کوٹا (راجستھان) میں انسانی حقوق کے وکیل کی رہائش گاہ پرچھاپہ
پی ایف آئی کے کیس کی پیروی کا شاخسانہ! جملہ سات مقامات پر این آئی اے کی کارروائی
عوام مخالف قوانین اور حکومت کے جبر کے خلاف مزاحمت کو روکنا قابل مذمت: سی اے ایس آر
جے پور : پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کے خلاف کارروائی کے ایک حصے کے طور پر کوٹا (راجستھان) میں انسانی حقوق کے معروف وکیل انصار اندوری کے گھر پر قومی تفتیشی ادارہ (این آئی اے) نے چھاپا مارا جسے اختلاف رائے کی آوازوں کو دبانے اور مرکزی حکومت کے جابرانہ اقدامات کی مخالفت کرنے والوں کو دھمکی دینے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ نیشنل کنفیڈریشن آف ہیومن رائٹس آرگنائزیشنز (این سی ایچ آر او) کے قومی سکریٹری انصار اندوری کی رہائش گاہ، راجستھان کے ان سات مقامات میں شامل ہے جہاں اٹھارہ فروری کو این آئی اے کے ذریعہ چھاپے مارے گئے۔ انصار اندوری پی ایف آئی کے ذریعہ مبینہ دہشت گردی کی فنڈنگ اور غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق مقدمہ کی پیروی کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ مرکزی وزارت داخلہ نے گزشتہ سال ستمبر میں انسداد غیر قانونی سرگرمیوں کے قانون (UAPA) 1967 کے تحت اس تنظیم پر پانچ سال کی مدت کے لیے پابندی عائد کی ہے۔
کوٹا میں، این آئی اے کی ٹیم نے کوتوالی پولیس اسٹیشن کے تحت بڑی مسجد، سنگوڈ اور وگیان نگر علاقوں میں واقع امن کالونی میں انصار اندوری کی رہائش گاہ پر چھاپے مارے۔ دیگر چھاپے مبینہ طور پر سوائی مادھو پور، بنڈی، بھیلواڑہ اور جے پور میں پی ایف آئی سے متعلق مقامات پر کیے گئے۔ یہ تلاشیاں گزشتہ سال انیس ستمبر کو این آئی اے کے ذریعہ درج کردہ از خود نوٹس کیس کے سلسلے میں کی گئی ہیں۔ اس معاملے میں پہلی اطلاعاتی رپورٹ (ایف آئی آر) باران کے صادق صراف اور کوٹہ کے محمد آصف کے خلاف اس الزام کے تحت درج کی گئی تھی کہ وہ تنظیم کے دیگر عہدیداروں اور کیڈر کے ساتھ ’’غیر قانونی سرگرمیوں‘‘ میں ملوث تھے۔ انصار اندوری نے اس ایف آئی آر کو راجستھان ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے وکیل دفاع کے طور پر ملزم کی نمائندگی کی تھی اور ثبوت کی کمی کی بنیاد پر اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
انصار اندوری کے گھر پر این آئی اے کا چھاپہ اٹھارہ فروری کی صبح زائد از تین گھنٹے جاری رہا اور وکیل کو پوچھ گچھ کے لیے مقامی پولیس اسٹیشن لے جایا گیا اور تقریباً دو گھنٹے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔ این آئی اے کے ترجمان کے مطابق، انصار اندوری کی رہائش گاہ سے مبینہ طور پر کچھ ڈیجیٹل آلات، ایک ایئرگن، تیز دھاروالے ہتھیار اور مجرمانہ دستاویزات ضبط کی گئیں۔
اندوری کے گھر سے کچھ کتابیں بھی ضبط کی گئیں، ان کتابوں میں بھوپال سے تعلق رکھنے والے مصنف ایل۔ ایس ہردینیا کا آر ایس ایس پر کیا گیا کام، جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق دو رپورٹس، ’’زندہ باد مردہ باد کے بیچ پھنسی دیش بھکتی‘‘ کے زیر عنوان ایک رپورٹ اور کوآرڈینیشن آف ڈیموکریٹک رائٹس آرگنائزیشن کی تیار کردہ ایک رپورٹ شامل ہے۔
