کمبھ کی بھگدڑ پہنچی بجٹ اجلاس کے اندر
مہا کمبھ حادثے پر پارلیمان میں بحث: ا کھلیش یادو اور اپوزیشن کا شدید احتجاج
ڈاکٹر سلیم خان
سپریم کورٹ میں کمبھ میلے کی بھگدڑ پر مفاد عامہ کی عرضی: یوگی حکومت کٹہرے میں
مودی سرکار میں شامل لوگ خود کو بہت ہوشیار سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں نے سوچا بجٹ کے ساتھ وقف ترمیمی بل پیش کریں گے۔ حزب اختلاف اس پر ہنگامہ کرے گا تو بجٹ پر بحث ٹل جائے گی لیکن کمبھ میلے میں رونما ہونے والے حادثات نے سارا کھیل بگاڑ دیا۔ اپوزیشن تو بجٹ کی پیشکش کے دوران ہی شور شرابہ کرکےواک آوٹ کرگیا اور چھٹی کے بعد واپس آیا تو پھرمرنے والوں کی تعداد بتانے پر اصرار کرنے لگا ۔ اس طرح ترمیمی بل کی پیشکش کم ازکم پہلے دن تو ملتوی ہوگئی۔ مودی حکومت اپنی تیسری مدت کا پہلا مکمل بجٹ پیش کرنے کی تیاری میں تھی کہ اچانک وزیرا عظم ایوانِ پارلیمان کے باہر ہنس دروازے پر نامہ نگاروں کے سامنے حاضر ہوگئے۔ پریس کانفرنس کرنے کی جرأت تو ان میں اب بھی نہیں آئی مگر اپنے یکطرفہ بیان میں نریندر مودی نے پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس سے قبل اپوزیشن کے ہنگامے کا بہانہ بننے والی کسی غیر ملکی رپورٹ کے نہ آنے پر راحت کی سانس لیتے ہوئے کہا کہ 2014 کے بعد سے پارلیمنٹ کا یہ پہلا اجلاس ہے جس میں ایک دو دن پہلے کوئی ‘غیر ملکی چنگاری’ نہیں پکڑی ، بیرون ملک سے ‘آگ لگانے’ کی کوئی کوشش نہیں کی گئی حالانکہ اس چنگاری کو ہوا دینے والوں کی خود اپنے ملک میں کوئی کمی نہیں ہے۔
اقتدار پر فائز رہنما اگر حزب اختلاف کو بیرونی ممالک میں ہونے والی سازش کا حصہ سمجھتا ہو تو اس کے ساتھ افہام و تفہیم کی توقع کیسے کی جائے؟ وہ اگر تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے تو بھلا اس سے اصلاحِ حال کی امید کون باندھے؟ وزیر اعظم اپنے طنز و تشنیع سے حزب اختلاف کو برگشتہ کرتے ہوئےیہ امید جتانے لگے کہ اس بجٹ سیشن میں تمام ممبران پارلیمنٹ ترقی یافتہ ہندوستان کو مضبوط بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ انہوں نے خاص طور پر نوجوان ارکان پارلیمنٹ کو مخاطب کرکے کہا کہ یہ ان کے لیے سنہری موقع ہے۔ راہل گاندھی اور اکھلیش یادو کا شمار اگر وہ نوجوان ارکان پارلیمان میں نہیں بھی کرتے ہوں تب بھی ملک کا شباب انہیں اپنا قائد مانتا ہے۔ایوان میں دوسروں کو بیداری اور شراکت داری کی ترغیب دینے والے وزیر اعظم کو ان کے تئیں اپنا رویہ درست کرنا پڑے گا ۔ موصوف ترقی یافتہ ہندوستان کا پھل اپنی آنکھوں سے دیکھنے کےلیے نوجوان ارکان پارلیمنٹ سےملک کی امیدوں اور امنگوں پر پورا اترنے کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن جب وہ سرکار سے اختلاف کرنے کے لیےمنہ کھولتے ہیں تو ان کا مائک بند کردیا جاتا ہے ایسے میں حکومت کاان سے تائیدو حمایت کی امید رکھنا کارِ عبث ہے۔
