ایاز احمد اصلاحی،لکھنو
روپی کور؛ ایک ایسی فن کارہ جس نے اہل مغرب کے منہ پر طمانچہ رسید کیا
سب سے پہلے اس نوجوان خاتون کا ذکر جس کے ایک پر وقار عمل کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ یہ خاتون کملا ہیریس، نکی ہیلے، اور ہیلری کلنٹن کی طرح کسی بڑے ریاستی منصب اور سرکاری پوزیشن پر فائز نہیں ہے لیکن وہ ایک عظیم کردار اور اعلیٰ فکر کی مالک ہے اور اس لحاظ سے اس کا مرتبہ ان موقع شناس امریکی منصب داروں سے ہزارہا درجہ بلند ہے۔ یہ کناڈا کی محترمہ روپی کور ہیں۔ وہ بھیڑیوں کا ساتھ دینے والوں میں سے نہیں بلکہ بھیڑیوں کا مقابلہ کرنے والوں میں سے ہیں۔
پنجاب میں پیدا ہونے والی روپی کور کناڈا کے دارالحکومت ٹورنٹو میں رہتی ہیں۔ ایک مشہور و معروف شاعرہ، مصنفہ، ایک ماہر فوٹو گرافر اور سماجی کارکن ہیں۔ ان کا سب پہلا اور سب سے مقبول شعری مجموعہ "مِلک اینڈ ہَنی” (Milk and Honey) ہے۔ ان کی پیدائش 4؍ اکتوبر 1992 کو ہوئی۔ تین سال کی عمر میں ہی اپنے والدین کے ساتھ اپنی آبائی سرزمین چھوڑ کر کناڈا منتقل ہوگئی تھیں اور پھر وہیں کی ہوکر رہ گئیں۔ غزہ کے معصوم لوگوں پر صیہونی دہشت گردوں اور اسرائیل نامی وحشی بھیڑیے کے خونی حملوں سے متعلق اس صدق گو اور حساس شاعرہ کا رد عمل عالم اسلام کی جامد و بے حس اکثریت اور عرب مسلم حکم رانوں اور شہزادوں کے لیے ایک آئینہ ہی نہیں بلکہ ان کے منھ پر بھر پور طمانچہ بھی ہے۔
خود بینی، ستائش پسندی، صلہ کی تمنا، بخشش کی طلب اور شہرت و پذیرائی کی ہوس یہ ایک ہی مرض کی مختلف علامات ہیں اور انسانی فطرت کی بڑی کمزوریوں میں سے ہیں۔ ہمارا یہ عمومی مشاہدہ ہے کہ یہ کمزوری شاعروں اور مصنفوں کو بطور خاص اپنی گرفت میں رکھتی ہے۔ اس دور کے شعراء و ادباء تو کچھ زیادہ ہی اس مرض کا شکار ہیں۔ اس پس منظر میں ہم جب اس شاعرہ کے ایک عظیم عمل (Great gesture) پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی قدر و منزلت اور ان کی اخلاقی جرأت کو بار بار سلام کرنے کو جی چاہتا ہے۔
روپی کور کہتی ہیں کہ انہیں امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی طرف سے وہائٹ ہاؤس میں ایک خصوصی تقریب میں شرکت اور عشائیہ کی دعوت دی گئی تھی۔ لیکن انہوں نے امریکہ کا یہ دعوت نامہ فوراً مسترد کر دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ غزہ پر اسرائیلی حملے اور وحشیانہ بمباری کے حوالے سے امریکی حکومت کے غیر منصفانہ و جانب دارانہ طرز عمل کے خلاف ہیں۔
30 سالہ روپی کور اپنے پیغام میں لکھتی ہیں کہ
” can’t accept an invitation from "an institution that supports the collective punishment of a trapped civilian population 50% of whom are children.”