انصار اندوری نے پی ایف آئی کے ساتھ کسی بھی تعلق کی تردید کی اور کہا کہ انہوں نے ایف آئی آر کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے والے قانونی کیس میں صرف دو افراد کی ان کے وکیل دفاع کے طور پر پیروی کی ہے۔ انصار اندوری مختلف مقامات پر انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف قانونی لڑائی لڑنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ باران/ کوٹا کیس میں وہ گیارہ دن قبل جب این آئی اے چھاپہ مارنے کے بہانے ان کی تلاش میں آئی تھی، ملزم کے وکیل کے طور پر ہائی کورٹ میں حاضر ہوئے تھے۔ انصار اندوری نے کہا کہ چھاپے کا مقصد واضح طور پر انہیں ہراساں کرنا تھا کیونکہ انہوں نے این آئی اے کے ذریعہ درج ایف آئی آر کو چیلنج کیا تھا۔ انہوں نے کہا ’’مجھے یقین ہے کہ یہ انسانی حقوق کے دفاع کے لیے میری لڑائی کے پیش نظر مجھے دھمکیاں دینے اور جھوٹے طور پر پھنسانے کی کوشش ہے۔ این آئی اے کی ٹیم صبح سوا پانچ بجے میرے گھر پہنچی اور مجھے پولیس اسٹیشن لے گئی، جہاں مجھ سے تقریباً ڈھائی گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی۔ انہوں نے انسانی حقوق سے متعلق کچھ رپورٹیں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی تحریر کردہ کچھ کتابیں ضبط کرلیں‘‘۔
این آئی اے کی ایک اور ٹیم اٹھارہ فروری کی صبح چار بجے بونڈی شہر کی مہاویر کالونی پہنچی اور پی ایف آئی کے بونڈی کے سابق ضلعی صدر انیس انصاری کے گھر کی تلاشی لی، جنہوں نے 2018 میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کی طرف سے راجستھان اسمبلی کا انتخاب لڑا تھا۔ انیس انصاری چھاپے کے وقت بنڈی کے باہر شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے، این آئی اے کے اہلکاروں نے گھر سے موبائل فون اور کچھ دستاویزات ضبط کیں۔
انصار اندوری کے پیشہ ورانہ کام کے لیے سرکاری اداروں کے ہاتھوں ہراسانی کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ قبل ازیں ان کے اور بہت سے دیگر لوگوں کے خلاف UAPA اور تعزیرات ہند کی متعدد دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی جب وہ اکتوبر 2021 میں درگا پوجا کے دوران اور بعد میں بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف تشدد کے خلاف بطور احتجاج وشو ہندو پریشد (VHP) کی ریلیوں کے دوران مسلمانوں کے خلاف مظالم کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے ساتھ تریپورہ گئے تھے۔
دورہ کے بعد دو نومبر کو شائع ہونے والی رپورٹ میں ’’تریپورہ میں انسانیت پر حملہ، #Muslim Lives Matter‘‘ کے عنوان سے تریپورہ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کو آشکار کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریاست میں کم از کم بارہ مساجد، نو دکانوں اور مسلمانوں کے تین مکانات میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ تاہم، تریپورہ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور سیکورٹی فورسز نے اس پر قابو پانے کے لیے تیزی سے کام کیا۔
انصار اندوری کے علاوہ سپریم کورٹ کے وکلاء، کارکنوں، صحافیوں اور مذہبی رہنماؤں سمیت ستر سے زائد افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے اور ریاست کے مختلف اضلاع سے آٹھ افراد کو فوری طور پر گرفتار کیا گیا۔ بعد میں، سپریم کورٹ نے ایف آئی آر کو چیلنج کرتے ہوئے دائر کردہ عرضی پر تریپورہ پولیس کو ہدایت دی کہ وہ اندوری، ایک اور ملزم وکیل مکیش اور صحافی شیام میرا سنگھ کے خلاف کوئی جبری کارروائی نہ کرے، جو اس کیس میں بھی ملزم تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ انصار اندوری کا ٹویٹر اکاؤنٹ @AnsarIndoriکو بظاہر تریپورہ پولیس کی درخواست پر معطل کر دیا گیا ہے۔ مائیکرو بلاگنگ سائٹ نے وزیٹرز کو مطلع کیا کہ ہندوستان میں قانونی مطالبے کے جواب میں اکاؤنٹ معطل کیا گیا ہے۔
