کمبھ میلے میں داخلے سے محروم مسلمانوں نے عقیدت مندوں کے لیے کھولے اپنے دلوں کے دروازے

پاکستانی مولانا سے سوال پوچھنے والا نوجوان سنبھل میں گرفتار ! گاندھی جی سے باپو کا خطاب واپس لینے کی مانگ

0

محمد ارشد ادیب

مدھیہ پردیش میں ویاپم کی طرز پر ایم پی پی ایس سی میں گھپلا،رسوخ داروں کے بچے بنے ڈپٹی کلکٹر
اتراکھنڈ میں نافذ شدہ یو سی سی کی مقامی باشندوں نے بھی کی مخالفت بہار کے محکمہ تعلیم میں بدعنوانی کی ایک اور مثال
سابق ایم ایل اے کا بیٹا احمدآباد میں خاتون کے گلے سے چین چھین کرفرار۔ڈھائی سو سی سی ٹی وی فٹیج کھنگالنے پر گرفتار
قدرت بھی کیسے کیسے کرشمے دکھاتی ہے۔ پریاگ راج کے مہا کمبھ میلے میں ہونے والے حادثے سے اسے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔کمبھ میلے کے آغاز میں مسلمانوں کو ہندوؤں سے جدا کرنے کے لیے ان کے داخلے پر پابندی کے مطالبے ہو رہے تھے اور نفرتی بیانات جاری کیے گئے تھے ۔ مہا کمبھ کو ہندو اتحاد اور سناتنی ثقافت کی بالادستی کی علامت بتایا گیا ہے لیکن مونی اماوسیہ کی رات میں ہونے والے الم ناک حادثوں نے پورے میلے کا ماحول ہی بدل دیا ہے۔
گنگا جمنی تہذیب پھر بنی مثال۔ سرکاری دستاویزوں میں الٰہ آباد کا نام بدل کر بھلے ہی پریاگراج کر دیا گیا ہو پرانے الٰہ آباد کے مکینوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ان کے درمیان اٹھائی جانے والی نفرت کی دیواریں حقیقت میں کتنی بودی اور کمزور ہیں۔ انہوں نے حادثے کے بعد پریشان حال عقیدت مندوں کے لیے اپنے گھروں کے ساتھ اپنے دلوں کے دروازے بھی کھول دیے ہیں۔ جس وقت حکومت کے کارندے حادثے کی سنگینی کو چھپانے کے لیے عقیدت مندوں کو وہاں سے بھگانے میں مصروف تھے اس وقت پرانے الٰہ آباد کے باشندوں نے بلا تفریق مذہب و ملت اپنے گھروں میں انہیں پناہ دی ان کے کھانے پینے اور سونے کا بندوبست کیا۔ جن مسلمانوں کو میلہ ایریا سے باہر کر دیا گیا انہوں نے میلے میں آنے والے ہندو عقیدت مندوں کے لیے اپنی مسجدوں، مدرسوں اور امام باڑوں کے دروازے کھول دیے۔ مسلمانوں کے اس برتاؤ کا سوشل میڈیا میں والہانہ استقبال ہو رہا ہے۔ تجربہ کار صحافی اور فلم ساز ونود کاپڑی نے اپنے ایکس پوسٹ میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’’نفرت کے سوداگروں نے مسلمانوں کو میلے میں شرکت سے روک دینے کا مطالبہ کیا لیکن کمبھ کے باہر ہندو عقیدت مندوں کے لیے ان کی محبت کو کوئی کیسے روک سکتا ہے؟‘‘
پاکستانی مولانا سے سوال پوچھنے پر سنبھل میں گرفتاری
اتر پردیش کے سنبھل میں پولیس نے ایک مسلم نوجوان کو پاکستانی مولانا سے آن لائن سوال کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ عقیل نام کے اس نوجوان نے پاکستانی مولانا سے سنبھل کے پرتشدد واقعات میں مارے گئے نوجوانوں کی شہادت پر سوال پوچھا تھا۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے ملک سے غداری کی دفعات میں اس کے خلاف مقدمہ درج کیا اور پولیس کافی تلاش کے بعد عقیل کو گرفتار کر سکی۔ سنبھل پولیس عقیل کی گرفتاری کو اہم کامیابی قرار دے رہی ہے۔ جبکہ سوشل میڈیا پر لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کسی پاکستانی مولانا سے آن لائن سوال پوچھنا ملک سے غداری کیسے ہوگئی؟