’’میں ایک ایسے ادارے (وہائٹ ہاؤس) کا دعوت نامہ قبول نہیں کر سکتی تھی جو ہر طرف سے گھرے ہوئے عام شہریوں کی آبادی کو، جس کی نصف تعداد بچوں پر مشتمل ہے، اجتماعی سزا دیے جانے کا مؤید ہے۔‘‘
فلسطینی باشندوں کے خلاف اسرائیل کے مسلسل دہشت گردانہ حملوں کی مذمت میں محترمہ روپی کور نے اپنا یہ موقف انسٹاگرام پر تحریراً پیش کیا ہے اور یہ اطلاع عوامی سطح پر شئیر کی ہےکہ انہیں امریکی انتظامیہ نے وہائٹ ہاؤس میں بھارتی نژاد امریکی نائب صدر کملا ہاریس کی تقریب دیوالی میں شرکت کے لیے مدعو کیا تھا لیکن انہوں نے ان کی دعوت قبول کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ اس امریکی تقریب میں شریک نہیں ہوسکتیں، کیونکہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کو غزہ پر بمباری کے لیے فنڈ اور ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔
وہائٹ ہاؤس کی جس تقریب دیوالی میں انہیں شرکت کی دعوت دی گئی تھی اسے 8؍ نومبر کو منعقد ہونا تھا، لیکن انہوں نے تاریخِ انعقاد سے پہلے ہی اسے مسترد کر دیا۔ اس واقعے کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے محض امریکہ کا دعوت نامہ ہی ٹھکرانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فلسطینیوں کے تعلق سے امریکہ کے بے رحم اور ظالمانہ رویے کو ایسی مذہبی تقریبات کی شان کے منافی قرار دیا جن میں شر پر خیر کو اور تاریکی پر روشنی کو ترجیح دینے کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہی نہیں انہوں نے اس سے آگے بڑھ کر اپنے فالوورز کو یہ کہتے ہوئے ایک زبردست پیغام بھی دیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے تمام لوگ غزہ میں ہونے والے قتل عام کے لیے امریکہ کو مجرم گرداننے میں کسی مصلحت کو آڑے نہ آنے دیں:
’’تمام جنوبی ایشیائی قومیں امریکہ کی انتظامیہ کو اسرائیل کے تمام گھناؤنے جرائم کے لیے ذمہ دار ٹھیرائیں۔۔۔۔ کیونکہ نہ تو ایک کمیونیٹی کی طرح ہم خاموش رہ سکتے ہیں اور نہ ہی محض کوئی مسند تکریم حاصل کرنے کے لیے اس برائی سے ایڈجسٹ کرنے والے بن سکتے ہیں۔ ایسا کرنا انسانی زندگی کی قیمت پر ایک بہت مہنگا سودا ہوگا۔۔۔میرے بہت سے معاصر ساتھیوں نے مجھ سے ذاتی طور پر یہ کہا ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت برا ہے لیکن وہ اپنی روزی روٹی اور زندگی کو خطرے میں ڈال کر کوئی اندورنی تبدیلی لانے کا جوکھم نہیں اٹھا سکتے۔حالانکہ ہمارے اندر کوئی جادوئی تبدیلی اپنے آپ نہیں آئے گی بلکہ اس کے لیے ہمیں بہادر بننا پڑے گا”۔
واضح رہے کہ اسرائیل وہ ملک ہے جس نے 1948 سے فلسطین پر غاصبانہ و غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے، وہ حبرون سے غزہ تک ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام اور لاکھوں فلسطینی باشندوں پر وحشیانہ مظالم ڈھا کر انہیں ہجرت پر مجبور کرنے کا مجرم ہے۔ غزہ کے بے قصور شہریوں پر غاصب و دہشت گرد اسرائیل کی انسانیت سوز بمباری کا اب ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے جسے وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کر کے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ غزہ پر 2008، 2011، اور 2014 میں بمباری کرکے ہزاروں فلسطینیوں کا قتل کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ تمام عالمی قوانین اور قراردادوں کے برخلاف وہ اس فلسطینی علاقے کا تقریبا سولہ سال سے چو طرفہ محاصرہ کیے ہوئے ہے اور وہاں کے لوگوں تک غذا، پانی، دوا اور دیگر اشیائے ضروریہ کی سپلائی پر پابندی عائد کر رکھا ہے جو اقوام متحدہ کی نظر میں غیر قانونی اور عالمی قرادادوں کے منافی ہے۔ غزہ پر تازہ دہشت گردانہ اسرائیلی حملے میں اب تک تقریبا بارہ ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ ان میں لگ بھگ نصف تعداد عورتوں، بچوں، ہسپتال میں زیر علاج بیماروں اور بزرگ فلسطینیوں کی ہے۔ یہاں اسرائیلی بمباری سے ہر دس منٹ میں ایک بچہ شہید ہو رہا ہے۔ ہزاروں مکانات ملبہ کا ڈھیر بن چکے ہیں، یہاں تک کہ غزہ کے بیشتر ہسپتال اور مہاجر کیمپوں کو بھی اسرائیل نے تباہ و برباد کر دیا ہے۔ غزہ کے ہی ایک ڈاکٹر کے بقول یہ عام انسانوں کا قتل عام نہیں بلکہ یہ قتل عام سے بھی بڑا کوئی وحشیانہ عمل ہے جس کا بے یار و مددگار اہل فلسطین ایک ماہ سے زائدہ مدت سے ہر روز سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے وہاں کچھ اس طرح ظلم و فساد مچایا ہے کہ ترکی صدر رجب طیب ایردوان کے بقول اس وقت ایسا لگ رہا ہے کہ فلسطین میں غزہ نام کا کوئی شہر باقی نہیں بچا ہے۔
مسئلہ فلسطین سے جو لوگ آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ دراصل غاصب صیہونی ریاست کے ہاتھوں فلسطینیوں کی اس نسل کشی کا ایک اور ہولناک روپ ہے جس کا وہ ستر سالوں سے شکار ہیں۔ جس کا آغاز 1948 سے بھی بیس، تیس سال قبل ہوچکا تھا جب صیہونیوں نے اس دنیا میں پہلی بار ہگان (Hagenah) ارگن، (Irgun) لیہی(Lehi) اسٹرن(Stern) جیسی دہشت گرد تنظیموں کو 1909 سے 1930 کے درمیان تشکیل دیا تھا جو دہشت گردی کے تمام تر جدید حربوں کی موجد ہیں۔ اس کے بعد فلسطین پر منصوبہ بند قبضے کی غرض سے صیہونیت نے انہیں دہشت گرد تنظیموں کی مدد سے برطانوی سرکار کی سرپرستی میں فلسطینیوں کے ساتھ خون کی ایسی ہولناک ہولی کھیلی کہ انہیں لاکھوں کی تعداد میں اپنا وطن چھوڑ کر عرب اور یورپی ملکوں میں پناہ لینی پڑی۔ انہیں ایام کے دل خراش انجام کو فلسطینی ‘نکبة’ (بہت بڑی مصیبت) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کی موجودہ دہشت گردانہ بمباری اسی نکبہ یا فلسطینی نسل کشی کا تسلسل ہے۔ شاید اس وجہ سے جنگ عظیم کی پیداوار سامراجی قوتوں کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ یہ سب ان کے اسی عظیم تر منصوبے کا حصہ ہے جو انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اس دنیا اور خصوصاً مشرق وسطیٰ کے لیے بنا رکھا ہے۔ ایک ایسی دنیا جس میں دوبارہ نہ تو کسی عظیم خلافت عثمانیہ کی تشکیل پانے کا امکان ہو اور نہ اس میں دوبارہ کسی صلاح الدین ایوبی یا کسی محمد فاتح کے پیدا ہونے اور عالم اسلام کو متحد و طاقت ور بنانے کی کوئی گنجائش باقی رہے۔ اس لیے غزہ میں رونما ہونے والے یہ روح فرسا مناظر ان کے لیے نہ تو شرم ناک ہیں اور نہ غم زدہ کرنے والے ہیں، بلکہ معصوم فلسطینیوں کے خون سے بنی یہ تصویر تو ان کے لیے بس اس سو سالہ قدیم منصوبے کے حتمی مراحل میں سے ہے جس میں ‘اتحادی طاقتوں’ کے اپنے طے کردہ عالمی نظام کی روپ ریکھا تیار کی گئی ہے۔
دوسری جانب شاعرہ روپی کور، اسرائیل کے خلاف اپنی پارلیمنٹ میں مذمتی قرارداد لانے والی آئرلینڈ کی جری خاتون سیاست داں اور اپوزیشن لیڈر ہولی کیرن اور اسرائیل کو ایک ظالم و غاصب ریاست قرار دینے والے آئرلینڈ کی تمام نمایاں یونیورسٹیوں کے سو سے زائد اساتذہ جیسے بلند کردار لوگ بھی اس دنیا میں موجود ہیں جو اسرائیل کا ساتھ دینے والے امریکہ اور بعض دیگر ممالک کو ’انسانیت سے عاری‘ اور ’فلسطینیوں کی نسل کشی‘ کا ذمہ دار قرار دینے میں کسی تردد سے کام نہیں لیتے۔ کناڈا کی اس بہادر و بے باک ادیبہ اور دیگر شخصیات کا وہائٹ ہاؤس کے خلاف یہ سخت ردعمل یوں ہی سامنے نہیں آیا ہے بلکہ یہ اس لیے ہے کیونکہ انہیں بھی یہ معلوم ہے کہ غزہ کی یہ مخصوص صورت حال فلسطینی نسل کشی اور "عظیم تر اسرائیل” کے قدیم صیہونی روڈ میاپ کا نتیجہ ہے، یا دوسرے لفظوں میں اسے وہ تقریباً ایک سو بیس سالہ صیہونی دہشت گردی یا فلسطینی نکبہ کی ایک ہولناک کڑی کی طور پر دیکھتے ہیں۔
یہ بات ایک بار پھر سمجھ لیجیے کہ ہمارے سامنے جہاں موجودہ دنیا کا یہ عجیب منظر ہے کہ اس میں ایک طرف ایسے باضمیر انسان ابھی موجود ہیں جو امریکہ و انگلینڈ سمیت تمام یورپی ملکوں میں ظالموں کے خلاف اپنے ضمیر کی آواز اتنی شدت سے بلند کر رہے ہیں کہ وہاں کے حکم رانوں کے لیے انہیں کنٹرول کرنا مشکل ہورہا ہے۔ اسرائیلی دہشت گردی اور اپنے ملکوں کی اسرائیل نواز پالیسیوں کے خلاف امریکہ سے برطانیہ تک اٹھنے والے احتجاجیوں کے اس سمندر میں وہ لوگ بھی ایک بڑی تعداد میں شامل ہیں جن کا اجدادی رشتہ بھارت اور تیسری دنیا کے دیگر ممالک سے ہے۔ وہیں دوسری طرف کا وہ منظر انتہائی کریہہ ہے جس میں اسلاموفوبیا کا مہیب سایہ یا اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کا بڑھتا اثر بہت صاف دکھائی دے رہا ہے۔ یہاں ہمیں یہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ بہت سے بھارتی نژاد امریکی و برطانوی جو اس وقت خصوصا ًامریکہ، انگلینڈ وغیرہ میں اقتدار کی بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان ہیں وہ اتنے خود غرض و موقع پرست ہیں کہ بھارت کی اپنی جنگ آزادی اور غزہ کے مظلوم بچوں کی دل خراش چیخوں کو نظر انداز کرکے آج بھی غاصب اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور خود کو صیہونیوں سے بھی بڑا صیہونی ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے بے حس اور بے رحم لوگوں میں اس وقت چار ہند نژاد افراد بہت نمایاں ہیں۔ ان میں سے ایک امریکہ کی موجودہ نائب صدر کملا ہیریس ہیں جن کی پالیسیوں کے خلاف امریکی مظاہرین کی ایک بڑی تعداد نے چند روز قبل امریکی شہر بوسٹن میں سخت احتجاج کیا اور اپنے ہاتھوں میں تختیاں اٹھا کر انہیں صاف طور سے غزہ میں اسرائیلی جرائم کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ اس قبیل کی دوسری شخصیت اقوام متحدہ میں سابق امریکی سفیر نکی ہیلی ہے، ان کا تعلق ریپبلیکن پارٹی سے ہے جو امریکہ میں اسرائیلی مفادات کی سب سے بڑی طرف دار ہے، وہ فی الحال امریکی صدارتی امیدواروں میں شامل ہیں، وہ بھی غزہ پر ہونے والی اسرائیلی بمباری اور اسے جاری رکھنے کی کھلے عام حامی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’حماس کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل کو جو بھی کرنا پڑے ضرور کرنا چاہیے‘۔ اس فہرست کے تیسرے شخص کا نام وویک راما سوامی ہے۔ یہ بھی ایک ہند نژاد صیہونی اور ریپبلکن کا سیاست داں ہے۔ یہ صیہونیوں کا گہرا یار اور امریکی صدارت کا امیدوار بھی ہے، اس کی سب سے بڑی خواہش، جس کا اظہار اس نے حال ہی میں کیا ہے، یہ ہے کہ وہ اپنے سامنے اسمعٰیل ہانیہ، خالد مشعل اور دیگر حماس کے سپہ سالاروں کا کٹا ہوا سر دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے یہ الفاظ ملاحظہ فرمائیں اور پھر سوچیں اگر یہ شخص حقیقت میں کبھی صدر امریکہ بن گیا تو مسلم دشمنی اور فلسطین دشمنی میں کتنا آگے جاسکتا ہے۔ وہ امریکی یہودیوں کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’میرے لیے ذاتی طور پر اس سے زیادہ کچھ اور محبوب نہیں ہوسکتا کہ آئی ڈی ایف (غاصب اسرائیلی فوج) حماس کے سو بڑے لیڈروں کا سر کاٹے اور انہیں غزہ اسرائیل سرحد پر قطار سے لگا دے تاکہ 7؍ اکتوبر کے واقعے کا دوبارہ اعادہ نہ ہو۔‘‘
ان افراد میں چوتھا بڑا نام برطانیہ کی کنزرویٹیو پارٹی کے لیڈر برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک کا ہے جن کی شکل میں برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر پہلی بار ایک مکمل صیہونیت نواز شخص بیٹھا ہے۔ اس کی نظر میں ہر وہ شخص جو فلسطینیوں کے حق میں برطانیہ میں ہونے والے مظاہروں کی قیادت کر رہا ہے، حماس کی طرح ’دہشت گرد‘ سمجھا جائے گا۔ اس کی حکومت فلسطین کےحق میں ہونے والے ان مظاہروں کے منتظمین کو سخت انجام کی دھمکی دے رہی ہے۔ اس طرح یہ شخص خود یہیں کے بنائے ہوئے تمام جمہوری اصولوں کو روند کر ان دنوں لندن کی سڑکوں پر فلسطین کے حق میں ہونے والے تاریخی مظاہروں کا ذاتی طور پر سب سے بڑا مخالف بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی حکومت فوجی اور سفارتی سطح پر اسرائیل کی جس طرح کھل کر مدد کر رہی ہے اس کی کوئی مثال گزشتہ کچھ دہائیوں میں ہمیں نہیں ملتی۔ سوچیے کہ صیہونیت کی بچھائی ہوئی بساط پر عالمی نظام کس طرح اپنی چال چل رہا ہے۔ اسی نظام کے زیر اثر یہ فسطائیت دوست عناصر مغربی ممالک میں دن بدن سرگرم ہو رہے ہیں۔ افسوس یہ ہندوستانی نژاد لوگ برطانوی اور امریکی جمہوریت میں با اقتدار رہ کر کمزور قوموں کے خلاف ہونے والے سارے غیر انسانی اور غیر جمہوری اقدامات میں نہ صرف برابر کے شریک ہیں بلکہ وہ اس میں اصل باشندوں کے مقابلے میں زیادہ سرگرم اور پیش پیش ہیں کیونکہ ایک صیہونیت نواز کے طور سے برطانوی جمہوری نظام سے زیادہ اسرائیل کی غاصب و استعماری ریاست کی بقا اور اس سے وفاداری ان کے لیے معلوم و نامعلوم وجوہات سے زیادہ ضروری ہے۔ امریکہ و برطانیہ کے ان ہندی الاصل سیاست دانوں میں اس اسرائیل دوستی کا سبب ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ میرے خیال میں ایسا دو ہی وجوہات سے ممکن ہے، یا تو انہیں بھی اسرائیل اور اس کے حکم رانوں کی طرح نسل پرستی، فسطائیت اور خونی نسل کشی والی ذہنیت پیدائشی طور سے ورثے ملی ہے اور اسی وجہ سے صیہونی درندوں کے ہاتھوں غزہ میں معصوم بچوں اور عورتوں کا قتل عام نہ صرف ان کے لیے قابل قبول ہے بلکہ حد درجہ پسندیدہ عمل بن گیا ہے۔ یا پھر اس کی وجہ یہ ہےa کہ یورپ میں یہ مخصوص عناصر بھی اس اسلاموفوبیا کے ساتھ جی رہے ہیں جو ایک گہری صیہونی سازش اور اسرائیلی پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے اور اسی کے زیر اثر بعض مغربی حکم رانوں نے اسلام دشمنی کو اپنی سیاست کا پہلا عنوان بنا لیا ہے اور یہی مسلم دشمنی وہ مخصوص نکتہ ہے جہاں ہندوتوا اور صیہونیت جیسی نسل پرست و قوم پرست تحریکات کو اپنے لیے ایک قدر مشترک نظر آتی ہے۔ حالانکہ اسرائیل کے اس گھناؤنے عمل نےخود یورپی باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو اسرائیل سے متنفر کر دیا ہے اور ان میں سے بہت سے ملکوں نے انہیں شہریوں کے دباؤ میں یا تو اسرائیلی سفیروں کو اپنے یہاں سے بھگا دیا ہے یا پھر انہوں نے اسرائیلی مظالم کے تعلق سے سخت موقف اپناتے ہوئے اقوام متحدہ میں اس کے خلاف پاس ہونے والی قراردادوں کی کھل کر حمایت کی ہے۔ لیکن جب سیاسی یا معاشی موقع پرستی یا کسی مخصوص قوم سے بغض و نفرت انہیں وراثت میں ملی ہو اور وہ ان کے دل و دماغ پر پوری طرح مسلط ہو تو خواہ مشرق ہو یا مغرب وہاں ایسی ہی شخصیات تشکیل پاتی ہیں۔ وہ جو چاہیں کرلیں لیکن وہ اس بلند مقام و مرتبہ تک کبھی نہیں پہنچ پاتیں جو کناڈا کی روپی کور، امریکی پارلیامان (ہاؤس آف ریپریزنٹیٹیو) کی ممبر اور امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما راشدہ حربی طلیب، باضمیر بھارتی صحافی رویش کمار اور آئرلینڈ کی خاتون سیاست داں اور اپوزیشن لیڈر ہولی کیرن جیسی شخصیات کے لیے تاریخ میں مختص ہوچکی ہے۔
ظاہر ہے اس وقت غزہ میں اسرائیلی حیوانیت و بربریت جس حد کو پہنچی ہوئی ہے اسے دیکھتے ہوئے کوئی بھی ایسا شخص جس کا ضمیر زندہ اور جس کے اندر انسانیت کی ذرہ برابر بھی رمق باقی ہے وہ اس درندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد کبھی خاموش نہیں رہ سکتا اور نہ کبھی اس کی حمایت کر سکتا ہے، بلکہ وہ اس اندھی بہری دنیا کے سامنے روپی کور اور رویش کمار کی طرح اپنی صدائے احتجاج بلند کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جب غزہ، غرب اردن یا دنیا میں کہیں بھی انسانیت مر رہی ہو تو ہماری خاموشی بھی ایک جرم شنیع اور وحشت و بربریت کی تائید شمار ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں مسلم ممالک سمیت وہ تمام حکومتیں جو غزہ پر اسرائیلی حملوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر رہی ہیں، یا اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہیں، ان کا ہاتھ بھی غزہ کے شہید فلسطینی عورتوں اور بچوں کے لہو سے آلودہ سمجھا جائے گا اور ان کے دامن پر جما ہوا معصوموں کے لہو کا یہ داغ اس وقت تک صاف نہیں ہوسکتا جب تک ان کا ضمیر زندہ نہ ہو اور وہ دست قاتل کو روکنے کے لیے آگے نہ بڑھیں۔ ہیروشیما، ناگا ساکی اور غزہ جیسے بدقسمت شہروں میں جب انسان نما حیوانوں کی دہشت گردی کا ننگا رقص ہو رہا ہو، جب بستیوں کی بستیاں خاک و خون میں لوٹ رہی ہوں اور جب دنیا کی تمام بڑی قوتوں کی طرف سے بم اور بارود کے زور پر باطل کو حق پر، ظالم کو مظلوم پر اور حیوانیت کو انسانیت پر غالب کرنے کی پیہم کوششیں ہو رہی ہوں، ایسے نازک وقت میں جو بھی حق اور انسانیت کے ساتھ کھڑے ہونے کا حوصلہ دکھائے گا تاریخ کے صفحات میں اور انسانوں کے دلوں میں ایسے ہی کردار زندہ جاوید کی طرح باقی رہتے ہیں۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو ہم اسے سر آنکھوں پر بٹھائیں گے اور اس بے حس دنیا کو انہیں اپنا نمونہ بنانے کی دعوت دیں گے۔ ان میں وہائٹ ہاؤس اور امریکی انتظامیہ کے وہ عام اہل کار بھی شامل ہیں جو اپنے باس کے انسانیت دشمن اور صہیونیت نواز روش کے خلاف نہ صرف ہاتھوں میں تختیاں اٹھا کر سڑکوں پر برملا احتجاج کرتے ہیں بلکہ ان میں سے بہت سے استعفیٰ دے کر صدر بائیڈن کی انتظامیہ کے تحت کام کرنے سے بھی معذرت کر لیتے ہیں۔ان پاکیزہ نفوس میں بھارت کا صحافی رویش کمار بھی ہے جو اپنے ہر نئے ویڈیو میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں ایک بے خوف اور دردمند دل کے ساتھ ویسے ہی آواز اٹھا رہا ہے اور اسلاموفوبیا کا شکار بڑی طاقتوں اور بزدل عرب-مسلم حکم رانوں کے تاریک تر اندرون سے عالم انسانیت کو ویسے ہی آگاہ کر رہا ہے جس طرح وہ مسلمانان ہند کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور حق تلفیوں کے خلاف برسوں سے سراپا احتجاج بنا ہوا ہے اور وقت آنے پر جباروں کے روبرو کوئی بھی حرف حق کہنے سے دریغ نہیں کرتا۔ بے شک ایسے ہی باکردار و با ضمیر انسانوں میں کناڈا کی ہند نزاد شاعرہ و ادیبہ روپی کور بھی شامل ہیں جنہوں نے مظلوموں کی حمایت میں ایک ایسے عہد میں امریکی ایوان صدر سے ملنے والی پذیرائی کو ٹھوکر ماردی جب تیسری دنیا کے لوگ امریکی سرزمین پر پہنچنے کو اپنے لیے اس دنیا کی سب سے قابل فخر چیز تصور کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں امریکی ایوان صدارت کی دعوت کو ٹھکرا کر خون فلسطین سے تر بتر امریکہ کو اس کی مجرمانہ تصویر دکھائی ہے جب کہ ان کے