نئی دہلی میں مقیم انسانی حقوق کی وکیل کنول پریت کور نے اندوری کے گھر پر چھاپے پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’یہ انسانی حقوق کے کارکنوں اور وکلاء کو دہشت گردی کے مقدمات میں پھنسانے اور سزا دینے کی مایوس کن کوشش ہے جسے روکنا چاہیے۔ ایڈووکیٹ انصار اندوری قانونی ٹیم کا حصہ تھے جس نے این آئی اے کی طرف سے درج ایف آئی آر کو راجستھان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ آج ان کے گھر پر این آئی اے نے چھاپہ مارا۔ یہ خالص جادوئی تعاقب ہے‘‘۔ ایک اور وکیل سیف عالم نے کہا کہ اگر قانون ساز ادارے کے بنائے ہوئے اس سخت قانون (یو اے پی اے) سے وکلاء محفوظ نہیں ہیں تو ملک کے سادہ لوح شہریوں کو تو بھول ہی جانا چاہیے۔
ریاستی جبر کے خلاف مہم (کیمپین اگینسٹ دا اسٹیٹ ریپریشن۔ CASR) نے بھی انصار اندوری کے گھر پر این آئی اے کے چھاپے کی مذمت کی ہے۔ ایک بیان میں CASR نے کہا کہ یہ بلاشبہ قانونی عمل میں لوگوں کی نمائندگی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ عوام کے حامی وکلاء کے پیشہ ورانہ حقوق پر حملہ ہے۔ ہم بی جے پی-آر ایس ایس کے دور حکومت میں لوگوں کی آوازوں کو دبانے کے اس طرح کے رجعتی اور انتقامی طریقوں میں اضافہ دیکھ سکتے ہیں۔ ٹریڈ یونین کے قائد اور وکیل سدھا بھردواج، ناگپور میں مقیم وکیل سریندر گڈلنگ اور دیگر شخصیات کو بھی مظلوموں اور استحصال کے شکار افراد کی نمائندگی کرنے پر غیر سنجیدہ مقدمات کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا اور جیل بھیج دیا گیا ہے‘‘۔
سی اے ایس آر نے جو ملک بھر میں شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں کی بڑی تعداد کی نمائندگی کرنے والی ایک سرپرست تنظیم ہے، کہا کہ این آئی اے نے مبینہ طور پر لوگوں کے حقوق کو ملیا میٹ کیا ہے جو ایف آئی آر سے لے کر یو اے پی اے تک مختلف قانونی مفاہیم کی ذیل میں آتے ہیں۔ سی اے ایس آر نے عوام کو عوام مخالف قوانین اور حکومتی جبر کے خلاف مزاحمت کرنے سے روکنے کے لیے استعمال کیے جانے والے قانونی طریقوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اختلاف رائے کے ہر عمل کو ان عوام مخالف قوانین جیسے UAPA، NSA، PSA، وغیرہ کے ذریعہ دبا دیا جاتا ہے۔
کارکنوں، عوام نواز وکلاء اور صحافیوں پر بالعموم اور وکیل انصار اندوری پر بالخصوص مسلسل حملوں پر تنقید کرتے ہوئے CASR نے مطالبہ کیا کہ انصار اندوری کے خلاف کوئی زبردستی کارروائی نہ کی جائے اور انہیں اپنی قانونی، جمہوری اور شہری سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔ عوام کے مفاد میں ’’ہم جمہوری اور ترقی پسند قوتوں، قانونی برادری کے باشعور اراکین، طلباء، دانشوروں، سول سوسائٹی کے اراکین اور عوام کے وسیع تر عوام سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ برہمنی ہندوتوا فاشزم کے بڑھتے ہوئے حملوں کے خلاف متحدہ جدوجہد کریں‘‘۔ (بشکریہ: انڈیا ٹومارو)
***
***
انصاراندوری کے علاوہ سپریم کورٹ کے وکلاء، کارکنوں، صحافیوں اور مذہبی رہنماؤں سمیت 70 سے زائد افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے اور ریاست کے مختلف اضلاع سے 8 افراد کو فوری طور پر گرفتار کیا گیا۔ بعد میں، سپریم کورٹ نے ایف آئی آر کو چیلنج کرتے ہوئے دائر کردہ عرضی پرتریپورہ پولیس کو ہدایت دی کہ وہ اندوری، ایک اور ملزم وکیل مکیش اور صحافی شیام میرا سنگھ کے خلاف کوئی جبری کارروائی نہ کرے، جو اس کیس میں بھی ملزم تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ اندوری کا ٹویٹر اکاؤنٹ @AnsarIndori کو بظاہر تریپورہ پولیس کی درخواست پر معطل کر دیا گیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مارچ تا 11 مارچ 2023