کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے

عمرخالد: قیدو بند کے نہیں جدوجہد کے ہزار دن

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

ڈاکٹر عمر خالد کو ستمبر 2020 میں شمال مشرقی دلی میں ہونے والے فسادات سے جوڑ کر جیل بھیج دیا گیا۔ یہ بھارت کی تاریخ کا نہایت دلچسپ مقدمہ ہے۔ اس میں سب سے پہلے دلی پولیس نے جنوری 2020 میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی آمد کے موقع پر احتجاج اور دنگا فساد کرنے کا الزام لگایا مگر جب پولیس کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کروائی گئی کہ اس وقت تک تو صدر امریکہ کے دورے کا اعلان تک نہیں ہوا تھا تو انہیں علم کیسے ہو گیا؟ تب انتظامیہ کے ہاتھ پاوں پھول گئے، پولیس نے کہا کہ اس سے تاریخ کے تعین میں غلطی ہو گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسی وقت یہ مقدمہ خارج کرکے عمر خالد کو بری کردیا جاتا اور پولیس کو جھوٹا الزام لگانے کی سزا دی جاتی لیکن جج صاحب نے الٹا کیا، انہوں نے پولیس کو چھوڑ کر عمر خالد کو جیل بھیج دیا۔ اس کے بعد عمر خالد کی امراوتی میں کی جانے والی تقریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس پر عمر خالد کے وکیل نے پوری تقریر سنادی تو جج صاحب کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے لیکن دل نہیں پسیجا۔ انہوں نے کہا کہ عمر خالد کا طرز تخاطب مناسب نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں کا مرکزی وزیر بے تکلف ’گولی مارو سالوں کو‘ جیسا اشتعال انگیز نعرہ لگاتا ہے وہاں کسی عام آدمی کو محض اس کے اندازِ تخاطب پر سزا دینا کیا مبنی بر انصاف ہے؟
ڈاکٹر عمر خالد کے خلاف دو فردِ جرم دائر کی گئیں۔ ایک میں یو اے پی اے شامل تھی جبکہ دوسرے میں صرف آئی پی سی کی مختلف دفعات پر اکتفا کیا گیا تھا۔ مؤخر الذکر میں تو عمر خالد کو ضمانت مل گئی مگر کئی ماہ کی سماعت کے بعد یو اے پی اے معاملے میں نچلی عدالت نے کہا کہ بادی النظر میں یہ مقدمہ بنتا ہے۔ یہ ایک نہایت مبہم جملہ ہے مگر اس کے سبب ایک بے قصور ہزار دنوں سے جیل کی صعوبتیں برداشت کرتا ہے۔ اس کے بعد عدالت عالیہ میں بھی پولیس نے مختلف بہانوں سے ٹال مٹول سے کام لیا اور بالآخر وہی ایک جملہ والا فیصلہ سنا دیا گیا۔ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آچکا ہے۔ توقع ہے کہ آئندہ ماہ کے وسط میں عمر خالد کو رہائی نصیب ہوجائے گی۔ عمر خالد اور کنہیا کمار وغیرہ پہلی بار ’لے کے رہیں گے آزادی‘ کے نعرے سے منظرِ عام پر آئے۔ کشمیر میں ہونے والے مظالم کے خلاف ہونے والے احتجاج کی ویڈیو میں اسمرتی ایرانی کے ایماء پر بی جے پی آئی ٹی سیل نے غیر متعلق آوازیں ڈالنے کی خیانت بلکہ سازش کی۔ زر خرید میڈیا نے اس کی مدد سے ایسا اشتعال دلایا کہ نتیجہ میں کنہیا کمار کو عدالت کے احاطے میں ہی مارا پیٹا گیا۔ اس 2016 کے معاملے کی بنیاد ہی چونکہ جھوٹ پر تھی اس لیے وقت کے ساتھ وہ ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا۔ موجودہ نظام عدالت میں جھوٹ بولنے والے سرکاری آلۂ کار کو سزا دینے کی ہمت نہیں ہے۔
