کلکتہ ہائی کورٹ میں ججوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری

ججوں پر بی جے پی کے لیے کام کرنے کا الزام

کولکاتہ:(دعوت نیوز بیورو)

ایک ایسے وقت جب کالجیئم کے حوالے سے سپریم کورٹ اور مرکزی حکومت کے درمیان تصادم جاری ہے، مرکزی حکومت ججوں کی تقرری کے نظام میں تبدیلی چاہتی ہے اور ان کی تقرری میں اپنا واضح کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے اس ارادے پر سخت تنقیدیں کررہی ہیں۔ بنگال کی وزیرا علیٰ ممتا بنرجی نے بھی حکومت کی نیت اور کردار پر سوال اٹھایا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا ماننا ہے کہ اگر ججوں کی تقرری میں حکومت کردار ادا کرنے لگے تو عدالتیں آزاد نہیں رہیں گی۔ حکومت اور سپریم کورٹ اس سوال پر بھی آمنے سامنے ہیں کہ پارلیمنٹ یا پھر اسمبلی کے ذریعہ پاس کیے گئے قوانین کا جائزہ لینے کا سپریم کورٹ کو حق ہے یا نہیں ہے۔ ملک کے نائب صدر جگدیپ دھنکر اس مسئلے پر کھل کر عدلیہ کی تنقید کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر طاقت کے زعم کا شکار حکومتیں اکثریت کی بدولت ایسے قوانین پاس کردیں جو بھارت کے آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں تو ایسے قوانین کا جائزہ کون لیں گے؟ ججوں کی تقرری اور عدلیہ اور مقننہ کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور اس کے نتیجے میں ملک کے نظام عدل پر مرتب ہونے والے اثرات ایک طویل بحث کا موضوع ہیں، اور جبکہ یہ بحثیں جب قومی سطح پر چل رہی ہیں تو کلکتہ ہائی کورٹ میں ایک نیا پنڈورا باکس کھل گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے کلکتہ ہائی کورٹ میں جسٹس راج شیکھر منتھا کے چند فیصلوں کے خلاف ریاست کی حکم راں جماعت کے حامی وکلا نے احتجاج کیا اور دو گھنٹوں تک عدالتی کارروائی میں رخنہ ڈالے رکھا۔ اس واقعے کے دو دن بعد جسٹس راج شیکھر منتھا کی رہائش گاہ اور اس کے آس پاس علاقے میں ان کے خلاف پوسٹرز لگائے گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعات عدالت کے وقار کو مجروح کر دینے والے ہیں۔ اگرچہ ان واقعات پر کلکتہ ہائی کورٹ کی بڑی بنچ نے نوٹس لے لیا ہے اور آئندہ عدالت کے احاطے میں احتجاج کرنے پر پابندی عائد کردی ہے اور پوسٹر لگائے جانے کے معاملے کی جانچ جاری ہے، ایسے میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عدالت اس معاملے میں کیا موقف اختیار کرتی ہے۔
ججوں کے فیصلوں کی تنقید کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایک جمہوری ملک میں ججوں کے فیصلوں کی قانونی پہلووں سے جائزہ لینا اور اس کی فنی خامیوں کی نشاندہی ایک صحت مند جمہوری ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے، اس لیے یہ خیال درست نہیں ہے کہ جج کے فیصلے تنقید سے بالا تر ہیں۔ حالیہ برسوں میں ججوں کے فیصلوں پر تنقید کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور جب ججوں کی نیت اور غیر جانبداری پر سوالات اٹھنے لگے تو یہ صورت حال عدلیہ کی آزادی، اس کے وقار اور اعتبار کے متعلق پریشان کن بات ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ذریعہ ججوں کے فیصلے کے خلاف احتجاج اور ہنگامہ آرائی اور پوسٹر بازی کہاں تک درست ہے؟ اگر یہ سلسلہ چل نکلے تو پھر معاملہ کہاں پر جاکر رکے گا؟ اور سوال یہ بھی ہے کہ عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل کی قانون میں کتنی گنجائش ہے؟ احتجاج، نعرے بازی، عدالت کی کارروائی میں رخنہ اندازی اور پوسٹر بازی کی راہ اختیار کرنے کی پھر ضرورت کیوں آن پڑی ہے؟