وزیر اعظم کو سر سنگھ چالک موہن بھاگوت تک نے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ ایوان میں لوگ اس لیے اختلاف کرتے ہیں تاکہ بہتر فیصلوں تک رسائی ہوسکے اس لیے حزب اختلاف کو دشمن نہ سمجھا جائے لیکن یہ نصیحت صدا بصحرا ثابت ہوئی ورنہ مودی ایسے بچکانہ بیانات نہیں دیتے ۔ مودی سرکار میں پہلی بار ایک جے پی سی بنی اور وقف بل کو اسے سونپا گیا۔ جے پی سی کے اندر ظاہر ہے سب سے زیادہ ارکان متحدہ قومی محاذ(این ڈی اے) کے تھے ۔ ان لوگوں نے بزورِ کثرت حزب اختلاف کی جانب سے پیش ہونے والی تمام44؍ ترمیمات کو مسترد کردیا۔ اس کے برعکس حزب اقتدار کی جانب سے پیش ہونے والی نصف سے زیادہ یعنی 14 ؍ترمیمات قبول کرلی گئیں اگر یہی کرنا تھا تو اس تماشے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ ایوان کے اندر یہ دادا گیری ہوسکتی تھی۔ سرکار کا یہ رویہ بتاتا ہے کہ بیساکھیوں پر سوار رسیّ توضرور جل گئی ہے مگر اس کے بل نہیں گئے، اس کے لیے اب مزید تپش درکار ہے۔
وزیر اعظم نے جب کہا کہ ہمیشہ کی طرح اس اجلاس میں بھی بہت سے تاریخی دن ہوں گے اور وسیع غور و خوض کے بعد ایسے قوانین بنائے جائیں گے جو قوم کی طاقت بڑھانے کا کام کریں گے تو یقیناً ان کا اشارہ وقف بل کی جانب تھا جس کے ذریعہ مسلمانوں کی املاک کو ہڑپنے کی مذموم سازش رچی جارہی ہے۔ اس تناظر میں وزیر اعظم کا ہندوستانی جمہوریہ کے 75 سال مکمل ہونے کو ہر شہری کے لئے سب سے قابل فخر لمحہ قرار دینا کیونکر درست ہوسکتا ہے؟ وہ فرماتے ہیں جمہوری دنیا کے لئے بھی ہندوستان کی یہ طاقت اپنی ایک خصوصی جگہ بناتی ہے لیکن دوسروں کے املاک پر ناجائز قبضہ کرکے بنایا جانے والا نام نہاد خصوصی مقام پر ہر کوئی لعنت ہی بھیجے گا ۔ کیا اس طرح کی لوٹ کھسوٹ کرکے مودی ملک کو ہمہ جہتی ترقی کی طرف مشن موڈ پر لے جائیں گے؟ اور اس سے جغرافیائی، سماجی یا مختلف اقتصادی سطحوں پر ہمہ جہت ترقی ہوگی؟ اورکیا یہی ان کا ’جدت، شمولیت اور سرمایہ کاری کے ذریعہ مسلسل اقتصادی سرگرمیوں کا روڈ میپ‘ ہے؟ نت نئے طریقوں سے عوام کے استحصال کو جدت کا چولہ پہنانا اور شمولیت کے نام پر عوام میں تفریق ڈال کر سرمایہ داروں کی مدد کرنا ترقی نہیں تنزلی کی علامت ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی بجٹ اجلاس سے دو دن پہلے کسی غیر ملکی چنگاری نہیں ابھرنے اور بیرون ملک آگ نہ بھڑکائے جانے پر خوش ہوتے ہوئے بھول گئے کہ امریکہ میں رہنے والے لاکھوں ہندوستانیوں کے سر پر عدم تحفظ کی تلوار لٹکنے لگی ہے۔ ان کے جگری دوست ٹرمپ نےغیر قانونی ہندوستانیوں سمیت لاکھوں نقل مکانی کرنے والوں کو ملک بدر کرنے کا تہیہ کرکھاہے۔ اس نے اپنے ارادوں کو روبہ عمل لاتے ہوئے بڑی تعداد میں لوگوں کو نہایت ذلت آمیز طریقہ پر گرفتار کرنا شروع کردیا ہے۔ ان غیر قانونی طور پر امریکہ میں رہنے والوں میں سب سے بڑی تعداد خود ان کی جنم بھومی گجرات کے لوگوں کی ہے اور ایسا صرف مودی کے 10 سال نہیں بلکہ امریکی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے۔ یہ کسی بھی رپورٹ سے بڑی آگ ہے مگر مودی جی کو اس کا احساس نہیں ہے۔ مودی کسی رپورٹ کے نہیں آنے پر ملک کے اندر اس کو ہوا دینے والوں کی بے بسی پر بغلیں بجارہے ہیں جبکہ امریکہ میں ہندوستانیوں پر شعلے برس رہے ہیں ۔ پہلے مرحلے میں تو اس سے اٹھارہ ہزارہندوستانی جھلسیں گے مگر آگے چل کر ساڑھے سات لاکھ زد میں آسکتے ہیں۔ کاش کہ مودی جی اس کا حل سجھاتے لیکن یہ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔
وزیر اعظم نے یاد دلایا کہ ملک کے عوام نے انہیں تیسری بار یہ ذمہ داری سونپی ہے اور تیسری مدت کے پہلے مکمل بجٹ میں پہلی بار باہر سے چنگاری نہیں آئی مگر وہ بھول گئے کہ اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ ان کی کرم بھومی اترپردیش میں کمبھ میلے کے اندر تین مرتبہ آگ کے شعلے خیموں کو بھسم کرچکے ہیں اور ان کی تپش بجٹ اجلاس کو خاکستر کرنے کے لیے کافی ہے۔ سپنوں کے سوداگر نے اپنے خطاب میں یقین کے ساتھ کہا کہ 2047 میں جب ملک آزادی کے 100 سال منائے گا، وہ ترقی یافتہ ہوکر رہے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ ۲۲؍ سالوں تک یہ ملک ترقی پذیر ہی رہے گا اور مودی جی اسے ترقی یافتہ بنانے کے خواب کو پورا نہیں کرسکیں گے کیونکہ
’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘؟
موصوف کی یہ بات صد فیصد درست ہے کہ وہ خواب ملک کے 140 کروڑ باشندوں کی اجتماعی کوششوں سے ہی شرمندۂ تعبیر ہوگا ورنہ سیاستدانوں سے تو خطرہ ہے کہ وہ کہیں اس ترقی پذیر ملک کو پسماندہ نہ بنا دیں کیونکہ انتہا پسند(کرونی) سرمایہ داری میں تو یہی ہوتا ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی ایک طرف حزب اختلاف کو اپنی بدزبانی سے برگشتہ کررہے تھے اور دوسری جانب وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کی صدارت میں پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس سے قبل کل جماعتی نشست کا انعقاد ہوا۔ حزب اختلاف اور حکمراں محاذ کے نمائندوں کو وہاں بتایا گیا کہ پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس 31؍ جنوری کو صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کے خطاب سے شروع ہوگا اور اگلے دن یکم فروری کو عام بجٹ پیش کیے جانے کے بعد صدر کے خطاب پر دونوں ایوانوں میں بحث ہوگی ۔ کل جماعتی میٹنگ میں حکومت نے اپوزیشن لیڈروں سے پارلیمنٹ کی کارروائی میں تعاون کی اپیل کی مگر حزب اختلاف نے حکومت پر واضح کردیا کہ وہ ملک کے مسائل کو اٹھانے سے دریغ نہیں کرے گا ۔اس طرح یہ اشارہ مل گیا کہ یہ اجلاس بھی ہنگامہ خیز ہوگا۔ گزشتہ اجلاس میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے خلاف مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے توہین آمیز تبصرے پر اپوزیشن نے زوردار احتجاج اور مظاہرہ کرکے مرکزی وزیر داخلہ سے استعفیٰ اور معافی کا مطالبہ کرچکاہے۔ اس معاملہ میں پارلیمنٹ کے احاطے میں دھکامکی کا مبینہ واقعہ کو اپوزیشن نے گوتم اڈانی اور امیت شاہ سے دھیان ہٹانے کا حربہ قراردیا تھا۔ اس اجلاس میں پھر سے یہ جن بوتل سے باہر آ گیا اور کانگریس کےایوان بالا کے رکن رندیپ سُرجیوال نے اس معاملے کو فوقیت دے کر بحث کروانے کی بات اٹھائی۔