جے این یو میں جب ’لے کے رہیں گے آزادی‘ کا نعرہ لگا اور اس کی مخالفت کا طوفان آگیا تو ساری دنیا حیرت زدہ تھی۔ ہر کوئی سوچ رہا تھا کہ آخر ان لوگوں کو آزادی سے مرچی کیوں لگ رہی ہے؟ یہ لوگ حریت کے علم بردار جیالے طلباء و نوجوانوں کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا نام دے کر بدنام کرنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ سرکار کو آزادی سے پریشانی کیوں ہے؟ آگے چل کر معلوم ہوا کہ یہ غلامانہ ذہنیت کا حامل اقتدار ہے۔ اس کے چہیتے دانشور ساورکر نے اپنے آقاوں کو خوش کرنے کی خاطر آزادی کا اجالا نہیں بلکہ غلامی کا اندھیرا پھیلایا ہے۔ ان لوگوں کو چونکہ حریت فکر سے ڈر لگتا ہے اس لیے وہ اظہار رائے کا گلا گھونٹتے ہیں اور اختلاف رائے کو بزور قوت کچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انگریزی سامراج کے ان وفاداروں کو انصاف پسند سوچ سے اس قدر نفرت ہے کہ انہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر باپو کا قتل کرنے سے نہ صرف دریغ نہیں کیا بلکہ اس دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے کی شان میں رطب اللسان بھی رہتے ہیں۔ ایسا کرنے والوں کو پارلیمانی رکنیت کے ساتھ وزارت سے بھی نوازتے ہیں۔ گری راج سنگھ جیسے مرکزی وزیر علی الاعلان ناتھو رام گوڈسے کی تعریف کرتے ہیں تو ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس طرح انگریزی سامراج کے خلاف لڑنے والے کامیاب ہوئے اور ان کے مخالفین ناکام رہے اسی طرح کالے انگریزوں کی غلام بنانے والی کوشش کا مقابلہ کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ آئندہ نسلیں عمر خالد اور ان کے ساتھیوں کو مجاہدین آزادی کی صف میں شمار کرکے خراج عقیدت پیش کریں گی۔
سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جب ایک زبردست تحریک چلی تو اس کے روشن چہرے عمر خالد ، شرجیل امام، صفورہ زرگر اور ان کے ساتھی تھے۔ ان لوگوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا گیا۔ ابھی حال ہی میں جب عمر خالد کی حراست کے ایک ہزار دن پورے ہوئے تو بے شمار طلباء، شہری حقوق کے کارکنوں اور میڈیا سے وابستہ افراد نے ان کی حمایت میں اظہار یکجہتی کیا ہے۔ یہ اجلاس جمعہ 9 جون کو دلی کے پریس کلب میں منعقد کیا گیا۔ اس اجتماع کا مرکزی موضوع ’جمہوریت، اختلاف رائے اور سنسرشپ‘ تھا۔ وہاں موجود مقررین نے عمر خالد کے طویل قیدو بند کو ’مزاحمت کے 1000 دن‘ سے تعبیر کیا۔ اس پروگرام کو گاندھی پیس فاؤنڈیشن میں ہونا تھا لیکن چونکہ پولیس نے دباؤ ڈال کر اجازت رد کروادی اس لیے مقام بدلنا پڑا۔ پریس کلب میں اتنے زیادہ شرکاء جمع ہوگئے کہ اسے ہال سے نیچے میدان میں لانا پڑا۔ یہ عمر خالد کی غیر معمولی مقبولیت کا ثبوت ہے۔ اس پروگرام کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس میں مصنفہ اروندھتی رائے، سماجی کارکن شبنم ہاشمی، پلاننگ کمیشن کی سابق رکن سیدہ حامد اور پرشانت ٹنڈن جیسی کئی معروف ہستیاں شریک تھیں۔
پروگرام میں آر جے ڈی کے رہنما اور ایوانِ بالا کے رکن منوج جھا نے شدید گرمی کے باوجود سیکڑوں نوجوانوں کے جمع ہونے پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اظہار یکجہتی صرف عمر خالد کے لیے نہیں ہے بلکہ ہر سیاسی قیدی کے لیے ہے۔ یہ شعور کی جنگ ہے۔ غالب شعور آج مرکزی دھارے میں ہے، جبکہ حاشیے پر پڑے طبقات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ منوج جھا نے بغاوت کے فرسودہ قانون پر بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا کہ لا کمیشن اب بغاوت کے قانون کو سخت کر کے سزا بڑھانے کی سفارش کر رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جن لوگوں کو سی بی آئی اور ای ڈی نشانہ نہیں بنا سکتے ان کے اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا۔ تقریب میں جے این یو کے پروفیسر ایمریٹس پربھات پٹنایک نے کہا کہ خالد کی مسلسل حراست صرف ایک ذاتی المیہ نہیں بلکہ ایک صلاحیت کا ‘سماجی نقصان’ ہے۔انہوں نے کہا کہ انگریزوں کے نو آبادیاتی دور میں کوئی بھی دو سال سے زیادہ جیل میں نہیں رہا۔ ایک بار پنڈت نہرو کو سب سے طویل عرصے تک 1041 دن مسلسل جیل میں رہنا پڑا جبکہ عمر اب تک حراست میں ایک ہزار دن جیل میں گزار چکا ہے۔پروفیسر پربھات نے ایک سال بعد از خود ضمانت دینے کا قانون بنانے کی سفارش کی تاکہ بغیر مقدمہ قائم کیے کسی بے قصور کو لا متناہی پابند سلاسل نہیں کیا جاسکے۔