گزشتہ پیر کو کلکتہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس راج شیکھر منتھا کے کمرہ عدالت کے باہر اچانک چند وکلا احتجاج کرنے لگے اور دیکھتے یہ دیکھتے بی جے پی اور ترنمول کانگریس کے حامی وکلا ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کرنے لگے۔ترنمول کانگریس کے حامی وکلا کا الزام تھا کہ جسٹس راج شیکھر منتھا بی جے پی کے حق میں فیصلے سنا رہے ہیں اور ان کے فیصلے تعصب اور جانبداری پر مبنی ہیں۔ ایسے میں کلکتہ ہائی کورٹ میں اس طرح کا احتجا ج کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں ترنمول کانگریس کے حامی وکلا متعدد مرتبہ ججوں کے خلاف احتجاج اور حکومت مخالف فیصلے دینے کا الزام عائد کر چکے ہیں۔ سینئر وکلا کے مطابق بائیں محاذ کے دور حکومت میں بھی ایک دو مرتبہ عدالت کے احاطے میں احتجاج ہو چکے ہیں تاہم راج شیکھر منتھا کے خلاف احتجاج تمام حددو کو عبور کر گیا۔ دو گھنٹے تک احتجاج اور دھکم پیلی جاری رہی اور جج کو کمرہ عدالت داخل ہونے نہیں دیا گیا۔ آخر کار چیف جسٹس کو اس معاملے میں مداخلت کرنی پڑی۔
دراصل اس مہینے 6 جنوری کو ترنمول کانگریس کے جنرل سکریٹری ابھیشیک بنرجی کی بڑی سالی کی گرفتاری پر روک کو جسٹس منتھا نے ختم کر دیا۔ کوئلہ اسمگلنگ معاملے میں سی بی آئی اور ای ڈی جیسی مرکزی ایجنسیاں ابھیشیک بنرجی اور ان کے اہل خانہ کے خلاف جانچ کر رہی ہے۔ دوسری طرف جسٹس منتھا نے ہی بی جے پی کے سینئر لیڈر اور بنگال اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شوبھندو ادھیکاری کے خلاف درج تمام 17 ایف آئی آر کو رد کر دیا اور آئندہ کے لیے بھی ان کے خلاف کارروائی پر روک لگادی، اس کے علاوہ پولیس کو ہدایت دی کہ اگر کسی معاملے میں شوبھندو ادھیکاری کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو اسے عدالت سے اجازت لینی ہوگی۔ 2021 میں بھی جسٹس منتھا نے شوبھندو ادھیکاری کو اس طرح کی راحت دی تھی اور کہا تھا کہ پولیس انتظامیہ کی جانب سے ادھیکاری کی عوامی اور ذاتی زندگی کی آزادی کو ختم کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جسٹس منتھا نے ان دونوں معاملے میں الگ الگ فیصلہ کیوں سنایا اس کی حقیقت دونوں فیصلوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گی مگر ادھیکاری اور ترنمول کانگریس کے جنرل سیکریٹری ابھیشیک بنرجی کے رشتہ دار کو راحت دیے جانے کے بعد ہی ترنمول کانگریس نے جسٹس منتھا کے خلاف تنقید شروع کر دی۔ ترنمول کانگریس کے ریاستی ترجمان کنال گھوش نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جس طرح جسٹس منتھا نے سوبھندو ادھیکاری کو ماضی اور مستقبل کی تمام ایف آئی آرز سے تحفظ اور استثنیٰ دیا ہے وہ غیر جمہوری اور متعصبانہ ہے‘‘۔جسٹس منتھا کے خلاف احتجاج کے معاملے میں کلکتہ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بھی منقسم ہے۔ بار ایسوسی ایشن کے اسسٹنٹ سکریٹری اور ترنمول کانگریس سے وابستہ ایڈووکیٹ سونل سنہا نے چیف جسٹس شریواستو کو خط لکھ کر کہا کہ جسٹس منتھا کے فیصلوں میں غیر جانبداری نہیں ہے’’ انہیں ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے آزاد کیا جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ وکلا کا مطالبہ ہے کہ احتجاج کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کی جائے۔ اس کے اگلے دن ہی بار اسوسی ایشن کے دیگر ممبروں نے چیف جسٹس کو خط لکھ کہا کہ ایسوسی ایشن نے اب تک اس معاملے میں کوئی میٹنگ نہیں کی ہے۔ عدالت کے احاطے میں جج کے خلاف احتجاج قابل مذمت ہے۔