حزبِ اختلاف کی فہرست میں شاہ جی تو پہلے سے موجود تھے مگر اب اس میں کمبھ کے بھگدڑ کا واقعہ زور وشور سےشامل ہوگیا ۔مشترکہ نشست کے بعد کانگریس رہنما پرمود تیواری نے نامہ نگاروں سے کہا کہ اپوزیشن لیڈروں نے فیصلہ کیا ہے وہ کمبھ کا واقعہ، بے روزگاری اور کسانوں کے مسائل اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کل جماعتی اجلاس میں کمبھ کے واقعہ پر بھی گفتگوہوئی۔ کل جماعتی میٹنگ سے باہر آتے ہوئے تیواری نے مہا کمبھ کی مبینہ سیاست پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مہا کمبھ کے دوران وی آئی پیز کی نقل و حرکت عام آدمی کے لئے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ انہی کے مطابق اجلاس کے دوران بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور کسانوں کے علاوہ لوگوں کے مسائل کو اجاگر کیا جائے گا۔انڈیا محاذ میں شامل حزب اختلاف کی جماعتوں نے مہا کمبھ میں بدانتظامی کے سبب 30 لوگوں کی موت پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فوت ہونے والوں اور زخمیوں کی سرکاری گنتی میں مزید شفافیت کی ضرورت ہے۔
کمبھ کے معاملے میں سماجوادی پارٹی سب سے زیادہ مشتعل ہے۔ اس نے الزام لگایا کہ زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو راغب کرنے کے لیے کمبھ کو مہاکمبھ کہا جا رہا ہے ۔ایوانِ پارلیمان میں جانے سے پہلے ہی اکھلیش نے صاف کر دیا کہ وہ مہا کمبھ میں بھگدڑ کا معاملہ اٹھائیں گے۔اس کے بعد پورے حزب اختلاف نے یہ مطالبہ کر نا شروع کیا تو بجٹ کی پیشکش میں خلل پڑ نے لگا ۔ اس کے سبب اکھلیش پر لوک سبھا اسپیکر اوم برلا برہم ہوگئے۔انہوں نے کہہ دیا کہ آگے چل کر ان کو اپنے خیالات پیش کرنے کا موقع ملے گا، اس لیےبجٹ کی تقریر میں خلل نہ ڈالیں۔ اس نصیحت کا کسی پر اثر نہیں ہوا اور عام بجٹ کی پیشکش کے دوران ہی اپوزیشن نے ہنگامہ شروع کیا اور اس میں اکھلیش یادو پیش پیش تھے۔ اوم برلا نے ایس پی صدر کو بجٹ کی روایت کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا اوریہ دھمکی دی کہ ا نہیں آخری موقع دیا جارہا ہے لیکن اس کا بھی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا یہاں تک کہ حزب اختلاف احتجاجاً باہر چلا گیا۔
اپوزیشن ارکان کا اصرار تھا کہ پریاگ راج مہا کمبھ میں افراتفری کی وجہ سے ہونے والی بھگدڑ پر بحث ہونی چاہئے۔اس معاملے میں اکھلیش کے تیور بہت تیکھے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ مہاکمبھ کرانے میں ناکا م حکومتی بجٹ کے سبھی اعداد و شمار جھوٹ پر مبنی ہیں ۔ پارلیمنٹ کے احاطے میں شدید غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے اکھلیش یادو نے کہا کہ ہمارے لیے بجٹ سے زیادہ اہم مہاکمبھ میں ہونے والی اموات کے اعداد و شمارکی معلومات ہے ۔ وہ بولے ہم بجٹ کے اعداد و شمار کا کیا کریں گے ، ہمیں کمبھ کے دوران ہونے والی اموات کی تعداد بتائی جائے ۔ لوگ اب بھی تصویریں اٹھائے اپنے پیاروں کی تلاش میں در بدر بھٹک رہے ہیں۔ حکومت کی 17 گھنٹے والی تاخیر پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے صاف کہا کہ مہاکمبھ میں ہونے والی اموات کے اعداد و شمار غلط ہیں۔اکھلیش یادو کے سوالات واجب ہیں کہ مہاکمبھ میں لگے ہزاروں سی سی ٹی وی کیمرے اور ڈرون کے باوجود یوگی حکومت کے پاس اعداد و شمار کیوں نہیں ہیں؟ جو حکومت ہندوؤں کے سب سے بڑے مہاکمبھ کا انعقاد نہیں کر پا رہی ہے وہ دنیا کی معیشت کو کیسے کھڑا کر ے گی؟وہ ترقی یافتہ ہندوستان کی بات کرتے ہیں، کیا ترقی یافتہ ہندوستان میں لوگ نہا بھی نہیں پائیں گے ؟