عمر خالد کی حمایت میں منعقد ہونے والی تقریب میں معروف صحافی رویش کمار نے بھی شرکت کی اور کہا کہ عمر خالد جیسے لوگوں کے لیے انصاف کا راستہ بہت لمبا ہے۔انہوں نے عمر خالد کی قید کے 1000دن کو ہندوستانی عدالتی نظام کی شرمندگی کے 1000 دن قرار دیا۔ اس موقع پر سب سے اہم خطاب عمر خالد کے والد ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس کا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جیل کی چہار دیواری بھی ان کے بیٹے کی ہمت کو پست نہیں کر سکی اور نہ ان اس کے دوستوں کا جوش و جذبہ کم ہوا۔ اپنے اس دعویٰ کی دلیل کے طور انہوں نے کہا کہ جب میں ان تمام لوگوں کو عدالتی سماعت کے دوران دیکھتا ہوں تو مجھے ان کے چہروں پر ایک خود اعتمادی نظر آتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کس اعلیٰ و ارفع مقصد کی خاطر عمر خالد جیل میں ہے۔ انہوں نے فخر سے کہا کہ ان کا بیٹا ملک اور اظہار رائے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ڈاکٹر الیاس نے اپنے بیٹے کے ساتھ شرجیل امام، خالد سیفی، شفا الرحمان اور دیگر تمام سیاسی قیدیوں کی بھی رہائی کا مطالبہ کیا۔ سپریم کورٹ کی سینئر وکیل شاہ رخ عالم نے گاندھی پیس فاونڈیشن کی بلا جواز اجازت مسترد کرنے پر احتجاج درج کیا۔ اس طرح یہ احتجاجی جلسہ ملک میں حریت پسندوں کے لیے ایک مہمیز بن گیا۔ عمر خالد جیسے لوگوں پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
وہ ہندی نوجواں یعنی علمبردار آزادی
وطن کی پاسباں وہ تیغ جوہر دار آزادی
سیاسی جماعتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ جب طلبا اس کے اقتدار کی راہ ہموار کرتے ہیں تو وہ اسے معاشرے کی تعمیر گردانتے ہیں۔ گجرات میں طلبا کی پہلی عوامی تحریک کا نام نونرمان سمیتی تھا۔ اسی کی بطن سے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت نہ جانے کتنے لیڈر نکلے اور اس کشمکش کے نتیجے میں صوبے میں پہلی غیر کانگریسی حکومت قائم ہوئی۔ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے دہلی یونیورسٹی میں ایمرجنسی کے خلاف کام کیا تو اسے خوب سراہا گیا۔ ارون جیٹلی لہک لہک کر اپنے تجربات سناتے نہیں تھکتے تھے لیکن جب جے این یو سے بی جے پی کی مخالفت ہوتی ہے تو اچانک سنگھ پریوار ان طلباء کو اپنی تعلیم پر توجہ دینے کا پروچن دینے لگ جاتا ہے۔ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یونیورسٹی کا ماحول علمی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ بھگوائی یہ بھول جاتے ہیں کہ سو سال تک اپنی شاکھاوں میں لاٹھیاں بھانجنے کے بعد بھی وہ ایک ڈھنگ کا وزیر خزانہ یا وزیر خارجہ تک پیدا نہیں کرسکے۔ ان دو اہم عہدوں کے لیے انہیں جے این یو کے فارغین پر انحصار کرنا پڑا۔ اس کے باوجود جے این یو کو بدنام کرکے اسے بند کرنے کی سفارش کرنا احسان فراموشی کی بدترین مثال ہے۔ اس سے آگے جے این یو کے حریت پسند طلبا جب کشمیریوں پر مظالم کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تب وہ غدارِ وطن قرار پاتے ہیں۔