کلکتہ بار اسوسی ایشن کے صدر اور کانگریس کے سابق ممبر اسمبلی اروناوا گھوش کہتے ہیں کہ ’’جسٹس منتھا ایسے معاملات کی سماعت کر رہے ہیں جہاں لوگ ریاستی حکومت کے اقدامات سے ناراض ہیں اور چونکہ وہ درخواست گزاروں کے حق میں حکم جاری کر رہے ہیں اس لیے حکم راں جماعت کے خیمے میں پریشانی ہے۔ جوئے دیبپ بنرجی (ترنمول کانگریس) کہتے ہیں کہ منتھا کے فیصلوں میں قانونی خامیاں ہیں اس پر گفتگو ہونی چاہیے مگر جس طریقے سے ہلڑ بازی کی گئی وہ بھی قابل مذمت ہے۔ جسٹس منتھا کے فیصلوں میں خامیوں پر میڈیا کے پلیٹ فارم پر بات نہیں ہونی چاہیے۔
دراصل کلکتہ ہائی کورٹ نے حالیہ عرصے میں کئی ایسے فیصلے سنائے ہیں جو ممتا بنرجی کے لیے پریشانی کا باعث بنے ہیں۔جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے کی عدالت نے اساتذہ کی تقرری میں گھوٹالے سے متعلق شکایتوں پر جس طریقے سے حکومت پر تنقید کی ہے اس نے ممتا حکومت بیک فٹ پر پہنچا دیا ہے۔ انہوں نے ممتا بنرجی کے کابینہ کے سب سے سینئر سابق رکن پارتھو چٹرجی کے خلاف سخت تبصرے کیے اس کے بعد ہی پارتھو چٹرجی کے خلاف مرکزی ایجنسیوں نے جانچ پڑتال شروع کی، نتیجے میں وہ جیل میں کئی مہینوں سے بند ہیں۔اس کے علاوہ ترنمول کانگریس کے کئی سینئر لیڈر اور پارٹی ممبران اسمبلی اساتذہ تقرری گھوٹالے کے معاملے میں جیل میں ہیں۔ ترنمول کانگریس سے تعلق رکھنے والے وکلا نے ان کے خلاف بھی کمرہ عدالت میں احتجاج کیا۔ اس وقت بھی یہ معاملہ کافی گرم ہوگیا تھا۔ غیر معمولی طور پر جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے فیصلوں کا دفاع کیا۔ سیٹنگ جج کے ذریعہ انٹرویو دینے کی روایت نہیں رہی ہے۔ جون 2021 میں مغربی بنگال بار کونسل کے چیئرمین اشوک کمار دیب نے جو ترنمول کانگریس کے ممبر اسمبلی بھی ہیں، چیف جسٹس آف انڈیا کو ایک خط لکھ کر اس وقت کے کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس راجیش بنڈل کو ہٹانے کی اپیل کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کیا کہ بنڈل غیر منصفانہ طور پر بی جے پی کے مفاد میں کام کر رہے ہیں۔ جولائی 2019 میں بھی ریاستی حکومت کے پینل میں شامل وکلاء نے ہائی کورٹ کی جسٹس سمپتی چٹرجی کے سامنے کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا۔ وکلاء نے الزام لگایا تھا کہ سمپتی چٹرجی بی جے پی کے ارکان کی طرف سے دائر کردہ معاملے میں منصفانہ سماعت نہیں کر رہے ہیں۔ مغربی بنگال میں اس وقت عدالت کا رول اس قدر اہم ہو گیا ہے کہ ہر دن عدالت کے فیصلے اخبارات کے پہلے صفحے کی زینت بنتے ہیں۔ بیشتر فیصلے حکومت کے خلاف کیے جارہے ہیں۔
کلکتہ ہائی کورٹ کے ججوں کے خلاف بی جے پی کے لیے کام کرنے کے الزامات جس طریقے سے لگائے جا رہے ہیں اس سے ججوں کی تقرری میں مرکز میں حکمراں جماعت کا واضح کردار ہو جائے گا اور ایسی صورت میں ججوں کے خلاف شکایات عام ہوجائیں گی اور عدالتوں پر سے اعتماد بھی اٹھ جائے گا اور یہ صورت حال کسی بھی درجے میں ملک کے بہتر مستقبل کے لیے سازگار نہیں ہے۔
***

 

***

 گزشتہ ہفتے کلکتہ ہائی کورٹ میں جسٹس راج شیکھر منتھا کے چند فیصلوں کے خلاف ریاست کی حکم راں جماعت کے حامی وکلا نے احتجاج کیا اور دو گھنٹوں تک عدالتی کارروائی میں رخنہ ڈالے رکھا۔ اس واقعے کے دو دن بعد جسٹس راج شیکھر منتھا کی رہائش گاہ اور اس کے آس پاس علاقے میں ان کے خلاف پوسٹرز لگائے گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعات عدالت کے وقار کو مجروح کر دینے والے ہیں۔ اگرچہ ان واقعات پر کلکتہ ہائی کورٹ کی بڑی بنچ نے نوٹس لے لیا ہے اور آئندہ عدالت کے احاطے میں احتجاج کرنے پر پابندی عائد کردی ہے اور پوسٹر لگائے جانے کے معاملے کی جانچ جاری ہے، ایسے میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عدالت اس معاملے میں کیا موقف اختیار کرتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جنوری تا 04 فروری 2023