈ کو لوگ تفریحی اور مذہبی مقامات بنا کر اس پہاڑی اور جنگلاتی خوبصورت خطے کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اب وہاں کی جھیلیں مصیبت بنتی جا رہی ہیں اور وہاں کی ندیاں اور جھیلیں خشک ہو رہی ہیں۔ عالمی تنظیم صحت (WHO) کے مطابق عالمی سطح پر بھارت کے اسی شہروں میں ماحولیاتی آلودگی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ کم از کم دلی میں اسے انتخابی موضوع تو بن جانا ہی چاہیے تھا۔ لیکن واہ رے ہماری بے حسی۔
عالمی اداروں کے تعاون سے تیار کردہ موسمیاتی شفافیت رپورٹ 2022کے مطابق 2021میں شدید گرمی کی وجہ سے بھارت میں مینوفیکچرنگ، خدمات، زراعت اور تعمیر کے شعبہ میں تقریباً 13 لاکھ کروڑ روپے کا خسارہ ہوا۔ گرمی کی شدت کے اثرات کی وجہ سے 167 ارب گھنٹوں کا ممکنہ لیبر کا نقصان ہوا۔ جو 1999 کے مقابلے میں 39 فیصد زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں 1.5 فیصد اضافہ ہونے پر سیلاب سے سالانہ ہونے والا نقصان 49 فیصد تک اضافہ ممکن ہے۔ سمندری طوفان سے ہونے والی تباہی میں اضافہ ہوگا۔ لینسیٹ کاونٹ ڈاون کی رپورٹ کے مطابق میں 2000 تا200 4 اور 2017 تا2021 کے درمیان گرمی کی شدت سے ہونے والے اموات کی تعداد میں 55فیصد کا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ بڑھتی ہوئی درجہ حرارت سے طبی نظام پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ حرارت میں زیادتی کی وجہ سے دماغی اسٹروک (فالج کا حملہ) جو دماغ کے خون کے خلیوں میں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قلبی عارضی میں ہارٹ اسٹروک کی شرح بھی بڑھ رہی ہے جس سے اکثر موت بھی ہوتی ہے۔ خون کی گردش میں کمی کی وجہ سے گردہ برباد ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ گرم موسم میں سرجیکل زخم کو بھرنے میں تاخیر ہوتی ہے۔ اب تو ہماری آبادی بھی بوڑھی ہورہی ہے، ان میں ہائی بلڈ پریشر، شوگر، ایک ڈگری سنٹی گریڈ درجہ حرارت میں اضافہ کے ساتھ موٹاپا بھی بڑھتا ہے۔ جنگلات کی کمی اور کنکریٹ کی بادشاہت کی وجہ سے گرم ہواوں کی تکالیف میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ایسے حالات سے محفوظ رہنا ہے تو ماحولیات کو بہتر کرنا ہوگا۔
***
ہمارے ملک کی ماحولیاتی رپورٹ بہتر تو ہرگز نہیں ہے۔ دلی دنیا کا سب سے زیادہ آلودگی والا شہر ہے۔ بنگلورو میں پانی کی شدید قلت بڑے مسائل پیدا کررہی ہیں۔ جنوبی افریقہ کے طرز پر بنگلورو بھی بھارت کا کیپ ٹاون بننے جارہا ہے کیوں کہ وہاں پانی کی راشننگ ہوتی ہے۔ اب تو کرناٹک میں پانی کا ذخیرہ محض 36فیصد ہی بچا ہے۔ موجودہ گرمی کرناٹک کے لیے مزید تکلیف دہ ہوسکتی ہے۔ مہاراشٹر کا بھی وہی حال ہے۔ گزشتہ دس دنوں سے بنگال جھلس رہا ہے۔ درجہ حرارت 40 تا 45 سنٹی گریڈ تک ہے۔ کہیں کہیں اس سے بھی زیادہ ہے۔ بہار، راجستھان، یو پی فطرتاً خشک علاقے ہیں۔ ہمالیہ کی خبر ہے کہ وہاں کی بڑھتی ہوئی گرمی کی وجہ سے گلیشرز (برفانی تودے) جھیلوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ ہماچل پردیش اور اتر اکھنڈ کو لوگ تفریحی اور مذہبی مقامات بنا کر اس پہاڑی اور جنگلاتی خوبصورت خطے کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اب وہاں کی جھیلیں مصیبت بنتی جا رہی ہیں اور وہاں کی ندیاں اور جھیلیں خشک ہو رہی ہیں۔ عالمی تنظیم صحت (WHO) کے مطابق عالمی سطح پر بھارت کے اسی شہروں میں ماحولیاتی آلودگی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ کم از کم دلی میں اسے انتخابی موضوع تو بن جانا ہی چاہیے تھا۔ لیکن واہ رے ہماری بے حسی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 مئی تا 25 مئی 2024