کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا؟

ہریانہ و کشمیر کے بعد مہاراشٹر میں سیاست تیز

ڈاکٹر سلیم خان

کوئی میٹرو ریل کا مسافر تو کوئی ٹیمپو ڈرائیور کا مہمان!
ہریانہ اور جموں و کشمیر سے فارغ ہوتے ہی ہندوستانی سیاست کے چنگو منگو مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں جٹ گئے۔ منگو مہاراشٹر سے لوٹے تو چنگو واشم، تھانے اور ممبئی کے دورے پر آدھمکے مگر ان کے ساتھ رنگو نے بھی کولہاپور میں قدم رنجا فرمایا۔ اس طرح گویا ایک بہورنگی (رنگ برنگا سیاسی) تماشا زور و شور سے شروع ہوگیا۔ وزیر اعظم مودی نے فی الحال پردھان منتری کا چولا اتار کر پرچار منتری کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کی بھی تمام توجہات کا مرکز انتخابی مہم بن گئی ہے۔ ان دونوں کے درمیان ’’تم ڈال ڈال ہم پات پات‘ کا کھیل چل رہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے اثرات زائل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس لیے ایک بنجارہ سماج کے لیے ٹسوے بہاتا ہے تو دوسرا پسماندہ سماج کی تاریخ چھپانے کا الزام لگاتا ہے۔ ایک اپنے مخالفین کو ’اربن نکسل‘ کے خطاب سے نوازتا ہے تو دوسرا انہیں شیواجی اور آئین کا دشمن قرار دیتا ہے۔ ایک میٹرو ریل میں سفر کرنے کا ناٹک کرتا ہے تو دوسرا ایک ٹیمپو ڈرائیور کے گھر جاکر ہمدردی کا ڈھونگ رچاتا ہے لیکن راہل گاندھی کے اندر بلا کی خود اعتمادی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے چہرے پر شدید تناؤ کے آثار صاف دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں راحت اندوری کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ یاد آتا ہے؎
مودی و شاہ پر تناؤ ہے کیا؟
کچھ پتہ تو کرو چناو ہے کیا؟
وزیر اعظم مودی نے اپنے دورے کی ابتدا شہر واشم سے کی اور کہا :’’ہریانہ میں آج ووٹنگ ہو رہی ہے‘‘۔ مودی کا یہ فارمولا گھسا پٹا ہو گیا ہے کہ انتخابی مہم ختم ہو جانے پر رائے دہی کے دن کسی اور شہر میں جلسہ کرکے اسے ٹیلی ویژن والے نشر کر دیتے ہیں۔ اس طرح پابندی کو پامال کرکے آخری لمحہ میں ووٹروں کو متاثر کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اب وہ جادو بھی فیل ہوگیا ہے اور اب لوگ بے زار ہونے لگے ہیں۔ وزیر اعظم اپنے خطاب میں ہریانہ کے تمام محبانِ وطن سے زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈالنے کی اپیل کرتے ہوئے بھول گئے کہ ریاست کے لوگ خود انہی کے خلاف بڑے جوش و خروش کے ساتھ ووٹ دے رہے ہیں۔ ویسے ان کی یہ بات درست ہے کہ ’’آپ کا ووٹ ہریانہ کو ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جائے گا‘‘ کیونکہ ہریانہ والوں کو بی جے پی کی نفرت انگیزی کرنے والی جھوٹی اور بدعنوان حکومت سے نجات مل جائے گی۔