دوسری جانب سنبھل میں ایک پولیس افسر پر ہندوؤں کی مذہبی یاترا میں ہنومان جی کا گدا لے کر چلنے پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی جبکہ حقوق انسانی کمیشن نے پولیس کے اعلیٰ حکام کو شکایت پر کارروائی کی ہدایت دی ہے۔ سابق آئی پی ایس افسر امیتابھ ٹھاکر نے انوپ چودھری نام کے اس پولیس افسر کی شکایت اتر پردیش کے ڈی جی پی سے کی تھی، انہوں نے انوج چودھری کے عمل کو اتر پردیش سرکاری ملازم ضابطہ اخلاق 1956 اور یو پی کے ڈی جی پی کے 6 اکتوبر 2014 کو جاری کردہ سرکلر کے خلاف قرار دیا جس کے مطابق کوئی بھی پولیس ملازم ڈیوٹی کے دوران مذہبی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتا۔ ڈی آئی جی مرادآباد کی ہدایت پر انوپ چودھری کے خلاف جانچ ہو رہی ہے جبکہ عقیل کو محض ایک سوال پوچھنے پر سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا؟
گاندھی جی کا خطاب واپس لینے کا عجیب و غریب مطالبہ
بابائے قوم گاندھی جی کی یوم وفات 30 جنوری کو بھارت سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے لیکن اس سال میرٹھ میں بابائے قوم کی برسی پر عجیب و غریب مطالبہ سامنے آیا۔’اکھل بھارت ہندو سبھا‘نامی تنظیم نے اس موقع پر گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گھوڈسے کو بعد از مرگ اعزاز سے نوازا اور تنظیم کے رہنما اشوک شرما نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ بابائے قوم سے ’فادر آف دی نیشن ‘ کا خطاب واپس لیا جائے۔ یاد رہے کہ ہندو سبھا نومبر کو ہر سال بلیدان دیوس کے طور پر مناتی ہے۔ 15 نومبر 1949 کو گاندھی کے قاتل گھوڈسے اور آپٹے کو پھانسی دی گئی تھی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ہندو مہاسبھا گاندھی کے جسم کے ساتھ ان کی روح کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ بھارت سے گاندھیائی فکر کا خاتمہ کیا جا سکے ۔
اتر اکھنڈ میں یو سی سی کی مخالفت!
پہاڑی ریاست اتر اکھنڈ نے آخر کار یکساں سِول کوڈ نافذ کر دیا ہے، ملی تنظیموں کی مخالفت کے باوجود ریاستی حکومت نے درج فہرست قبائل کو چھوڑ کر سب کے لیے ایک سا سِول کوڈ لاگو کر دیا تاہم مسلمانوں کے علاوہ’اتر اکھنڈ کرانتی دل‘ نے بھی یو سی سی کے کچھ ضابطوں کی مخالفت کی ہے۔ اس تنظیم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یو سی سی کے کچھ ضابطے خاص طور پر لٖیو ان ریلیشن شپ کے رجسٹریشن کو قانونی طور پر تسلیم کرنا ریاست کی ثقافت کے خلاف ہے۔ تنظیم نے گزشتہ جمعہ کو دہرادون کے کچھ علاقوں میں ریلی نکال کر اپنی مخالفت درج کروائی۔ ان کے مطابق ریاست میں ایک سال تک رہنے والے باشندوں کو عارضی سکونت سرٹیفیکیٹ دینے سے صوبے کے اصل باشندوں پر منفی اثر پڑے گا ۔واضح رہےکہ اس سے پہلے جمیعت علماء ہند نے یو سی سی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور بریلی کی مسلم جماعت نے بھی یو سی سی کی پرزور مخالفت کی ہے۔ مسلم جماعت کے صدر مولانا شہاب الدین رضوی نے اپنے بیان میں کہا اتراکھنڈ کے وزیراعلی پشکر سنگھ دھامی ہندتوا کے علمبردار بننا چاہتے ہیں۔ یو سی سی نافذ کرنے کا فیصلہ ایک طرفہ ہے اس سے کسی بھی طبقے، اور خاص طور پر مسلمانوں سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ واضح رہے کہ اتر اکھنڈ کے سوا تمام ریاستیں یو سی سی کے نفاذ سے انکار کر چکی ہیں۔ میگھالیہ کے وزیر اعلی کورناڈ سنگما نے حال ہی میں کہا کہ ملک کی متنوع ثقافتی اور قبائلی برادریوں کی موجودگی میں یو سی سی کا نفاذ نہ تو عملی طور پر ممکن ہے اور نہ ہی مناسب ہے۔ یو سی سی ہمارے ایجنڈے میں نہیں ہے۔ قانونی ماہرین بھی مانتے ہیں کہ یکساں سِول کوڈ مرکزی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے۔ دستور کی رہنما ہدایات میں اسی سے اتفاق رائے بنانے کی خواہش کی گئی ہے، کسی ریاستی حکومت کا بنایا ہوا یو سی سی سپریم کورٹ میں کس حد تک ٹھیر پائے گا یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔
مدھیہ پردیش میں ویاپم کی طرز پر امتحانات میں پھر گھپلا