اکھلیش یادو نے شنکراچاریہ اوی مکتیشور آنند سرسوتی کا حوالہ دے کر کہا کہ وہ کھلے عام وزیر اعلیٰ کو جھوٹا کہہ ر ہے ہیں ۔ ان کے مطابق سنت اور شنکراچاریہ سمیت عوام و خواص یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سے برا مہاکمبھ نہیں ہو سکتا تھا۔ وہاں لوگوں کی لاشیں پڑی تھیں اور اس وقت حکومت وہاں پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہی تھی۔اکھلیش نے پوچھامرنے والوں پر پھول نچھاور کیے گئے یا وی آئی پی زائرین پر پھول برسائے گئے ؟ اکھلیش کے تیور سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بی جے پی سرکار کو کمبھ میلے کے سنگم پر غرقاب کرکے دم لیں گے۔ کمبھ میلے کی یہ بھگدڑ ایوانِ پارلیمان کے علاوہ عدالتِ عظمیٰ میں بھی پہنچ چکی ہے۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ کے اندر ایک مفاد عامہ عرضی (پی آئی ایل) داخل کی گئی ہے۔مذکورہ بالا عرضی میں تین بنیادی پہلو اٹھائے گئے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ ملک بھر سے آنے والے عقیدت مندوں کے لیے تحفظ کے انتظامات کی خاطر واضح رہنمائی حاصل کرنا اور رہنما اصولوں کے نافذ کے متعلق ہدایات کی استدعا کرنا ۔ اس کا مطالبہ مذکورہ حادثہ کے لیے ذمہ دار افسروں کے خلاف کارروائی ہے۔ انتظامیہ کی سزا کا حق اس وقت تک ادا نہیں ہوسکتا کہ جب تک اس کے سیاسی آقا کو سزا نہ دی جائے۔
وشال تیواری نامی وکیل کی عرضی میں سبھی ریاستوں کو ہدایات جاری کرنے کی مانگ کی گئی ہے کہ وہ پریاگ راج میں واقع اپنے سہولت مراکز پر عقیدت مندوں کو تحفظ کے انتظامات اور رہنما اصول کے بارے میں بنیادی جانکاری دستیاب کرائیں۔اس عرضی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یوگی انتظامیہ ملک کے مختلف حصوں سے آنے والے عقیدت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہے اس لیے دوسری ریاستوں سے آنے والے والوں کو مسائل کے حل کی خاطرسبھی ریاستی حکومتوں کو ڈاکٹروں اور نرسوں کی میڈیکل ٹیم تعینات کرنے کی ہدایت پر بھی زور دیا گیا ۔ وہاں پرمختلف زبانوں میں اعلان، رہنما اصول اور سڑکوں کی رہنمائی کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ یہ سارے امور تو ایسے ہیں اس پر عدالت کو ہدایت دیتے دیتے اگلا کمبھ کا میلہ آجائے گا لیکن بھگدڑ کے ذمہ دار خاطی افسروں پر کارروائی کا مطالبہ فوری توجہ کا حامل ہے ۔ اس تناظر میں یہ مانگ سب سے اہم ہے کہ اتر پردیش حکومت کو 29 جنوری 2025 کی شب مہا کمبھ میں ہونے والی بھگدڑ پر ایک اسٹیٹس رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی جائے تاکہ حادثے کے لیے ذمہ دار افسروں اور ملازمین کے خلاف قانونی کارروائی شروع ہوسکے۔ان حادثات کے دباو کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے دہلی انتخاب میں ووٹنگ کے دن سنگم میں ڈبکی لگانے سے کترا رہے ہیں ۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 فروری تا 15 فروری 2025