وزیر اعظم نے اس موقع پر مہاراشٹر میں وزیر اعلیٰ کے نام سے چلائی جانے والی ’لاڈلی بہن یوجنا‘ کا کریڈٹ لینے کی مذموم حرکت بھی کر ڈالی۔ انہوں نے واشم میں تعمیر ہونے والے بنجارہ ہیریٹیج میوزیم کی تعمیر کا کریڈٹ دیویندر پھڈنویس کی پرانی حکومت کو دے کر موجودہ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کو مزید ناراض کر دیا۔ بنجارہ سماج کی ناز برداری میں وہ یہ تک بول گئے کہ ’’جس کو کسی نے نہیں پوچھا، مودی ان کو پوجتا ہے۔ ہماری بنجارہ برادری نے ہندوستان کی سماجی زندگی اور ہندوستان کی تعمیر کے سفر میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ فن، ثقافت، روحانیت، قومی دفاع اور کاروبار کے ہر شعبے میں اس معاشرے کے عظیم انسانوں نے ملک کے لیے کیا کچھ نہیں کیا‘‘۔ اس بات کو درست مان لیا جائے تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ پھر ان خدمات کے عوض ان کو کیا ملا؟ کیونکہ مودی کے آشیرواد سے ساری ملائی تو گجرات کے اڈانی اور امبانی کی جیب میں جا رہی ہے۔
مودی کے مطابق کانگریس کی پالیسیوں نے اس سماج کو مرکزی دھارے سے کاٹ کر رکھ دیا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اپنے دس سالوں اور اس سے قبل اٹل بہاری واجپائی کے چھ سالوں میں بی جے پی نے کون سا تیر مار لیا؟ مودی کے مطابق ’جس خاندان نے آزادی کے بعد کانگریس پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی، اس کی سوچ شروع سے ہی غیر ملکی رہی ہے‘ لیکن انگریزوں کے مقابلے میں جنگ آزادی میں تو وہی پیش پیش تھے جبکہ ان کا اپنا سنگھ پریوار انگریزی استعمار کے تلوے چاٹتا اور ان کے لیے مخبری کرتا تھا۔ کانگریس پر دلتوں، پسماندہ طبقات اور قبائلیوں کی تضحیک کا الزام لگانے والے مودی کو پہلے گجرات اور مدھیہ پردیش میں ان کے ساتھ ہونے والے بدترین سلوک کو روکنا چاہیے۔ منی پور کے قبائلیوں کو پچھلے ڈیڑھ سال سے بی جے پی کا ڈبل انجن روند رہا ہے مگر انتخابی مہم میں مصروف وزیر اعظم یا وزیر داخلہ کو وہاں جانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ مودی کی آدی واسی نوازی کا پول تو ان کے دورے سے ایک دن اپوزیشن میں شامل ڈپٹی اسپیکر نے اپنے قبائلی ارکان اسمبلی کے ساتھ ایوانِ اسمبلی کی عمارت میں تیسری منزل سے جالی پر چھلانگ لگا کر کھول دیا۔ یہ ڈبل انجن سرکار اگر قبائلیوں کی اس قدر بہی خواہ ہے تو اس کے اپنے لوگ احتجاج پر کیوں مجبور ہوتے؟
وزیر اعظم جس وقت واشم میں خطاب کر رہے تھے اس وقت کولہاپور میں راہل گاندھی نے کہا کہ اسکولوں میں نہ صرف دلتوں یا پسماندہ طبقات کی تاریخ نہیں پڑھائی جا رہی ہے بلکہ الٹا اسے مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال احمد نگر کانام بدل کر اہلیہ بائی نگر رکھنا ہے۔ راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں کہا کہ کانگریس-انڈیا اتحاد ذات پات کی مردم شماری کرائے گا۔ کیونکہ ہم ملک کی حقیقت کو سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس ملک کی دولت سے کون سا طبقہ فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ملک میں برپا موجودہ سیاسی کشمکش کو انہوں نے نظریات کی جنگ قرار دیا اور کہا کہ ایک طرف کانگریس پارٹی ہے اور دوسری جانب بی جے پی۔ ہم سب کو متحد کرکے سماجی ترقی کرنے کے خواہش مند ہیں اور یہ نہیں چاہتے کہ مخصوص چنندہ (نام نہاد اعلیٰ ذات کے) لوگوں کو ہی سارے فوائد ملیں۔
