کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے کم و بیش پانچ لاکھ او بی سی مسلمان متاثر ہوں گے

ممتا حکومت اب سوالات کے گھیرے میں۔ جلد بازی بھاری پڑ رہی ہے

شبانہ جاوید ،کولکاتا

عدالتِ عالیہ کے فیصلے کے بعد ترنمول کانگریس کی جانب سے عدالتِ عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا ہے
بنگال کے پسماندہ طبقات کو او بی سی ریزرویشن کے ذریعہ آگے لانے کے فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے کلکتہ ہائی کورٹ نے 2010 کے بعد جاری کیے گئے او بی سی سرٹیفکیٹ کو رد کرنے کا فیصلہ کیا۔ کورٹ نے کہا کہ 2010 کے بعد جتنے بھی او بی سی سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ہیں وہ قانون کے مطابق صحیح طریقے سے پیش نہیں کیے گئے ہیں۔ اس لیے گزشتہ چودہ برسوں میں جاری کیے گئے تمام او بی سی سرٹیفکیٹوں کو منسوخ کیا جارہا ہے۔ کورٹ کے اس فیصلے سے ممتا بنرجی کی حکومت کو ایک اور بڑا جھٹکا لگا کیونکہ کورٹ نے 2010 کے بعد جاری کردہ دیگر پسماندہ طبقات میں سے او بی سی سرٹیفیکٹ کی کئی کلاسوں کو منسوخ کر دیا ہے، جبکہ بنگال میں 2011 سے ممتا بنرجی کی قیادت والی ترنمول کانگریس برسر اقتدار ہے، اور ممتا کے دور میں زیادہ سے زیادہ پسماندہ طبقات کو او بی سی کی فہرست میں شامل کیا گیا، جس کے نتیجے میں عدالت کا یہ حکم صرف ترنمول حکومت کی جانب سے جاری کردہ او بی سی سرٹیفکیٹ پر اثر انداز ہونے والا ہے۔
کلکتہ ہائی کورٹ کے جسٹس تپبرتا چکرورتی اور جسٹس راج شیکھر منتھا نے پچھلے دنوں مذکورہ فیصلہ سنایا۔ بنچ نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد ریاستی اسمبلی کو فیصلہ کرنا ہے کہ او بی سی کے زمرے میں کون کون طبقات شامل ہوں گے، ساتھ ہی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ مغربی بنگال پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود کمیشن او بی سی کی فہرست کا تعین کرے گا اور اس فہرست کو ریاستی اسمبلی کو بھیجا جانا چاہیے۔ جن طبقات کو اسمبلی سے منظوری دی جائے گی وہ او بی سی سمجھے جائیں گے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ ان چودہ برسوں میں او بی سی سرٹیفکیٹوں کا جو اجرا کیا گیا ہے وہ قوانین کے مطابق نہیں ہے۔او بی سی کمیشن کے ذریعہ حکومت نے پسماندہ طبقات کی شناخت نہیں کی تھی تاہم، کلکتہ ہائی کورٹ نے کہا کہ کورٹ کے اس فیصلے کا ان لوگوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جنہوں نے اس سرٹیفکیٹ کا استعمال کرتے ہوئے نوکری حاصل کی ہے یا وہ لوگ جو نوکری حاصل کرنے کے مراحل میں ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو نوکری کے لیے درخواست دینے والے ہیں یا نوکری حاصل کرنے کے لیے کسی مقابلہ جاتی امتحانات میں شامل ہونے والے ہیں وہ لوگ اب اس سرٹیفکیٹ کو ملازمت کے عمل میں استعمال نہیں کر سکیں گے۔
سماجی ماہرین کے مطابق اس فیصلے سے سب سے زیادہ مسلمان متاثر ہو سکتے ہیں۔کیوں کہ مسلمانوں کی کئی برادریوں کو او بی سی ریزرویشن میں شامل کیا گیا تھا۔ 2011میں مسلمانوں کی پسماندگی کی تصویر ہی لیفٹ کی شکست کی وجہ بنی تھی۔ سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بنگال کے مسلمانوں کو ملک میں سب سے زیادہ پسماندہ بتایا تھا۔ بنگال میں لیفٹ اقتدار کے 32برسوں بعد پسماندگی کی اس صورتحال کے لیے لیفٹ کو ذمہ دار مانا گیا اور یہی وجہ ہے کہ ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی پر لوگوں نے اعتماد کیا نتیجے میں انہوں نے اسمبلی الیکشن میں لیفٹ فرنٹ جیسی مضبوط حکومت کو شکست دیتے ہوئے شان دار کامیابی حاصل کی۔ 2011 میں جب وزیر اعلی ممتا بنرجی نے اقتدار سنبھالا تب انہوں نے سب سے پہلے مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کے ساتھ میٹنگ کی۔ کولکاتا کے نیتا جی انڈور اسٹڈیم میں منعقد ہونے والی اس میٹنگ میں مساجد کے اماموں کے لیے ماہانہ ڈھائی ہزار روپے جبکہ موؤذنین کے لیے دو ہزار روپے وظائف دینے کا اعلان کیا تھا۔ ساتھ ہی مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو او بی سی ریزرویشن کے زمرے میں شامل کیا تھا۔ تاہم، اب کورٹ نے حکومت کے اس عمل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے تمام او بی سی سرٹیفکیٹوں کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کورٹ کے فیصلے پر جہاں لوگوں میں بے چینی دیکھی جا رہی ہے وہیں وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا کہ وہ کلکتہ ہائی کورٹ کے اس حکم کو قبول نہیں کریں گی جس سے ریاست میں کئی طبقات کی او بی سی حیثیت کو ختم کیا گیا ہے۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ حکومت اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر سکتی ہے۔ ڈمڈم لوک سبھا حلقہ کے خوردہ میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ممتا بنرجی نے کہا کہ ریاست میں او بی سی ریزرویشن جاری رہے گا کیونکہ متعلقہ بل آئین کے دائرہ کار میں منظور کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے گھر گھر سروے کرنے کے بعد بل کا مسودہ تیار کیا تھا، اور اسے ریاستی کابینہ اور اسمبلی میں منظور کیا گیا تھا،‘‘ انہوں نے کہا کہ اگر ضروری ہوا تو ہم عدالت عظمیٰ جائیں گے۔انہوں نے بی جے پی پر مرکزی ایجنسیوں کا استعمال کرکے او بی سی کوٹہ روکنے کی سازش کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’کچھ لوگ عدالت گئے ہیں اور وہاں انہوں نے او بی سی کے مفاد کو سبوتاژکرنے کے لیے عرضی داخل کی ہے۔ آخر زعفرانی پارٹی اتنی ڈھٹائی کیسے دکھا سکتی ہے؟ ممتا بنرجی نے کہا کہ سندیش کھالی میں ان کی سازش ناکام ہونے کے بعد، بی جے پی اب نئی سازشیں کر رہی ہے۔ یہ سب ووٹوں کی سیاست ہے۔ پانچ سال تک اقتدار میں رہنے کے لیے وہ یہ سب کچھ کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کو آئین کے مطابق حقوق ملتے ہیں اور اقلیتوں کے بھی حقوق ہیں۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ صرف ہندوؤں کے فائدے کے لیے قانون سازی کرے گا اور مسلمانوں اور دیگر برادریوں کو چھوڑ دے گا؟ ممتا بنرجی نے بی جے پی پر ذات پات، کوٹے اور مذہب کی سیاست کرنے اور لوگوں کو تقسیم کرنے کا الزام لگایا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ 8 فروری 2011کو یا اس کے قریب یہ تمام سرکردہ اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ حکومت نے مسلمانوں کے لیے دس فیصد ریزرویشن کا اعلان کیا ہے۔ اس کے بعد چھ ماہ کی مدت کے اندر، کمیشن نے بیالیس طبقات کو او بی سی کے طور پر تجویز کیا، جن میں سے اکتالیس کا تعلق مسلمانوں سے تھا۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ ان طبقات کو او بی سی قرار دینے کے لیے ’حقیقت میں مذہب ہی واحد معیار ہے‘ جو ناقابل قبول ہے۔ سماجی کارکن زبیر احمد کے مطابق ممتا حکومت نے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے جلد بازی میں ایسے اقدامات کیے جو غلط تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ممتا حکومت نے ایسی کئی اسکیمیں شروع کی ہیں جو سننے میں اچھی تو لگتی ہیں لیکن آئینی طور پر کمزور ہیں جنہیں کبھی بھی رد کیا جاسکتا ہے۔ پیشے سے ٹیچر نکہت انصاری نے خوشی کا اظہار کیا کہ کورٹ نے او بی سی کے تحت نوکری حاصل کرنے والوں کی نوکری رد نہیں کی۔ نکہت انصاری نے کہا کہ جس طرح ٹیچروں کی بھرتی کے معاملے میں ہونے والی بدعنوانی کا معاملہ سامنے آنے کے بعد کورٹ نے تمام لوگوں کی نوکری رد کر دی ہے ایسے میں او بی سی والوں کو راحت دینا اہم فیصلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پسماندہ طبقات کو آگے لانے کے لیے سرکار کو مضبوط قدم اٹھانے اور مضبوط بل لانے کی ضرورت ہے تاکہ اسے مستقبل میں چیلنج نہ کیا جا سکے۔ سرکاری اسکول ٹیچر زبیر نے کہا کہ کورٹ کے فیصلے سے وہ تمام مسلمان جن کے پاس او بی سی سرٹیفکیٹ ہے اور جنہیں اس کے ذریعہ سے فائدہ ملنے کی امید تھی، اب ان کی امیدیں دم توڑ دیں گی۔
بہر حال دیکھنا ہوگا کہ ریاست میں او بی سی ریزرویشن معاملے پر حکومت کیا قدم اٹھاتی ہے اور کیا سپریم کورٹ جانے کے وزیر اعلی ممتا بنرجی کے فیصلے سے او بی سی ریزرویشن کی نئی راہ ہموار ہو گی!
***

 

***

 ’’ریاست میں او بی سی ریزرویشن جاری رہے گا کیونکہ متعلقہ بل آئین کے دائرہ کار میں منظور کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے گھر گھر سروے کرنے کے بعد بل کا مسودہ تیار کیا تھا، اور اسے ریاستی کابینہ اور اسمبلی میں منظور کیا گیا تھا،اگر ضروری ہوا تو ہم عدالت عظمیٰ جائیں گے۔ ’کچھ لوگ عدالت گئے ہیں اور وہاں انہوں نے اوبی سی کے مفاد کو سبوتاژکرنے کے لیے عرضی داخل کی ہے۔ آخر زعفرانی پارٹی اتنی ڈھٹائی کیسے دکھا سکتی ہے؟ سندیش کھالی میں ان کی سازش ناکام ہونے کے بعد، بی جے پی اب نئی سازشیں کر رہی ہے۔ ‘‘
ممتا بنرجی


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جون تا 08 جون 2024