بی جے پی کی نظر میں جواہر لال یونیورسٹی کے طلبا کا ہر اقدام بغاوت ہے جبکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا تو نام ہی کافی ہے۔ وہاں ہونے والا ہر احتجاج تو گناہِ کبیرہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ این آر سی اور سی اے اے کے خلاف اٹھنے والی غیر معمولی تحریک کا مرکز ومنبع یہی جامعہ تھی۔ اس کو کچلنے کے لیے لباس سے پہچاننے والے وزیر اعظم کی سرپرستی میں بھگوا پولیس نے لائبریری کے اندر گھس کر کہرام مچا دیا۔ لڑکوں کے ساتھ ساتھ طالبات کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ان لوگوں کو اپنی آئندہ نسل کی آواز دباتے ہوئے شرم بھی محسوس نہیں ہوئی۔ وہ لوگ تو ایک ایسی گونگی نسل کے خواہش مند ہیں جو صرف سنے اور سر دُھنے۔ جامعہ کے طلبا کا حوصلہ پست کرنے کے لیے وہاں طلبا کے رہنماوں کو دلی کے فسادات سے جوڑ دیا گیا اور ان پر قومی حفاظتی قانون (این ایس اے) کے تحت مقدمات درج کیے گئے جبکہ کپل مشرا جیسے سماج دشمن عناصر کو بچانے کے لیے باضمیر ججوں کے تبادلے تک کیے گئے۔ احتجاج کی ہوا جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پہنچی تو وہاں طلبا کو باہری غنڈوں کی مدد سے ڈرایا دھمکایا گیا اور جب اس سے بھی بات نہیں بنی تو انہیں پولیس سے پٹوا کر مختلف مقدمات میں پھنسایا گیا۔ ان کی تحریک کو تخریب کاری کے لقب سے نوازا گیا۔
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ حکومت کے اشارے پر جانب دار میڈیا کے اس پروپیگنڈے کا غبارہ بھی سرکاری ایجنسی این آئی آر ایف رینکنگ 2023نے پھوڑ دیا۔ اس ادارے نے کافی جانچ پڑتال کے بعد یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کی تو پہلے دس اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نہ صرف جواہر لال نہرو یونیورسٹی بلکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھی موجود تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اے بی وی پی کا گڑھ سمجھی جانے والی دلی یونیورسٹی ٹاپ 10 میں جگہ نہیں بنا سکی۔ اس درجہ بندی میں حسبِ سابق انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس بنگلورو پہلے مقام پر رہی جبکہ دوسرے نمبر پر جواہر لال نہرو یونیورسٹی رہی۔ مودی اور شاہ کی ساری مخالفت کے باوجود جے این یو کے لیے یہ اعزاز غیر معمولی کامیابی ہے۔ سنگھ پریوار کو جلا بھنا کر خاک کرنے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ نے تیسرا رینک حاصل کیا۔ بی جے پی والوں کے لیے یہی دو جھٹکے کیا کم تھے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نویں رینک پر آگئی۔ اس طرح یہ دلیل خاک میں مل گئی کہ جن تعلیم گاہوں میں تحریک چلتی ہے وہاں تعلیم نہیں ہوتی بلکہ یہ نتیجہ نکلا کہ جہاں نفرت انگیزی ہوتی ہے وہاں کا تعلیمی معیار پست ہوتا ہے۔
مسلمانوں کے نام نہاد بہی خواہ اس حقیقت کا اظہار تو بہت کرتے ہیں کہ جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ دس بہترین یونیورسٹیوں میں ان کے تعلیمی اداروں کی نمائندگی بھی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہی ہے۔ اسے معیار کا امتیاز کہتے ہیں۔ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کی تعداد کا موازنہ اگر دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے کیا جائے تو وہ بہت کم ہے۔ اس کے باوجود ان اداروں میں سے دو کا پہلے دس میں آجانا قابلِ رشک ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر نے یونیورسٹی کو ملک میں تیسرا مقام ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے بہت خوشی ہے کہ جامعہ ملیہ ایک بار پھر ملک کی سرفہرست تین یونیورسٹیوں میں شامل ہوا ہے۔