’مدھیہ پردیش لوک سیوا آیوگ‘ کے امتحانات میں اثر و رسوخ رکھنے والوں کی اولادوں کو انٹرویو میں زیادہ نمبرات دینے کا گھپلا سامنے آیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایم پی پی ایس سی کے امتحانات میں ٹاپ کرنے والے امیدواروں کو انٹرویو میں کم نمبرات دیے گئے اور تحریری امتحانات میں ناکام رہنے والے امیدواروں کو انٹرویو میں زیادہ نمبرات دے کر ڈپٹی کلکٹر بنا دیا گیا ہے۔ ان میں مقامی لیڈروں اور اثر و رسوخ رکھنے والے والدین کے بچے شامل ہیں۔ ’نیشنل ایجوکیٹڈ یوتھ یونین‘ کے طلبہ نے الزام لگایا ہے کہ انٹرویو کے درمیان ایمانداری اور شفافیت نہیں برتی گئی۔ یونین نے پریس کانفرنس کر کے اس کی جانکاری دی اور مثالوں سے واضح کیا کہ کس طرح سیکڑوں امیدواروں کے مستقبل سے کھلواڑ کیا گیا۔ یونین نے اس طرح کے تمام طلبہ کی فہرست جلد جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اودھیش کمار نام کے ایک صارف نے ایکس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ویاپم کی جائے پیدائش میں آپ کا خیر مقدم ہے۔ مدھیہ پردیش کی سنگل انجن سرکار نے ویاپم کا کامیاب گھپلا کیا تھا اب تو ڈبل انجن کی سرکار ہے اب تو کھلا کھیل فرخ آباد میں چل رہا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے میڈیکل داخلوں کے ٹیسٹ میں بڑے پیمانے پر گھپلا ہوا تھا جسے ویاپم کا نام دیا گیا۔ اس میں آر ایس ایس سے جڑے کئی افراد کے نام سامنے آئے ،کئی گواہوں کو قتل کر دیا گیا لیکن آج تک پورے حقائق منظر عام پر نہیں آسکے۔
بہار کے محکمہ تعلیم میں بدعنوانی کی مثال
بہار کے ضلع بیتیا میں تعلیمی افسر کے گھر سے چھاپے کے دوران کروڑوں روپے کی نقدی اور زمین و جائیداد کے دستاویزات ضبط کیے گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مغربی چمپارن کے ضلع تعلیمی افسر رجنی کانت پروین نے رشوت کا پیسہ گھر میں چھپا رکھا تھا۔ویجلینس کی ٹیم نے جب ان کے گھر اور ٹھکانوں پر دھاوا بولا تو اتنا کیش برآمد ہوا کہ نقدی گننے کے لیے کیش مشین منگوانی پڑی۔ فی الحال رجنی کانت کو معطل کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف محکمہ جاتی جانچ چل رہی ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب ضلعی سطح کے افسر کے پاس رشوت کی اتنی بڑی رقم برآمد ہوئی ہے تو محکمہ کے اعلیٰ حکام کیا کر رہے تھے کیا انہیں اپنی ناک کے نیچے اتنی بڑی بدعنوانی کا علم نہیں تھا اور اگر تھا تو انہوں نے اس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟
سابق ایم ایل اے کا بیٹا کیوں بنا چین اسنیچر؟
گجرات کے شہر احمد آباد میں ایک خاتون کے گلے سے چین چھیننے کی تصویریں وائرل ہوئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق چین چھیننے والا ایم پی کے سابق رکن اسمبلی کا بیٹا ہے۔ پرادھیومن سنگھ چندراوت جو وجیندر سنگھ چندراوت کا بیٹا ہے جس نے احمدآباد میں ایک خاتون کے گلے سے چین چھینی ہے۔ پولیس نے تقریبا ًڈھائی سو سی سی ٹی وی فوٹیجوں کو کھنگالنے کے بعد اس کو گرفتار کر لیا ہے۔چندراوت نے پولیس کو بتایا کہ اس نے اپنی گرل فرینڈ کے اخراجات پورےکرنے کے لیے اس واردات کو انجام دیا ہے۔ اس پر شرما نام کے ایک صارف نے ایکس پر تبصرہ کیا "اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے کیا حالات ہو گئے ہیں؟ اب تو ایم ایل اے کے بیٹے نے بھی کھلے عام چھینا جھپٹی شروع کر دی ہے” ایک دوسرے صارف نے لکھا "اسے آپ بے روزگاری مانیں گے کہ نہیں؟
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا ۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 فروری تا 15 فروری 2025