سنگھ پریوار کے لیے یہ ناقابلِ برداشت حملہ ہے اس لیے مودی نے الزام لگا دیا کہ آج کانگریس کو پوری طرح سے اربن نکسل گینگ چلا رہی ہے۔ وہ ہمیں آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہاں مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر لوگوں کو آپس میں لڑانے کا کام کون کر رہا ہے۔ مودی کے چہیتے امریکہ کی حالیہ رپورٹ پھر ایک بار ان کے خلاف گواہی دے رہی ہے۔ مودی نے دس سال قبل اروند کیجریوال کو اربن نکسل کہا تو دہلی والوں نے کمل پر جھاڑو پھیر دیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن بی جے پی ریاستی اقتدار کے قریب نہیں پھٹک سکی ہے۔ اب وہ کانگریس کو انہیں القاب سے نواز رہے ہیں اور مہاراشٹر کے لوگ بھی کانگریسی پنجے سے بی جے پی کے کمل کا گلا گھونٹ کر اسے وہی سبق سکھا دیں گے۔ مودی جب یہ کہہ رہے تھے کہ ہندوستان کو ترقی سے روکنے والے لوگ ان دنوں کانگریس کے قریبی دوست ہیں۔ تو عوام کے ذہن میں اچانک وزیر اعظم کے قریبی اڈانی اور امبانی کی شبیہ آگئی ہوگی جو چاروں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ وہ مکیش امبانی کے گھر پر شادی میں شرکت کرنے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ مہاراشٹر کے لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہاں سے کتنے بڑے بڑے پروجکٹ گجرات منتقل کردیے گئے ہیں اور ممبئی کے مقابلے میں احمد آباد کو ملک کی اقتصادی راجدھانی بنانے کی خاطر کون کون سی سازشیں رچی گئیں۔
وزیر اعظم نے حال ہی میں دہلی میں ہزاروں کروڑ روپے کی منشیات پکڑے جانے کا ذکر کیا جو کہ جھوٹ ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس کی قیمت صرف 562 کروڑ روپے ہے جبکہ 30 ہزار کروڑ روپوں کی ہیروئن تو ان کی جنم بھومی گجرات کے اس بندرگاہ پر پکڑی گئی تھی جسے اڈانی چلاتے ہیں۔ اس پر کیا کارروائی ہوئی کوئی نہیں جانتا۔ وزیر اعظم کے مطابق دہلی والی گینگ کا سرغنہ تشار گوئل کانگریسی ہے جبکہ اسے 2022 میں یوتھ کانگریس سے نکال دیا گیا تھا۔ اس لیے کانگریس پر نوجوانوں کو نشے کی لت میں دھکیل کر اس پیسے سے الیکشن لڑنے کا الزام بچکانہ ہے۔ اس کے برعکس تین ماہ قبل جولائی میں ہندتوا لیڈر اور بی جے پی سے وابستہ وکاس اہیر کو گجرات کی سورت پولیس نے ایم ڈی ڈرگ فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ وکاس اہیر کی سوشل میڈیا پروفائل اسے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ہندو یووا واہنی گجرات کا ریاستی صدر بتاتی ہے۔ وکاس اہیر بی جے پی یووا مورچہ کا بھی رکن رہا ہے۔اس کو نکالنے کی کوئی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ اس لیے دوسروں پر الزام لگانے سے قبل اپنے بغل میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے۔