ہم یونیورسٹی میں تعلیم، تربیت اور تحقیق کے معیار میں بہتری کے لیے لگاتار کوششیں کر رہے ہیں۔ این آئی آر ایف رینکنگ میں ہم 2016 میں 83ویں رینک سے آگے بڑھ کر 2022 میں تیسری رینک پر پہنچے تھے اور اس سال بھی ہم نے اسے برقرار رکھا ہے‘‘۔
وزیر اعظم مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ کی یہ ترقی بتاتی ہے کہ حکومت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود امت کے ہونہار طلبا کا حوصلہ پست کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جن نوجوانوں نے سی اے اے کی زبردست تحریک چلائی تھی وہی تعلیم کے میدان میں بھی جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ وائس چانسلر نے امید ظاہر کی کہ آنے والے سالوں میں یونیورسٹی سبھی پیمانوں پر اپنی کارکردگی میں بہتری لائے گی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے قومی ادارہ جاتی رینکنگ فریم ورک (این آئی آر ایف) 2023 میں یونیورسٹیوں کے زمرے میں دو مقام بلند ہوکر نواں رینک حاصل کیا ہے۔ تحقیق کے زمرے میں بھی اے ایم یو نے اس سال پانچ مقامات کی چھلانگ لگا کر 23واں مقام حاصل کیا ہے۔ انجینئرنگ کے زمرے میں مسلم یونیورسٹی پانچ مقامات کی ترقی کرکے اس سال 32ویں رینک پر آئی ہے۔ آرکیٹیکچر، ڈینٹل اور مینجمنٹ کے شعبوں میں اے ایم یو نے بالترتیب 9ویں، 31ویں اور 55ویں رینک پر ہے جبکہ لااور میڈیکل کے شعبوں میں بالترتیب 14واں اور 28واں رینک حاصل کیا ہے۔ ملک کی دگر گوں صورتحال میں یہ نمایاں بہتری اساتذہ و طلبا کی محنت، لگن اور عزم کی عکاس ہے۔ باہمی مسابقت میں ملت کی یہ کارکردگی یقیناً قابلِ قدر ہے مگر افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ عالمی سطح پر سو بہترین یونیورسٹیز میں ایک کا بھی ہمارے ملک سے تعلق نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بغیر کوئی ملک وشوگرو بننے کا خواب دیکھ سکتا ہے اور کیا جے این یو اور جامعہ ملیہ جیسے اداروں کے ساتھ اس کا معاندانہ سلوک معیار مطلوب تک پہنچنے میں مانع نہیں ہے؟ اپنے ہونہار طلبا کو کچلنے اور اپنی تعلیم گاہوں کو دشمن سمجھنے والی حکومت کا تعلیم کے میدان میں کسی عظیم مقصد کا حصول ناممکن ہے۔ بھارت کا نام عمر خالد جیسے لوگ ہی روشن کریں گے۔ بقول شاعر؎
بھارت کے اے سپوتو ہمت دکھائے جاؤ
دنیا کے دل پہ اپنا سکہ بٹھائے جاؤ
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 حیرت کی بات یہ ہے کہ اے بی وی پی کا گڑھ سمجھی جانے والی دہلی یونیورسٹی ٹاپ 10 میں جگہ نہیں بنا سکی۔ اس درجہ بندی میں حسبِ سابق انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس بنگلورو پہلے مقام پر ہے جبکہ دوسرے نمبر پر جواہر لال نہرو یونیورسٹی ہے۔ مودی اور شاہ کی ساری مخالفت کے باوجود جے این یو کے لیے یہ اعزاز غیر معمولی کامیابی ہے۔ سنگھ پریوار کو جلا بھنا کر خاک کرنے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ نے تیسرا رینک حاصل کیا ہے۔ بی جے پی والوں کے لیے یہی دو جھٹکے کیا کم تھے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نویں رینک پر آگئی۔ اس طرح یہ دلیل خاک میں مل گئی کہ جن تعلیم گاہوں میں تحریک چلتی ہے وہاں تعلیم نہیں ہوتی بلکہ یہ نتیجہ نکلا کہ جہاں نفرت انگیزی ہوتی ہے وہاں کا تعلیمی معیار پست ہوتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 جون تا 24جون 2023