ہی آبائی وطن کا ہندوتوا زدہ مین اسٹریم میڈیا فلسطینیوں کا خون پینے والے اسرائیلی-امریکی استعمار کی تائید میں بے شرمی کا ہر ریکارڈ توڑنے پر آمادہ ہے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کی نظر میں اسرائیلی حملوں کی گھن گرج کی داستانوں اور فلسطینیوں کی آہ و بکا کے واقعات اور ان کا ذکر معمولی ہو لیکن میری نظر میں ان واقعات کے اسباب اور ان کے پیچھے کارفرما محرکات کی اہمیت اسرائیلی حملوں کی تعداد گننے اور غیرت و مردانگی سے خالی او آئی سی کے اجلاسوں کی خبریں دینے سے کہیں زیادہ ہے۔ان کرداروں کی جرأت رندانہ کو یاد رکھیے، اپنا قیمتی وقت کسی چائے خانے میں گزارنے سے لاکھ بہتر ہے کہ ان کے ذکر جمیل سے ہی اپنی محفلوں کو آباد رکھیے۔ شاید کہ کسی کو کچھ شرم آجائے، شاید کہ کسی کی سوئی ہوئی غیرت جاگ اٹھے، شاید کہ کسی کو اپنا بھولا ہوا فرض یاد آجائے۔
ایردوان کے بقول ہم اسرائیل اور فلسطینیوں پر اس کے دہشت گردانہ حملوں کے خلاف بولنے اور ان کی مذمت کرنے سے کیوں ڈریں جب کہ ہم نہ تو اس کے قرض دار ہیں اور نہ ہی ہم کسی ہولوکاسٹ کے مجرم ہیں۔ ہم حماس کو مجاہدینِ حریت اور اسرائیل کو غاصب و دہشت گرد کہنے سے کیوں کترائیں جبکہ ہم نہ تو امریکہ، برطانیہ یا کسی دوسرے صیہونیت نواز ملک کے احسانات تلے جی رہے ہیں اور نہ ہی یورپ ہمارا اور دنیا میں کہیں بھی ہمارے مظلوم بھائیوں کا محافظ ہے۔ ان حالات میں خاموش رہنا یا فلسطینیوں کی نسل کشی کی قیمت پر کوئی سودا کرنا یا غزہ کی نابودی کی قیمت پر کسی ملک کی ترقی کے ایجنڈے طے کرنا یا اسرائیل و امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کی راہیں تلاش کرنا فلسطینیوں کے نسلی صفایے میں اسرائیل کا شریک کار بننے کے مترادف ہے اور کوئی بھی غیرت مند مسلمان اور باضمیر انسان اس رویے کا کبھی ساتھ نہیں دے سکتا۔
***
بھارتی نژاد امریکی و برطانوی جو اس وقت خصوصا ًامریکہ، انگلینڈ وغیرہ میں اقتدار کی بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان ہیں وہ اتنے خود غرض و موقع پرست ہیں کہ بھارت کی اپنی جنگ آزادی اور غزہ کے مظلوم بچوں کی دل خراش چیخوں کو نظر انداز کرکے آج بھی غاصب اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور خود کو صیہونیوں سے بھی بڑا صیہونی ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے بے حس اور بے رحم لوگوں میں اس وقت چار ہند نژاد افراد بہت نمایاں ہیں۔ ان میں سے ایک امریکہ کی موجودہ نائب صدر کملا ہیریس ،اس قبیل کی دوسری شخصیت اقوام متحدہ میں سابق امریکی سفیر نکی ہیلی ہے، اس فہرست کے تیسرے شخص کا نام وویک راما سوامی ہے۔ ان افراد میں چوتھا بڑا نام برطانیہ کی کنزرویٹیو پارٹی کے لیڈر برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک کا ہے جن کی شکل میں برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر پہلی بار ایک مکمل صیہونیت نواز شخص بیٹھا ہے
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 نومبر تا 2 دسمبر 2023