واشم میں وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ ’’آج پی ایم کسان سماّن ندھی ملک کے 9.5 کروڑ کسانوں کے کھاتوں میں 20 ہزار کروڑ روپے منتقل کیے گئے اور مہاراشٹر کی ڈبل انجن سرکار نے 90 لاکھ سے زیادہ کسانوں کو تقریباً 1900 کروڑ روپے دیے ہیں‘‘۔ سوال یہ ہے اس کے باوجود کسانوں کی خودکشی کے معاملے میں مہاراشٹر سرِ فہرست کیوں ہے؟ یہاں اوسطاً ہر روز سات کسان کیوں خودکشی کرتے ہیں؟ واشم سے متصل ضلع امراوتی میں سب سے زیادہ کسان خودکشی کرنے پر کیوں مجبور ہیں؟ وزیر اعظم مودی نے ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں چلنے والی سابقہ مہااگھاڑی حکومت پر الزام لگایا تھا کہ وہ کسانوں سے متعلق منصوبوں کو روکتی تھی اور ان کے پیسے آپس میں بانٹ کر کھا جاتی تھی۔ یہ الزام لگاتے ہوئے وہ یہ بھول گئے تھے کہ وہ ریاستی حکومت مرکزی مودی حکومت کی مانند نجی ملکیت نہیں تھی۔ اس حکومت میں ایوان کے اندر شیوسینا کے سربراہ ایکناتھ شندے اور نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار تھے۔ اس کے علاوہ بیشتر وزراء وہی تھے جو ابھی این ڈی اے سرکار میں وزیر ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو ریاست کی ترقی روکنے اور کسانوں کا روپیہ کھا جانے کی سزا دینے کے بجائے دوبارہ نائب وزیر اعلیٰ بلکہ وزیر اعلیٰ تک کیوں بنا دیا گیا؟ وہ لوگ اچانک راتوں رات رشوت لے کر اپنی مادرِ تنظیم سے غداری کرنے والے کسانوں کے ہمدرد و بہی خواہ کیونکر ہوگئے؟ اور انہوں نے لوٹ کھسوٹ کا کاروبار کیوں بند کر دیا؟ ایکناتھ شندے اور اجیت پوار کو اپنے اسٹیج پر بٹھا کر ان کی توہین کرنے والے کے آگے وہ دونوں تو بے بس ہیں مگر ریاست کے خود دار عوام وزیر اعظم کو معاف نہیں کریں گے بلکہ سزا دیں گے۔ ریاست کا کسان جانتا ہے کہ دیویندر پھڈنویس کی سرکار نے کسانوں کے قرض معافی کے لیے ایسی شرائط عائد کردی تھیں کہ ان کو پورا کرنا ناممکن تھا۔ ادھو ٹھاکرے نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان شرائط میں نرمی کی اور مرکزی حکومت کے تعاون سے اس معاملے کو نہایت حسن و خوبی کے ساتھ انجام تک پہنچایا۔
واشم سے وزیر اعلیٰ کے شہر تھانے آکر وزیر اعظم نے 12,000 کروڑ روپے سے زیادہ کے تھانے انٹیگرل رِنگ میٹرو ریل پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا اور کہا کہ بالا صاحب ٹھاکرے کو تھانے سے خاص لگاؤ تھا نیز، یہ آنجہانی آنند دیگھے کا بھی شہر تھا۔ مودی کو شاید نہیں معلوم کہ انہی کی پارٹی کے رکن اسمبلی نتیش رانے نے بالا صاحب ٹھاکرے پر آنند دیگھے کے قتل کا الزام لگایا ہے۔ نتیش کے والد نارائن رانے نے بھی ایکناتھ شندے کو ان کی غداری پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ صحیح وقت پر اقدام نہ کرتے تو ان کا حشر بھی آنند دیگھے جیسا ہو جاتا۔ ایسے میں بالا صاحب ٹھاکرے کے عقیدتمندوں کے لیے بی جے پی یا شندے کی حمایت کتنی مشکل ہے اس کا بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم نے میرین ڈرائیو سے باندرہ تک کی ساحلی سڑک کا ذکر تو کیا مگر اس سے اتر کر باندرہ میں ایس وی روڈ پر آتے ہی، وہاں لگنے والے ٹرافک جام کو بھول گئے اور اٹل سیتو کی تعریف کرنے والے مودی کو نہایت قلیل عرصے میں اس پر پڑنے والے بدعنوانی کے گڑھے یاد نہیں آئے۔ لیکن عوام ان کو نہیں بھول سکتے اس لیے کہ وہ ہیلی کاپٹر سے نہیں سڑک پر چلتے ہیں اور اس پُل پر جو ظالمانہ ٹول ٹیکس وصول کیا جاتا ہے وہ لوٹ مار بھی انہیں ہر روز پریشان کرتی ہے۔
ممبئی میٹرو کی ڈھائی سالہ تاخیر کے لیے بی جے پی ادھو حکومت کو ذمہ دار ہے ٹھیراتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب پرانے ٹھیکوں میں سے ملنے والی رشوت بند ہوگئی تو مرکزی امداد بند کر کے اسے روکا گیا ورنہ کوئی بھی صوبائی حکومت بھلا کیوں روکتی؟ اس لیے لاگت میں جو 14,000 کروڑ روپے کا اضافہ ہوگیا اس کی ذمہ داری بی جے پی پر ہے۔ اس بار مودی جی نے میٹرو کو ہری جھنڈی دکھائی جبکہ انہیں زعفرانی پرچم لہرانا چاہیے تھا مگر وہ تو آگے بڑھنے سے روکنے کی علامت ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ترقی کی علامت سبز رنگ ہے اور وزیر اعظم کو بادلِ نخواستہ اسی کو لہرانا پڑتا ہے۔ عوام کے ٹیکس سے بننے والی اس میٹرو ریل کے لیے موصوف نے جاپان کی حکومت اور جاپانی بین الاقوامی کارپوریشن ایجنسی (جے آئی سی اے) کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا۔ مودی نے اسے میٹرو لائن کو ہندوستان-جاپان دوستی کی علامت قرار دیا۔ پردیسیوں سے دوستی کرنے والے وزیر اعظم خود اپنے ملک کے باشندوں سے دشمنی کرتے ہیں۔ اقتدار کی خاطر کبھی مسلمانوں کے تو کبھی ہندتوا کی علم بردار شیوسینا کے بھی دشمن بن جاتے ہیں بلکہ سنگھ سے بھی سرد جنگ چھیڑ دیتے ہیں۔ ان کی پکی دوستی تو صرف اڈانی و امبانی جیسے سرمایہ داروں سے ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی جس وقت میٹرو ریل میں سفر کرنے کا ڈرامہ کررہے تھے تو ان کے لیے سرخ قالین بچھایا گیا تھا۔ اس پر صرف وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور ان کے محافظین کو چلنے کی اجازت تھی۔ نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار کنارے کنارے یعنی ایک قدم اوپر اور دوسرا نیچے رکھ کر چل رہے تھے۔ دیویندر پھڈنویس تو دو چار فِٹ باہر تھے۔ ٹرین میں سب سے پہلے وزیر اعظم کو دولڑکیاں نغمہ گاتے ہوئے ملیں ان میں سے ایک گٹار بجا رہی تھی جبکہ ریل گاڑی میں موسیقی بجانا ممنوع ہے۔ اس کے بعد ان کو مصنوعی ذہانت کی تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان اداکار مل گیا۔ ایک برقع پوش معمر خاتون نے اور پھر ایک ساڑی پہنی ہندو عورت اور ایک اسکارف اوڑھی ہوئی نوجوان دوشیزہ نے بھی وزیر اعظم کے سامنے سرکاری اسکیموں سے استفادے کا اعتراف کیا۔ یہ ناٹک نہایت بھونڈے انداز میں کھیلا گیا۔ اس کے برعکس راہل گاندھی کولہاپور جانے سے قبل ایک گاؤں میں اچانک ٹیمپو چلانے والے اجئے شندے نامی دلت کے گھر چلے گئے۔ ان سے بات چیت کی۔ کھانا بنانے میں مدد کرنے کے بعد کھا پی کر لوٹے۔ اس طرح ایک چائے والے وزیر اعظم اور اپوزیشن کے شہزادے کا فرق دنیا کے سامنے آگیا۔ راہل گاندھی کے انہیں اقدامات سے مودی اور شاہ کا خون کھولتاہے کیونکہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ وہ دونوں راحت اندوری کے اس شعر کی مصداق ڈر جاتے ہیں ؎
خوف بکھرا ہے دونوں سمتوں میں
تیسری سمت کا دباؤ ہے کیا؟
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اکتوبر تا 19 اکتوبر 2024